بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
پرندوں، چوپائیوں اور حیوانات کے ساتھ حسن سلوک

إنَّ الحَمْدَ لِلَّهِ نَحمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، مَن يَهْدِهِ اللَّهُ فلا مُضِلَّ له، وَمَن يُضْلِلْ فلا هَادِيَ له، وَأَشْهَدُ أَنْ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ له، وَأنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسولُهُ،يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ۔يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلا سَدِيدًا۔يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَن يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًاo أما بعدُ فإنَّ خيرَ الحديثِ كتابُ اللهِ وخيرَ الهديِ هديُ محمدٍ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ وشرَّ الأمورِ محدثاتُها وكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ وكلُّ ضلالةٍ في النارِo
اعوذ بالله من الشيطان الرجيمo بسم اللہ الرحمٰن الرحیمo وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ o (سورة البقرة: 195)
اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور سلوک و احسان کرو اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔
۔۔۔وضاحت ۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہر چیز کے ساتھ احسان کا حکم دیتا ہے:
صحیح بخاری 2320میں ہے
مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیتی میں بیج بوئے ، پھر اس میں سے پرند یا انسان یا جانور جو بھی کھاتے ہیں وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے ۔
الجامع الصغير میں ہے:
مَن رَحِمَ ولو ذَبِيحةَ عُصفُورٍ، رَحِمَهُ اللهُ يومَ القِيامةِ۔
جس نے رحم کیا خواہ چڑیا کو ذبح کرتےہوئے ، اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اس پر رحم کرے گا۔
جانور کو ذبح کرنے میں بھی اذیت نہ دی جائے:
صحیح مسلم 1955 / 5055میں ہے
ثِنْتَانِ حَفِظْتُهُما عن رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، قالَ: إنَّ اللَّهَ كَتَبَ الإحْسَانَ علَى كُلِّ شيءٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فأحْسِنُوا القِتْلَةَ، وإذَا ذَبَحْتُمْ فأحْسِنُوا الذَّبْحَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ، فَلْيُرِح ذَبِيحَتَهُ۔
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ : دو باتیں ہیں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے یاد رکھی ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ سب سے اچھا طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس لئے جب تم ( قصاص یا حد میں کسی کو ) قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو ، اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو ، تم میں سے ایک شخص ( جو ذبح کرنا چاہتا ہے ) وہ اپنی ( چھری کی ) دھار کو تیز کر لے اور اپنے ذبح کیے جانے والے جانور کو اذیت سے بچائے ۔‘‘
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کی داد رسی کی۔
سنن ابو داود 2549 میں ہے
الراوي : عبدالله بن جعفر بن أبي طالب. فدخلَ حائطًا لرَجُلٍ مِن الأنصارِ فإذا جَملٌ، فلَمَّا رأى النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ حنَّ وذرِفَت عيناهُ، فأتاهُ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ فمَسحَ ذِفراهُ فسَكَتَ، فقالَ: مَن ربُّ هذا الجَمَلِ، لمن هذا الجمَلُ؟ فَجاءَ فتًى منَ الأنصارِ فَقالَ: لي يا رسولَ اللَّهِ فَقالَ: أفلا تتَّقي اللَّهَ في هذِهِ البَهيمةِ الَّتي ملَّكَكَ اللَّهُ إيَّاها ؟ فإنَّهُ شَكا إليَّ أنَّكَ تُجيعُهُ وتُدئبُهُ.
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے تو وہاں ایک اونٹ تھا ، جب اس نے نبی ﷺ کو دیکھا تو رونی سی آواز نکالی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ، نبی ﷺ اس کے پاس آئے اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ چپ ہو گیا۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا :’’ اس اونٹ کا مالک کون ہے ؟ یہ کس کا اونٹ ہے ؟‘‘ تو ایک انصاری جوان آیا اور کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ میرا ہے ۔ آپ نے فرمایا :’’ کیا تو اس جانور کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتا جس کا اس نے تجھ کو مالک بنایا ہے ‘ اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تو اسے بھوکا رکھتا اور بہت تھکاتا ہے ۔‘‘
ابو داود 2548 میں ہے صحیح
الراوي: سهل ابن الحنظلية الأنصاري
مرَّ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ببعيرٍ قد لحِقَ ظَهْرُهُ ببطنِهِ فقالَ اتَّقوا اللَّهَ في هذهِ  البَهائمِ  المعجَمةِ  فاركَبوها  صالِحةً  وَ كُلوها صالحةًo
حضرت سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جس کا پیٹ اس کی کمر سے لگ گیا تھا تو آپ نے فرمایا :’’ ان بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، ان پر سواری کرو تو بھلے انداز میں اور کھلاؤ تو بھی عمدہ طرح سے ۔‘‘
سلسلة الأحاديث الصحيحة میں ہے
صحيح على شرط البخاري
خرج رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ في حاجةٍ فمرَّ ببعيرٍ مُناخٍ على باب المسجدِ من أولِ النهارِ ثم مرَّ به آخرَ النَّهارِ وهو على حاله فقال : أين صاحبُ هذا البعيرِ ؟ فابتُغِيَ فلم يُوجدْ فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : اتَّقُوا اللهَ في هذه البهائمِ ثم اركبُوها صِحاحًا واركبوها سِمانًا كالمُتسخِّطِ آنفًاo
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن کے شروع میں کسی کام کے لئے نکلے تو دیکھا کہ ایک اونٹ مسجد کے دروازے پر باندھا ہوا ہے پھر دن کے آخری حصے میں دیکھا تو وہ اونٹ وہیں باندھا ہوا ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کس کا اونٹ ہے ؟ مالک کا کوئی پتا نہ چلا ،تو آپ صلی مرحبا اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان جانوروں کے بارے میں اللہ سے ڈرو یہ صحت مند ہوں اور موٹے تازے ہوں تو ان پر سواری کیا کریں۔ آپ نے غصے کا اظہار کیا۔
کتے اور بلی کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے
صحيح بخاری حدیث نمبر 2466 میں
بيْنَا رَجُلٌ بطَرِيقٍ، اشْتَدَّ عليه العَطَشُ، فَوَجَدَ بئْرًا، فَنَزَلَ فِيهَا، فَشَرِبَ ثُمَّ خَرَجَ، فَإِذَا كَلْبٌ يَلْهَثُ، يَأْكُلُ الثَّرَى مِنَ العَطَشِ، فَقالَ الرَّجُلُ: لقَدْ بَلَغَ هذا الكَلْبَ مِنَ العَطَشِ مِثْلُ الذي كانَ بَلَغَ مِنِّي، فَنَزَلَ البِئْرَ فَمَلَا خُفَّهُ مَاءً، فَسَقَى الكَلْبَ، فَشَكَرَ اللَّهُ له فَغَفَرَ له، قالوا: يا رَسُولَ اللَّهِ، وإنَّ لَنَا في البَهَائِمِ لَأَجْرًا؟ فَقالَ: في كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجرٌ.
نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، ایک شخص راستے میں سفر کر رہا تھا کہ اسے پیاس لگی ۔ پھر اسے راستے میں ایک کنواں ملا اور وہ اس کے اندر اتر گیا اور پانی پیا ۔ جب باہر آیا تو اس کی نظر ایک کتے پر پڑی جو ہانپ رہا تھا اور پیاس کی سختی سے کیچڑ چاٹ رہا تھا ۔ اس شخص نے سوچا کہ اس وقت یہ کتا بھی پیاس کی اتنی ہی شدت میں مبتلا ہے جس میں میں تھا ۔ چنانچہ وہ پھر کنویں میں اترا اور اپنے جوتے میں پانی بھر کر اس نے کتے کو پلایا ۔اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا یہ عمل مقبول ہوا ۔ اور اس کی مغفرت کر دی گئی ۔ صحابہ نے پوچھا ، یا رسول اللہ کیا جانوروں کے سلسلے میں بھی ہمیں اجر ملتا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ، ہر جاندار مخلوق کے سلسلے میں اجر ملتا ہے ۔
صحیح بخاری 3318میں ہے
دَخَلَتِ امْرَأَةٌ النَّارَ في هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تُطعِمْهَا، ولَمْ تَدَعهَا تَأْكُلُ مِن خَشَاشِ الأرْضِ .
نبی کریم ﷺ نے بیان کیا ” ایک عورت ایک بلی کے سبب سے دوزخ میں گئی ، اس نے بلی کو باندھ کر رکھا نہ تو اسے کھانا دیا اور نہ ہی چھوڑا کہ وہ کیڑے مکوڑے کھا کر اپنی جان بچا لیتی ۔“
پرندوں اور چیونٹیوں کے ساتھ حسن سلوک
ابو داود 5268 ۔ صححه الألباني میں ہے
كنا مع رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ في سفرٍ فانطلق لحاجته فرأينا حمَّرةً معها فرخان فأخذْنا فرخَيها فجاءت الحُمَّرةُ فجعلت تفرشُ فجاء النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال من فجع هذه بولدِها ؟ رُدُّوا ولدَها إليها . ورأى قريةَ نملٍ قد حرقناها، فقال : من حرقَ هذه ؟ قلنا : نحن، قال : إنه لا ينبغي أن يعذِّبَ بالنارِ إلا ربُّ النارِ ۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ۔ آپ قضائے حاجت کے لیے گئے ، تو ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ دو بچے بھی تھے ۔ ہم نے اس کے بچے پکڑ لیے تو ان کی ماں اپنے بچوں پر گرنے لگی ۔ نبی ﷺ تشریف لائے اور پوچھا :’’ اس کو اس کے بچوں سے کس نے پریشان کیا ہے ؟ اس کے بچے اس کو واپس کر دو۔۔‘‘ اور آپ نے دیکھا کہ چیونٹیوں کا ایک بل ہم نے جلا ڈالا ہے ۔ تو آپ نے پوچھا :’’ اس کو کس نے جلایا ہے ؟‘‘ ہم نے بتایا کہ ہم نے جلایا ہے ۔ آپ نے فرمایا :’’ آگ کے رب ( اللہ تعالیٰ) کے سوا کسی کو روا نہیں کہ کسی کو آگ سے عذاب دے
صحیح بخاری 6129 میں ہے
الراوي : أنس بن مالك. إنْ كانَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لَيُخَالِطُنَا، حتَّى يَقُولَ لأخٍ لي صَغِيرٍ: يا أبَا عُمَيْرٍ، ما فَعَلَ النُّغَيْرُ.
نبی کریم ﷺ ہم بچوں سے بھی دل لگی کرتے ، یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی ابوعمیر نامی سے ( مزاحاً ) فرماتے يا أبا عمير ما فعل النغير‏‏
اے ابو عمیر ! تیری نغیر نامی چڑیا تو بخیر ہے ؟
مرغ کو باندھ کر نشانہ بازی کا ظلم
صحیح بخاری 5513 میں ہے
الراوي : أنس بن مالك. دَخَلْتُ مع أنَسٍ، علَى الحَكَمِ بنِ أيُّوبَ، فَرَأَى غِلْمَانًا، أوْ فِتْيَانًا، نَصَبُوا دَجَاجَةً يَرْمُونَهَا، فَقالَ أنَسٌ: نَهَى النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أنْ تُصْبَرَ البَهَائِمُ.
ہشام بن زید کہتے ہیں ، میں انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ حکم بن ایوب کے یہاں گیا ، انہوں نے وہاں چند لڑکوں کو یا نوجوانوں کو دیکھا کہ ایک مرغی کو باندھ کر اس پر تیر کا نشانہ لگا رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے زندہ جانور کو باندھ کر مارنے سے منع فرمایا ہے ۔
صحیح بخاری 5514میں ہے
الراوي : عبدالله بن عمر. أنَّهُ دَخَلَ علَى يَحْيَى بنِ سَعِيدٍ، وغُلَامٌ مِن بَنِي يَحْيَى رَابِطٌ دَجَاجَةً يَرْمِيهَا، فَمَشَى إلَيْهَا ابنُ عُمَرَ حتَّى حَلَّهَا، ثُمَّ أقْبَلَ بهَا وبِالْغُلَامِ معهُ فَقالَ: ازْجُرُوا غُلَامَكُمْ عن أنْ يَصْبِرَ هذا الطَّيْرَ لِلْقَتْلِ، فإنِّي سَمِعْتُ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ نَهَى أنْ تُصْبَرَ بَهِيمَةٌ أوْ غَيْرُهَا لِلْقَتْلِ.
وہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے تھے کہ وہ یحیی بن سعید کے یہاں تشریف لے گئے ۔ یحیی کی اولاد میں سے ایک بچہ ایک مرغی باندھ کر اس پر تیر کا نشانہ لگا رہا تھا ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مرغی کے پاس گئے اور اسے کھول لیا پھر مرغی کو اور بچے کو اپنے ساتھ لائے اور یحیی سے کہا کہ اپنے بچہ کو منع کر دو کہ اس جانور کو باندھ کر نہ مارے کیونکہ میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے آپ نے کسی جنگلی جانور یا کسی بھی جانور کو باندھ کر جان سے مارنے سے منع فرمایا ہے ۔
صحیح بخاری 5515میں ہے
( يحكي التَّابعيُّ سعيدُ بنُ جُبَيرٍ ) كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ، فَمَرُّوا بفِتْيَةٍ -أوْ بنَفَرٍ- نَصَبُوا دَجَاجَةً يَرْمُونَهَا، فَلَمَّا رَأَوْا ابْنَ عُمَرَ تَفَرَّقُوا عَنْهَا، وقالَ ابنُ عُمَرَ: مَن فَعَلَ هذا؟! إنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم لَعَنَ مَن فَعَلَ هذا. وفي رِوايةٍ: لعَنَ النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم مَن مَثَّل بالحيوانِ.
سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا وہ چند جوانوں یا ( یہ کہا کہ ) چند آدمیوں کے پاس سے گزرے جنہوں نے ایک مرغی باندھ رکھی تھی اور اس پر تیر کا نشانہ لگا رہے تھے جب انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو وہاں سے بھاگ گئے ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا یہ کون کر رہا تھا ؟ ایسا کرنے والوں پر نبی کریم ﷺ نے لعنت بھیجی ہے۔
ہمارے ہاں چند ظالمانہ کھیل
کتوں کی لڑائی۔ مرغوں کی لڑائی۔ کتے اور مرغے آپس میں ایک دوسرے کو لہولہان کر دیتے ہیں جبکہ لوگ محظوظ ہو رہے ہوتے ہیں ۔ بڑی گراؤنڈ میں چاروں طرف لوگ تماشائی ہوتے ہیں اور خرگوش کے پیچھے شکاری کتے چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔
گائے اور بھینس سواری کرنے کے لئے نہیں ہوتیں
صحیح بخاری 3471میں ہے
الراوي: أبو هريرة. صَلَّى رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ، ثُمَّ أقْبَلَ علَى النَّاسِ، فَقالَ: بيْنَا رَجُلٌ يَسُوقُ بَقَرَةً إذْ رَكِبَهَا فَضَرَبَهَا، فَقالَتْ: إنَّا لَمْ نُخْلَقْ لِهذا، إنَّما خُلِقْنَا لِلْحَرْثِ، فَقالَ النَّاسُ: سُبْحَانَ اللَّهِ! بَقَرَةٌ تَكَلَّمُ، فَقالَ: فإنِّي أُومِنُ بهذا أنَا، وأَبُو بَكْرٍ، وعُمَرُ وما هُما ثَمَّ-
رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز پڑھی پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ” ایک شخص ( بنی اسرائیل کا ) اپنی گائے ہانکے لیے جا رہا تھا کہ وہ اس پر سوار ہو گیا اور پھر اسے مارا۔ اس گائے نے ( بقدرت الٰہی ) کہا کہ ہم جانور سواری کے لیے نہیں پیدا کئے گئے ۔ ہماری پیدائش تو کھیتی کے لیے ہوئی ہے ۔“ لوگوں نے کہا سبحان اللہ ! گائے بات کرتی ہے ۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں اور ابوبکر اور عمر بھی ۔حالانکہ یہ دونوں وہاں موجود بھی نہیں تھے ۔
زندہ جانور کا گوشت کاٹنا ظلم ہے
سنن ابن ماجہ 3216 صححه الألباني
ما قُطِعَ منَ البَهيمةِ وَهيَ حيَّةٌ فما قُطِعَ منها فَهوَ مَيتةٌ . نبی ﷺ نے فرمایا :
اگر جانور سے کچھ کاٹ لیا جائے جب کہ وہ زندہ ہو تو جو کچھ اس سے کاٹا گیا ، وہ مردار ہے
جانوروں کے چہرے پر داغنا منع ہے ۔
داغنا سے مراد کہ لوہا گرم کر کے جانور کی پہچان کے لئے اس کے جسم پر نشانی لگائی جائے ۔ نشانی لگانے کے لئے جانور کی پشت کے قریب داغنے کی گنجائش اور اجازت ہے لیکن چہرہ خواہ جانور کا ہی کیوں نہ ہو اس کا بھی احترام کیا گیا ہے۔ انسانوں کو بھی سزا دینے کے لئے چہرے پر مارنا منع ہے ۔
صحیح مسلم 2116 / 5550میں ہے
الراوي : جابر بن عبدالله نَهَى رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ، عَنِ الضَّرْبِ في الوَجهِ، وَعَنِ الوَسْمِ في الوَجهِ. رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ ( جانور کو ) منہ پر مارا جائے یا منہ پر نشانی ثبت کی جائے ۔
صحیح مسلم 2117 / 5552میں ہے
عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَيْهِ حِمَارٌ قَدْ وُسِمَ فِي وَجْهِهِ فَقَالَ لَعَنَ اللَّهُ الَّذِي وَسَمَهُ ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے قریب سے ایک گدھا گزرا جس کے منہ پر داغا گیا تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جس نے اسے ( منہ پر) داغا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہو ۔‘‘
صحیح مسلم 2118 / 5553 میں ہے
وَرَأَى رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ حِمَارًا مَوْسُومَ الوَجْهِ، فأنْكَرَ ذلكَ. قالَ: فَوَاللَّهِ لا أَسِمُهُ إلَّا في أَقْصَى شَيءٍ مِنَ الوَجْهِ، فأمَرَ بحِمَارٍ له، فَكُوِيَ في جَاعِرَتَيْهِ، فَهو أَوَّلُ مَن كَوَى الجَاعِرَتَيْنِ.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا ، وہ فرما رہے تھے : رسول اللہ ﷺ نے ایک گدھا دیکھا جس کے چہرے کو نشانی لگانے کے لیے داغا گیا تھا ، آپ نے اس کو بہت برا خیال کیا ، انھوں ( حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ) نے کہا : اللہ کی قسم ! میں جو حصہ چہرے سے سب سے زیادہ دور ہو اس کے علاوہ کسی جگہ نشانی ثبت نہیں کرتا ۔ پھر انھوں نے اپنے گدھے کے بارے میں حکم دیا ، تو اس کی سرین ( کے وہ حصے جہاں دم ہلاتے وقت لگتی ہے ) پر نشانی ثبت کی گئی ،
حضرت عبداللہ بن عباس پہلے آدمی ہیں جنھوں نے اس جگہ داغنے کا آغاز کیا ۔
وحشی جانور اور درندے پرندے اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں
لیکن انسان دوسرے انسان کی جان مال اور عزت کا دشمن ہے ۔
صحیح بخاری 6000میں ہے
جَعَلَ اللَّهُ الرَّحْمَةَ مِئَةَ جُزْءٍ، فأمْسَكَ عِنْدَهُ تِسْعَةً وتِسْعِينَ جُزْءًا، وأَنْزَلَ في الأرْضِ جُزْءًا واحِدًا، فَمِنْ ذلكَ الجُزْءِ يَتَراحَمُ الخَلْقُ، حتَّى تَرْفَعَ الفَرَسُ حافِرَها عن ولَدِها، خَشْيَةَ أنْ تُصِيبَهُ.
میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے رحمت کے سو حصے بنائے اور اپنے پاس ان میں سے ننانوے حصے رکھے صرف ایک حصہ زمین پر اتارا اور اسی کی وجہ سے تم دیکھتے ہو کہ مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے ، یہاں تک کہ گھوڑی بھی اپنے بچہ کو اپنے سم نہیں لگنے دیتی بلکہ سموں کو اٹھا لیتی ہے کہ کہیں اس سے اس بچہ کو تکلیف نہ پہنچے ۔
صحیح مسلم 2752 / 6974میں ہے
إنَّ لِلَّهِ مِئَةَ رَحْمَةٍ أَنْزَلَ منها رَحمَةً وَاحِدَةً بيْنَ الجِنِّ وَالإِنْسِ وَالْبَهَائِمِ وَالْهَوَامِّ، فَبِهَا يَتَعَاطَفُونَ، وَبِهَا يَتَرَاحَمُونَ، وَبِهَا تَعْطِفُ الوَحْشُ علَى وَلَدِهَا، وَأَخَّرَ اللَّهُ تِسْعًا وَتِسْعِينَ رَحْمَةً، يَرْحَمُ بِهَا عِبَادَهُ يَومَ القِيَامَةِ.
عطاء نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ، انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ
آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں ، ان میں سے ایک رحمت اس نے جن و انس ، حیوانات اور حشرات الارض کے درمیان نازل فرما دی ، اسی (ایک حصے کے ذریعے ) سے وہ ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں ، آپس میں رحمت کا برتاؤ کرتے ہیں ، اسی سے وحشی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں مؤخر کر کے رکھ لی ہیں ، ان سے قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا ۔‘‘
جانور نہ ہوتے تو ہم رحمت کی بارش سے محروم ہو جاتے
ابن ماجہ 4019 میں ہے
الراوي : عبدالله بن عمر.
في حديث طويل ….. ولولا البهائمُ لم يُمْطَرُوا .۔ اگر جانور نہ ہوں تو انہیں کبھی بارش نہ ملے ۔
٭٭٭

خطبہ مصنف: مولانا محمد زبیر عقیل
خطبہ ناشر: کارخیر ٹرسٹ، لاہور