قیامت سے غفلت کے اسباب

﴿ذَرْهُمْ یَاْكُلُوْا وَ یَتَمَتَّعُوْا وَ یُلْهِهِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ۝﴾(الحجر:3)
’’چھوڑ دیجئے انہیں کہ کھائیں، ہیں، مزے کریں، اور جھوٹی امیدیں انہیں بہلاوے میں ڈالے رکھیں، جن قریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔‘‘
انسان اس دنیا میں کسی قدر مصروف و مشغول اور الجھا ہوا ہے، مسائل میں گھرا ہوا ہے، کھیل کود اور خوش گپیوں میں مگن ہے، دنیا کی رونق اور اس کی بھول بھلیوں میں گم ہے دنیا کے اس کیچڑ اور دلدل میں پھنسا ہوا ہے کہ ایک پاؤں کھینچتا ہے تو دوسرا ھنس جاتا ہے، اپنی منزل سے بے خبر چلا جا رہا ہے گویا کہ میدان تیہ میں بھٹک رہا ہے، کسی رہبر کی پرواہ کیے بغیر کسی مصلح کی آواز پر کان دھرے بنا بھولا بھٹکا چلا جا رہا ہے۔
اور اس سب پر مستزاد یہ کہ اسے یہ احساس ہی نہیں ہے کہ وہ بھولا بھٹکا اور گم گشتہ راہ ہے اور اسے واپس بھی جانا ہے، اسے اپنی منزل پر پہنچنا ہے، اور اسے رہنمائی کی ضرورت ہے، بلکہ اس کے برعکس وہ اپنی اس حالت پر خوش اور مطمئن اور شاداں و فرحاں ہے۔
انسان اس دنیا کی رونق ، اس کی چہل پہل اور چمک دمک میں مکمل طور پر کھویا ہوا ہے اور خوب مگن ہے۔ اسے اس فضلت اور غنودگی کی کیفیت سے نکلنے کی خواہش اور تمنا تو کیا ہوگی، اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ وہ کسی فظلت کا شکار ہے۔ مگر حقیقت تو یہی ہے کہ لوگوں کی غالب اکثریت راہ راست سے بھٹکی ہوئی اور اپنے مقصد اور منزل سے غافل دنیا کی لذتوں میں کھوئی ہوئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس غفلت و بے خبری، بے پروائی اور بے نیازی کا آخر سبب کیا ہے، وہ ایسی کون سی شدید پر کشش چیز ہے جو ہر انسان کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے، اور اس بے خبری اور غفلت کی کیفیت سے انسان کو کس طرح نکالا جا سکتا ہے؟
یوں تو انسان کی اس بے راہ روی ، اس غفلت و بے پروائی ، اس بے توجہی اور لا ابالی پن کے متعدد اسباب و وجوہات ہیں، جن میں سے ایک کو اللہ تعالی نے یوں بیان فرمایا ہے:
﴿اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ۝﴾(التكاثر:1)
’’تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دحسن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے۔‘‘
﴿حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ۝۲﴾(التكاثر:2)
’’یہاں تک کہ اسی سوچ اور فکر میں، اور اسی سعی و جہد میں تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو۔‘‘
تو مال و دولت کی ہوں، اور حصول دنیا کا خبط اور جنوں، نہ صرف انسان کو حقیقت آخرت سے غافل کرتا ہے، بلکہ قبر تک اسے ہوش نہیں آنے دیتا۔ اس آیت کریمہ میں انسان کی بے راہ روی، اور نفظت و بے پروائی کا ایک ایسا سبب بیان کیا گیا ہے جو کہ گویا خلاصہ اور نچوڑ ہے تمام اسباب و وجوہات کا۔ تاہم اگر تفصیل میں جائیں تو اس کے دیگر کئی ایسے اہم ذیلی اسباب بھی نظر آتے ہیں جو کہ بظاہر مستقل بالذات معلوم ہوتے ہیں، ان میں سے ایک ہے لمبی لمبی امیدیں باندھنا۔ لمبی لبی امیدیں باندھنا آخرت سے غفلت کا ایک مستقل سبب جلایا گیا ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ذَرْهُمْ یَاْكُلُوْا وَ یَتَمَتَّعُوْا وَ یُلْهِهِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ۝﴾(الحجر:3)
’’انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں ، کھا ئیں ہیں ، مزے کریں اور امیدیں انہیں غافل کیے رکھیں ، من قریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔‘‘
تو آخرت سے غفلت کا ایک سبب امیدیں باندھنا قرار دیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ امیدیں تو ہر شخص باندھتا ہے، امید کے بغیر تو کوئی زندگی نہیں، اگر امید نہ ہو تو انسان کا جینا دشوار ہو جائے۔ اور پھر اس آیت کریمہ میں صرف امیدوں کو ہی فظت کا سبب نہیں بتلایا بلکہ کھانے پینے اور پیش کرنے اور لطف اندوز ہونے کو بھی غفلت کا سبب بتلایا ہے۔ حالانکہ کھانا پیٹا تو زندہ رہنے کے لیے انسان کی بنیادی ضرورت ہے، لہٰذا ہر آدمی کھاتا پیتا ہے۔ لیکن ایک کھاتا ہوتا ہے ضرورت کے لیے، زندہ رہنے کے لیے اور ایک کھاتا ہوتا ہے محض لطف اندوز ہونے کے لیے۔ جانور کھاتے ہیں ضرورت کے لیے جسم کی قوت و طاقت کے لیے، زندہ رہنے کے لیے۔ اور جب وہ شکم سیر ہو جاتے ہیں تو کھانا چھوڑ دیتے ہیں، اور جب وہ کھانا چھوڑ دیتے ہیں تو پھر آپ گھاس کا ایک تنکا بھی انہیں کھلانے پر مجبور نہیں کر سکتے ، کیونکہ وہ مزے کے لیے نہیں کھاتے بلکہ بھوک مٹانے کے لیے کھاتے ہیں۔
اس کے برعکس انسان چاہے کتنا ہی پیٹ بھر کر کھانا کیوں نہ کھالے خوب سیر ہو جانے کے بعد اگر کوئی نئی ڈش آجائے تو کہتا ہے کہ پیٹ میں جگہ تو نہیں ہے لیکن چلو تھوڑا چکھ لیتا ہوں، یعنی صرف مزہ لینے کے لیے لطف اندوز ہونے کے لیے۔
تو انسان اگر چہ کھاتا ہے، بھوک مٹانے کے لیے، جسم کو طاقت پہنچانے کے لیے، لیکن اس کے ساتھ اگر اس کی لذت سے لطف اندوز بھی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں، لیکن سیر ہونے کے بعد ضرورت پوری ہونے کے بعد اگر صرف مزہ لینے کے لیے کھائے، بعد میں اس کو کھانا ہضم کرنے کے لیے چاہے بھکی چورن اور ہاجمولہ ہی کھانا پڑے تو یہ اپنے آپ کے ساتھ زیادتی بھی ہے، اسراف بھی ہے اور اس کے دینی لحاظ سے بھی نقصانات ہیں کہ جو زیادہ کھائے گا، زیادہ سوئے گا اور فرائض و واجبات کی ادائیگی میں سستی کا شکار ہوگا۔
لہٰذا اسلام ترغیب دیتا ہے کہ ضرورت کے مطابق کھایا جائے بلکہ اس سے بھی کم کھایا جائے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ اُكُلَاتٍ يُقِمْنَ صُلْبَهُ))(ترمذی:238)
’’کمر سیدھی کرنے کے لیے آدمی کو چند نوالے ہی کافی ہیں ۔‘‘
اس کے برعکس اگر کسی کی زندگی کے اولین مقاصد میں سے کھانا پینا اور عیش کرنا ہو، تویقینًا اس کی زندگی کی باقی کی ترجیحات بھی اس کے مطابق ڈھل جاتی ہیں، اور ان کا رجحان اور میلان آخرت کی طرف نہیں ہوتا بلکہ ان کی سوچ کا مرکز اور محور صرف دنیا ہی ہوتا ہے۔
تو اللہ فرماتے ہیں:
﴿ذَرْهُمْ یَاْكُلُوْا وَ یَتَمَتَّعُوْا﴾(الحجر:3)
انہیں کھانے پینے دیجیے اور پیش کرنے دیجیے، مزے کرنے اور لطف اندوز ہونے دیجیے۔ یہاں وہ کھانا پینا اور لطف اندوز ہونا مراد ہے جو آخرت سے غافل کر دے۔
اسی طرح ﴿ وَ یُلْهِهِمُ الْاَمَلُ ﴾ انہیں امیدوں میں کھوئے رہنے دیجیے سے مراد بھی ایسی امیدیں ہیں جو انسان کو آخرت سے غافل کر دیں، جن کے حصول میں انسان ایسا مکن ہو جائے کہ دین کے تقاضوں کو نظر انداز کر دے اور آخرت کو بھول ہی جائے۔ لمبی امیدیں انسان کو دھوکے میں میں مبتلا کرتی کرتی ہیں، آخرت سے سے غافل کرتی ہیں، اور اور عمل میں سستی پیدا کرتی کرتی ہیں، راہ راست سے بھٹکاتی ہیں اور آخرت بھلاتی ہیں۔
اور کسی بھی انسان کی ساری کی ساری امیدیں آج تک نہ بھی پر آئی ہیں اور نہ پر آسکتی ہیں، کیونکہ انسان کے پاس وقت محدود ہے اور اس کی امیدیں اس سے متجاوز ہیں۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
((خَطَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ خَطًّا، وَقَالَ: هٰذَا الْإِنْسَانُ))
’’آپ ﷺنے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا: یہ انسان ہے۔‘‘
((وَخَطَّ إِلٰى جَنْبِهِ خَطًّا وَقَالَ: هَذَا أَجَلُهُ))
’اور اس کے ایک طرف ایک اور لکیر کھینچی اور فرمایا: یہ اس کی عمر ہے ۔‘‘
((وَخَطَّ خَطًّا آخَرُ بَعِيدًا مِنْهُ))
’’اور اس سے کچھ دور ایک اور لکیر کھینچی ۔‘‘
((فَقَالَ: وَهَذَا الْأَمَلُ))
’’اور فرمایا: یا اس کی امید ہے یہ ہے۔‘‘
((فَبِيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ جَاءَ الأَقْرَبُ))( بخاری:6418 مختصرا، جامع الأصول، ج:1، ص:391)
وہ اپنی امیدوں کے حصول کی سعی و جہد میں ہی مشغول اور فکر مند ہوتا ہے کہ اس سے پہلے والی چیز اسے آلیتی ہے، یعنی موت آجاتی ہے اور اس کی امیدیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
((خَطَّ النَّبِيُّ خَطَّا مُرَبَّعًا، وَخَطَّ خَطًّا فِي الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْهُ))
’’ آپ ﷺ نے ایک چورس اور مربع شکل کی لکیر کھینچی، ایک خانہ بنایا اور اس کے اندر درمیان میں ایک اور لکیر کھینچی جو اس چوکھٹے سے باہر نکلی جا رہی تھی۔‘‘
((وَخَطََ خُطُوطًا صِغَارًا إِلٰى هٰذَا الَّذِي فِي الْوَسَطِ مِنْ جَانِبِهِ الَّذِي فِي الْوَسَطِ))
’’وہ چوکھٹے کے اندر جو لکیر تھی اس کے اطراف میں کچھ اور چھوٹی چھوٹی لکیریں کھینچیں ۔‘‘
((فَقَالَ: هٰذَا الإِنْسَانُ، وَهٰذَا أَجَلُهُ مُحِيطٌ بِهِ))
’’اور فرمایا یہ انسان ہے اور یہ چوکھٹا اس کی عمر ہے جو اسے تمام اطراف سے
گھیرے ہوئے ہے۔
((وَهٰذَا الَّذِي هُوَ خَارِجٌ أَمَلُهُ))
’’اور یہ لکیر جو چوکھٹے سے باہر جارہی ہے اس کی امید ہے ۔‘‘
((وَهَذِهِ الْخُطَطُ الصَّغَارُ الْأَعْرَاضُ))
’’اور یہ چھوٹی چھوٹی لکیریں پریشانیاں، مصیبتیں اور آزمائشیں ہیں ۔‘‘
((فَإِنْ أَخْطَاهُ هٰذَا نَهَشَهُ هٰذَا وَإِنْ أَخْطَأَهُ هٰذَا نَهَشَهُ هٰذَا))(بخاری:6417)
’’ان میں سے کوئی ایک اگر چوک جاتی ہے تو دوسری اسے نوچ لیتی ہے، کاٹ کھاتی ہے۔‘‘
اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
((إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ اثْنَتَانَ .))
’’سب سے زیادہ مجھے تم لوگوں پر جس چیز کا ڈر ہے وہ دو باتیں ہیں۔‘‘
((اتباع الهوى وطول الأمل .))
’’خواہشات کی پیروی اور لمبی امیدیں۔‘‘
((فَأَمَّا اتَّبَاعُ الْهَوَى فَيَصُدُ عَنِ الْحَقِّ))
’’جہاں تک خواہشات کی پیروی کا تعلق ہے تو وہ حق کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔‘‘
((وَأَمَّا طُولُ الأَمَلُ فَيُنْسِى الآخِرَةَ)) (فضائل الصحابة للامام أحمد، ج 1، ص:530 ، رقم:881)
’’اور جولمبی امیدیں ہیں وہ آخرت بھلا دیتی ہیں ۔‘‘
تو لمبی امیدیں بہت سی خطرناک اور سنگین قباحتوں کو جنم دیتی ہیں، اس سے دنیا پائیدار لگنے لگتی ہے اور آخرت سراب اور خواب۔
پھر ان امیدوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر آدمی اپنے آپ کو ہلکان کر لیتا ہے، اور ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا، اور اگر کچھ ہاتھ لگتا بھی ہے تو اس سے لطف اندوز ہونے کا وقت ختم ہو چکا ہوتا ہے، اور یوں وہ مصیبتیں اور تکلیفیں سہتا ہوا، دکھوں اور پریشانیوں سے چور اور نڈھال ہے بھی اور بے کسی کے عالم میں اس دنیا سے خالی ہاتھ رخصت ہو جاتا ہے، اور وہاں اس ساری محنت و مشقت سعی و جہد اور تگ و دو کا حساب دینے کے لیے حاضر کر لیا جاتا ہے۔ ایسے شخص کی حالت تو کچھ ایسے ہی ہے جیسے ایک چینی حکمت آموز حکایت بیان کی جاتی ہے، کہتے ہیں کہ قدیم زمانے میں ایک بادشاہ نے اپنے ایک شہری کو انعام و اکرام سے نوازنا چاہا تو اس سے کہا کہ جاؤ جتنی زمین تم اپنے قدموں سے ناپ سکو وہ تمہاری ملکیت ہوئی۔ آدمی کو بہت خوشی ہوئی، وہ بھاگا بھاگا گیا ، خوشی اور جنون کے عالم میں، اس نے چل چل کر ایک لمبی مسافت طے کر لی، پھر تھک گیا، تو سوچا کہ بس اتنی زمین ہی کافی ہے، اب میں بادشاہ کے پاس جاتا ہوں کہ اتنی زمین میرے نام کر دیں۔ پھر خیال آیا کہ کیوں نہ کچھ مزید زمین حاصل کرلوں، چنانچہ اس نے اپنا سفر جاری رکھا۔ نہ اس طرح اسے تین بار خیال آیا اور تینوں بار اس نے اپنا سفر جاری رکھنے کا ہی فیصلہ کیا۔ وہ چلتا چلتا تھک ہار چکا تھا، نڈھال اور بے بس ہو چکا تھا۔ بالآخر وہ موت کی آغوش میں چلا گیا۔
تو حقیقت ہے کہ جو شخص اس دنیا میں ہر چیز پالینا چاہتا ہے، وہ اپنا سب کچھ کھو دیتا ہے۔ دل میں امید میں رکھنا یوں تو انسان کی اک فطری خواہش ہے، اور یہ خواہش اگر تو اپنی حدود میں رہے تو جائز اور مباح ہے لیکن اگر حدیں تجاوز کر جائے اور ایک محض خیالی حیثیت اختیار کر لے تو مذموم ہے اور اس کے انتہائی خطرناک نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔ اور اس سے بڑا خطرناک نتیجہ کیا ہوگا کہ انسان آخرت سے منہ موڑ لیتا ہے، دین کو پس پشت ڈال دیتا ہے اور دل سخت ہو جاتا ہے اور پھر کسی نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ اور اللہ کے دین سے اعراض کا انجام کیا ہوتا ہے، وہ آپ کو معلوم ہی ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰی۝۱۲۴﴾ (طه:124)
’’اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی ، اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا کر کے اٹھا ئیں گے ۔‘‘
یعنی دنیا میں سب کچھ ہونے کے باوجود بھی بے قرار و بے چین اور مضطرب رہے گا، اور آخرت میں معاملہ تو اس سے کہیں سخت ہوگا، اس کا تو دنیا کے ساتھ کچھ موازنہ ہے ہی نہیں۔
تا ہم لمبی لمبی امیدیں باندھنے کے کچھ اسباب ہیں، اگر ان کا کچھ تدارک کر لیا جائے تو تاہم لمبی امیدوں سے بچا جا سکتا ہے، اور وہ ہیں جیسا کہ امام غزالی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ((اِعْلَم أَنَّ طُوْلَ الْأَمَلِ لَهُ سَبَبَانِ.))
’’جان لو! کہ بھی امیدوں کے دو اسباب ہیں ؟ ((أَحَدُهُمَا الجَهْل، والآخر حُبُّ الدُّنْيَا)) (احياء علوم الدين، ج:4، ص:456)
’’ان میں سے ایک ہے جہالت اور دوسرا ہے حب الدنیا۔‘‘
جہالت اور حب دنیا کا اک سرسری مفہوم تو آپ جانتے ہی ہوں گے اور تفصیل کا وقت نہیں ہے لہٰذا دنیا کی محبت کے حوالے سے مختصر بات یہ ہے کہ دنیا کی محبت کے کئی پہلو، کئی انداز اور کئی اسباب ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اکثر اوقات لوگ دوسروں کی شان و شوکت ، ٹھاٹھ باٹھ، اور چہل پہل دیکھ کر متاثر ہو جاتے ہیں، منہ سے رالیں لیکنے لگتی ہیں، دل میں ان جیسا بنے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہیں، زبان پر دعائیں جاری ہو جاتی ہیں اور آدمی ان جیسا بنے کی ٹھان لیتا ہے اور پھر چل سو چل، وہ حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر اپنی منزل اور مقصد کے لیے گھوڑے دوڑا دیتا ہے۔ جبکہ وہ اس حقیقت حال سے واقف نہیں ہوتا کہ اس کی دوشان و شوکت اور ٹھاٹھ باٹھ تو شاید اس کے لیے وبال جان ہو اس کی آزمائش کے لیے ہو، یا سزا کے طور پر ہو، جی ہاں، دنیا کی یہ نعمتیں بسا اوقات سزا کے طور پر بھی ہوتی ہیں، جیسا کہ قرآن وحدیث میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ لیکن اس وقت ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کسی کے ہاں دولت کی ریل پیل ، چمک دمک اور فراوانی کسی طرح دوسروں پر اثر انداز ہوتی ہے۔
قارون کا واقعہ قرآن پاک میں مذکور ہے، وہ بہت مال دار تھا اتنا مالدار تھا کہ اس کے خزانے کی چابیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت بڑی مشکل سے اٹھا سکتی تھی۔
﴿ فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖ ؕ﴾ ’’ایک روز وہ اپنی قوم کے سامنے پورے ٹھاٹھ میں نکلا ۔‘‘
﴿ قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ قَارُوْنُ ۙ اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ﴾ (القصص:79)
’’جو لوگ حیات دنیا کے طالب تھے وہ اسے دیکھ کر کہنے لگے: کاش ہمیں بھی وہی کچھ ماتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔‘‘
﴿ اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ﴾ ’’یہ تو بڑا ہی نصیبے والا ہے۔‘‘
﴿ وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَكُمْ ثَوَابُ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ۚ وَ لَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ۝﴾ (القصص:80)
’’ مگر جو لوگ علم رکھنے والے تھے، وہ کہنے لگے: افسوس تمہارے حال پر! اللہ کا ثواب بہتر ہے اس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور یہ دولت صرف صبر کرنے والوں کو ہی ملتی ہے۔‘‘
اسی طرح ایک اور واقعہ ہے جو بخاری اور مسلم میں مذکور ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((لَمْ يَتَكَلَّمْ فِي الْمَهْدِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ))
’’فرمایا: گور میں تین بچوں کے سواکسی نے بات نہیں کی۔‘‘
((عیسی))
’’ایک عیسی علیہ السلام ہیں‘‘، اور ان کا قصہ قرآن پاک میں مذکور ہے۔
((وَكَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ جُريج))
’’اور ایک بنی اسرائیل کا آدمی تھا جسے جریج کہا جاتا تھا۔‘‘
((كَانَ يُصَلِّي))
’’وہ نماز پڑھ رہا تھا۔‘‘
((جَاءَتْهُ أُمُّهُ فَدَعَتْهُ))
’’اس کی والدہ آئی اور اس نے اسے بلایا۔‘‘
((فَقَالَ: أَجِيبُهَا أَوْ أَصَلِّي))
’’اس نے کہا: میں اپنی والدہ کا جواب دوں یا نماز جاری رکھوں؟‘‘
چنانچہ نماز جاری رکھی۔
((فَقَالَتْ اَللّٰهُمَّ لَا تُمِتْهُ حَتَّى تُرِيَهُ وُجُوهَ الْمُؤْمِسَاتِ))
’’اس کی والدہ نے یہ بددعا کی: اے اللہ! اس وقت تک اسے موت نہ آئے جب تک یہ بدکار عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے۔‘‘
یعنی بد کار عورتوں سے اس کا واسطہ پڑے۔
((وكان جريج في صومعته فتعرضت له امرأةٌ))
’’ایک روز جریج اپنے عبادت خانے میں ہی تھا کہ ایک فاحشہ عورت اس کے پاس آئی۔‘‘
((وَكَلَّمَتَهُ فَأَبٰي))
’’اس نے اسے بدکاری کے لیے ورغلانا چاہا مگر اس نے انکار کر دیا۔‘‘
((فَاَتَتْ رَاعِيًا فأمكنتهُ مِنْ نَفْسِهَا فَوَلَدَتْ غُلَامًا))
’’تو وہ ایک چرواہے کے پاس آئی، اور اسے اپنے آپ پر تمکن دے دیا، چنانچہ اس کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔‘‘
((فَقَالَتْ مِنْ جُريج))
’’اس نے کہا: یہ جریج کا بچہ ہے۔‘‘
((فَاَتَوه فَكَسَرُوا صَومَعَتَه وَاَنْزَلُوه وَسَبُّوه))
’’لوگ آئے ، انہوں نے اس کا عبادت خانہ توڑ دیا، اسے نیچے اتارا، اور برا بھلا کیا۔‘‘
((فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى ثُمَّ أَتَى الْغُلام))
’’اس نے وضو کیا، نماز پڑھی اور اس بچے کے پاس آیا ۔‘‘
((فَقَالَ مَنْ أَبُوكَ يَا غُلَامُ))
’’اس نے کہا: اے بچے تیرا باپ کون ہے؟‘‘
((قَالَ: الرَّاعِي))
’’اس نے کہا: چروایا۔‘‘
((قَالُوا نَبْنِى صَومَعَتَك مِنْ ذَهَبٍ))
’’لوگوں نے کہا: ہم تمہارا عبادت خانہ سونے کا بنا دیتے ہیں۔‘‘
((قَالَ لَا ، إِلَّا مِنْ طِينٍ))
’’کہا نہیں بلکہ مٹی کا ہی رہنے دیں۔‘‘
یہ دو بچے تھے جنہوں نے گود میں بات کی۔ اور تیسرا بچہ جس کا ذکر ہمارے اس موضوع سے متعلق ہے، وہ یہ ہے:
فرمایا:
((وَكَانَتْ امْرَأَةٌ تُرْضِعُ ابْنَا لَهَا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ .))
’’بنی اسرائیل کی ایک عورت تھی اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی ۔‘‘
((فَمَرَّ بِهَا رَجُلٌ رَاكِبٌ ذُو شَارَةٍ ))
’’اس کے پاس سے ایک سوار نہایت خوش پوش اور شان و شوکت والا گزرا‘‘
((فَقَالَتْ: اللَّهُمَّ اجْعَلْ ابْنِي مِثْلَهُ))
’’تو اس عورت نے دعا کی کہ اے اللہ ! میرے بچے کو بھی اس جیسا بنا دے۔‘‘
’’فَتَرَكَ ثَدْيَهَا وَأَقْبَلَ عَلَى الرَّاكِبِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ))
’’بچے نے دودھ پینا چھوڑ کر اس سوار کی طرف دیکھا اور کہا: اے اللہ مجھے اس جیسا نہ بنانا۔‘‘
((ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ثَدْيِهَا يَمُصُّهُ))
’’یہ کہہ کر اس نے پھر دودھ پینا شروع کر دیا۔‘‘
((ثُمَّ مَرَّبِاَمَةٍ))
’’پھر اس بچے کا ایک باندی کے پاس سے گزر ہوا۔‘‘
((فَقَالَتْ اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَ هَذِهِ))
’’تو اس کی ماں نے دعا کی: اے اللہ ! میرے بیٹے کو اس جیسا نہ بنانا ۔‘‘
((فَتَرَكَ ثَدَيْهَا))
’’اس نے دودھ پینا چھوڑا ۔‘‘
((فَقَالَ اللّٰهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا))
’’اور کہا: اے اللہ مجھے اس جیسا بنا دے۔‘‘
((فَقَالَتْ لِمَ ذَاكَ ؟))
’’اس عورت نے پوچھا تو ایسا کیوں کہہ رہا ہے؟‘‘
((فَقَالَ: الرَّاكِبُ جَبَّارٌ مِنَ الْجَبَابِرَةِ))
’’تو کہا: وہ جو سوار تھا وہ ظالموں میں سے ایک جابر اور ظالم شخص تھا۔‘‘
((وَ هٰذِهِ الآمَةُ يَقُولُونَ سَرَقْتِ وَزَنَيْتِ وَلَمْ تَفْعَلْ))(بخاری:3436)
’’اور اس باندی سے لوگ کہہ رہے تھے تو نے چوری کی ہے، تو نے بدکاری کی ہے، حالانکہ اس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔‘‘
اس حدیث میں متعدد احکام و مسائل اور حکمتیں ہیں، اللہ تعالی کی توفیق سے پھر کبھی ذکر کریں گے۔ ان شاء اللہ
اقول قولي هذا واستغفر الله العظيم لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب انه هو الغفور الرحيم .
……………….