پڑوسی کے حقوق
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ﴿وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ﴾ (سورة نساء، آیت: 36)۔
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرو اور رشتہ داروں سے اور قیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو کے ساتھی سے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ، قِيلَ وَمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ۚ قَالَ الَّذِي لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ . (متفق عليه).
(صحيح بخاري: كتاب الأدب، باب إثم من لا يامن جاره بوائقه، صحیح مسلم كتاب الإيمان باب بيان تحريم إيذاء الجار)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، عرض کیا گیا اللہ کے رسول کون؟ آپ نے ارشاد فرمایا: وہ شخص جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوی محفوظ نہ ہو۔
وَلِمُسْلِمٍ : لا يَدْخُلُ الجَنَّةَ مَنْ لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بِوَائِقَةُ.
اور صحیح مسلم میں ہے کہ وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَومِ الآخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ (متفق عليه)
(صحیح بخاري كتاب الأدب، باب من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره، صحیح مسلم کتاب
الإيمان، باب الحث على إكرام الجار والضيف والزوم الصمت الا عن الخير)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کو ایذاء نہ پہنچائے، جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ مہمان کی عزت کرے اور جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ بھلائی کی (ہی) بات کرے ورنہ خاموش رہے۔
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : مَازَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ . (متفق عليه).
(صحیح بخاری: كتاب الأدب، باب الوصاة بالجار، صحيح مسلم كتاب البر والصلة والآداب، باب الوصية بالجار والإحسان إليه.)
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے جبریل (علیہ السلام) پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں ہمیشہ تاکید کرتے رہے، یہاں تک کہ میں گمان کرنے لگا کہ یہ اسے وراثت میں (بھی) شریک ٹھہرا دیں گے۔
عنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ : قُلتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي جَارِينِ فَإِلَى أَيُّهُمَا أُهْدِى؟ قَالَ: إِلَى أَقربِهِمَا مِنْكَ بَابًا (أخرجه البخاري).
(صحیح بخاری: کتاب الشفعة، باب أي الجوار أقرب.)
عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ! میرے دو پڑوی ہیں، ان میں سے کسی کو ہدیہ بھیجوں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کا دروازہ تیرے دروازے سے زیادہ قریب ہو۔
تشریح:
اسلام میں پڑوسی کے کچھ حقوق ہیں اللہ تعالی اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی پر کافی زور دیا ہے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس سے اس کا پڑوی ناراض ہو گا نیز پڑوسیوں کی عزت کرنا اور انہیں تحفہ اور ہدیہ پیش کرنا دخول جنت کا سبب ہے، اور انہیں ایذاء پہنچانا اور تکلیف دینا جہنم میں جانے کا ذریعہ ہے۔ اس لئے اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کریں ان کے غم و خوشی میں برابر کے شریک رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں پڑوسیوں کے حقوق کو سمجھنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک اور بھلائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ وہ پڑھی جس کا دروازہ آپ کے دروازے سے زیادہ قریب ہو وہ احسان کا زیادہ مستحق ہے۔
٭ پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے۔
٭ پڑوسیوں کو تکلیف دینا جہنم میں جانے کا ذریعہ ہے۔
٭ پڑوسیوں کی عزت کرنا دخول جنت کا سبب ہے۔
٭ پڑوسیوں کو تحفہ وغیرہ پیش کرنا مستحب ہے۔
٭٭٭٭