نیت اور عزم وارادہ کی اہمیت

288۔ سیدنا عمر بن خطاب عمل اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:

((إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلٰى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلٰى امْرَأَةٍ يَّنْكِحُهَا فَهِجْرَتْهُ إِلٰى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ)) (أخرجه البخاري: 1، 2529، 3898، 5070،6689، و مسلم: 1097)

’’اعمال کا مدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملے گا، پھر جس شخص نے دنیا کمانے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے وطن چھوڑا تو اس کی ہجرت اس کام کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔ ‘‘

289۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّمَا يُبْعَثُ النَّاسُ عَلَى نِيَّاتِهِمْ)) (أخرجه ابن ماجه:4229)

’’لوگوں کو (قیامت کے دن) ان کی نیتوں کے مطابق اٹھایا جائے گا۔‘‘

290 سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نیند کی حالت میں اپنے ہاتھ کو حرکت دی

تو ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول آپ نے حالت نیند میں کچھ ایسا کیا ہے جو آپ پہلے نہیں کرتے۔ تھے تو آپﷺ نے فرمایا:

((الْعَجَبُ إِنَّ نَاسًا مِنْ أُمَّتِي يَؤُمُّونَ بِالْبَيْتِ بِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ، قَدْ لَجَأَ بِالْبَيْتِ، حَتّٰى إِذَا كَانُوا بِالْبَيْدَاءِ خُسِفَ بِهِمْ)) (أخرجه البخاري: 2118، ومسلم: 2884 واللفظ له)

’’یہ عجیب بات ہے کہ (آخر زمانے میں) میری امت میں سے کچھ لوگ بیت اللہ کی پناہ لینے والے اللہ

قریش کے ایک آدمی کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے بیت اللہ کا رخ کریں گے یہاں تک کہ

جب وہ چٹیل حصے میں ہوں گے تو انھیں (زمین میں) دھنسا دیا جائے گا۔‘‘

ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول راستہ تو ہر طرح کے لوگوں کے لیے ہوتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:

((نَعَمْ، فِيهِمُ الْمُسْتَبْصِرُ وَالْمَجْبُورُ وَابْنُ السَّبِيلِ يَهْلِكُونَ مَهْلَكًا وَّاحِدًا وَّيَصْدُرُونَ مَصَادِرَ شَتّٰى يَبْعَثُهُمُ اللهُ عَلٰى نِيَّاتِهِمْ))

’’ہاں، ان میں سے کوئی اپنی مہم سے آگاہ ہوگا، کوئی مجبور اور کوئی مسافر ہوگا، وہ سب اکٹھے ہلاک ہوں گے اور (روز قیامت) واپسی کے مختلف راستوں پر نکلیں گے، اللہ تعالیٰ انھیں ان کی نیتوں کے مطابق اٹھائے گا۔‘‘

291۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((إِنَّ اللهَ لَا يَنْظُرُ إِلٰى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ، وَلٰكِنْ يَنْظُرُ إِلٰى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:2564)

’’بلا شبہ اللہ تعالی تمھاری صورتوں اور تمھارے اموال کی طرف نہیں دیکھتا لیکن وہ تمھارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔“

292۔ سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ أَتٰى فِرَاشَهُ وَهُوَ يَنْوِي أَنْ يَّقُومَ، يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ فَغَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ حَتّٰى أَصْبَحَ. كُتِبَ لَهُ مَا نَوٰى وَكَانَ نَوْمُهُ صَدَقَةً عَلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ)) (أَخْرَجَهُ النسائي:  1788، وابن ماجه:1344)

’’جو شخص بستر پر لیٹتے وقت نیت کرتا ہے کہ وہ رات کو اٹھ کر نماز (تہجد) پڑھے گا لیکن اسے گہری نیند آگئی اور وہ صبح تک سویا رہا تو اس کے لیے اس کی نیت کے مطابق (پورا ثواب) لکھا جائے گا اور اس کی نیند اس کے رب عز وجل کی طرف سے اس پر نوازش ہوگی۔“

293۔ سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((مَنْ سَأَلَ اللهَ الشَّهَادَةَ بِصِدْقٍ، بَلَّغَهُ اللهُ مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ، وَإِنْ مَاتَ عَلٰى فِرَاشِهِ))  (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:1909)

’’جو شخص کے دل سے اللہ تعالی سے شہادت مانگے، تو اللہ اسے شہداء کے مراتب تک پہنچا دیتا ہے، چاہے وہ اپنے بستر ہی پر کیوں نہ فوت ہو۔‘‘

294۔سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

((إِذَا تَوَاجَةَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا، فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ))

’’جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے کے سامنے آجائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔‘‘

سیدنا  ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کی…. یا کہا گیا……..:  اللہ کے رسول! یہ تو قاتل تھا لیکن

مقتول کا کیا قصور ہے؟ آپ نے فرمایا:  ((إِنَّهُ قَدْ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ)) (أخرجه البخاري:  31، 6875، 7083 ومسلم:2888، واللفظ له)

’’اس نے بھی تو اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔‘‘

توضیح و فوائد: دل کے ارادے کو نیت کہتے ہیں اور اس کا مقصد عادت اور عبادت میں فرق کرنا یا ایک عبادت کو دوسری عبادت سے جدا کرتا ہے، عبادت کے مقاصد کا تعین بھی نیت کہلاتا ہے، اس لیے اعمال کا دار ومدار نیت پر ہے۔ اگر عبادت سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو تو یقینًا اس کا صلہ ملے گا بصورت دیگر کچھ نہیں بلکہ بسا اوقات سزا ملے گی۔ اگر کوئی شخص نیکی کا پختہ عزم رکھتا ہے لیکن اسے موقع نہیں ملتا، اس صورت میں بھی اسے نیت کا صلہ ضرور ملے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص گناہ سے عاجز آ کر گناہ چھوڑ دیتا ہے یا موقع نہ ملنے کی وجہ سے گناہ نہیں کرتا جب کہ نیت گناہ ہی کی تھی تو اسے گناہ گار ہی سمجھا جائے گا، البتہ شرعی احکام و حدود میں ظاہر کا اعتبار ہوگا، مثلاً: اگر کوئی شخص بدکاری کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میری نست بدکاری کی نہیں تھی تو اس کی نیت کا اعتبار نہیں ہو گا بلکہ ظاہر کو دیکھا جائے گا۔ اسی طرح ان لوگوں کی بات کا بھی کوئی اعتبار نہیں جو اچھی نیت کے دعویدار ہوں لیکن برے اعمال کرتے ہوں۔

…………………