نصرتِ الٰہی کے اسباب 
❄نماز ❄ مسلمان بھائی کی مدد ❄ اللہ کے دین کی مدد ❄ تقوٰی
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ [الفاتحہ: 5]
وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ [آل عمران: 176] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ  إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ [البقرۃ: 153]
کافی ہے اللّٰہ سب کی حاجت روائی کیلئے نبی ، صحابہ ، امام ، ولی فقط رہنمائی کیلئے
پڑھتے ہو ہر نماز میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پھرتے ہو پھر بھی دربدر مشکل کشائی کیلئے
ذی وقار سامعین!
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بے شمار اور ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
”اور اگر تم اللہ کی نعمت شمار کرو تو اسے شمار نہ کر پاؤ گے۔ بے شک اللہ یقیناً بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔“ [النحل: 18]
ان تمام نعمتوں میں سے اہم ترین اور اعلیٰ ترین نعمت ”عقیدہ توحید“ ہے ، وہ بندہ بہت خوش نصیب ہے جو عقیدہ توحید پر کاربند ہے اور جس نے عقیدہ توحید کو نہ سمجھا ، عقیدہ توحید کو نہ اپنایا ، ایسے شخص اور جانور میں کوئی فرق ہی نہیں۔
عقیدہ توحید میں بہت سی چیزیں شامل ہیں ، ان میں سے ایک چیز ”مدد اور نصرت طلب کرنا“ ہے۔ جو بندہ یا اللہ مدد بھی کہتا ہے اور یاعلی مدد بھی کہتا ہے ، یارسول اللہ مدد بھی کہتا ہے ، ایسا شخص موحد نہیں ہو سکتا ، کیونکہ مدد صرف اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں ، ،مدد کے لئے صرف اسی کو پکارنا چاہئے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ
”مدد تو اللہ کی طرف سے ہے جو غالب و حکمت والا ہے۔“ [آل عمران: 126] 
دوسری جگہ پہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
بَلِ اللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ
”بلکہ اللہ ہی تمھارا مالک ہے اور وہ سب مدد کرنے والوں سے بہتر ہے۔“ [آل عمران: 150]
پتہ چلا کہ مدد صرف اللہ تعالیٰ سے ہی مانگنی چاہئے ، کیونکہ مدد صرف اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں اور ہم ہر نماز میں اللہ تعالیٰ سے وعدہ بھی کرتے ہیں:
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ 
”ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں۔“ [الفاتحہ: 5]
وعدہ کرنے کے بعد وعدہ وفا کرنا چاہئے اور جس کی مدد اللہ تعالیٰ کریں وہ کبھی مغلوب نہیں ہو سکتا ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
”اگر اللہ تمھاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں اور اگر وہ تمھارا ساتھ چھوڑ دے تو وہ کون ہے جو اس کے بعد تمھاری مدد کرے گا اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ مومن بھروسہ کریں۔“  [آل عمران: 160]
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم اللہ کے فضل و کرم سے چند وہ أسباب بیان کریں گے جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت حاصل ہوتی ہے۔
پختہ ایمان:
اللہ پر پختہ ایمان نصرت الٰہی کا اہم سبب ہے۔ جب انسان اپنے ایمان کو مضبوطی سے تھامتا ہے اور اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور مدد سے اس کی راہنمائی فرماتا ہے۔ قرآن میں بھی کئی مقامات پر یہ بات واضح کی گئی ہے کہ مومنوں کی مدد اور نصرت اللہ کی طرف سے آتی ہے، خاص طور پر جب وہ مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ
”بے شک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔“ [غافر: 51] 
دوسرے مقام پہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ
”اور مومنوں کی مدد کرنا ہم پر لازم ہی تھا۔“ [الروم: 47]
تیسرے مقام پہ اللہ فرماتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ
”بے شک اللہ ان لوگوں کی طرف سے دفاع کرتا ہے جو ایمان لائے، بے شک اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو بڑا خائن، بہت ناشکرا ہو۔“ [الحج: 38]
ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جن کا اللہ پر پختہ ایمان ہوتا ہے ، اللہ پر کامل اور مکمل یقین ہوتا ہے۔ صرف دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
❄فرعون کا تکبّر، غیظ و غضب اور ظلم و ستم اپنی انتہا کو پہنچ چُکا تھا۔ وہ اور اُس کے حواری، حضرت موسیٰؑ اور اُن کے ساتھیوں کے خون کے پیاسے تھے، ایسے میں اللہ تعالیٰ نے آپ  کو ہجرت کا حکم فرمایا۔ رات کو موسیٰ اپنی قوم کو  لے کر نکلے ،   فرعون کو آپ  کے نکلنے کی خبر صبح کو ہوئی۔ اُس نے فوری طور پر اپنی فوج کے ساتھ اُن کا پیچھا کیا۔ جب بنی اسرائیل نے اپنے پیچھے فرعون کے فوجی سیلاب کو اور آگے بپھری موجوں کو دیکھا، تو گھبرا اُٹھے۔ قرآنِ کریم میں ہےکہ موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا:
فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَىٰ إِنَّا لَمُدْرَكُونَ
”پھر جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا بے شک ہم یقیناً پکڑے جانے والے ہیں۔“ [الشعراء: 61] 
موسیٰ  نے کہا:  كَلَّا ۖ إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ
ہرگز نہیں! بے شک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے ضرور راستہ بتائے گا۔[الشعراء: 62]
جب موسیٰ نے اللہ تعالیٰ پر اتنے ایمان اور یقین کے ساتھ کہا کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہے ، تو اللہ نے کیسے مدد فرمائی؟ رب ذوالجلال فرماتے ہیں:
فَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْبَحْرَۖفَانفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ۔وَأَزْلَفْنَا ثَمَّ الْآخَرِينَ۔وَأَنجَيْنَا مُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ أَجْمَعِينَ۔ ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِينَ
”تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مار، پس وہ پھٹ گیا تو ہر ٹکڑا بہت بڑے پہاڑ کی طرح ہوگیا۔ اور وہیں ہم دوسروں کو قریب لے آئے۔ اور ہم نے موسیٰ کو اور جو اس کے ساتھ تھے، سب کو بچالیا۔ پھر دوسروں کو ڈبو دیا۔ “ [الشعراء: 66-63]
❄  جابر بن عبداللہ  کہتے ہیں:
أَنَّهُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِﷺ قِبَلَ نَجْدٍ، فَلَمَّا قَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَفَلَ مَعَهُ، فَأَدْرَكَتْهُمُ القَائِلَةُ فِي وَادٍ كَثِيرِ العِضَاهِ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَفَرَّقَ النَّاسُ يَسْتَظِلُّونَ بِالشَّجَرِ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺتَحْتَ سَمُرَةٍ وَعَلَّقَ بِهَا سَيْفَهُ، وَنِمْنَا نَوْمَةً، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَدْعُونَا، وَإِذَا عِنْدَهُ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ:  إِنَّ هَذَا اخْتَرَطَ عَلَيَّ سَيْفِي، وَأَنَا نَائِمٌ، فَاسْتَيْقَظْتُ وَهُوَ فِي يَدِهِ صَلْتًا، فَقَالَ: مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ فَقُلْتُ: اللَّهُ، – ثَلاَثًا – وَلَمْ يُعَاقِبْهُ وَجَلَسَ 
وہ نبی کریمﷺکے ساتھ نجد کے اطراف میں ایک غزوہ میں شریک تھے ۔ جب حضور اکرمﷺجہاد سے واپس ہوئے تو آپ کے ساتھ یہ بھی واپس ہوئے۔ راستے میں قیلولہ کا وقت ایک ایسی وادی میں ہوا جس میں ببول کے درخت بکثرت تھے۔ آنحضرتﷺنے اس وادی میں پڑاو کیا اور صحابہ پوری وادی میں (درخت کے سائے کے لیے) پھیل گئے۔ آپ ﷺنے بھی ایک ببول کے نیچے قیام فرمایا اور اپنی تلوار درخت پر لٹکادی ۔ ہم سب سوگئے تھے کہ آں حضرتﷺکے پکارنے کی آواز سنائی دی ، دیکھا گیا تو ایک بدوی آپﷺکے پاس تھا۔ آنحضرتﷺنے فرمایا کہ اس نے غفلت میں میری ہی تلوار مجھ پر کھینچ لی تھی اور میں سویا ہوا تھا ، جب بیدار ہوا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے کہا مجھ سے تمہیں کون بچائے گا؟ میں نے کہا کہ اللہ ! تین مرتبہ (میں نے اسی طرح کہا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی) حضور اکرم ﷺ نے اعرابی کو کوئی سزا نہیں دی بلکہ آپ ﷺ بیٹھ گئے۔  ]صحیح بخاری: 2910[  
عمل صالح:
عملِ صالح کی وجہ سے بھی اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے ، سیدنا ابن عمر    سے روایت ہے کہ آپﷺنے فرمایا: ’’تین آدمی کہیں جانے کے لیے نکلے تو راستے میں انھیں بارش نے آلیا چنانچہ (بارش سے بچنے کے لیے) وہ تینوں ایک پہاڑ کی غار میں داخل ہوگئے۔ اوپر سے ایک چٹان گری (جس سے غار کامنہ بند ہوگیا) انھوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اپنے بہترین عمل کا وسیلہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو جو تم نے کیاہے، تو ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ!میرے والدین بہت بوڑھے تھے، میں گھر سے نکلتا اور اپنے مویشیوں کو چراتا پھر شام کو واپس آتا، دودھ نکالتا، اسے لے کر پہلے والدین کو پیش کرتا۔ جب وہ نوش جاں کرلیتے تو پھر بچوں بیوی اور دیگر اہل خانہ کو پلایا کرتا تھا۔ ایک شام مجھے دیر ہوگئی۔ جب میں واپس گھر آیا تو والدین سو گئے تھے۔ میں نے انھیں بیدار کرنا اچھا خیال نہ کیا۔ دریں حالت میرے بچے پاؤں کے پاس بھوک سے بلبلارہے تھے۔ میری اور میرے والدین کی کیفیت رات بھر یہی رہی تاآنکہ فجر ہوگئی۔ اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ عمل صرف تیری رضا جوئی کے لیے کیا ہے تو ہم سے یہ پتھر اتنا ہٹادے کہ کم از کم آسمان تو ہمیں نظر آنے لگے چنانچہ پتھر کو ہٹا دیاگیا۔ 
دوسرے نے دعا کی: اے اللہ! تو جانتاہے کہ میں اپنی چچا زاد لڑکی سے بہت محبت کرتا تھا۔ ایسی شدید محبت جو ایک مرد کو عورتوں سے ہوسکتی ہے۔ اس نے مجھ سے کہا: تو وہ مقصد حاصل نہیں کرسکتا جب تک مجھے سو دینار نہ دے دے۔ چنانچہ میں نے کوشش کرکے سو دینار جمع کرلیے، جب میں اس سے صحبت کے لیے بیٹھا تو اس نے کہا: اللہ سے ڈر اور اس مہر کو اس کے حق کے بغیر نہ توڑ۔ تب میں اٹھ کھڑا ہوا اور اسے چھوڑ دیا۔ اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیری رضا طلبی کے لیے کیا ہے تو ہم سے چٹان کی رکاوٹ دورکردے، چنانچہ دوتہائی پتھر ہٹ گیا۔ 
تیسرے آدمی نے کہا: اے اللہ!تو جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدورکو ایک "فرق” جوار کے عوض اجرت پر رکھا تھا۔ جب میں نے اسے غلہ دیا تو اس نے لینے سے انکار کردیا۔ میں نے یہ کیاکہ اس غلے کو زمین میں کاشت کردیا۔ پھر اس کی پیداوار سے گائیں خریدیں اور ایک چرواہا بھی رکھ لیا۔ پھر ایک دن وہ مزدور آیا اور کہنے لگا: اےاللہ کے بندے!میرا حق مجھے دے دے۔ میں نے کہا وہ گائیں اور چرواہا تمہارے ہیں۔ اس نے کہا: تم میرا مذاق اڑارہے ہو؟ میں نے کہا: میں تمہارے ساتھ مذاق نہیں کررہا ہوں۔ وہ واقعی تمہارے ہیں۔ اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیری رضا کوطلب کرتے ہوئے کیاتھا تو ہم سے اس چٹان کو ہٹادے، چنانچہ اس چٹان کو ان سے ہٹا دیا گیا۔ [صحیح بخاری: 2215]
صبر:
اللہ تعالی فرماتے ہیں: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ 
 ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ [البقرۃ: 153]
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے مدد حاصل کرنے کا اور مدد طلب کرنے کا ایک طریقہ یہ  بیان کیا ہے کہ اے ایمان والو صبر کر کے اللہ تعالی سے مدد طلب کرو۔ ’’ صبر ‘‘ سے مراد ہے کہ برداشت کرنا ، زبان پر حرفِ شکایت نہ لانااورگھبراہٹ ، بے چینی اور مایوسی کا اظہار نہ کرنا۔
❄ سیدنا انس بن مالک کہتے ہیں:
اشْتَكَى ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ قَالَ فَمَاتَ وَأَبُو طَلْحَةَ خَارِجٌ فَلَمَّا رَأَتْ امْرَأَتُهُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ هَيَّأَتْ شَيْئًا وَنَحَّتْهُ فِي جَانِبِ الْبَيْتِ فَلَمَّا جَاءَ أَبُو طَلْحَةَ قَالَ كَيْفَ الْغُلَامُ قَالَتْ قَدْ هَدَأَتْ نَفْسُهُ وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدْ اسْتَرَاحَ وَظَنَّ أَبُو طَلْحَةَ أَنَّهَا صَادِقَةٌ قَالَ فَبَاتَ فَلَمَّا أَصْبَحَ اغْتَسَلَ فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ أَعْلَمَتْهُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ فَصَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَخْبَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا كَانَ مِنْهُمَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُبَارِكَ لَكُمَا فِي لَيْلَتِكُمَا قَالَ سُفْيَانُ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَرَأَيْتُ لَهُمَا تِسْعَةَ أَوْلَادٍ كُلُّهُمْ قَدْ قَرَأَ الْقُرْآنَ 
ابوطلحہ  کا ایک بچہ بیمار ہوگیا ، اس کا انتقال بھی ہوگیا۔ اس وقت ابو طلحہ  گھر میں موجود نہ تھے۔ ان کی بیوی ( ام سلیم ) نے جب دیکھا کہ بچے کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے کچھ کھانا تیار کیا اور بچے کو گھر کے ایک کونے میں لٹا دیا۔ جب ابو طلحہ  تشریف لائے تو انہوں نے پوچھا کہ بچے کی طبیعت کیسی ہے؟ ام سلیم نے کہا کہ اسے آرام مل گیا ہے اور میرا خیال ہے کہ اب وہ آرام ہی کررہا ہوگا۔ ابو طلحہ  نے سمجھا کہ وہ صحیح کہہ رہی ہیں۔ ( اب بچہ اچھا ہے ) پھر ابو طلحہ  نے ام سلیم کے پاس رات گزاری اور جب صبح ہوئی تو غسل کیا لیکن جب باہر جانے کا ارادہ کیا تو بیوی ( ام سلیم ) نے اطلاع دی کہ بچے کا انتقال ہوچکا ہے۔ پھر انہوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ سے ام سلیم کا حال بیان کیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شاید اللہ تعالیٰ تم دونوں کو اس رات میں برکت عطا فرمائے گا۔ سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ انصار کے ایک شخص نے بتایا کہ میں نے ابوطلحہ  کی اسی بیوی سے نو بیٹے دیکھے جو سب کے سب قرآن کے عالم تھے۔ [صحیح بخاری: 1301]
نماز:
اللہ تعالی فرماتے ہیں:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ 
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ [البقرۃ: 153]
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے مدد حاصل کرنے کا اور مدد طلب کرنے کا دوسرا طریقہ یہ  بیان کیا ہے کہ اے ایمان والو  نماز پڑھ کر  اللہ تعالی سے مدد طلب کرو۔
سیدنا ابوہریرہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، بنی اسرائیل میں ایک صاحب تھے، جن کا نام جریج تھا۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی والدہ آئیں اور انہیں پکارا۔ انہوں نے جواب نہیں دیا۔ سوچتے رہے کہ جواب دوں یا نماز پڑھوں۔ پھر وہ دوبارہ آئیں اور  بد دعا کر گئیں، اے اللہ ! اسے موت نہ آئے جب تک کسی بدکار عورت کا منہ نہ دیکھ لے۔ جریج اپنے عبادت خانے میں رہتے تھے۔ ایک عورت نے ( جو جریج کے عبادت خانے کے پا س اپنی مویشی چرایا کرتی تھی اور فاحشہ تھی ) کہا کہ جریج کو فتنہ میں ڈالے بغیر نہ رہوں گی۔ چنانچہ وہ ان کے سامنے آئی اور گفتگو کرنی چاہی، لیکن انہوں نے منہ پھیر لیا۔ پھر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی اور اپنے جسم کو اس کے قابو میں دے دیا۔ آخر لڑکا پیدا ہوا۔ اور اس عورت نے الزام لگایا کہ یہ جریج کا لڑکا ہے۔ قوم کے لوگ جریج کے پاس آئے اور ا ن کا عبادت خانہ توڑ دیا۔ انہیں باہر نکالا اور گالیاں دیں۔
فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى ثُمَّ أَتَى الْغُلَامَ فَقَالَ مَنْ أَبُوكَ يَا غُلَامُ قَالَ الرَّاعِي قَالُوا نَبْنِي صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ قَالَ لَا إِلَّا مِنْ طِينٍ   
 لیکن جریج نے وضو کیا اور نماز پڑھ کر اس لڑکے کے پاس آئے۔ انہوں نے اس سے پوچھا بچے ! تمہار باپ کون ہے؟ بچہ ( خدا کے حکم سے ) بول پڑا کہ چرواہا! (قوم خوش ہو گئی اور) کہا کہ ہم آپ کے لیے سونے کا عبادت خانہ بنوا دیں۔ جریج نے کہا کہ میرا گھرتو مٹی ہی سے بنے گا۔  [صحیح مسلم: 6508]
❄ سیدنا حذیفہ  بیان کرتے ہیں:
 كَانَ النَّبِيُّ ﷺإِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ صَلَّى 
”نبی کریم ﷺ کو جب کوئی غم لاحق ہوتا تو نماز پڑھنے لگتے تھے۔“[ابوداؤد: 1319 حسنہ الالبانی]
نوٹ: صبر اور نماز کے ذریعے نصرتِ الٰہی کے مزید واقعات کے لئے ہمارے خطبہ جمعہ بعنوان ”صبر اور نماز“ کا مطالعہ کیجئے۔
مسلمان بھائی کی مدد:
سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ
”جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جس شخص نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی کی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا ۔
اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔“ [صحیح مسلم: 6853]
اللہ کے دین کی مدد:
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے قدم جما دے گا۔“  [محمد: 7]
اس آیت میں اللہ کی مدد سے مراد اللہ کے دین کی مدد ہے ، آپ اللہ کے دین کی مدد کریں، مثلاً  اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے جہاد کریں ، مساجد اور مدارس کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جائیں ، علماء اور دینی طلباء کا خیال رکھیں ، یہ ساری صورتیں دین کی مدد کی صورتیں ہیں ، جب آپ اللہ کے دین مدد کریں گے ، اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کریں ، ایک مثال ملاحظہ فرمائیں:
غزوہ بدر کا موقع مسلمانوں کے لئے بہت سنگین ونازک تھابلکہ یوں کہہ لیں کہ مسلمانوں کی قلیل سی جماعت کےلئے اتنابڑا خطرہ کبھی اسلامی تاریخ میں نہیں آیا اور نہ آسکتا ہے ، ایسے موقع پر خود رسول اللہ ﷺ اللہ سے دعا کرتے ہیں:
اللَّهُمَّ أَيْنَ مَا وَعَدْتَنِي ؟ اللَّهُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَلَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا
”اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا، وہ کہاں ہے، اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا، اس کو پورا کر دے، اے اللہ! اگر تو نے اہل اسلام کی اس جماعت کو ختم کر دیا تو زمین میں کبھی بھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔“
آپ قبلہ رو ہو کر اپنے ہاتھوں کو پھیلائے مسلسل اپنے رب کو پکارتے رہے حتی کہ آپ کی چادر آپ کے کندھوں سے گر گئی۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے، چادر اٹھائی اور اسے آپ کے کندھوں پر ڈالا، پھر پیچھے سے آپ کے ساتھ چمٹ گئے اور کہنے لگے: اللہ کے نبی! اپنے رب سے آپ کا مانگنا اور پکارنا کافی ہو گیا۔ وہ جلد ہی آپ سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی:
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ
”جب تم اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمھاری دعا قبول کرلی کہ بے شک میں ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری مدد کرنے والا ہوں، جو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔“ [الانفال: 9]
سیدنا عبداللہ بن عباس کہتے ہیں: اس دوران میں، اس دن مسلمانوں میں سے ایک شخص اپنے سامنے بھاگتے ہوئے مشرکوں میں سے ایک آدمی کے پیچھے دوڑ رہا تھا کہ اچانک اس نے اپنے اوپر سے کوڑا مارنے اور اس کے اوپر سے گھڑ سوار کی آواز سنی، جو کہہ رہا تھا: حیزوم! آگے بڑھ۔ اس نے اپنے سامنے مشرک کی طرف دیکھا تو وہ چت پڑا ہوا تھا، اس نے اس پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ اس کی ناک پر نشان پڑا ہوا تھا، کوڑے کی ضرب کی طرح اس کا چہرہ پھٹا ہوا تھا اور وہ پورے کا پورا سبز ہو چکا تھا، وہ انصاری آیا اور رسول اللہ ﷺ کو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا:
صَدَقْتَ، ذَلِكَ مِنْ مَدَدِ السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ
”تم نے سچ کہا، یہ تیسرے آسمان سے (آئی ہوئی) مدد تھی۔“
انہوں (صحابہ) نے اس دن ستر آدمی قتل کیے اور ستر قیدی بنائے۔ [صحیح مسلم: 4588]
تقوٰی:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
”اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بے شک اللہ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔“  [البقرہ: 196]
دوسری جگہ فرمایا:
  إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
”بے شک زمین اللہ کی ہے، وہ اس کا وارث اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے بناتا ہے اور اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔“ [الاعراف: 128]
ان آیات سے پتہ چلتا ہے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت اس بندے کو حاصل ہوتی ہے جو متقی ہو ، تقویٰ اللہ تعالی کے اُس خوف کا نام ہے جو انسان کو برائیوں اور گناہوں سے بچنے پر آمادہ کرے۔ چاہے وہ لوگوں کے سامنے ہو یا لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو۔بلکہ حقیقی تقوی یہ ہے کہ جب ایک آدمی خلوت میں ہو، اسے کوئی شخص دیکھنے والا نہ ہو۔ شیطان اس کیلئے برائی کو مزین کرے اور اسے اس کے ارتکاب پر آمادہ کرے۔ اوراس کیلئے ایسا ماحول بنائے کہ اسے کسی قسم کا خوف وخطر لاحق نہ ہو اور وہ اطمینان سے برائی کا ارتکاب کر سکتا ہو، ایسے میں اگر وہ اللہ تعالی سے ڈر کر برائی کا ارتکاب نہ کرے تو وہ آدمی حقیقت میں تقویٰ والا ہوگا۔
تقویٰ کی بدولت نصرتِ الٰہی حاصل ہوتی ہے ، صرف دو مثالی ملاحظہ فرمائیں۔
❄حضرت یوسف کو عزیز مصر کی بیوی نے دعوتِ گناہ دی ، قرآن میں ہے:
وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
”اور اس عورت نے، جس کے گھر میں وہ تھا، اسے اس کے نفس سے پھسلایا اور دروازے اچھی طرح بند کرلیے اور کہنے لگی جلدی آ۔ اس نے کہا اللہ کی پناہ، بے شک وہ میرا مالک ہے، اس نے میرا ٹھکانا اچھا بنایا۔ بلاشبہ حقیقت یہ ہے کہ ظالم فلاح نہیں پاتے۔“ [یوسف: 23]
سیدنا یوسف گناہ سے بچنے کے لئے بھاگے ہیں ، اللہ فرماتے ہیں:
وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِن دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ ۚ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلَّا أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
”اور دونوں دروازے کی طرف دوڑے اور اس عورت نے اس کی قمیص پیچھے سے پھاڑ دی اور دونوں نے اس کے خاوند کو دروازے کے پاس پایا، اس عورت نے کہا کیا جزا ہے اس کی جس نے تیری گھر والی کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا، سوائے اس کے کہ اسے قید کیا جائے، یا دردناک سزا ہو۔“ [یوسف: 25]
عزیز مصر کی بیوی نے گناہ کی دعوت خود دی اور الزام حضرت یوسف پر لگا دیا ، یوسف  کی اللہ تعالیٰ نےمدد کیسے کی؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَن نَّفْسِي ۚ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا إِن كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكَاذِبِينَ۔وَإِن كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصَّادِقِينَ۔فَلَمَّا رَأَىٰ قَمِيصَهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِن كَيْدِكُنَّ ۖ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ۔يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَٰذَا ۚ وَاسْتَغْفِرِي لِذَنبِكِ ۖ إِنَّكِ كُنتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ
”اس (یوسف) نے کہا اسی نے مجھے میرے نفس سے پھسلایا ہے اور اس عورت کے گھر والوں سے ایک گواہ نے گواہی دی اگر اس کی قمیص آگے سے پھاڑی گئی ہو تو عورت نے سچ کہا اور یہ جھوٹوں سے ہے۔ اور اگر اس کی قمیص پیچھے سے پھاڑی گئی ہو تو عورت نے جھوٹ کہا اور یہ سچوں سے ہے۔تو جب اس نے اس کی قمیص دیکھی کہ پیچھے سے پھاڑی گئی ہے تو اس نے کہا یقیناً یہ تم عورتوں کے فریب سے ہے، بے شک تم عورتوں کا فریب بہت بڑا ہے۔ یوسف! اس معاملے سے درگزر کر اور (اے عورت!) تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، یقیناً تو ہی خطا کاروں سے تھی۔ “ [یوسف: 26]
اللہ تعالیٰ نے یوسف  کے تقوٰی اختیار کرنے کی وجہ سے ان کو گناہ سے بھی بچالیا اور الزام سے بھی بری کردیا۔
❄عبداللہ بن عمرو بن عاص  کہتے ہیں:
مرثد بن ابی مرثد غنوی  ایک سخت اور زور آور آدمی تھے، قیدیوں کو مکہ سے مدینہ منتقل کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: میں نے ایک شخص کو بلایا کہ اسے سواری پر ساتھ لیتا جاؤں، مکہ میں عناق نامی ایک بدکار عورت تھی جو ان کی آشنا تھی، وہ (گھر سے باہر) نکلی، دیوار کی پرچھائیوں میں میرے وجود کو (یعنی مجھے) دیکھا، بولی:
 مَنْ هَذَا مَرْثَدٌ مَرْحَبًا وَأَهْلًا يَا مَرْثَدُ انْطَلِقْ اللَّيْلَةَ، فَبِتْ عِنْدَنَا فِي الرَّحْلِ 
”کون ہے؟ مرثد! خوش آمدید اپنوں میں آ گئے، مرثد! آج رات چلو ہمارے ڈیرے پر ہمارے پاس رات کو سوؤ۔“
میں نے کہا:
 يَا عَنَاقُ , إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّمَ الزِّنَا
”عناق! رسول اللہ ﷺ نے زنا کو حرام قرار دے دیا ہے۔“
اس نے کہا:
يَا أَهْلَ الْخِيَامِ هَذَا الدُّلْدُلُ هَذَا الَّذِي يَحْمِلُ أُسَرَاءَكُمْ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ
”خیمہ والو! یہ دلدل ہے یہ وہ (پرندہ) ہے جو تمہارے قیدیوں کو مکہ سے مدینہ اٹھا لے جائے گا۔“ 
(یہ سن کر) میں خندمہ (پہاڑ) کی طرف بڑھا (مجھے پکڑنے کے لیے) میری طلب و تلاش میں آٹھ آدمی نکلے اور میرے سر پر آ کھڑے ہوئے، انہوں نے وہاں پیشاب کیا جس کے چھینٹے مجھ پر پڑے (اتنے قریب ہونے کے باوجود وہ مجھے دیکھ نہ سکے کیونکہ) میرے حق میں اللہ نے انہیں اندھا بنا دیا۔ میں (وہاں سے بچ کر) اپنے (قیدی) ساتھی کے پاس آیا اور اسے سواری پر چڑھا کر چل پڑا۔ پھر جب میں اراک پہنچا تو میں نے اس کی بیڑی کھول دی، پھر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے کہا: اللہ کے رسول! میں عناق سے شادی کر لوں؟ تو آپ خاموش رہے پھر آیت
الزانية لا ينكحها إلا زان أو مشرك
”زنا کار عورت بھی بجز زانی یا مشرک مرد کے اور نکاح نہیں کرتی۔“ (النور: ۳) 
نازل ہوئی، پھر (اس کے نزول کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلایا، مذکورہ آیت پڑھی پھر فرمایا:”اس سے شادی نہ کرو۔“ [نسائی: 3230 حسنہ الالبانی]
توبہ و استغفار:
قرآن مجید میں ہے کہ حضرت نوح  نے فرمایا:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا۔ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا۔ وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًا
”تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگ لو، یقیناً وہ ہمیشہ سے بہت معاف کرنے والا ہے۔ 
وہ تم پر بہت برستی ہوئی بارش اتارے گا۔اور وہ مالوں اور بیٹوں کے ساتھ تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں باغات عطا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کردے گا۔“ [نوح: 12-10]
حضرت یونس   کو اللہ نے ایک قوم کی ہدایت کے لیے بھیجا، لیکن وہ لوگ ان کی بات نہ مانے اور انکار کر دیا۔ حضرت یونس نے اپنی قوم کے انکار سے مایوس ہو کر ان کے درمیان سے نکل جانے کا فیصلہ کیا اور ایک کشتی میں سوار ہوئے۔ کشتی میں ایک طوفان آیا، جس کی وجہ سے لوگ خوفزدہ ہو گئے۔ قرعہ اندازی کی گئی، اور حضرت یونس کا نام نکلا، جس کے بعد انہوں نے خود کو سمندر میں پھینک دیا۔ قرآن میں ہے:وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ۔ إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ۔ فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ۔ فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ۔ فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ۔ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ۔فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ
”اور بلاشبہ یونس یقیناً رسولوں میں سے تھا۔جب وہ بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگ کر گیا۔ پھر وہ قرعہ میں شریک ہوا تو ہارنے والوں میں سے ہوگیا۔ پھر مچھلی نے اسے نگل لیا، اس حال میں کہ وہ مستحق ملامت تھا۔ پھر اگر یہ بات نہ ہوتی کہ بے شک وہ تسبیح کرنے والوں سے تھا۔ تو یقیناً اس کے پیٹ میں اس دن تک رہتا جس میں لوگ اٹھائے جائیں گے۔ 
پھر ہم نے اسے چٹیل میدان میں پھینک دیا، اس حال میں کہ وہ بیمار تھا۔“ [النحل: 145-139]
اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس کو مچھلی کی قید سے آزادی دی ، اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا ، وہ الفاظ قرآن میں ہیں:
  لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ
”تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، یقیناً میں ظلم کرنے والوں سے ہوگیا ہوں۔“[الانبیاء: 87]