قبلہ رخ تھوکنے سے اللہ تعالیٰ کو اذیت ہوتی ہے

667۔  سیدنا ابوسہلہ سائب بن خلاد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی قوم کی امامت کرائی اور اس نے قبلے کی جانب تھوک دیا جبکہ رسول اللہ ﷺ اسے دیکھ رہے تھے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے (اس کی قوم سے) فرمایا:

((لا يُصَلِّى لَكُمْ)) ’’( آئندہ) یہ تمھیں نماز نہ پڑھائے۔‘‘

 اس کے بعد اس نے انھیں نماز پڑھانا چاہی تو انھوں نے اسے روک دیا اور اسے رسول اللہﷺ کا فرمان سنایا۔

اس نے یہ بات رسول اللہ ﷺسے ذکر کی تو آپ نے فرمایا: ((نعم)) "ہاں (میں نے ہی انھیں تمھارے پیچھے نماز پڑھنے سے روکا ہے)۔“

میرا خیال ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

((إِنَّكَ آذَيْتَ اللهَ وَرَسُولَهُ) (أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ:16561، وابن حبان: 1836، وأبوداود:481)

’’بے شک تم نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دی ہے۔‘‘

توضیح و فوائد: قبلہ رخ تھوکنے کی چار صورتیں ہیں: آدمی نماز میں ہو اور نماز بھی مسجد میں پڑھ رہا ہو تو بالاتفاق قبلہ رخ تھوکنا حرام ہے۔ آدمی مسجد میں ہو لیکن نماز میں نہ ہو تو اس صورت میں بھی مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور قبلہ رخ تھوکنا بڑا گناہ ہے، اس لیے اس صورت میں بھی قبلہ رخ تھوکنا منع ہے۔ آدمی مسجد سے باہر نماز میں ہو تو ایسی صورت میں بھی قبلہ رخ تھوکنا منع ہے۔ آدمی مسجد سے باہر ہو، نماز میں بھی نہ ہو اور قبلہ کی توہین بھی مقصود نہ ہو اس حالت میں کوئی اضطراری طور پر قبلہ رخ تھوک دے تو ایسا شخص گناہ گار نہیں ہو گا لیکن ایسی صورت میں بھی قبلہ کی طرف تھوکنے سے بچنا  بہر حال بہتر ہے۔

668۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((يَجِئُ صَاحِبُ النُّخَامَةِ فِي الْقِبْلَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَهِيَ فِي وَجْهِهِ)) (أَخْرَجَهُ ابن حبان: 1638، وابن خزيمة: 1312 ، 1313، وابن أبي شيبية: 365/2)

’’قیامت کے دن قبلہ رخ تھوکنے والا شخص اس حالت میں (اللہ رب العزت کی بارگاہ میں آئے گا کہ وہ تھوک اس کے چہرے پر ہوگا۔‘‘

669۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ تَفَلَ تُجَاهَ الْقِبْلَةِ جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَتَفَلَتُهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ)) (أخرجه ابو داؤد:3824 ، و ابن حبان: 1639، و ابن خزيمة: 925، 1314، 1663، و البيهقي في السنن: 76/3، و ابن أبي شيبة: 365/2)

’’جس شخص نے قبلے کی طرف تھوکا تو قیامت کے دن وہ شخص اس حال میں آئے گا کہ اس کا تھوک اس کی آنکھوں کے درمیان لگا ہو گا۔“

670۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مسجد کے قبلے ( کی سمت) میں بلغم دیکھا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

((مَا بَالُ أَحَدِكُمْ يَقُومُ مُسْتَقْبِلَ رَبِّهِ فَيَتَنَخَّعُ أَمَامَهُ؟ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يُسْتَقْبَلَ فَيُتَنَخَّعَ فِي وَجْهِهِ فَإِذَا تَنَخَّعَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَنَخَّعُ عَنْ يَسَارِهِ تَحْتَ قَدَمِهِ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيَقُلْ هُكَذَا))(أخرجه مسلم: 550)

’’تم میں سے کسی ایک کو کیا ( ہو جاتا) ہے، وہ اپنے رب کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوتا ہے، پھر اپنے سامنے بلغم پھینک دیتا ہے؟ کیا تم میں سے کسی کو یہ پسند ہے کہ اس کی طرف رخ کیا جائے، اس کے منہ کے سامنے تھوک دیا جائے؟ جب تم میں سے کوئی شخص کھنگار پھینکنا چاہے تو وہ اپنی بائیں جانب اپنے قدم کے نیچے پھینکے۔ اگر اس کی گنجائش نہ پائے تو ایسے کرلے۔“ (راوی حدیث) قاسم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے کپڑے میں تھوکا، پھر اس کے ایک حصے کو دوسرے پر رگڑ دیا۔

671- سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺہماری اس مسجد میں تشریف لائے۔ آپ کے دست مبارک میں ابن طاب ( کی کھجور) کی ایک شاخ تھی۔ آپ نے مسجد کے قبلے کی طرف ( والی دیوار پر) جما ہوا بلغم دیکھا تو آپ نے کھجور کی شاخ سے اسے کھرچ کر صاف کیا، پھر ہماری طرف رخ کر کے فرمایا:

((أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يُّعْرِضَ اللهُ عَنْهُ؟)) ’’تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اعراض فرمائے (اس کی طرف نظر تک نہ کرے؟)‘‘

کہا: تو ہم سب ڈر سے گئے۔

آپﷺ نے پھر فرمایا: ((أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يُعْرِضَ اللهُ عَنْهُ؟))

’’تم میں سے کون یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالی اس سے اعراض فرمائے؟“

کہا: ہم پر خوف طاری ہو گیا۔

آپ ﷺ نے پھر فرمایا: ((أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يُعْرِضَ اللهُ عَنْهُ؟))

’’تم میں سے کے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ اللہ تعالی اس سے اعراض فرمائے؟“

ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم میں سے کسی کو بھی (یہ بات پسند) نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:

((فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا قَامَ يُصَلِّى، فَإِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قِبَلَ وَجْهِهِ، فَلَا يَبْصُقَنَّ قِبَلَ وَجْهِهِ وَلَا عَنْ يَمِينِهِ، وَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ تَحْتَ رِجْلِهِ الْيُسْرَى، فَإِنْ عَجِلَتْ بِهِ بَادِرَةٌ، فَلْيَقُلْ بِثَوْبِهِ هٰكَذَا))

((تم میں سے کوئی شخص جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو بلا شبہ اللہ تبارک و تعالٰی اس کے سامنے کی طرف ہوتا ہے، لہٰذا اسے اپنے سامنے کی طرف ہرگز نہیں تھوکنا چاہیے اور نہ اپنی دائیں طرف ہی تھوکنا چاہیے بلکہ اپنی بائیں طرف بائیں پاؤں کے نیچے تھو کے۔ اگر وہ جلدی نکلنے والی ہو تو اپنے کپڑے کے ساتھ اس طرح (صاف) کرے۔‘‘

(أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:3008)

پھر آپ ﷺ نے کپڑے کے ایک حصے کی دوسرے حصے پر تہ لگائی، پھر فرمایا: ((أَرُونِي عَبِيرًا))

’’مجھے خوشبو لا کر دو۔“ قبیلے کا ایک نوجوان اٹھا اور دوڑ کر اپنے گھر والوں کی طرف گیا اور اپنی تھیلی میں خوشبو لے آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے وہ (خوشبو) لی، اسے چھڑی کے سرے پر لگایا اور جس جگہ بلغم لگا ہوا تھا، اس پرمل دی۔

سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: (رسول اللہ ﷺکے اس عمل کو دیکھتے ہوئے) تم نے اپنی مسجدوں میں خوشبو لگانی شروع کی۔