پانی،سیلاب اور سمندر، اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکر

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (الفتح : 7)

اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اورزمین کے لشکر ہیں اور اللہ ہمیشہ سے سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔

زمین کے لشکروں میں سے سب سے بڑا لشکر پانی ہے جوکہ زمین کے ستر فیصد حصے پر پھیلا ہوا ہے

اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا

فرمایا :

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (هود : 7)

اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے۔

آسمان اور زمین سے بھی پہلے پانی پیدا کیا گیا

عمران بن حصین رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اہل یمن کے کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس امر (کائنات) کی ابتدا کے متعلق پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ كَانَ اللّٰهُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ قَبْلَهٗ وَكَانَ عَرْشُهٗ عَلَی الْمَاءِ ثُمَّ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَكَتَبَ فِيْ الذِّكْرِ كُلَّ شَيْءٍ] [ بخاری، التوحید، باب : « و کان عرشہ علی الماء » : ۷۴۱۸ ]

’’اللہ تعالیٰ تھا اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی اور اس کا عرش پانی پر تھا، پھر اس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور ذکر (لوح محفوظ) میں ہر چیز لکھ دی۔‘‘

تقدیر لکھنے سے بھی پہلے پانی پیدا کیا گیا

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[كَتَبَ اللّٰهُ مَقَادِيْرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَّخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِيْنَ أَلْفَ سَنَةٍ قَالَ وَ عَرْشُهٗ عَلَي الْمَاءِ] [ مسلم، القدر، باب حجاج آدم و موسٰی صلی اللہ علیہما وسلم : ۲۶۵۳ ]

’’اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیریں آسمان و زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دیں اور اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘

ہمارے حافظ صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں

شیخ محمد عبدہ رحمہ اللہ نے قلم کی پیدائش اور تقدیر کا لکھا جانا پانی اور عرش کے بعد لکھا ہے۔ شاید ان کا استدلال اس آیت : « وَ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ » سے ہو۔ (واللہ اعلم) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی قلم سے پہلے عرش اور پانی کے پیدا کیے جانے کا ذکر کیا ہے

دیکھیے فتح الباری میں ’’ كِتَابُ بَدْءِ الْخَلْقِ ‘‘ کا پہلا باب

تفسیر القرآن الكريم

ہر زندہ چیز پانی سے پیدا کی گئی ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ (الأنبياء : 30)

اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز بنائی، تو کیا یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔

انسانی پیدائش بھی پانی سے

فرمایا :

أَلَمْ نَخْلُقْكُمْ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ (المرسلات : 20)

کیا ہم نے تمھیں ایک حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا؟

فَجَعَلْنَاهُ فِي قَرَارٍ مَكِينٍ (المرسلات : 21)

پھر ہم نے اسے ایک مضبوط ٹھکانے میں رکھا۔

إِلَى قَدَرٍ مَعْلُومٍ (المرسلات : 22)

ایک معلوم اندازے تک۔

فَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقَادِرُونَ (المرسلات : 23)

پس ہم نے اندازہ کیا تو ہم اچھے اندازہ کرنے والے ہیں۔

اور فرمایا :

فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ (الطارق : 5)

پس انسان کو لازم ہے کہ دیکھے وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا۔

خُلِقَ مِنْ مَاءٍ دَافِقٍ (الطارق : 6)

وہ ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔

يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ (الطارق : 7)

جو پیٹھ اور پسلیوں کے درمیان سے نکلتا ہے ۔

شیخ سعدی نے کہا ہے :

دھد نطفہ را صورتے چوں پری

کہ کرداست برآب صورت گری

’’یعنی اللہ تعالیٰ ایک قطرے کو پری جیسی صورت عطا فرما دیتا ہے، بھلا اس کے سوا کون ہے جو پانی پر صورت گری کر سکتا ہے۔‘‘

کیا جن اور فرشتے بھی پانی سے بنے ہیں

یہاں ایک سوال ہے کہ فرشتے اور جن تو پانی سے نہیں بلکہ نور اور آگ سے پیدا ہوئے ہیں،جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے، تو ان کی پیدائش پانی سے کیسے تسلیم کی جا سکتی ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ

اگر ہر زندہ چیز کا وجود پانی سے مان لیا جائے، جس میں انسان کے ساتھ جن اور فرشتے بھی شامل ہوں تو کچھ بعید نہیں، جب مٹی سے بننے والے انسان کا اصل پانی ہے تو آگ اور نور سے بننے والے جنوں اور فرشتوں کا اصل بھی پانی ہو سکتا ہے۔

(تفسیر القرآن الكريم بتصرف یسیر)

ہر جاندار کا بنیادی جزو پانی ہے مگر ساخت میں تبدیلی

فرمایا :

وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِنْ مَاءٍ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَى بَطْنِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَى رِجْلَيْنِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَى أَرْبَعٍ يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (النور : 459

اور اللہ نے ہر چلنے والا (جاندار) ایک قسم کے پانی سے پیدا کیا، پھر ان میں سے کوئی وہ ہے جو اپنے پیٹ پر چلتا ہے اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو دو پاؤں پر چلتا ہے اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو چار پر چلتا ہے، اللہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے، یقینا اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔

یعنی ایک ہی چیز سے پیدا ہونے والے تمام جان دار زندگی کی پہلی حالت ہی میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، کوئی اپنے پیٹ پر چلتا ہے جیسے سانپ، مچھلی اور بعض قسم کے کیڑے مکوڑے، کوئی دو پاؤں پر چلتا ہے جیسے انسان اور پرندے اور کوئی چار پاؤں پر چلتا ہے جیسے گائے، بھینس، گھوڑے اور دوسرے چوپائے اور درندے۔

پانی سے کھیتیاں لہلہاتی ہیں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنْبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ (الحج : 05)

اور تو زمین کو مردہ پڑی ہوئی دیکھتا ہے، پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تو وہ لہلہاتی ہے اور ابھرتی ہے اور ہر خوبصورت قسم میں سے اگاتی ہے۔

مختلف قسم کی نباتات اور اجناس کے بیج زمین میں بکھرے پڑے ہوتے ہیں، جنھیں ہواؤں نے یا پرندوں نے جگہ جگہ پھیلا دیا تھا۔ اسی طرح بے شمار چیزوں کی جڑیں بھی جگہ جگہ مٹی میں دفن ہوتی ہیں، جن میں زندگی کا نشان تک نہیں ہوتا، مگر جوں ہی ان پر بارش کے چھینٹے پڑے تو ہر طرف زندگی لہلہانے لگی۔ ہر مردہ جڑ اپنی قبر سے جی اٹھی اور ہر بے کار پڑا ہوا بے جان بیج ایک زندہ پودے کی شکل اختیار کر گیا۔

اللہ تعالیٰ نے پانی کے ذریعے سے گھنے جنگلات اگا دیے جبکہ سب انسان مل کر ایک پودا بھی نہیں اگا سکتے تھے

فرمایا

أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ (النمل : 60)

(کیا وہ شریک بہتر ہیں) یا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمھارے لیے آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ساتھ رونق والے باغات اگائے، تمھارے بس میں نہ تھا کہ ان کے درخت اگاتے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو راستے سے ہٹ رہے ہیں۔

اور فرمایا :

فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ إِلَى طَعَامِهِ (عبس : 24)

تو انسان کو لازم ہے کہ اپنے کھانے کی طرف دیکھے۔

أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا (عبس : 25)

کہ ہم نے پانی برسایا، خوب برسانا۔

ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا (عبس : 26)

پھرہم نے زمین کو پھاڑا، ایک عجیب طریقے سے پھاڑنا۔

فَأَنْبَتْنَا فِيهَا حَبًّا (عبس : 27)

پھر ہم نے اس میں اناج اگایا۔

وَعِنَبًا وَقَضْبًا (عبس : 28)

اور انگور اور ترکاری۔

وَزَيْتُونًا وَنَخْلًا (عبس : 29)

اور زیتون اور کھجور کے درخت۔

وَحَدَائِقَ غُلْبًا (عبس : 30)

اور گھنے باغات۔

وَفَاكِهَةً وَأَبًّا (عبس : 31)

اور پھل اور چارا۔

مَتَاعًا لَكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ (عبس : 32)

تمھارے لیے اور تمھارے مویشیوں کے لیے زندگی کا سامان۔

پانی کون اتارتا ہے

فرمایا

أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَ (الواقعة : 68)

پھر کیا تم نے دیکھا وہ پانی جو تم پیتے ہو؟

أَأَنْتُمْ أَنْزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُونَ (الواقعة : 69)

کیا تم نے اسے بادل سے اتارا ہے، یا ہم ہی اتارنے والے ہیں؟

لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ (الواقعة : 70)

اگر ہم چاہیں تو اسے سخت نمکین بنادیں، پھر تم شکر ادا کیوں نہیں کرتے؟

لوڈر ایئر لائن سروس

سمندر، جوکہ پانی کا بہت بڑا ذخیرہ ہے اور اسی ذخیرے سے خشکی کے تمام علاقوں میں پانی سپلائی ہوتا ہے اگر یہ سپلائی خود انسانوں کو کرنا پڑتی کہ ہر علاقے والے خود ہی جا کر سمندر سے اپنی ضرورت کا پانی لے آئیں تو بے حد مہنگا اور مشقت طلب کام ہوتا اور پھر بھی ضرورت پوری نہ ہوتی مگر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم دیکھیں کہ اس نے وزن اٹھانے والی ہوائی گاڑیوں کا بندوبست کر دیا ہے اور یہ ڈیوٹی بادلوں اور ہواؤں کی لگا رکھی ہے

فرمایا :

وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَيْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنْتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ (الحجر : 22)

اور ہم نے ہوائوں کو بار آور بناکر بھیجا، پھر ہم نے آسمان سے پانی اتارا، پس ہم نے تمھیں وہ پلانے کے لیے عطا فرمایا اور تم ہرگز اس کا ذخیرہ کرنے والے نہیں۔

’’لَاقِحٌ‘‘ وہ اونٹنی جس نے ’’لِقَاحٌ‘‘ کو قبول کر لیا ہو، یعنی حاملہ ہو چکی ہو اور اپنے پیٹ میں جنین اٹھائے پھرتی ہو۔

اللہ تعالیٰ نے ہواؤں کو حمل اٹھانے والی اس لیے قرار دیا کہ وہ اپنے اندر حاملہ اونٹنیوں کی طرح ایسے آبی بخارات اور بادلوں کا بوجھ اٹھا کر چلتی ہیں جو بارش برسانے کا ذریعہ بنتے ہیں

اب یہ ہوائیں کراچی کے سمندر سے لوڈ ہوکر ہزاروں کلو میٹر سفر کرتے ہوئے کشمیر اور شمالی علاقہ جات تک پہنچتی ہیں اور وہاں بارش برسنے سے پورے ملک کے ندی، نالے اور دریا بھر جاتے ہیں جس سے تازگی اور ہریالی آتی ہے

اگر کراچی سے مظفر آباد، بائی روڈ اتنا پانی لے جانا پڑے تو لگ سمجھ جائے

سمندر کے بخارات میں سمندر کا ذائقہ کیوں نہیں

تیسیر القرآن میں ہے:

’’یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک اور کرشمہ ہے، سطح سمندر سے سورج کی حرارت کی وجہ سے آبی بخارات اٹھتے ہیں۔ یہی بخارات بعد میں بادلوں کی شکل اختیار کر کے بارش کی صورت میں برستے ہیں۔ سمندر کا پانی جس سے بخارات اٹھتے ہیں، سخت نمکین اور چھاتی جلانے والا ہوتا ہے، مگر جو بارش برستی ہے اس میں نمکینی نام کو نہیں ہوتی۔ حالانکہ جن جڑی بوٹیوں یا دواؤں کا ہم اس طرح عرق کشید کرتے ہیں ان میں ذائقہ بھی منتقل ہوتا ہے اور ُبو بھی۔ مثلاً سونف یا اجوائن یا گاؤ زبان یا گلاب کے عرق میں ان اشیاء کا ذائقہ بھی منتقل ہو جاتا ہے اور ُبو بھی، لیکن سمندر کے پانی کی نمکینی آبی بخارات کے ساتھ منتقل نہیں ہوتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے، ورنہ اس زمین کا کوئی جاندار ایسا پانی پی کر زندہ ہی نہ رہ سکتا اور نہ ہی ایسے پانی سے پیداوار اُگ سکتی ہے جو پانی کے بعد جانداروں کی زندگی کا دوسرا بڑا سہارا ہے۔‘‘

اگر سمندر کا پانی اپنی اصل حالت میں کھیتی کو پلایا جائے تو کھیتی مرجھا کر تباہ ہو جائے اور اگر کوئی جان دار پی لے تو اس کی آنتوں کو کاٹ کے رکھ دے، یا کم از کم زخمی کر دے، لیکن اسی سمندر کے پانی کے بخارات جب بارش میں منتقل ہوتے ہیں تو کیا نباتات، کیا حیوان اور کیا انسان، سب کے لیے یہ پانی حیات بخش ثابت ہوتا ہے، کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں اور جان دار مخلوق بارش ہونے سے پہلے ہواؤں کی آمد ہی پر مسرور ہو کر جھومنے لگتی ہے۔ نباتات ہی سے جان دار مخلوق کو غذا حاصل ہوتی ہے اور اس کے پینے کے لیے اللہ تعالیٰ صاف ستھرا پانی دیتا ہے۔ جمادات کے علاوہ اس کائنات ارضی پر کوئی مخلوق ایسی نہیں جس کی زندگی کی بقا پانی کے بغیر ممکن ہو۔

تیسیر القرآن از کیلانی رحمہ اللہ

اللہ تعالیٰ ہر سال ایک خاص مقدار میں بارش برساتا ہے

فرمایا :

وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ (المؤمنون : آیت 18)

اور ہم نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ کچھ پانی اتارا، پھر اسے زمین میں ٹھہرایا اور یقینا ہم اسے کسی بھی طرح لے جانے پر ضرور قادر ہیں۔

مطلب یہ کہ ہم نے آسمان سے ایک مخصوص مقدار میں کچھ پانی اتارا، جس سے انسان، حیوان، کھیت اور درخت سیراب ہو سکیں۔ میدانوں، صحراؤں اور پہاڑوں میں زندگی باقی رہ سکے اور سمندروں اور ندی نالوں کی ضرورت پوری ہو سکے

ہر سال مخصوص مقدار میں بارش اتارنے کا فائدہ

اگر اس مخصوص مقدار سے زیادہ بارش برستی تو سمندر خشکی پر چڑھ کر زندگی کا سلسلہ نیست و نابود کر دیتے اور اگر کم برستی تو انسان، حیوان، درخت اور کھیت زندہ نہ رہ سکتے۔

اگر وہ سیکڑوں ہزاروں مربع میل میں پھیلے ہوئے بادلوں کا کروڑوں اربوں ٹن پانی ایک ہی وقت میں زمین پر گرا دے تو نہ کوئی جان دار اس بوجھ کو برداشت کر سکے، نہ کوئی پودا اور نہ کوئی مکان باقی رہ جائے جس میں کوئی شخص سکونت اختیار کر سکے

مستدرک حاکم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے :

[ مَا مِنْ عَامٍ أَمْطَرَ مِنْ عَامٍ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يُصَرِّفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ ثُمَّ قَرَأَ : « وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوْا » الفرقان : ۵۰ ]

[ مستدرک حاکم : 403/2، ح : ۳۵۲۰۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : 460/5، ح : ۲۴۶۱ ]

’’کوئی سال ایسا نہیں جس میں دوسرے کسی سال کی نسبت بارش زیادہ ہوتی ہو، لیکن اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے بارش میں کمی بیشی کرتا ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: ’’اور بلاشبہ یقینا ہم نے اسے ان کے درمیان پھیر پھیر کر بھیجا، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔‘‘

ابن عاشور لکھتے ہیں :

’’جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بارش زمین پر ہر سال مجموعی طور پر ایک جیسی ہوتی ہے اور یہی بات سیکڑوں برس پہلے وحی کے ذریعے سے بتا دی گئی تھی۔‘‘

تفسیر القرآن الكريم

اللہ تعالیٰ پانی اتارنے کے بعد اسے کیسے محفوظ رکھتے ہیں

فرمایا :

وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ (المؤمنون :آیت 18)

اور ہم نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ کچھ پانی اتارا، پھر اسے زمین میں ٹھہرایا اور یقینا ہم اسے کسی بھی طرح لے جانے پر ضرور قادر ہیں۔

آسمانوں سے برسنے والا پانی اللہ کے حکم سے مختلف صورتوں میں زمین پر ٹھہر جاتا ہے۔

پہلی صورت

اس میں سے کچھ چشموں کی صورت میں نمودار ہو جاتا ہے، کچھ زیر زمین محفوظ ہو جاتا ہے، جسے لوگ کنووں وغیرہ کی صورت میں نکال کر استعمال کرتے ہیں

جیسا کہ فرمایا :

« اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَلَكَهٗ يَنَابِيْعَ فِي الْاَرْضِ » [الزمر : ۲۱ ]

’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے کچھ پانی اتارا، پھر اسے چشموں کی صورت زمین میں چلایا۔‘‘

دوسری صورت

اور کچھ پانی ندی نالوں اور دریاؤں کی صورت اختیار کر جاتا ہے جس سے لوگ اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں، خود پیتے ہیں، غسل کرتے ہیں، کپڑے وغیرہ دھوتے ہیں، جانوروں کو پلاتے ہیں، کھیتیاں اور باغات سیراب کرتے ہیں

جیسا کہ فرمایا :

« اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتْ اَوْدِيَةٌۢ بِقَدَرِهَا » [ الرعد : ۱۷]

’’اس نے آسمان سے کچھ پانی اتارا تو کئی نالے اپنی اپنی وسعت کے مطابق بہ نکلے۔‘‘

تیسری صورت

اور بارش کا کچھ پانی سمندر کی صورت میں ذخیرہ ہو جاتا ہے، جو دوبارہ بارش کا اور انسان کے بے شمار منافع و فوائد کا ذریعہ بنتا ہے۔

اللہ تعالیٰ چاہے تو ساری دنیا کا پانی ختم کر دے

فرمایا :

وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ (المؤمنون :آیت 18)

اور ہم نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ کچھ پانی اتارا، پھر اسے زمین میں ٹھہرایا اور یقینا ہم اسے کسی بھی طرح لے جانے پر ضرور قادر ہیں۔

وَ اِنَّا عَلٰى ذَهَابٍۭ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَ : کا مطلب یہ کہ جس طرح ہم نے پانی اتارا ہے اسے لے جا بھی سکتے ہیں، پھر کون ہے جو اسے واپس لا سکے؟

مثلاً ہم بارش روک دیں یا برسنے والا پانی گندا کر دیں جو پینے اور استعمال کے قابل ہی نہ رہے، یا جس طرح یہ آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مرکب ہے تو ’’كُنْ‘‘ کہہ کر اسے پھر گیس میں بدل دیں، یا زمین میں اتنا گہرا لے جائیں کہ تم نکال ہی نہ سکو، جیسا کہ فرمایا :

« قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَّاْتِيْكُمْ بِمَآءٍ مَّعِيْنٍ » [ الملک : ۳۰ ]

’’کہہ دے کیا تم نے دیکھا اگر تمھارا پانی گہرا چلا جائے تو کون ہے جو تمھارے پاس بہتا ہوا پانی لائے گا؟‘‘

ایک ملحد کا عبرتناک واقعہ

اس آیت سے تعلق رکھنے والا ایک عجیب واقعہ صاحبِ کشاف نے ذکر کیا ہے کہ ایک ملحد کے پاس یہ آیت پڑھی گئی تو اس نے کہا کہ (اگر وہ پانی گہرا چلا جائے تو) کسیاں اور بیلچے اسے نکال لائیں گے، تو اس کی آنکھوں کا پانی خشک ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اور اپنی آیات کی گستاخی سے اپنی پناہ میں رکھے۔ (آمین)

تفسیر القرآن الكريم

اللہ تعالیٰ چاہے تو سمندر کو آگ لگا سکتا ہے

فرمایا :

وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ (التكوير : 6)

اور جب سمندر بھڑکائے جائیں گے۔

پانی آکسیجن اور ہائیڈروجن دو گیسوں کا مرکب ہے، جن میں سے ایک جلانے والی اور دوسری جلنے والی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ ہی کی عجیب قدرت ہے کہ ان دونوں کو ملا کر آگ بجھانے والا پانی بنا دیا ہے۔ قیامت کے وقت اللہ کے حکم سے ان دونوں کا ملاپ ختم ہو جائے گا اور وہ اپنے اصل کی طرف لوٹ کر بھڑکانے اور بھڑکنے لگیں گی، جس سے سمندروں کا یہ بے حساب پانی چشم زدن میں اڑ جائے گا۔ بہرحال اللہ کا حکم ہو گا تو سمندر آگ سے بھڑکنے لگیں گے۔

اللہ تعالیٰ چاہے تو ساری دنیا کا پانی نمکین کردے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہم چاہیں تو اسے سخت نمکین بنا دیں جو پیا ہی نہ جا سکے

فرمایا :

« اَفَرَءَيْتُمُ الْمَآءَ الَّذِيْ تَشْرَبُوْنَ (68) ءَاَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْهُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ (69) لَوْ نَشَآءُ جَعَلْنٰهُ اُجَاجًا فَلَوْ لَا تَشْكُرُوْنَ » [ الواقعۃ : ۶۸ تا ۷۰ ]

’’پھر کیا تم نے دیکھا وہ پانی جو تم پیتے ہو؟ کیا تم نے اسے بادل سے اتارا ہے، یا ہم ہی اتارنے والے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے سخت نمکین بنادیں، پھر تم شکر ادا کیوں نہیں کرتے؟‘‘

کھارے اور میٹھے پانی کے فارمولے میں تبدیلی کون کرتا ہے

میٹھے پانی کا فارمولا H2O ہے

اور

نمکین، کھارے پانی کا فارمولا H2O2 ہے

اب سوچیں کہ میٹھے پانی کو نمکین بنانے کے لیے یہ معمولی سی تبدیلی اللہ تعالیٰ کے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہے

اللہ تعالیٰ نے سمندر کو مسخر کررکھا ہے

فرمایا :

وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (النحل : 14)

اور وہی ہے جس نے سمندر کو مسخر کر دیا، تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھائو اور اس سے زینت کی چیزیں کثرت سے نکالو، جنھیں تم پہنتے ہو۔ اور توکشتیوں کو دیکھتا ہے، اس میں پانی کو چیرتی چلی جانے والی ہیں اور تاکہ تم اس کا کچھ فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔

یعنی سمندر، اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان مخلوق ہے کہ جس کے مقابلے میں تم اتنے بھی نہیں جتنا صحرا کے مقابلے میں ریت کا ذرہ، اس پر سوار ہونا اور اس کا تمھیں اپنے سینے پر اٹھائے رکھنا تمھارے بس کی بات نہیں، یہ تو ہم ہیں جو تمھیں کشتیوں میں سوار کرکے اسے تمھارے تابع کر دیتے ہیں، اگر یقین نہ ہو تو ان طوفانوں کو یاد کرو جن کی بلاخیزی سے پہاڑوں جیسے جہاز آنکھ جھپکنے میں اس کی آغوش میں ڈوب جاتے ہیں۔

تفسیر القرآن الكريم

سمندر کو زمین پر آنے سے کون روکتا ہے

اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے سمندر جیسی عظیم مخلوق کو پابند فرما دیا کہ اپنی حدود میں رہے اور انسان کو اپنی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے دے۔

ورنہ اگر بپھر جائے تو خشکی پر چڑھ کر ہر قسم کی زندگی درہم برہم کر ڈالے

جاپان اور سری لنکا کا سونامی عبرت کے لیے کافی ہے

چند سال پہلے جاپان اور سری لنکا میں آنے والے سمندری طوفان سونامی کو یاد کریں جب اللہ تعالیٰ نے مسخر کیے ہوئے سمندر کو بپھرنے کی ہلکی سی اجازت دی تو کیسے انسانوں کی بستیوں کی بستیاں اور شہروں کے شہر پانی میں ڈوب گئے تھے

سمندر میں پھنسے کو کون بچاتا ہے

فرمایا :

قُلْ مَنْ يُنَجِّيكُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَئِنْ أَنْجَانَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ (الأنعام : 63)

کہہ کون تمھیں خشکی اور سمندر کے اندھیروں سے نجات دیتا ہے؟ تم اسے گڑ گڑا کر اور خفیہ طریقے سے پکارتے ہو کہ بے شک اگر وہ ہمیں اس سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر ادا کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

قُلِ اللَّهُ يُنَجِّيكُمْ مِنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنْتُمْ تُشْرِكُونَ (الأنعام : 64)

کہہ دے اللہ تمھیں اس سے نجات دیتا ہے اور ہر بے قراری سے، پھر تم شریک بناتے ہو۔

اللہ تعالیٰ کا پانی پر مکمل کنٹرول ہے

ایک مثال، اشرفیوں سے بھری لکڑی سمندر کی لہروں میں

ایک آدمی نے دوسرے آدمی سے ادھار لی ہوئی رقم واپس کرنی تھی دونوں کے ممالک کے درمیان سمندر تھا معاہدے کا وقت سر پر آگیا اس نے لکڑی میں رقم رکھ کر لکڑی سمندر میں پھینک دی اور اللہ تعالیٰ سے کہا کہ سمندر کو حکم دے کہ میری امانت مطلوبہ آدمی تک پہنچا دے تو پھر واقعی سمندر نے وہ امانت اس آدمی تک پہنچائی

بخاری

ایک اور مثال، موسی علیہ السلام کے صندوق کو ڈوبنے نہیں دیا

موسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترمہ نے موسیٰ علیہ السلام کو صندوق میں بند کر کے پانی میں پھینک دیا پانی کا کام ہے ڈبونا، مگر جب پانی کا مالک کہے کہ نہیں ڈبونا تو نہیں ڈبوتا، اب اللہ نے سمندر کو حکم دیا کہ نہ صرف یہ کہ اسے ڈوبنے نہیں دینا بلکہ فرعون کے گھر کی طرف ساحل پر لیجانا ہے تو یقین کریں کہ سمندر نے ویسے ہی کیا جیسے اسے کہا گیا تھا

تیسری مثال، ایک ہی سمندر میں موسیٰ علیہ السلام کے لیے راستے اور فرعون کے لیے تباہی

فَأَتْبَعُوهُمْ مُشْرِقِينَ (الشعراء : 60)

تو انھوں نے سورج نکلتے ان کا پیچھا کیا۔

فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَى إِنَّا لَمُدْرَكُونَ (الشعراء : 61)

پھر جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا بے شک ہم یقینا پکڑے جانے والے ہیں۔

قَالَ كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ (الشعراء : 62)

کہا ہرگز نہیں! بے شک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے ضرور راستہ بتائے گا۔

فَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنِ اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ (الشعراء : 63)

تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مار، پس وہ پھٹ گیا تو ہر ٹکڑا بہت بڑے پہاڑ کی طرح ہوگیا۔

وَأَزْلَفْنَا ثَمَّ الْآخَرِينَ (الشعراء : 64)

اور وہیں ہم دوسروں کو قریب لے آئے۔

وَأَنْجَيْنَا مُوسَى وَمَنْ مَعَهُ أَجْمَعِينَ (الشعراء : 65)

اور ہم نے موسیٰ کو اور جو اس کے ساتھ تھے، سب کو بچالیا۔

ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِينَ (الشعراء : 66)

پھر دوسروں کو ڈبو دیا۔

اللہ تعالیٰ کا پانی پہ اتنا کنٹرول ہے کہ دو مختلف پانی اللہ کی مرضی کے بغیر مِکس نہیں ہوسکتے

فرمایا :

وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

اور اس نے دو سمندروں کے درمیان رکاوٹ بنا دی؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ بلکہ ان کے اکثر نہیں جانتے۔

اور فرمایا :

وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَحْجُورًا (الفرقان : 53)

اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا دیا، یہ میٹھا ہے ، پیاس بجھانے والا اور یہ نمکین ہے کڑوا اور اس نے ان دونوں کے درمیان ایک پردہ اور مضبوط آڑ بنا دی۔

اور فرمایا :

مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ (الرحمن : 19)

اس نے دو سمندروں کو ملادیا ، جو اس حال میں مل رہے ہیں کہ۔

بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ (الرحمن : 20)

ان دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے (جس سے) وہ آگے نہیں بڑھتے۔

مشاہداتی مثالیں

دو سمندروں کو اس طرح ملانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، کسی اور کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ اس کا واضح مشاہدہ جزیروں پر ہوتا ہے، جہاں سمندر کے سخت نمکین پانی کے ساتھ ہی میٹھے پانی کا دریا چل رہا ہوتا ہے۔

بحرین کے قریب بھی سمندر کی تہ میں آب شیریں کے چشمے ہیں جن سے لوگ کچھ مدت پہلے تک پینے کا پانی حاصل کرتے رہے ہیں۔

خلیج فارس میں ایک مقام ہے کہ وہاں آب شور کے نیچے آب شیریں کے چشمے ہیں

اسی طرح زمین کے نیچے موجود پانی کے دو سمندر ہیں، جن میں سے ہر ایک کی رو دوسرے کی رو کے بالکل ساتھ چل رہی ہے، ایک جگہ نلکا لگائیں تو میٹھا پانی نکلتا ہے اور بعض اوقات اس کے قریب ہی دوسرا نلکا لگانے سے نمکین پانی نکلتا ہے، حتیٰ کہ دیوار کی ایک طرف کا پانی میٹھا ہوتا ہے اور دوسری طرف کا نمکین، نہ یہ اس کی نمکینی میں دخل دیتا ہے اور نہ وہ اس کی شیرینی میں۔

صرف سمندر ہی نہیں بلکہ سمندری مخلوقات بھی اللہ تعالیٰ کے لشکر ہیں

مچھلی کے، اللہ تعالیٰ کے تابع ہونے کی مثال

فرمایا :

وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (الصافات : 139)

اور بلاشبہ یونس یقینا رسولوں میں سے تھا۔

إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ (الصافات : 140)

جب وہ بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگ کر گیا۔

فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ (الصافات : 141)

پھر وہ قرعہ میں شریک ہو ا تو ہارنے والوں میں سے ہو گیا۔

فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ (الصافات : 142)

پھر مچھلی نے اسے نگل لیا، اس حال میں کہ وہ مستحق ملامت تھا۔

فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ (الصافات : 143)

پھر اگر یہ بات نہ ہوتی کہ وہ تسبیح کرنے والوں سے تھا۔

لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (الصافات : 144)

تو یقینا اس کے پیٹ میں اس دن تک رہتا جس میں لوگ اٹھائے جائیں گے۔

فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ (الصافات : 145)

پھر ہم نے اسے چٹیل میدان میں پھینک دیا، اس حال میں کہ وہ بیمار تھا۔

وَأَنْبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِنْ يَقْطِينٍ (الصافات : 146)

اور ہم نے اس پر ایک بیل دار پودا اگا دیا۔

ایسی مچھلیوں کا وجود کہ جو چاہیں تو ایک زندہ انسان، نگل سکیں

نیلی وہیل دنیا کا سب سے بڑا آبی جانور ہے۔ جس کا وزن 190 ٹن ہے ( ایک ٹن میں 1000 کلو گرام ھوتے ہیں، یعنی ٹوٹل وزن 190000 کلو بنتا ہے، جوکہ 4750 من ہے)

اور لمبائی 33 میٹر یعنی تقریباً 100 فٹ تک ہو سکتی ہے۔

ایک بالغ نیلی وھیل ایک دن میں تقریبا 3600 کلوگرام کرِل (چھوٹے آبی جانور) کھا سکتی ہے۔ نیلی وہیل ایک نوالے میں 500 کلوگرام کرل(Krill) یا چھوٹی مچھلیاں کھا سکتی ہے

اس کا دل ایک کار جتنا ہوتا ھے

اس مچھلی کی زبان ایک ہاتھی کے وزن کے برابر ھوتی ھے ایک اوسط ہاتھی کا وزن 3 ٹن تک ہوتا ھے

وہیل کا منہ اتنا بڑا ہے کہ اس میں بیس پچیس افراد بڑی آسانی سے کھڑے ہو سکتے ہیں

اس کا حلق اتنا کھلا اور فراخ ہوتا ہے کہ ایک موٹے تازے بندے کو بڑی آسانی سے نگل سکتی ہے اور جب چاہے باہر اگل بھی سکتی ہے

سمندر میں چلنے والے جہاز اللہ تعالیٰ کی قدرت کے شاہکار

یہ بھی اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت ہے کہ پانی جس میں ہر چیز غرق ہو جاتی ہے، حتیٰ کہ سوئی بھی اس میں ڈوب جاتی ہے، اسے اس طرح بنایا کہ جب وزن اور حجم کی خاص نسبت رکھنے والی کوئی چیز اس میں ڈالی جائے تو وہ اسے اٹھا لیتا ہے، حتیٰ کہ لاکھوں ٹن وزن اٹھانے والے بحری جہاز پانی کو چیرتے ہوئے چلے جاتے ہیں، مگر پانی اللہ کے حکم سے انھیں اٹھاتا بھی ہے، راستہ بھی دیتا ہے اور خوراک بھی مہیا کرتا ہے۔

فرمایا :

وَمِنْ آيَاتِهِ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ (الشورى : 32)

اور اسی کی نشانیوں سے سمندر میں چلنے والے جہاز ہیں، جو پہاڑوں جیسے ہیں۔

اور فرمایا :

وَلَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَآتُ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ (الرحمن : 24)

اور اسی کے ہیں بادبان اٹھائے ہوئے جہاز سمندر میں، جو پہاڑوں کی طرح ہیں۔

بڑے بڑے حجم رکھنے والے بحری بیڑے

آج دنیا میں ایسے بڑے بڑے قد آور بحری جہاز بنائے جا چکے ہیں کہ دیکھنے والا دھنگ رہ جاتا ہے کہ یہ جہاز ہے یا کوئی شہر آباد ہے سینکڑوں فٹ اونچے پانی سے باہر نظر آ رہے ہوتے ہیں اور اندر کتنے ہیں رب جانتا ہے

سمندر کی چھاتی پہ کھڑا جہاز ہے کہ اس کے اندر پلے گراؤنڈز ہیں، سویمنگ پول ہیں، اڑنے والے جہازوں کے رن وے ہیں،گاڑیوں کی قطاریں ہیں، مال گودام بنے ہیں، اسلحہ گودام ہیں ہزاروں لاکھوں ٹن وزن لوڈ ہے بڑے بڑے شاپنگ ہال بنے ہوئے ہیں

مگر رب تعالیٰ کی قدرت ہے کہ ڈوبنے نہیں دیتا

کسی دانا نہیں کہا ہے

من أراد أن ینظر الی عجائب قدرت اللہ فلیرکب البحر

کہ جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عجائبات دیکھنا چاہتا ہے وہ سمندر میں سفر کر کے دیکھ لے

ڈبونے کا عذاب

اللہ تعالیٰ غرق کرنے پر بھی پوری طرح قادر ہے

فرمایا :

فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ فَمِنْهُمْ مَنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُمْ مَنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُمْ مَنْ أَغْرَقْنَا وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (العنكبوت : 40)

تو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ میں پکڑ لیا، پھر ان میں سے کوئی وہ تھا جس پر ہم نے پتھرائو والی ہوا بھیجی اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے چیخ نے پکڑ لیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے غرق کر دیا اور اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے اور لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے۔

مانگی ہوئی بارش عذاب بن گئی

عزیز بھائیو

حالیہ دنوں میں وطن عزیز پاکستان کی سیلابی صورتحال عذاب الہی کا منظر پیش کر رہی ہے شاید کہ یہ ہمارے گناہوں کی پکڑ ہے

یہ اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے جو بپھرا ہوا ہے

یہ وہی بارشیں ہیں جو دو مہینے پہلے ہم طلب کر رہے تھے اور بارشوں کی آمد کی خبریں سن کر خوش ہورہے تھے

عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا : [ مَا رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ ضَاحِكًا حَتّٰی أَرٰی مِنْهُ لَهَوَاتِهِ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ، قَالَتْ وَكَانَ إِذَا رَأٰی غَيْمًا أَوْ رِيْحًا عُرِفَ فِيْ وَجْهِهِ، قَالَتْ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الْغَيْمَ فَرِحُوْا، رَجَاءَ أَنْ يَكُوْنَ فِيْهِ الْمَطَرُ، وَ أَرَاكَ إِذَا رَأَيْتَهُ عُرِفَ فِيْ وَجْهِكَ الْكَرَاهِيَةُ، فَقَالَ يَا عَائِشَةُ! مَا يُؤْمِنِّيْ أَنْ يَكُوْنَ فِيْهِ عَذَابٌ، عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّيْحِ، وَقَدْ رَأٰی قَوْمٌ الْعَذَابَ فَقَالُوْا : «هٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا » ] [بخاري، التفسیر، تفسیر سورۃ الأحقاف : ۴۸۲۸، ۴۸۲۹ ]

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ مجھے آپ کا تالو میں لٹکا ہوا گوشت کا ٹکڑا نظر آ جائے، آپ صرف مسکراتے تھے۔‘‘ فرماتی ہیں : ’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بادل یا ہوا دیکھتے تو وہ آپ کے چہرے میں پہچانی جاتی۔‘‘ انھوں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! لوگ جب بادل دیکھتے ہیں تو خوش ہو جاتے ہیں، اس امید پر کہ اس میں بارش ہو گی اور میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ جب اسے دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے میں ناگواری پہچانی جاتی ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اے عائشہ ! مجھے اس سے کیا چیز بے خوف کرتی ہے کہ اس میں کوئی عذاب ہو؟ ایک قوم کو آندھی کے ساتھ عذاب دیا گیا اور ایک قوم نے عذاب دیکھا تو کہنے لگے : ’’یہ بادل ہم پر بارش برسانے والا ہے۔‘‘

ہر سال ایک دو جھٹکے لگتے ہیں مگر لوگ پھر بھی نصیحت نہیں پکڑتے

فرمایا :

أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ (التوبة : 126)

اور کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں، پھر بھی وہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی وہ نصیحت پکڑتے ہیں۔

2005 سے 2022 تک ہر سال آزمائشوں کا مشاہدہ

2005 میں زلزلہ

ہیپاٹائٹس

امریکی جنگ کے اثرات

سیاسی انتشار

دھماکے

ڈرون اٹیک

اولے

ڈینگی وائرس

سیلاب

لوڈشیڈنگ

سیاسی دھنگا مشتی

قحط سالی

سیلاب

زلزلہ

کرونا وائرس

کرونا وائرس

کرونا وائرس

لمپی وائرس

مہنگائی

یہ جھٹکے اس لیے ہیں تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں

فرمایا :

« وَ لَنُذِيْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ » [ السجدۃ : ۲۱ ]

’’اور یقینا ہم انھیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔‘‘

یہ دعا کثرت سے کریں

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب بجلی کی گرج اورکڑک سنتے تو فرماتے: ‘اللَّهُمَّ لاَ تَقْتُلْنَا بِغَضَبِكَ وَلاَ تُهْلِكْنَا بِعَذَابِكَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِكَ’ ترمذی، نسائی، حسن