قبروں پر چادر چڑھانا ، فاتحہ خوانی کرنا اور صاحب قبر کیلئے قربانی کرنا

ارشاد باری تعالی ہے: ﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۝۱۶۲ لَا شَرِیْكَ لَهٗ ۚ ﴾ (سوره انعام، آیت:163،162)
ترجمہ: آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ تعالی ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
نیز فرمایا: ﴿ إِنَّا أَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَر فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر﴾ (سورة الکوثر، آیت:1،2
ترجمہ: یقینًا ہم نے تجھے (حوض) کوثر (اور بہت کچھ دیا ہے، پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔
عَنْ عَلي بن أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ : لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللهِ، (رواه مسلم
(صحيح مسلم: كتاب الأضاحي التحريم الذبح لغير الله تعالى)
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اس شخص پر اللہ تعالی کی لعنت ہو جس نے غیر اللہ کے لئے قربانی کی۔
تشریح:
بیت اللہ کی مشابہت میں قبروں پر قیمتی چادریں چڑھانا، فاتحہ خوانی کرنا ، صاحب قبر کیلئے قربانی کرنا اور رویوں پیسوں کو نذرانہ کے طور پر پیش کرنا یہ سب شرک اکبر
اور نا جائز ہے ، کیونکہ یہی باتیں قبروں کی تعظیم اور اس کی عبادت کی طرف لے جاتی
ہیں ۔ صحابہ کرام کی قبریں بلکہ آپ سے کی قبر صحا بہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سامنے موجود تھی مگر اس پر اس طرح کی کوئی چیز نہیں چنے ھائی گئی ہے بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پھر یا مٹی کو لباس پہنانے کا حکم نہیں دیا ہے۔ چنانچہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ایک چادر لے کر دروازہ پر لڑکا دی جب آپ سے تشریف لائے اور چادر کودیکھا تو میں نے آپ ﷺ کے چہرے انور کو دیکھ کر اندازہ کر لیا آپ کو یہ نا پسند ہے، آپ ﷺ نے اسے بھیج کر پچھاڑ دیا یا کاٹ دیا اور فرمایا: یقینًا اللہ تعالی نے ہمیں پتھر یا مٹی کو لباس پہنانے کا حکم نہیں دیا ہے۔
جب شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ سے چادر چڑھانے وغیرہ کے مسئلہ کے بارے میں پو چھا گیا تو انہوں نے فرمایا: یہ بالاتفاق ائمہ کے نزدیک بہت بری اور خلاف شریعت اور بدعت ہے جو نبی علیہ السلام کے دور اقدس میں موجود تھی اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے زمانہ میں اور نہ ہی مسلمانوں کے جملہ اماموں سے اس سلسلہ میں کوئی چیز منقول ہے یعنی نہ چاروں اماموں سے نہ ان کے علاوہ کسی اور سے۔ حالانکہ وہ اس کے اظہار پر زیادہ طاقت رکھتے تھے اور اگر اس میں کوئی فضیلت ہوتی تو وہ سب سے پہلے حاصل کرتے ۔ البتہ یہ بدعت سب سے پہلے چھٹی صدی میں بعض حکمرانوں میں پائی گئی۔ (فتاوی ابراہیم : 143؍1)
قربانی، نذرو نیاز اور دعا اللہ تعالی کے لئے خاص ہے اور یہ ایسی عبادتیں ہیں جو صرف اللہ تعالی کے لئے ہی ثابت ہیں ، اس کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرتا ہے لیکن اگر یہی چیزیں اولیاء انبیاء، بتوں اور ستاروں اور اس کے علاوہ دیگر حقوق کے لئے کی گئیں تو یہ نا جائز اور حرام ہوں گی۔ نیز اگر روپیہ پیہ فقراء ومحتاج کو دیا جائے تو وہ صدقہ ہے جس سے اللہ تعالی کے ثواب کی امید ہوتی ہے لیکن اگر وہی روپیہ پیسہ قبر والے کے لئے پیش کیا جائے تو میت کی عبادت ہوگی اور روپیہ پیسہ پجاری کے جیب میں جائیں گے۔ یہ عظیم منکر اور خطر ناک شرک ہے اللہ تعالی ہم تمام مسلمانوں کو اس مہلک شرک سے محفوظ رکھے۔
فوائد:
٭ قبروں پر چادر چڑھانا حرام اور شرک ہے۔ میت سے دعا کروانا عظیم گناہ ہے۔
٭قربانی اور نذرو نیاز صرف اللہ تعالی کے لئے خاص ہے۔
٭٭٭٭