اونٹ،اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا عظیم شاہکار

 

قربانی کے جانوروں میں سے سب سے بڑا جانور اونٹ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :
وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ
اور قربانی کے بڑے جانور، ہم نے انھیں تمھارے لیے اللہ کی نشانیوں سے بنایا ہے، تمھارے لیے ان میں بڑی خیر ہے۔
الحج : 36

اللہ تعالیٰ نے اونٹ کی تخلیق، جسمانی ساخت اور نمایاں خوبیوں پر غور فکر کر کے سبق حاصل کرنے کا کہا ہے
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ
تو کیا وہ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیے گئے۔
الغاشية : 17

تمھارے لیے ان میں بڑی خیر ہے۔

سورہ حج کی آیت 36 میں ہے :
"تمھارے لیے ان میں بڑی خیر ہے۔”

آئیے دیکھتے ہیں کہ اونٹ میں بنی نوع انسان کے لیے کسی قدر خیر، بھلائی اور نفع ہے

باقی جانوروں سے فوائد میں تقابل

مختلف جانوروں سے مل کر حاصل ہونے والے مختلف فوائد، اکیلے اونٹ سے حاصل ہوجاتے ہیں
مثال کے طور پر جانوروں سے جو فائدے حاصل ہوتے ہیں وہ یہ ہیں : دودھ، گوشت، بوجھ اٹھانا، زینت، سواری، کھیتی باڑی،بیچ کر پیسہ کمانا،جنگ لڑنا، بال اور کھال سے کپڑے، جوتے اور قالین بنانا وغیرہ وغیرہ

اب دیکھیں گدھا بوجھ اٹھاتا ہے، اس کی کھال کام آتی ہے مگر اس کا گوشت اور دودھ حرام ہے

خچر وزن کھینچتا ہے مگر اس کا گوشت اور دودھ حرام ہے

گھوڑا جنگ لڑنے اور زینت کے کام آتا ہے مگر کھیتی باڑی اور بار آوری نہیں کرتا

بکری کا گوشت اور دودھ حلال ہے مگر بوجھ نہیں اٹھا سکتی

بھینس اور گائے گوشت، دودھ اور کھیتی باڑی کے کام آتے ہیں مگر بوجھ نہیں اٹھاتے

جبکہ اونٹ یہ سارے کام کرتا ہے
بوجھ بھی اٹھاتا ہے، وزن بھی کھینچتا ہے، جنگ بھی لڑتا ہے، زینت کے کام بھی آتا ہے، کھیتی باڑی کے کام بھی آتا ہے، اس کی کھال بھی استعمال میں آتی ہے، اسے بیچ کر پیسے بھی کمائے جاتے ہیں، اس کا دودھ اور گوشت بھی حلال ہے

دیگر جانوروں سے کم پروٹوکول لیتا ہے

دیگر جانوروں کے مقابلے میں اس کے لیے اہتمام و انصرام بہت کم کرنا پڑتا ہے
مثال کے طور پر بھینس کو نہلانا اور بار بار پانی پلانا پڑتا ہے
گائے کے لیے چارہ لانا پڑتا ہے
بکری کو دھوپ، سردی اور بارش سے چھتری دینی پڑتی ہے
گدھے اور گھوڑے کو کھریاں لگانی پڑتی ہیں
اور ان سب کو خونخوار جانوروں سے بچانا پڑتا ہے

جبکہ
اونٹ کو نہلانا پڑھتا ہے نہ خاص اہتمام سے پانی پلانا پڑتا ہے، ہفتے ہفتے کے لیے ایک ہی دفعہ پانی پی لیتا ہے، نہ چارے کی زیادہ فکر، بس کھلا چھوڑ دیں تو خاردار جھاڑیاں اور اونچے اونچے درختوں کے پتے کھا لیتا ہے، حتی کہ کانٹے والا گھاس بھی کھا لیتا ہے جو دوسرے جانور نہیں کھاتے نہ کھریاں لگانی پڑتی ہیں اور بھیڑیے سے اپنا دفاع بھی خود ہی کرلیتا ہے

بطور زینت رکھنا

چونکہ یہ پالتو جانوروں میں سے سب سے بڑا جانور ہے اور اس کی کئی قسمیں ہیں ایک کوہان اور دو کوہان والے سرخ، سیاہ اور سفید بھی ہوتے ہیں
اس لیے اسے بطورِ زینت بھی رکھا جاتا ہے دو کوہانوں والے اونٹ تو ایسے نایاب اور منفرد قسم کے ہیں کہ انہیں بطور زینت اور بطور تفریح رکھنے میں الگ ہی لطف ہے

مطیع جانور ہے

اونٹ کی خیر اور بھلائی میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ اونٹ ایک مطیع اور فرمانبردار جانور ہے طاقتور ہونے کے باوجود اپنے مالک کی فرمانبرداری کرتا ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے پیدا ہی انسان کی خدمت کے لیے کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک چھوٹا سا بچہ اس کی رسی پکڑ کر جہاں چاہے لے جاتا ہے۔ سینکڑوں اونٹ ایک ہی شخص کے پیچھے پیچھے چل رہے ہوتے ہیں

ڈسپلن کا پابند ہے،

لائن میں چلتا ہے
آپ ایک سو بھینسوں، گائیوں، بھیڑوں یا بکریوں کو لائن میں نہیں چلا سکتے جب کہ اونٹ ایک ہزار بھی ہوں تو اکیلا آدمی لائن میں چلا سکتا ہے

سواری کے لیے بہترین سیٹ

اس کی پُشت پر اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ انسان اپنے کھانے پینے اور بستر وغیرہ کے ساتھ یوں سفر کا لطف اُٹھاتا ہے جیسے وہ اپنے گھر میں بیٹھا ہو اور اس پر کجاوہ رکھ کر پانچ چھ آدمی بیک وقت سواری کر سکتے ہیں

اونٹ پر چڑھنے کا مسئلہ

اتنے بڑے جانور پر چڑھنا مشکل ہے مگر کمال ہے کہ اسے اشارہ کیا جائے تو اپنی لمبی گردن آگے جھکا دیتا ہے اور بیٹھ جاتا ہے تاکہ انسان آسانی سے اس کی پشت پر پہنچ جائیں جبکہ اور کوئی جانور ایسا نہیں کرنے دیتا
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ
اور انھی(اونٹوں) پر اور کشتیوں پر تم سوار کیے جاتے ہو۔
المؤمنون : 22

ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’سوار ہوتے ہو‘‘ کے بجائے ’’سوار کیے جاتے ہو ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اونٹ (اور ہاتھی) جیسے عظیم الجثّہ جانوروں پر سوار ہونا اور انھیں اپنا تابع فرمان بنانا تمھارے بس کی بات نہیں، بلکہ ان پر سوار کرنا اور انھیں تمھارے تابع فرمان بنا دینا ہمارا کام ہے، یقین نہ ہو تو ان سے بدرجہا چھوٹے جانوروں، مثلاً ہرن، بھیڑیے، لومڑی، گیدڑ اور چیتے وغیرہ کو ان کی طرح مانوس کرکے دکھاؤ۔
تفسیر القرآن الكريم

حقیقت بات ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اونٹ، گائے، بھینس اور گھوڑے کو انسان کے تابع نہ کرتا تو انسان کبھی انھیں پالتو نہ بنا سکتا
جیسا کہ فرمایا :
« وَ ذَلَّلْنٰهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوْبُهُمْ وَ مِنْهَا يَاْكُلُوْنَ»
[ یٰسٓ : 72 ]
’’اور ہم نے انھیں ان کے تابع کر دیا تو ان میں سے کچھ ان کی سواری ہیں اور ان میں سے بعض کو وہ کھاتے ہیں۔‘‘

بدلہ لینے والا جانور

اونٹ جہاں وفادار، وفا شعار اور فرمانبردار جانور ہے وہاں اس کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ اگر اس کے ساتھ ظلم اور زیادتی کی جائے تو یہ سب سے زیادہ بغض اور کینہ رکھنے والا اور بدلہ لینے والا جانور بھی ہے
اس کی دشمنی کے قصے مشہور ہیں

جفاکش جانور اور صحرائی جہاز

اونٹ جفاکش، محنت کش اور مضبوط حوصلے کا مالک ہوتا ہے، لمبا لمبا سفر کرتا ہے، ریت کے بڑے بڑے صحراؤں میں چلتا ہے ریگستان میں جہاں ریت کی تہیں میدان میں بچھی ہوتی ہیں۔ وہاں ایک حد تک تو ٹینکر اور ٹرک وغیرہ کام کرتے ہیں، لیکن گرمی میں جب ریگستان کی آگ سے تپتی ہوئی ریت میں ربڑ کے ٹائر جواب دے جاتے ہیں، وہاں یہ صحرائی جہاز نہ صرف اپنا سفر جاری رکھتا ہے بلکہ اپنی زندگی بھی قائم رکھتا ہے اور دنیا کو یہ پیغام دیتا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر پیدا کیا ہے اور میرے اندر غور کرنے والوں کے لیے خالقِ عظیم کی قدرت کے عجیب نمونے ہیں

پرانے زمانے سے ہی اونٹ "صحرائی جہاز ” یا ’’خشکی کے جہاز‘‘ سے معروف ہے۔
جیسا کہ ایک عربی شاعر ذو الرُّمّہ اپنی اونٹنی کے متعلق کہتا ہے:
طُرُوْقًا وَجُلْبُ الرَّحْلِ مَشْدُوْدَةٌ بِهَا
سَفِيْنَةُ بَرٍّ تَحْتَ خَدِّيْ زِمَامُهَا
’’رات کا وقت تھا اور پالان کی لکڑیوں کے ساتھ خشکی کا جہاز بندھا ہوا تھا، جس کی مہار میرے رخسار کے نیچے تھی۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اس کے پاؤں کی شیپ ہی کچھ ایسی بنائی ہے وہ نیچے سے نرم،موٹے، مضبوط اور پچکے ہوتے ہیں کہ ریت میں پھسلتے بھی نہیں اور پھنستے بھی نہیں ہیں بلکہ یہ ریت پر بڑی آسانی سے چل سکتا ہے بلکہ تیز رفتاری سے دوڑ سکتا ہے

جیسے کبھی آپ کا ریگستانی علاقوں میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا ہو تو جہاں بہت زیادہ ریت آجائے وہاں گاڑی کے ٹائروں سے کچھ ہوا کم کرنی پڑھتی ہے ورنہ ٹائر زمین میں دھنس جاتے ہیں
سبحان اللہ کیا خوب فرمایا :
هَذَا خَلْقُ اللَّهِ فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ بَلِ الظَّالِمُونَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
یہ ہے اللہ کی مخلوق، تو تم مجھے دکھائو کہ ان لوگوں نے جو اس کے سوا ہیں کیا پیدا کیا ہے؟ بلکہ ظالم لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔
لقمان : 11

حقیقت بات ہے کہ آج بھی جدید ٹیکنالوجی سفر کرنے کے لیے اونٹ کا نعم البدل دریافت نہیں کر سکی، اگرچہ سائنس نے گرمی، سردی اور ریگستان میں سفر کے لیے ایئر کنڈیشن کاریں، ہیٹر وغیرہ ایجاد کر لیے ہیں۔ لیکن اونٹ کی ایک خاص صفت ایسی ہے جس کے آگے پہیوں والی گاڑیاں اور مشینیں آج بھی اپنی ہار ماننے پر مجبور ہیں۔

دیکھتے نہیں ہو کہ اونٹ کیسے پیدا کیا گیا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ
تو کیا وہ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیے گئے۔
الغاشية : 17

آئیے اونٹ کی پیدائش اور جسمانی ساخت کے چند عظیم شاہکار دیکھتے ہیں

لمبی گردن

اونٹ کی گردن بہت لمبی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس میں لچک رکھی ہے اس میں خالق حقیقی کی کیا کیا حکمتیں پنہاں ہیں ایک مثال دیکھتے ہیں، جب انسان اپنے، کجاوے، پالان اور سامان سمیت بیٹھے ہوئے اونٹ پر سوار ہوجاتا ہے تو اونٹ ،بوجھ کے باوجود لمبی گردن کی لچک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کھڑا ہو جاتا ہے
جیسے مسجد کی لمبی صف کو دور سے جھٹک کر سیدھا کیا جاتا ہے

اڑھتی ہوئی ریت اور اونٹ کی آنکھیں

ریتلے علاقوں میں دوران سفر یہ بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے کہ اڑھتی ہوئی ریت سے اپنی آنکھوں کو کیسے بچایا جا سکے انسان اپنی آنکھوں کے سامنے عینک، ہیلمٹ، باریک رومال یا اس طرح کے دیگر طریقے استعمال کرتا ہے
لیکن
اللہ تعالیٰ نے اونٹ کی آنکھوں میں جالی نما جھلی بنا رکھی ہے۔ جو اس کی آنکھوں میں ریت ڈلنے سے آڑ بنتی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ سخت ریتلے طوفان میں بھی بآسانی سفر کر لیتا ہے۔ اور اپنے سوار کو منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے.
اگر صحرا میں آندھی، طوفان آجائے اور ریت سے اسکی آنکھیں بند بھی ہو جائیں تو پھر بھی یہ دیکھ سکتا ہے اور مزے کی بات یہ کہ رات کے اندھیرے میں رستہ نہیں بھولتا چھوٹی سے چھوٹی پگڈنڈی بھی دیکھ لیتا ہے۔
صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ
اس اللہ کی کاری گری سے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ یقینا وہ اس سے خوب باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔
النمل : 88

اونٹ کے ہونٹ

اونٹ کے ہونٹ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص نشانیوں میں سے ہیں۔ اوپر کا ہونٹ بیچ میں سے کٹا ہوا ہوتا ہے۔ یعنی دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ اور خاص بات یہ ہے کہ وہ ہونٹ کے ان دونوں حصوں کو اوپر نیچے حرکت دے سکتا ہے۔ جب یہ اونٹ خاردار جھاڑی کھاتا ہے. تو اپنے ہونٹوں کے کٹ سے کانٹوں کو باہر پھینک دیتا ہے اور باقی کو غذا بنا لیتا ہے.
ہونٹوں کی مدد سے درخت چرتا ہے ریگستانی علاقوں میں کانٹے دار جھاڑیاں یا کانٹوں والے درخت ہوتے ہیں۔ اونٹ کے کٹے ہوئے ہونٹوں کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان سے پتوں اور ٹہنیوں کو ضرورت کے مطابق پکڑنے اور ہٹانے کا کام لیتا ہے اس کے علاوہ ان پر ایک گدی نما موٹی کھال ہوتی ہے جس پر چھوٹے بال ہوتے ہیں۔ جو اونٹ کو سخت کانٹوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔

اونٹ اور پانی

پانی پینے کے سلسلے میں اونٹ بہت ہی امتیازی وصف کا حامل جانور ہے
ایک وقت میں ایک سو چھ لیٹر پانی پینے کی صلاحیت رکھتا ہے
گویا اللہ تعالی نے اس کے جسم میں کوئی ایکسٹرنل ٹینکی نصب کررکھی ہے بس ایک دفعہ گاڑی کی طرح ٹینکی فل کردو پھر دس بارہ دن پانی پئے بغیر ہی چلتا رہے گا
جس طرح جہاز ایک بار ایندھن لیکر پورے سفر کو مکمل کرلیتا ہے اسی طرح اونٹ(صحرائی جہاز) ایک بار پانی سے سیر ہوکر کئی دنوں تک صحرا میں اپنے مالک کے کام آسکتا ہے

جتنی جتنی پیاس لگتی رہتی ہے اتنا اتنا پانی میدے میں جاتا رہتا ہے اور باقی ایکسٹرنل گودام میں محفوظ رہتا ہے

جیسے مچھلی نے یونس علیہ السلام کو میدے میں لے جانے کی بجائے الگ کسی خانے میں محفوظ رکھا

صحرائی اونٹ سانپ کھاتا ہے

صحرائی اونٹوں کو کبھی کبھار ایک بیماری لاحق ہو جاتی ہے جس میں یہ کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو زہریلہ سانپ کھلایا جاتا ہے جو کھانے کی وجہ سے ان کے آنسو نکلنا شروع ہو جاتے ہیں اور یہ آنسو ایسے انسان کے کام آتے ہیں کہ جس کو سانپ نے کاٹا ہوتا ہے

ہمارے لیے سبق

سوچیے کہ اللہ تعالیٰ نے اونٹ کی پیدائش پر غوروفکر کرنے کی دعوت کیوں دی ہے کیوں فرمایا ہے :
أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ
تو کیا وہ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیے گئے۔
الغاشية : 17

اس میں ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ صحرا کے مطابق بناوٹ رکھنے والا ہفتوں بھوک اور پیاس برداشت کرنے والا اونٹ، کوئی چیز بھی تو اس کی اپنی بنائی ہوئی نہیں۔ اتنی عظیم مخلوق کے مالک کے لیے اس حقیر انسان کو دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے جسے پہلے بھی اسی نے پیدا کیا ہے؟

اونٹ کا گوشت اور دودھ یعقوب علیہ السلام کی پسندیدہ غذا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے ساتھ ایک گفتگو کرتے ہوئے فرمایا :
اسرائیل یعنی یعقوب علیہ السلام جب سخت بیمار ہو گئے تھے، ان کی بیماری بہت طول اختیار کر گئی تو انھوں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ انھیں شفا عطا فرما دے تو وہ اپنے پسندیدہ کھانے اور پسندیدہ مشروب کو ترک کر دیں گے اور ان کا پسندیدہ کھانا اونٹ کا گوشت اور پسندیدہ مشروب اونٹ کا دودھ تھا۔ یہ بات سن کر یہود نے آپ کی تصدیق کی
تب آپ نے فرمایا :
’’اے اللہ! تو ان پر گواہ ہو جا۔‘‘
[ أحمد : 2518، المعجم الکبیر للطبرانی : 13012 و حسنہ و صححہ أحمد شاکر و الحاکم و وافقہ الذھبی۔ ]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اکٹھے 100 اونٹوں کا شوربا پیا

جس سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا تھا اس سال آپ نے 100 اونٹ نحر کیے تھے
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: [ أَنَّ الْبُدْنَ الَّتِيْ نَحَرَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ مِئَةَ بَدَنَةٍ نَحَرَ بِيَدِهٖ ثَلاَثًا وَّ سِتِّيْنَ وَنَحَرَ عَلِيٌّ مَا غَبَرَ وَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَجُعِلَتْ فِيْ قِدْرٍ ثُمَّ شَرِبَا مِنْ مَرْقِهَا ]
[ مسند أحمد : 14561 ]
’’وہ اونٹ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نحر کیے ایک سو اونٹ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے تریسٹھ (۶۳) اونٹ نحر کیے اور باقی علی رضی اللہ عنہ نے کیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اونٹ کا ایک ایک ٹکڑا لینے کا حکم دیا جو ایک دیگ میں ڈالے گئے، پھر دونوں نے اس کا کچھ شوربا پیا۔‘‘
شعیب ارناؤوط نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
«أَمَرَ مِنْ كُلِّ جَزُورٍ بِبَضْعَةٍ، فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ، فَأَكَلُوا مِنَ اللَّحْمِ، وَحَسَوْا مِنَ الْمَرَقِ»
ابن ماجہ ،كِتَابُ الْأَضَاحِيِّ،3158
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہر اونٹ کی ایک ایک بوٹی لے کر ہنڈیا میں ڈالی (اور پکائی گئی ۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے کچھ گوشت کھایا اور کچھ شوربہ پیا ۔

اونٹ کے گوشت سے وضو

 جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا:
کیا ہم اونٹ کا گوشت کھانے پر وضو کریں ؟
تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: (جی ہاں)۔
سائل نے کہا: "کیا ہم بکری کا گوشت کھانے پر وضو کریں ؟”
تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر تم چاہو تو کر لو”
صحیح مسلم ( 360 )

اونٹ کا دودھ ہیپاٹائٹس، یرقان، پھیپھڑوں کے پانی اور کینسر کا علاج

اونٹ کا دودھ، ہیپاٹائٹس، یرقان، شوگر اور کینسر وغیرہ کے لیے مفید ہے

صحیح بخاری میں ہے انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
’’ قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ مدینے کی آب وہوا موافق نہ آنے پر وہ لوگ بیمار ہوگئے ۔(ان کو استسقاء یعنی پیٹ میں یا پھیپھڑوں میں پانی بھرنے والی بیماری ہوگئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینے کی دوا تجویز فرمائی ۔یہاں تک کہ اسے پی کروہ لوگ تندرست ہوگئے ‘‘۔
(صحیح بخاری :5686 )

اونٹنی کے دودھ میں پائے جانے والے فوائد

اونٹنی کے دودھ میں گائے کے دودھ کے مقابلے میں فولاد دس گنا زیادہ ہوتا ہے

اونٹنی کے دودھ میں کولیسٹرول مناسب مقدار میں پایا جاتا ہے، جو دل کے امراض میں مبتلا افراد کے لیے اچھا غذائی متبادل ہے

یہ دودھ یرقان ، ٹی بی ، دمہ ، خون کی کمی ( انیمیا ) اور بواسیر کے علاج میں استعمال ہوتا رہا ہے ۔دنیا کے وہ خطے جہاں کی آبادی میں ذیابیطس زیادہ ہے وہاں اس دودھ کے بطور دوا استعمال سے بھی شوگر لیول میں کمی دیکھنے میں آئی ہے

انسولین ایک ہارمون ہے جو ذیابیطس کے مریضوں میں کم مقدار میں بنتا ہے اور انہیں یہ ہارمون ادویہ کی شکل میں لینا پڑتا ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں میں اونٹنی کا دودھ ایک شافی علاج کے طور پر اکسیر ہے

اونٹ کے پیشاپ میں پائے جانے والے فوائد

اونٹ کے پیشاب سے دنیا کو کینسر کی ایک مؤثر دوا بھی حاصل ہوئی اور جگر کے کینسر کے لیے تو اس کو ایک اکسیر نسخے کی حیثیت حاصل ہے۔

آج بھی سعودیہ اور اردن کے کئی بدو قبائل کے لوگ بعض بیماریوں کے علاج کے لئے اونٹوں کا پیشاب استعمال کرتے ہیں۔

ڈاکٹر خالد غزنوی کا تجربہ

آپ اپنی کتاب علاج نبوی اور جدید سائنس میں تحریر فرماتے ہیں :
’’ہمارے پاس اسی طرح کے مریض لائے گئے عموماً۔4 سال سے کم عمر کے بچے اس کا شکار تھے۔ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل کیا اونٹنی کا دودھ اور پیشاب منگوایا اور دونوں کو ملاکر ان بچوں کا پلادیاکچھ ہی عرصے بعدان کے پھیپھڑوں اور پیٹ کا سارا پانی پیشاب کے ذریعے باہر آگیا اور بچے صحت یاب ہوگئے۔وللہ الحمد،اور آج وہ جوان ہیں‘‘۔
(علاج نبوی اور جدید سائنس جلد 3)

ایک سعودی ڈاکٹر کا تجربہ

محترمہ ڈاکٹر فاتن عبدالرحمٰن خورشید کا سعودی عرب کی قابل سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ یہ کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کی فیکلٹی ممبر ہونے کے علاوہ کنگ فہد سنٹر میں طبی تحقیق کے لیے قائم کردہ Tissues Culture Unit کی صدر ہیں ۔ وہ میڈیکل ڈاکٹر تو نہیں ہیں تاہم اسی حدیث سے متاثر ہو کر انہوں نے اس پر تحقیقی کام کیا اور اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملا کر کینسر سے متاثرہ افراد کو پلایا ۔ انہوں نے لیب کے اندر اپنے ان تجربات اور ریسرچ کوسات سال تک جاری رکھا اور معلوم کیا کہ کہ اونٹ کے پیشاب میں موجود نانو ذرات کامیابی کے ساتھ کینسر کے خلیات پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اس دوا کا معیار انٹرنیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کی شرائط کو پورا کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کو کیپسول اور سیرپ کی شکل میں مریضوں کو استعمال کروایا ہے اور اس کا کوئی نقصان دہ سائیڈ ایکفیکٹ بھی نہیں ہے۔

ڈاکٹر حضرات اس طریقے سے مزید ادویات بنانے کے لیے کوشاں

ڈاکٹر حضرات اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو مخصوص مقداروں میں ملا کر مزید تجربات کے ذریعے کینسر کی بعض مخصوص اقسام جیسے پھیپھڑوں کے کینسر، خون کے کینسر، بڑی آنت کے کینسر، دماغ کے ٹیومر اور چھاتی کے کینسر کی ادویات بنانے میں کوشاں ہیں

اونٹ کا پیشاب پینے پر اعتراض

بعض مستشرقین، منکرینِ حدیث اور عقل پرستوں نے اونٹ کے پیشاپ پینے والی حدیث پر اعتراض کیا ہے کہ ایک بدبو دار اور گندی چیز کو پینے کی اجازت دے دی گئی؟؟؟

پہلا جواب

اس اعتراض کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ مریض مجبوری کی حالت میں ہوتا ہے اور مجبوری کی حالت عام قواعد سے مستثنیٰ ہوتی ہے
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
جو مجبور کر دیا جائے، اس حال میں کہ نہ بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حد سے گزرنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
البقرۃ : 173

اگرضرورت کے وقت حرام جانوروں کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے تو حلال جانور کے پیشاب کو عندالضرورت دوا کے لئے استعمال کرنے کو کس نے روکاہے ؟جب مردار اور حرام جانوروں کو عندالضرورت جائز قرار دیا گیا ہے تو پھر پیشاب کے استعمال میں کیا پریشانی ہے ؟

دوسرا جواب

بسا اوقات دو چیزیں جب مکس ہو جاتی ہیں تو نئی پیدا ہونے والی چیز کا حکم ان دونوں سے الگ ہوتا ہے

جیسے آکسیجن اور ہائیڈروجن الگ الگ ہوں تو ہر ایک کا اپنا ہی فنکشن ہے
حتی کہ ہائیڈروجن ایک زہریلی گیس ہے
جب کہ دونوں کے ملاپ سے جب پانی بنتا ہے تو اس میں دونوں کے بنیادی اثرات ختم ہو کر بالکل ہی ایک نئی چیز بن جاتی ہے جو الگ ہی ماہیت اور اثر رکھتی ہے

یہی صورت حال یہاں ہے
اونٹ کا پیشاپ اور دودھ الگ الگ اپنے اپنے خواص رکھتے ہیں
مگر جب ان کا مکسچر بنتا ہے تو پھر دونوں سے ہٹ کر ایک نئی چیز معرض وجود میں آتی ہے جس کی اپنی ہی ماہیت اور اثرات ہوتے ہیں

کیمسٹری فارمولہ کے مطابق اونٹنی کا پیشاب اس وقت تک پیشاب رہے گا جب تک وہ دوسرے اجسام کے ساتھ نہیں ملا، جونہی اونٹنی کا پیشاب اونٹنی کے دودھ میں شامل ہوا تو پھر دونوں اجسام میں پائے جانے والے کیمیکلز سے جو ری ایکشن ہو گا اس سے پیشاب نام اور مقام کھو بیٹھے گا۔ اور ایک الگ مکسچر بنے گا۔

تیسرا جواب

دودھ میں پیشاب ملا کر پینے کا مطلب یہ نہیں کہ دودھ کے ایک گلاس اور پیشاب کا ایک گلاس بلکہ دودھ کے ایک گلاس میں پیشاب کی کچھ مقدار جو کہ ڈراپس بھی ہو سکتے ہیں اور چمچ بھی جیسے عموماً ہومیوپیتھی طریقہ علاج میں ایک گلاس پانی میں دوائی کے چند ڈراپس ڈالے جاتے ہیں

چوتھا جواب

اعتراض کرنے والوں کی اکثریت کی اپنی حالت یہ ہے کہ سانپ ، خنزیر اور کیڑے مکوڑوں سے تیار کی گئی ادویہ سے علاج کر لیتے ہیں، اور اونٹ کے پیشاب سے علاج کی سنت کو رد کر دیتے ہیں

مثلاً تھائی لینڈ کے لوگوں کے درمیان یہ بات مشہور اور پریکٹس عام ہے کہ اگر کسی کو جیلی فش ڈنگ ماردے تو متاثرہ حصہ پر پیشاب کردیا جائے، پیشاب میں موجود یوریا، سوڈیم اور پوٹیشیم وغیرہ درد کے احساس کو کافی کچھ کم کردیتے ہیں اور زہر کا اثر بھی کافی حد تک مدہم ہوجاتا ہے۔
بشکریہ فہد حارث بھائی

ایک اور اعتراض

یہ تو ہندوؤں سے مشابہت ہے

ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ
جیسے ہندو گائے کا پیشاپ پیتے ہیں ایسے مسلمانوں نے اونٹ کا پی لیا تو فرق کیا رہ گیا؟؟

جواب

ہندو گائے کا پیشاب اپنے شرکیہ عقیدے کے کی وجہ سے پیتے ہیں جس کی بدولت ان پر گائے فضل و کرم کرتی رہتی ہے۔
جبکہ
مسلمانوں میں سے کوئی شخص اونٹ کے خدا ہونے کا قائل ہے اور نہ اس کے پیشاب میں کسی غیبی برکت کا دعویدار۔ بس اس کی نظروں میں حدیثِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے اونٹ کے پیشاب میں ایسی تاثیر ہے جو انسان کو ایک خاص بیماری میں شفا دے سکتی ہے۔

سو ہندووں کے ساتھ مشابہت والی بات یہاں نہیں کی جا سکتی۔

قرآن میں اونٹ کے لیے استعمال ہونے والے مختلف نام

زمانہ جاہلیت میں بتوں کے نام پر وقف اونٹوں کے رکھے ہوئے خاص ناموں کا تذکرہ

مشرکین نے بتوں کے نام پر کچھ اونٹ وقف کیے ہوتے تھے جنہیں خاص اصطلاحی نام بھی دیتے تھے
اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا :
مَا جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ وَلَكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ
اللہ نے نہ کوئی کان پھٹی اونٹنی مقرر فرمائی ہے اور نہ کوئی سانڈ چُھٹی ہوئی اور نہ کوئی اوپر تلے بچے دینے والی مادہ اور نہ کوئی بچوں کا باپ اونٹ اور لیکن وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور ان کے اکثر نہیں سمجھتے۔
المائدة : 103

(1) ’’بحیرہ‘‘ وہ جانور ہے جس کا دودھ بتوں کے لیے روک لیا جاتا، پھر لوگوں میں سے کوئی اسے نہیں دوھتا تھا۔

(2) ’’سائبہ‘‘ آزاد چھوڑی ہوئی، جس اونٹنی کے پیٹ سے دس بچے سب کے سب مؤنث پیدا ہوتے تو اسے چھوڑ دیتے، نہ اس پر سواری کی جاتی نہ اس کے بچے اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ پیتا۔

(3) ’’وصیلہ ‘‘وہ اونٹنی جو پہلی دفعہ مادہ بچہ دیتی، پھر دوسری بار بھی مادہ بچہ دیتی، وہ اسے اپنے بتوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے ( کیونکہ وصیلہ وصل سے نکلا ہے) یہ نام اس لیے رکھتے کہ اس نے دو مادہ بچے یکے بعد دیگرے جنے ہیں، بیچ میں نر نہیں ہے۔

(4) ’’حام ‘‘ وہ سانڈ اونٹ جس کے جفتی کرنے سے اونٹنیوں کی ایک مخصوص تعداد حاملہ ہوتی، اسے وہ اپنے بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے اور اس پر کوئی چیز نہ لادتے اور اس کا نام ’’حامی‘‘ رکھتے۔
تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ

دیگر نام

1 جمل

قرآن میں اونٹ کو لفظ "جمل” کے ساتھ بھی ذکر کیا گیا ہے
فرمایا :
إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ
بے شک جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور انھیں قبول کرنے سے تکبر کیا، ان کے لیے نہ آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے، یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے اور ہم مجرموں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔
الأعراف : 40

اور فرمایا :
كَأَنَّهُ جِمَالَتٌ صُفْرٌ
جیسے وہ زرد اونٹ ہوں۔
المرسلات : 33

2 بعیر

قرآن میں اونٹ کو لفظ "بعیر” کے ساتھ بھی ذکر کیا گیا ہے
فرمایا :
قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ
انھوں نے کہا ہم بادشاہ کا پیمانہ گم پاتے ہیں اور جو اسے لے آئے اس کے لیے ایک اونٹ کا بوجھ (غلہ) ہوگا اور میں اس کا ضامن ہوں۔
يوسف : 72

3 رکاب

قرآن میں اونٹ کو لفظ "رکاب” کے ساتھ بھی ذکر کیا گیا ہے "رِكَابٍ” سواری کے اونٹوں کے لیے اسم جمع ہے۔
فرمایا :
وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جو (مال) اللہ نے ان سے اپنے رسول پر لوٹایا تو تم نے اس پر نہ کوئی گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ اور لیکن اللہ اپنے رسولوں کو مسلط کر دیتا ہے جس پر چاہتا ہے اور اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔
الحشر : 6

4 ’’رَاحِلَةٌ‘‘

اونٹ کو ’’رَاحِلَةٌ‘‘ بھی کہتے ہیں
سورہ یوسف میں ہے :
وَقَالَ لِفِتْيَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِي رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُونَهَا إِذَا انْقَلَبُوا إِلَى أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
اور اس نے اپنے جوانوں سے کہا ان کا مال ان کے کجاووں میں رکھ دو، تاکہ وہ اسے پہچان لیں جب اپنے گھر والوں کی طرف واپس جائیں، شاید وہ پھر آجائیں۔
يوسف : 62
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’رِحَالٌ‘‘ ’’رَحْلٌ‘‘ کی جمع ہے، وہ کجاوہ جو اونٹ پر سوار ہونے کے لیے رکھا جاتا ہے اور اس سامان کو بھی کہہ لیتے ہیں جو اونٹ پر رکھا جائے، اس لیے اونٹ کو ’’رَاحِلَةٌ‘‘ کہہ لیتے ہیں۔

عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں :
إِنْ كَانَ لَيُوحَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَتَضْرِبُ بِجِرَانِهَا
[مسند أحمد : 118/6، ح : ۲۴۸۶۸، سندہ صحیح ]
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر سوار ہوتے، آپ پر وحی اترتی تو اونٹنی زمین پر گردن رکھ دیتی

5 ھیم

قرآن میں اونٹ کو لفظ "ھیم” کے ساتھ بھی ذکر کیا گیا ہے
فرمایا :
فَشَارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ
پھرپیاس کی بیماری والے اونٹوں کے پینے کی طرح پینے والے ہو۔
الواقعة : 55

"الْهِيْمِ” ’’أَهْيَمُ‘‘ (مذکر) اور ’’هَيْمَاءُ‘‘ (مؤنث) کی جمع ہے
وہ اونٹ جنھیں ہیام (بروزن زکام) کا مرض لاحق ہو، یعنی ایسی پیاس جس سے اونٹ پانی پیتے جاتے ہیں مگر وہ بجھتی ہی نہیں، حتیٰ کہ وہ مر جاتے ہیں یا قریب الموت ہو جاتے ہیں۔

6 ناقۃ

قرآن میں اونٹ کو لفظ "ناقۃ” کے ساتھ بھی ذکر کیا گیا ہے
فرمایا :
فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ نَاقَةَ اللَّهِ وَسُقْيَاهَا
تو ان سے اللہ کے رسول نے کہا اللہ کی اونٹنی اور اس کے پینے کی باری (کا خیال رکھو)۔
الشمس : 13

7 عشار

قرآن میں اونٹ کو لفظ "عشار” کے ساتھ بھی ذکر کیا گیا ہے
فرمایا :
وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ
اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں بے کار چھوڑ دی جائیں گی۔
التكوير : 4

الْعِشَارُ ‘‘ ’’عُشَرَاءُ‘‘ کی جمع ہے، دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں جو عربوں کے ہاں نہایت عزیز ہوتی تھیں۔

8 إبل

قرآن میں اونٹ کو لفظ "إبل” کے ساتھ بھی ذکر کیا گیا ہے
فرمایا :
أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ
تو کیا وہ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیے گئے۔
الغاشية : 17

9 بدن

قرآن میں اونٹ کو لفظ "بدن” کے ساتھ بھی ذکر کیا گیا ہے
فرمایا :
وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور قربانی کے بڑے جانور، ہم نے انھیں تمھارے لیے اللہ کی نشانیوں سے بنایا ہے، تمھارے لیے ان میں بڑی خیر ہے۔ سو ان پر اللہ کا نام لو، اس حال میں کہ گھٹنا بندھے کھڑے ہوں، پھر جب ان کے پہلو گر پڑیں تو ان سے کچھ کھائو اور قناعت کرنے والے کو کھلاؤ اور مانگنے والے کو بھی۔ اسی طرح ہم نے انھیں تمھارے لیے مسخر کر دیا، تاکہ تم شکر کرو۔
الحج : 36

10 ضامر

قرآن میں اونٹ کو لفظ "ضامر” کے ساتھ بھی ذکر کیا گیا ہے
فرمایا :
وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ
اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دے، وہ تیرے پاس پیدل اور ہر لاغر سواری پر آئیں گے، جو ہر دور دراز راستے سے آئیں گی۔
الحج : 27

11 سدًی

قرآن میں اونٹ کو لفظ "سدًی” کے ساتھ بھی ذکر کیا گیا ہے
فرمایا :
أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى
کیا انسان گمان کرتا ہے کہ اسے بغیر پوچھے ہی چھوڑ دیا جائے گا؟
القيامة : 36
سُدًى ‘‘ وہ اونٹ جو کھلے چھوڑ دیے جائیں، انھیں ’’إِبِلٌ سُدًي‘‘ کہتے ہیں، یعنی کھلا چھوڑا ہوا، جس سے کوئی باز پرس نہ ہو۔

12 "لَاقِحٌ”

وہ اونٹنی جو حاملہ ہو چکی ہو اور اپنے پیٹ میں جنین(بچہ) اٹھائے پھرتی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایسی اونٹنی کے ساتھ بارش برسانے والی ہواؤں کو تشبیہ دی ہے جو آبی بخارات اور بادلوں کا بوجھ اٹھا کر چلتی ہیں
فرمایا :
وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ
اور ہم نے ہوائوں کو بار آور بناکر بھیجا
الحجر : 22

13 جزور

ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے، آپ بیان کرتے ہیں :
[ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيْ سَفَرٍ فَحَضَرَ الْأَضْحٰی فَاشْتَرَكْنَا فِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةً وَفِي الْجَزُوْرِ عَشْرَةً ]
[ ترمذي : 905 ]
ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے تو نحر (قربانی کا وقت) آگیا تو ہم نے گائے سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کی اور اونٹ دس آدمیوں کی طرف سے۔‘‘

رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں
عَدَلَ عَشْرًا مِنْ الْغَنَمِ بِجَزُورٍ
مسلم، كِتَابُ الْأَضَاحِي، 5093
آپ نے(سب کے حصے تقسیم کرنے کے لیے) دس بکریوں کو ایک اونٹ کے مساوی قرار دیا۔

14 قصواء

یہ نام حدیث میں آیا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے زمانے میں نکلے، جب اس گھاٹی پر پہنچے جہاں سے مکہ میں اترا جاتا تھا تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی، لوگوں نے ( اسے اٹھانے کے لیے) کہا : [ حَلْ حَلْ ] لیکن وہ بیٹھی رہی۔
لوگوں نے کہا : ’’قصواء اَڑ گئی، قصواء اَڑ گئی۔‘‘
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ مَا خَلَأَتِ الْقَصْوَاءُ، وَمَا ذَاكَ لَهَا بِخُلُقٍ ، وَلٰكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيْلِ ]
[بخاري : 2731، 2732]
’’قصواء اَڑی نہیں اور نہ یہ اس کی عادت ہے، اسے تو ہاتھیوں کو روکنے والے نے روک دیا ہے۔‘‘

15 بنت مخاض

ایک سالہ اونٹنی کو بنت مخاض کہتے ہیں

16 بنت لبون

دو سالہ اونٹنی کو بنت لبون کہتے ہیں

17 حقہ

تین سالہ اونٹنی کو حقہ کہتے ہیں

18 جذعہ

چار سالہ اونٹنی کو جذعہ کہتے ہیں

اونٹ کو نحر کیا جاتا ہے

اونٹ کو باقی جانوروں کی طرح ذبح کی بجائے نحر کیا جاتا ہے

ابن عمر رضی اللہ عنھما ایک آدمی کے پاس سے گزرے جس نے اپنی اونٹنی بٹھا رکھی تھی اور اسے نحر کر رہا تھا تو فرمایا :
ابْعَثْهَا قِيَامًا مُقَيَّدَةً ؛ سُنَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
[ بخاري : ۱۷۱۳]
’’اسے کھڑا کرکے پاؤں باندھ کر نحر کرو، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔‘‘

اونٹ نحر کرنے کا طریقہ

اس کا طریقہ یہ ہے کہ اونٹ کو اگلی بائیں ٹانگ بندھی ہونے کی حالت میں کھڑا کر دیا جاتا ہے، پھر اس کے سینے کے گڑھے میں، جہاں سے گردن شروع ہوتی ہے، کوئی برچھا یا نیزہ یا چھرا ’’بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَكْبَرُ‘‘ پڑھ کر مارا جاتا ہے جس سے خون کا پرنالہ بہ نکلتا ہے، بہت سا خون نکل جانے پر اونٹ دائیں یا بائیں کروٹ پر گر پڑتا ہے۔ اس کی جان پوری طرح نکلنے سے پہلے اس کی کھال اتارنا یا گوشت کا کوئی ٹکڑا کاٹنا منع ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور قربانی کے بڑے جانور، ہم نے انھیں تمھارے لیے اللہ کی نشانیوں سے بنایا ہے، تمھارے لیے ان میں بڑی خیر ہے۔ سو ان پر اللہ کا نام لو، اس حال میں کہ گھٹنا بندھے کھڑے ہوں، پھر جب ان کے پہلو گر پڑیں تو ان سے کچھ کھائو اور قناعت کرنے والے کو کھلاؤ اور مانگنے والے کو بھی۔ اسی طرح ہم نے انھیں تمھارے لیے مسخر کر دیا، تاکہ تم شکر کرو۔
الحج : 36

اس آیت کریمہ کے الفاظ
’’ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا ‘‘
(جب ان کے پہلو گر پڑیں) سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اونٹوں کو کھڑا کرکے نحر کرنا چاہیے، کیونکہ اگر ان کے پہلو پہلے ہی زمین پر ہوں تو وہ کیسے گریں گے؟
تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ

اونٹ کا کون سا گھٹنا باندھیں، دائیاں یا بائیاں؟

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
[ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهٗ كَانُوْا يَنْحَرُوْنَ الْبَدَنَةَ مَعْقُوْلَةَ الْيُسْرٰی قَائِمَةً عَلٰی مَا بَقِيَ مِنْ قَوَائِمِهَا ]
[ أبوداوٗد : ۱۷۶۷ و صححہ الألباني ]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب اونٹوں کو اس طرح نحر کرتے تھے کہ ان کے اگلے بائیں پاؤں کا گھٹنا بندھا ہوتا اور وہ باقی ٹانگوں پر کھڑے ہوتے۔‘‘

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ اونٹوں کو تین ٹانگوں پر کھڑا کر کے نحر کیا جائے، اس طرح کہ ان کی اگلی بائیں ٹانگ اکٹھی کرکے باندھی ہوئی ہو۔
[ طبري بسند ثابت ]

عوام الناس میں پائی جانے والی ایک اہم غلطی

سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں کو یوں اونٹ نحر کرتے دیکھا گیا ہے کہ انہوں نے اونٹ کا دائیاں گھٹنا باندھا ہوتا ہے اس میں دو خرابیاں ہیں :
ایک تو یہ سنت کے خلاف ہے کیونکہ سنت یہ ہے کہ بائیاں گھٹنا باندھا جائے
دوسرا اس وجہ سے بہت سے نقصانات بھی دیکھے گئے ہیں کہ جب اونٹ اچھلتا ہے تو اس کا گھٹنا نحر کرنے والے کی چھاتی پہ لگتا ہے

اونٹ کی قربانی میں حصے

اس کی دو صورتیں ہیں :
1 حج کے موقع پر
2 حج کے علاوہ عام حالات میں

حج کے موقع پر

حج کے موقع پر اونٹ کی قربانی میں سات سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں :
[ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّيْنَ بِالْحَجِّ فَأَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَنْ نَّشْتَرِكَ فِي الْإِبِلِ، وَالْبَقَرِ، كُلُّ سَبْعَةٍ مِنَّا فِيْ بَدَنَةٍ ]
[ مسلم : 1318/351 ]
’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھے ہوئے نکلے تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم اونٹوں اور گائیوں میں شریک ہو جائیں، ہم میں سے ہر سات آدمی ایک بدنہ میں شریک ہو جائیں۔‘‘

حج کے علاوہ عام حالات میں

حج کے علاوہ دوسرے مقامات پر عید الاضحی کے موقع پر اونٹ میں دس آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے، بیان کرتے ہیں :
[ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيْ سَفَرٍ فَحَضَرَ الْأَضْحٰی فَاشْتَرَكْنَا فِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةً وَفِي الْجَزُوْرِ عَشْرَةً ]
[ ترمذي، : ۹۰۵، صحیح ]
ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے تو نحر (قربانی کا وقت) آگیا تو ہم نے گائے سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کی اور اونٹ دس آدمیوں کی طرف سے۔‘‘
ترمذی کے علاوہ اسے احمد، نسائی اور طبرانی نے بھی روایت کیا ہے۔

رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں
عَدَلَ عَشْرًا مِنْ الْغَنَمِ بِجَزُورٍ
مسلم، كِتَابُ الْأَضَاحِي، 5093
آپ نے(سب کے حصے تقسیم کرنے کے لیے) دس بکریوں کو ایک اونٹ کے مساوی قرار دیا۔

بیت اللہ میں قربانی کے لیے وقف اونٹ کا اشعار کرنا

اِشعار کا مطلب یہ ہے کہ جب مکہ میں قربانی کے اونٹ روانہ کیے جاتے ہیں تو ان کے کوہان کے دائیں طرف برچھی وغیرہ سے زخم کرکے خون جلد پر مل دیا جاتا ہے، جو علامت ہوتا ہے کہ یہ جانور مکہ معظمہ قربانی کے لیے جا رہے ہیں اور جس سے ہر دیکھنے والا ان کی تعظیم و تکریم اور خدمت کرتا ہے۔

اونٹوں کی زکوٰۃ

اگر کسی کے پاس چار اونٹ سے زیادہ نہیں تو اس پر زکاۃ واجب نہیں ہو گی، پانچ اونٹ زکاۃ کا نصاب ہیں، اور ان میں بطور زکاۃ ایک بکری ادا کرنا ہو گی، پھر 10 اونٹوں میں دو بکریاں، 15 اونٹوں میں 3 بکریاں، 20 سے 24 تک اونٹوں میں 4 بکریاں

اور جب اونٹوں کی تعداد 25 تک پہنچ جائے تو 25 سے 35 تک(بنت مخاض) ایک 1سالہ اونٹنی واجب ہو گی ۔
اور جب اونٹ کی تعداد 36 تک پہنچ جائے تو 36سے 45 اونٹوں تک (بنت لبون) 2برس کی 1 مادہ اونٹنی واجب ہو گی۔
اور جب تعداد 46 اونٹ تک پہنچ جائے تو 46 سے 60 اونٹ تک میں (حقہ) 3 برس کی ایک مادہ اونٹنی واجب ہو گی جو جفتی کے قابل ہوتی ہے۔
اور جب تعداد 61 اونٹ تک پہنچ جائے تو 61 اونٹ سے 75 اونٹ تک(جذعہ) چار برس کی مادہ واجب ہو گی۔
اور جب تعداد 76 اونٹ تک پہنچ جائے تو 76 اونٹ سے 90 اونٹ تک (دو بنت لبون) 2، 2 برس کی 2 اونٹنیاں واجب ہوں گی۔ جب تعداد 91 تک پہنچ جائے تو 91 سے 120 اونٹ تک (دو حقہ) 3، 3 برس کی جفتی کے قابل 2 اونٹنیاں واجب ہوں گی ۔
اور جب 120 سے بھی تعداد آگے بڑھ جائے تو ہر 40 پر (ایک بنت لبون) دو برس کی اونٹنی واجب ہو گی اور ہر 50 پر (ایک حقہ) تین برس کی جفتی کے قابل اونٹنی واجب ہو گی۔