پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک

الحمد لله الذي أسعد بجواره من خافه ورجاه، ومن بجنته على من امتثل أمره واتقاه، أحمده سبحانه حمد معترف له بنعمه، وأشكره على ما أولاه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله المجتبى، صلى الله عليه وعلى آله وأصحابه الحنفاء، وسلم تسليما كثيرا.
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو اس سے ڈرنے اور لو لگانے والے بندوں کو اپنے حفظ وامان میں رکھتا اور احکام بجالانے والے بندوں کو نعیم جنت سے سرفراز فرماتا ہے، میں اس رب پاک کی نعمتوں کا اقرار کرتے ہوئے اس کی حمد و ثنا بیان کرتا ہوں اور اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔ اس کے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں۔ آپ پر اور آپ کے سچے آل و اصحاب پر اللہ کا بے شمار درود و سلام نازل ہو۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! مومن صادق در حقیقت وہ ہے۔ جو ہر وقت اللہ سے ڈرتا رہے، اس کے مراقب و گراں ہونے کا احساس رکھے، اس کی پکڑ سے خائف و ترساں رہے اس کے احکام کی تابعداری کرے نواہی سے بچے اچھے اعمال کی طرف سبقت کرے، منکرات وسیئنات سے دور رہے کسی سے محبت کرے تو اللہ کے لئے کرے اور بغض رکھے تو اللہ کے لئے دشمنی کرے تو اللہ کے لئے کرے اور دوستی کرے تو اللہ کے لئے اللہ نے جن باتوں کا حکم دیا ہے۔ ان کی تعمیل کرے اور جن سے روکا ہے۔ ان سے بچے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے امت کو جن باتوں کا حکم دیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ کہ پڑوسیوں کی رعایت کی جائے اور ان کے حقوق پہچانے اور ادا کئے جائیں اللہ عزو جل کا ارشاد ہے:
﴿وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْـًٔا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ﴾(النساء: 36)
’’اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور تیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں (اور رفقائے پہلو اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضہ میں ہوں سب) کے ساتھ احسان کرو۔‘‘
نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(مازال جبريل يوصيني بالجار حتى ظننت أنه سيورثه) [صحیح بخاری: کتاب الادب، باب الوصاة بالجار (2014،2015) و صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب الوصية بالجار (2625٬2624)]
’’جبرئیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے حقوق کی مسلسل وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ وہ پڑوسی کو بھی وارث بنا دیں گے۔‘‘
دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا:
(من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليحسن إلى جاره، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه) [صحیح مسلم، کتاب الایمان باب الحث علی اکرام الجار (48،47) و صحیح بخاری، کتاب الادب، باب من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا یؤذ جاره (6018، 6019)]
’’جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ وہ اپنے پڑوی کے ساتھ حسن سلوک کرے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔‘‘
ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا:
(لا يدخل الجنة من لا يأمن جاره بوائقه)[1]
’’وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔‘‘
اللہ کے بندو! پڑوسی کے کچھ حقوق ہیں۔ جنہیں شریعت نے مقرر کیا ہے۔ اور ان حقوق کی ادائیگی کو دین کا ایک حصہ اور مکارم اخلاق اور کمال ایمان کی نشانی بتایا ہے، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک ان کی رعایت و خبر گیری ہمدردی اورہنمائی اور ان کی خیر خواہی یہ سب چیزیں ایسی ہیں۔ جن کی اسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ اور ان کا مکلف بنایا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے جس طرح قرابت دار کے لئے اس کی قرابت اور رشتہ کا حق متعین کیا ہے۔ اسی طرح پڑوس میں رہنے کی وجہ سے ایک ہمسایہ کے بھی کچھ حقوق مقرر فرمائے ہیں۔
مسلمانو! لہٰذا ضروری ہے۔ کہ تم اپنے پڑوسی کے حقوق پہچانو اور انہیں ادا کرو تاکہ اپنے پروردگار کے احکام بجالاؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد گرامی پر عمل کرو نیک نامی کماؤ اور اللہ رب العالمین سے اجر و ثواب بھی حاصل کرو اور اس طرح سے اپنے ایمان کو پایہ تکمیل تک پہنچاؤ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے:
(من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليحسن إلى جاره) [صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان تحریم ایذاء الجار (46) و صحیح بخاری: کتاب الادب، باب إثم من لا يأمن جاره بوائقه (6012)]
’’جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرے۔‘‘
مسلمانو! اپنے پڑوسی کے ساتھ خواہ کتنا بھی احسان کر دو اس کو بہت زیادہ نہ سمجھو کیونکہ اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے اللہ کی جانب سے اجر عظیم اور بلند درجات حاصل ہوتے ہیں
رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم نے وحی الہی کی تعمیل میں پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید فرمائی ہے کہ آپ کا ارشاد ہے:
(مازال جبريل يوصيني بالجار حتى ظننت أنه سيورثه)
’’جبرئیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے حقوق کی مسلسل وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ وہ پڑوسی کو بھی وارث بنا دیں گے۔‘‘
دینی بھائیو! پڑوسی کو اذیت و تکلیف پہنچاتا ایک حرام فعل ہے۔ بے وفائی کی دلیل اور بد اخلاقی اور نقص ایمان کی نشانی ہے، پڑوسیوں کی حق تلفی شریفوں اور مومنوں کا شیوہ نہیں بلکہ یہ رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت و ہدایت کے معارض اور ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت و کردار کے مخالف ہے۔ جو اپنے مہمانوں اور ہمسایوں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے تھے ان کے نفع بخش امور میں ان کی مدد کرتے اور ان سے تکلیف واذیت دور کرتے تھے اپنی خیر و منفعت پڑوسیوں کے لئے قربان کر دیتے اور اپنی طرف سے ان کو کوئی تکلیف نہیں ہونے دیتے تھے کسی پڑوسی کی جانب سے اگر کوئی نا مناسب بات ہو جاتی تو صبر و تحمل سے کام لیتے اور اگر حسن سلوک ملتا تو اس پر ان کے شکر گذار ہوتے تھے۔
پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی جانب سے پیش آمده کسی ناخوشگوار بات پر صبر کر لینا توفیق الہی کی ایک نشانی اور فلاح و کامرانی کا ایک ذریعہ ہے۔ جس سے اللہ اور اللہ کے مومن بندوں کی محبت ملتی ہے۔ اس طریقہ عمل پر پڑوسی آپ کے شکر گذار ہوں گے لوگ آپ کی تعریف کریں گے اور وہ حضرات جو آپ کے حسن سلوک سے مستفیض نہیں ہو سکے ہیں۔ وہ بھی آپ کا شکریہ ادا کر یں گے۔
لیکن اس کے برخلاف وہ شخص جو اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ اس کے پڑوسی بھی اس سے نالاں رہتے ہیں۔ اور اس سے بغض و کینہ رکھتے ہیں۔ اور دوسرے لوگ بھی اس کی بدعملی کی وجہ سے اسے ناپسند کرتے ہیں۔ برا بھلا کہتے ہیں۔ اور اس پر لعنت و سلامت اور بد دعا کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک شخص اپنے پڑوسی کی شکایت لے کر آئے تو آپ نے فرمایا: جاؤ صبر کرو، پھر تیسری یا چوتھی بار جب وہ شکایت لے کر حاضر ہوئے تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ جاؤ اپنا مال و متاع راستہ میں ڈال دو چنانچہ ایسا ہی کیا گیا جو لوگ اس راستہ سے گذرتے وہ اس سے پوچھتے کہ تمہیں کیا ہوا ہے؟ جوابا کہا جاتا کہ اس کا پڑوسی اسے اذیت دیتا ہے۔ راوی کہتے ہیں۔ کہ جو لوگ بھی یہ بات سنتے وہ اس پڑوسی پر اللہ کی لعنت بھیجتے یہاں تک کہ وہ پڑوسی خود ان کے پاس آیا اور یہ درخواست کرنے لگا کہ اپنا سامان اپنے گھر واپس لے چلو اللہ کی قسم میں اب کبھی بھی تمہیں تکلیف نہیں پہنچاؤں گا۔[سنن ابی داود: کتاب الادب، باب فی حق الجوار (5153) نیز علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے، دیکھئے: صحیح سنن ابی داود (4292)]
پڑوسی کے حقوق یہ ہیں۔ کہ اس کو تکلیف سے بچایا جائے اس کے ساتھ سخاوت و فیاضی کی جائے نرمی برتی جائے اس کے ساتھ بھلائی اور حسن سلوک کیا جائے اس کی خوشی میں شریک رہا جائے اور مصیبت میں تسلی دی جائے بیمار ہو تو عیادت کی جائے دعوت دے تو قبول کی جائے مہربانی کا برتاؤ کیا جائے نرم گفتاری، خندہ پیشانی اور حسب استطاعت مال و منصب اور زبان کے ذریعہ مدد کر کے ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ احسان کیا جائے اور خود اپنی طرف سے بھی اسے کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے کیونکہ اپنے ہمسایوں کو تکلیف و اذیت دینا عذاب جہنم کا ایک سبب ہے۔ بعض روایت میں ہے۔ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ذکر کیا گیا:
(إن فلانة تصوم النهار، وتقوم الليل، وتوذي جيرانها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هي في النار) [مسند احمد: 440/2 (9673) میں یہ حديث ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔]
’’فلاں عورت دن میں روزہ رکھتی اور رات میں تہجد پڑھتی ہے۔ مگر اپنے پڑوسیوں کو اذیت دیتی ہے۔ آپ نے فرمایا: وہ عورت جہنمی ہے۔‘‘
اسلامی بھائیو! لہٰذا اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر ہر ایک جان کو اس کی کمائی کا بدلہ پورا ملے گا اور ان کا کسی طرح نقصان نہ ہوگا۔
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خطبه ثانیه
الحمد لله العلي الكبير، ليس كمثله شيء وهو السميع البصير. احمده سبحانه وأشكره على جوده وكرمه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله سيد الورى. اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه أهل البر والوفاء
’’تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو بہت بلند اور سب سے بڑا ہے۔ اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے، میں اس کی تعریف بیان کرتا ہوں اور اس کے فضل و کرم پر شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس وحدہ لا شریک لہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے پاکباز و باوفا آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
اسلامی بھائیو! اللہ سے ڈرو اور اس کے احکام بجالاؤ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عدل و احسان کا حکم دیا ہے۔ فرمایا:
﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ﴾ (النحل:90)
’’اللہ تعالی تمہیں انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے۔ اور بے حیائی اور برے کاموں سے منع کرتا ہے۔‘‘
احسان کی سب سے عظیم اور اعلی قسم والدین، قرابت داروں اور ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ کہ وہ ہر ایک کے حقوق پہنچانے اپنی ذمہ داری رہا ہے۔ اور کمال رضا مندی کے ساتھ طلب ثواب کے لئے اور اللہ رب العالمین کے فضل و احسان کی امید رکھتے ہوئے ان حقوق کو ادا کرے اللہ تعالی اس احسان اور بھلائی کا پورا پورا بدلہ دے گا روزی میں وسعت اور عمر میں برکت عطا کرے گا۔ مزید برآن قیامت کے دن اجر جزیل اور ثواب کثیر سے نوازے گا۔
لیکن ان حقوق و واجبات کی ادائیگی میں اگر کسی سے کو تاہی ہوئی تو یہ اس کے لئے پراگندگی احوال، بے اطمینانی اور عدم سکون کا سبب ہے۔ کیونکہ جو شخص اپنے قرابت داروں اور ہمسایوں کے ساتھ احسان کرنا چھوڑ دے تو ضروری ہے۔ کہ ان کی جانب سے بھی کچھ ایسی چیزیں پیش آئیں جو اس کے لئے تشنگی کا باعث اور اس کی زندگی کو نا خوشگوار کر دینے والی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔