قرآن سے منافقین کی عادتیں

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ ۘ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَهُمْ ؕ نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِیَهُمْ ؕ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۶۷ وَعَدَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا ؕ هِیَ حَسْبُهُمْ ۚ وَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌۙ﴾[التوبة: 67-68]
’’منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہیں، برائی کا حکم دیتے ہیں (یعنی لوگوں کو برائی پر اکساتے اور آمادہ کرتے ہیں) اور بھلائی سے روکتے ہیں (یعنی نیکی سے لوگوں کو متنفر کرتے ہیں) اور اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں (نیکی کے کاموں میں مال خرچ نہیں کرتے) وہ اللہ کو بھلائے بیٹھے ہیں اللہ نے انہیں بھلا دیا ہے۔ یقیناً منافق فاسق (اور نافرمان) ہیں اللہ تعالی نے منافق مردوں منافق عورتوں اور کافروں کو نار جہنم کی وعید سنائی ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے وہ انہیں کافی ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔‘‘
اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں نیک اور بد دونوں قسم کے لوگوں کا تذکرہ فرمایا ہے ایک طرف نبیوں، صدیقوں شہیدوں اور ولیوں کی صفات حمیدہ اور خصائل جمیلہ بیان فرمائی ہیں اور دوسری طرف کافروں، مشرکوں، منافقوں اور فاسقوں کی عبادات قبیحہ اور خصائل رذیلہ ذکر فرمائی ہیں۔
مقصد کیا ہے؟
دونوں قسم کے لوگوں کا تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اچھے لوگوں کی اچھی صفات اپنائیں اور اچھے بن جائیں اور برے لوگوں کی بری خصلتوں سے بچیں اور پرہیز گار بن جائیں۔
یوں آج اکثر لوگ اس مقصد کو پورا نہیں کر رہے۔ آج ہم اچھے لوگوں کے تذکرے کرتے ہیں۔ نبیوں ولیوں کی عظمت اور شان بیان کرتے ہیں لیکن ان کی اچھی صفات نہیں اپناتے انہیں نمونہ بنا کر نیک سیرت اور باعمل نہیں بنتے اور اسی طرح ہم اُٹھتے بیٹھنے مشرکوں اور منافقوں کی بری عادتیں بیان کرتے ہیں لیکن ہم ان مری عادات سے اجتناب نہیں کرتے۔ آج کے خطبہ میں منافقوں کی وہ بری خصلتیں بیان کی جائیں گی جو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہیں اور اُن بری خصلتوں کی بناء پر اُن کی شدید مذمت کی ہے اور انہیں عذاب الیم اور نارجحیم کی وعید سنائی ہے تاکہ ہم ان خصائل مذمومہ سے بچیں اور منافقت کے دھبے سے محفوظ رہیں۔
سب سے پہلے وہ چار خصلتیں ذکر کروں گا جو سورۃ التوبہ میں ایک مقام پر مذکور ہیں۔
پہلی خصلت:
﴿يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ﴾ یہ لوگوں کو برائی گناہ اور نافرمانی پر آمادہ کرتے ہیں معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی و عریانی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں لوگوں کو دین سے دور ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔
﴿يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ﴾ میں یہ سب کچھ ہی داخل ہے۔ اور آمر بالمنکر انتہائی مذموم خصلت ہے۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے تو آمر بالمعروف کا حکم دیا ہے کہ لوگوں کو نیکی کی تاکید اور تلقین کی جائے۔ انہیں کار خیر اور عمل صالح پر آمادہ کیا جائے اور اس سلسلے میں بھر پور محنت کی جائے۔ لیکن منافق اس کے برعکس امر بالمنکر کرتے ہیں۔ لوگوں کو گناہ فسق و فجوز فحاشی و عریانی اور برائی پر لگاتے ہیں اور یہ انتہائی خطرناک جرم ہے۔
صحیح مسلم میں حدیث ہے: ’’جس شخص نے (کسی علاقے میں لوگوں کو) برائی کی دعوت دی اس کی دعوت پر جتنے لوگ وہ برائی کریں گئے اور قیامت تک جتنے لوگ اُس برائی کو جاری رکھیں گئے اُن سب کو جتنا گناہ ہوگا اتنا ہی گناہ برائی کی دعوت دینے والے اور برائی پر آمادہ کرنے والے کو بھی ہوگا۔[صحیح مسلم، كتاب العلم، باب من سن سنة حسنة الخ، رقم: 6804]
اور یہ بات دوسرے لفظوں میں قرآن کریم میں بھی مذکور ہے:
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۙ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ [النور:19]
’’جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں اُن کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہیں۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔‘‘
﴿ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَ﴾ [النساء:44]
’’کیا تم نے نہیں دیکھا؟ جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا ہے وہ گمراہی خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ سے بھٹک جاؤ۔‘‘
﴿ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآىِٕكُمْ ؕ وَ كَفٰی بِاللّٰهِ وَلِیًّا ؗۗ وَّ كَفٰی بِاللّٰهِ نَصِیْرًا﴾ [النساء:45]
’’اللہ تعالی تمہارے دشمنوں کو خوب جاننے والا ہے اور اللہ تعالی کا دوست ہونا کافی ہے اور اللہ تعالی، مددگار ہوتا بس ہے۔‘‘
لمحہ فکریہ:
آج یہ یہود و منافقین والی خصلت ہر مسلم معاشرے میں زوروں پر ہے۔ لوگ فحاشی و عریانی اور فسق و فجور کے داعی اور علمبردار بنے ہوئے ہیں۔ یہ فلموں ڈراموں کے بیوپاری، ناولوں، افسانوں کے فروخت کار قومی اخبار و جرائد میں برہنہ و نیم برہنہ عورتوں کی تصویریں شائع کرنے والے کالونیوں، آبادیوں اور بسوں گاڑیوں میں فلمیں چلانے والے اور ڈیک بجانے والے یہ سب یہودیوں اور منافقوں والا کردار امر بالمنکر ادا کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں رب ارض و سماء نے اعلان فرمایا:
﴿لِیَحْمِلُوْۤا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ ۙ وَ مِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَهُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ﴾ [سورة النحل:25]
کتنی خطر ناک سزا ہے کہ یہ لوگ اپنے گناہوں کے ساتھ اُن لوگوں کے گنا ہوں کا بوجھ بھی اٹھائیں گے جنہیں انہوں نے برائی پر اکسایا اور آمادہ کیا۔
آج یہ برائی کی دعوت اس قدر پھیل چکی ہے کہ جو نہیں سننا چاہتا اُسے زبردستی سنایا جاتا ہے جو نہیں دیکھنا چاہتا اسے زبردستی دکھایا جاتا ہے۔
دوسری خصلت:
وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ۔ ’’لوگوں کو نیکی سے منع کرنا۔‘‘
نیکی اور کار خیر کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا یہ منافقوں کی دوسری بری خصلت ہے کہ وہ لوگوں کو نیکی سے دور کرتے ہیں نیکی کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات ڈالتے ہیں نیکی کی تحقیر کرتے ہیں، لوگوں کو قرآن کی تلاوت سے نماز سے اللہ کے ذکر سے انفاق فی سبیل اللہ سے دعوت دین سے اور جہاد ارسبیل اللہ سے متنفر کرتے ہیں۔ دینی فرائض و واجبات کی پابندی کو اوامر کی ادائیگی اور نواہی سے پرہیز پر استقامت کو بنیاد پرستی اور انتہاء پسندی کا نام دے کر لوگوں کو بے دین بنانے کی کوشش کرتے ہیں شرعی پردے کو عذاب اور قید کا نام دے کر عورتوں کو بے حیاء اور بے پرد بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
و يَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ۔ میں یہ سب کچھ شامل ہے: شعائر اسلام (داڑھی) ٹختون سے اونچی چادر و غیرہ کا مذاق اڑاتے ہوئے۔ لوگوں کو اس سے روکتے ہیں۔ قرآن کریم میں منافقوں کا نہی عن المعروف قدرے تفصیل سے بھی مذکور ہے:
﴿اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ غَرَّ هٰۤؤُلَآءِ دِیْنُهُمْ ؕ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَی اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۝۴۹﴾ [سورة الانفال:49]
’’(وہ وقت یاد کرو) جب (غزوہ بدر کے موقع پر) منافقوں اور بیمار دل لوگوں نے کہا: ان لوگوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال دیا ہے (اس لئے یہ تھوڑی تعداد کے باوجود اتنے بڑے لشکر کے مقابلے میں آ گئے ہیں) حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جو اللہ پر توکل کرے (اللہ اس کے لیے کافی ہے) کیونکہ اللہ تعالی سب پر غالب بہت حکمت والا ہے۔‘‘
﴿فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰهِ وَ كَرِهُوْۤا اَنْ یُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ قَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِی الْحَرِّ ؕ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا ؕ لَوْ كَانُوْا یَفْقَهُوْنَ﴾ [التوبة:81]
’’(غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے والے منافق) خود بھی رسول اللہﷺ سے پیچھے رہنے پر خوش ہوئے اور اُنہوں نے اپنے مالوں اور جانوں کے ذریعے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کو ناپسند کیا (اور انہوں نے لوگوں کے حوصلے پست کرنے کے لئے) کہا: شدت کی گرمی میں نہ نکلو انہیں کہہ دو جہنم کی آگ بڑی گرم ہے کاش یہ سمجھتے۔‘‘
﴿اِتَّخَذُوْۤا اَیْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ﴾ [المجادلة: 16]
’’ان منافقوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ لہذا ان کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘
﴿اِتَّخَذُوْۤا اَیْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ؕ اِنَّهُمْ سَآءَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ [المنافقون:2]
’’انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روکتے ہیں یقینا یہ انتہائی کما کر توت ہے جو یہ کر رہے ہیں۔‘‘
﴿هُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا ؕ وَ لِلّٰهِ خَزَآىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَفْقَهُوْنَ﴾ [المنافقون:7]
’’یہ وہی لوگ ہیں جو آپس میں منصوبے بناتے ہیں اور ایک دوسرے سے) کہتے ہیں رسول اللہﷺ کے پاس رہنے والے (مؤمنوں) پر خرچ نہ کرو تاکہ یہ فقر و فاقہ سے تنگ آ کر) بھاگ نکلیں، لیکن ان منافقوں کو معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمینوں کے خزانوں کا مالک تو اللہ تعالی ہے (وہ جب چاہے گا غرض یہ کہ منافق لوگ مختلف طریقوں سے لوگوں کو نیکی کے کاموں سے روکتے اہل ایمان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا)۔‘‘
غرض یہ کہ منافق لوگ مختلف طریقوں سے لوگوں کو نیکی میں اعمال صالحہ اور عبادات و واجبات سے دور کرتے ہیں، ہر اچھے عمل کو برے روپ میں پیش کر کے اور اُسے مشکل ظاہر کر کے لوگوں کو بے عمل بتاتے ہیں۔
تیسری خصلت:
وَ يَقْبِضُوْنَ أَيْدِيَهُمْ ’’اللہ کی راہ میں مال خرچ نہ کرنا۔‘‘
اس دنیا میں جس کسی کو جتنا مال بھی ملتا ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے۔ دُکان، کارخانہ، منڈی، تجارت، صنعت) مزدوری اور ملازمت یہ سب ظاہری اسباب ہیں۔ اور رزق در اصل آسمان سے اترتا ہے ایک جیسا کاروبار کرنے والے ایک جیسی دکان کھولنے والے ایک جیسی مزدوری کرنے والے نتیجے اور نفع کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ ایک کو کام ملتا ہے ایک کو نہیں ملتا۔ ایک کے پاس گاہک آتا ہے ایک کے پاس نہیں آتا۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رزق اللہ کی طرف سے ملتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا﴾ [الزخرف: 36]
بہرحال جب رزق آسمان سے اترتا ہے سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے تو اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے صرف فرض زکو و ہی نہیں بلکہ نفلی صدقہ و خیرات بھی بکثرت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں جگہ جگہ مؤمنوں متقیوں اور نیک صالح لوگوں کی صفات میں یہ صفت بار بار ذکر کی گئی ہے۔
﴿تَتَجَافٰی جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ؗ وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ﴾ [السجدة:16]
’ان کے پہلو (رات کے وقت) بستروں سے جدا رہتے ہیں (جہنم کے) خوف اور (جنت کے) طمع میں اپنے رب کی بارگاہ میں دعاء و مناجات کرتے ہیں اور ہمارا دیا ہوا مال (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔‘‘
﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ﴾ [البقرة: 3]
’’(متقی وہ لوگ ہیں) جو بن دیکھے ایمان لاتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
﴿اَلصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْمُنْفِقِیْنَ وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ﴾ [آل عمران:17]
’’(جنت اُن لوگوں کے لیے ہے) جو صبر کرنے والے، سچ بولنے والے، لمبا قیام کرنے والے (اللہ کی راہ میں) مال خرچ کرنے والے اور سحری کے وقت بخشش مانگنے والے ہیں۔‘‘ [آل عمران:17]
﴿الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ [آل عمران:134]
’’(متقی وہ لوگ ہیں) جو فراخی اور تنگدستی میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ (ایسے) نیک اور مخلص لوگوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
لیکن منافق اللہ کا دیا ہوا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے ہاتھ روک کر رکھتے ہیں۔ اللہ کی بغاوت میں شیطانی کاموں میں مرنے جینے کے موقعوں پر کافروں جیسی رسموں میں خزانے کا منہ کھول دیتے ہیں، لیکن مسکینوں فقیروں کے لیے دین کی نشر و اشاعت کے لیے مساجد و مدارس کے لیے ان کے پاس کوئی شے نہیں ہوتی، ضرورت مند کو دیکھتے ہی مر ومز و کرنے لگ جاتے ہیں۔ اللہ کی نعمت کو چھپاتے اور بخل کرتے ہیں۔ اور اگر کبھی بے بس اور مجبور ہو کر انہیں خرچ کرنا پڑ جائے تو اُن کا حال کیا ہوتا ہے۔ سورہ توبہ میں اللہ تعالی نے نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے:
﴿وَ مَا مَنَعَهُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقٰتُهُمْ اِلَّاۤ اَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ بِرَسُوْلِهٖ وَ لَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَ هُمْ كُسَالٰی وَ لَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَ هُمْ كٰرِهُوْنَ﴾ [التوبة:54]
’’اور (منافقوں کے) صدقات اس لئے قبول نہیں ہوتے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کا انکار کیا ہے اور وہ نماز کے لئے بڑی سستی کے ساتھ آتے ہیں اور وہ دل سے ناپسند کرتے ہوئے (یعنی بادل ناخواستہ) خرچ کرتے ہیں۔‘‘
غور کیجئے! دِلوں کی کیفیت جاننے والے رب نے ان کی دلی کیفیت بیان فرمائی ہے کہ وہ خوش ہو کر خرچ نہیں کرتے:
﴿وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یَّتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ مَغْرَمًا وَّ یَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَآىِٕرَ ؕ عَلَیْهِمْ دَآىِٕرَةُ السَّوْءِ ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾ [التوبة:98]
’’اور دیہاتوں میں رہنے والے (کئی منافق) انفاق فی سبیل اللہ کو تاوان سمجھتے ہیں اور تمہارے بارے مرے حالات کے منتظر رہتے ہیں حالات کی برائی انہی پہ پڑے گی اور اللہ سب کچھ سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘
یعنی منافق لوگ دل کی تنگی سے خرچ کرتے ہیں اور چٹی اور تاوان سمجھ کر خرچ کرتے ہیں۔ خوشدلی اور رضا و رغبت سے خرچ نہیں کرتے۔ جبکہ مومن اللہ کا حکم سمجھتے ہوئے اور اللہ کا قرب ڈھونڈتے ہوئے اُس کے چہرے کے دیدار کی تڑپ لے کر خرچ کرتے ہیں۔ وہ انفاق فی سبیل الله صدقہ و خیرات اور فرض زکوۃ کو ہرگز تاوان چٹی اور بوجھ نہیں سمجھتے۔
چوتھی خصلت:
نسوا الله ’’انہوں نے اللہ کو بھلا رکھا ہے۔‘‘
یہ بڑی جامع بات ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے دین کو نظر انداز کر رکھا ہے اور اُس کے اوامر و نواہی کو پس پشت ڈال رکھا ہے اُن کے دل اللہ کی محبت اور یاد سے خالی ہیں اور ان کی زبانیں اللہ کے ذکر سے عاری ہیں۔ انہیں ہر وقت دنیاوی مفادات کا فکر کھائے جاتا ہے اور وہ ہر وقت دنیا وی ل توں مسرتوں کی یاد میں رہتے ہیں۔ اللہ کی یاد سے وہ محروم ہیں:
﴿اِسْتَحْوَذَ عَلَیْهِمُ الشَّیْطٰنُ فَاَنْسٰىهُمْ ذِكْرَ اللّٰهِ ؕ اُولٰٓىِٕكَ حِزْبُ الشَّیْطٰنِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ الشَّیْطٰنِ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۱۹﴾ [المجادلة:19]
’’ان پر شیطان غالب ہے اُس نے انہیں اللہ کی یاد سے غافل کر دیا ہے یہ لوگ شیطان کا گروہ ہے اور شیطانی گروہ ہی خسارہ پانے والا ہے۔‘‘
غور فرمائیے! اللہ تعالی نے اللہ کی یاد سے غافل رہنے والوں کو شیطان کا گروہ قرار دیا ہے:
﴿وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْ ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾ [الحشر:19]
’’اور تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ تعالی نے انہیں اپنے نفس ہی بھلا دیئے (وہ اس طرح کہ انہوں نے خود اپنے آپ کو جہنم کا ایند ھن بنا لیا) یہی لوگ فاسق اور نا فرمان ہیں۔‘‘
﴿فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِیْتُمْ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰذَا ۚ اِنَّا نَسِیْنٰكُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۱۴﴾ [السجدة: 14]
’’یہ اللہ کو بھلا دینے کی اُخروی سزا ہے) کہ انہیں کہا جائے گا کہ تم اس دن کی ملاقات کو بھلا دینے کے سبب عذاب کا مزہ چکھو ہم نے آج تمہیں بھلا دیا ہے لہذا اپنے کرتوتوں کی وجہ سے پیشگی کا عذاب چکھو۔‘‘
یہ چار بدترین خصلتیں ہیں جو منافقوں میں پائی جاتی ہیں اس کے علاوہ بھی منافقوں کی بہت ساری بُری خصلتیں قرآن کریم میں موجود ہیں۔ مثلاً مسلمانوں میں فساد برپا کرنا، دو منہوا ہونا، مومنوں سے بغض رکھنا، اسلامی لشکروں کی شکست کی جھوٹی افواہیں پھیلانا، اللہ اور اس کے رسول کے بارے بدگمانی کرنا، جھوٹی قسمیں اُٹھانا، نماز میں سستی کرنا، اللہ کی آیتوں کا مذاق اُڑانا، جہاد سے جان چھڑانے کے لیے جھوٹے بہانے بنانا، جھوٹ بولنا، پیغمبرﷺ اور صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ قیام کی گستاخی کرنا۔
لمحہ فکریہ:
آج منافقوں کی مذکورہ خصلتوں میں اکثر ہمارے معاشرے میں موجود ہیں لیکن ہم نے کبھی فکر نہیں کی۔ ہمارے تو بلند بانگ دعوے ہی ختم نہیں ہوتے۔ ہر شخص اپنے آپ کو اونچے درجے کا مومن اور مسلمان تصور کرتا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی کیفیت:
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی کیفیت ہم سے مختلف تھی وہ معمولی معمولی غلطی پر فکر مند ہو جاتے تھے کہ کہیں ہم منافق تو نہیں ہو گئے۔
حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ:
حنظلہ بن ربیع اسیدی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ ملے انہوں نے دریافت کیا حنظلہ تیرا کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا: حنظلہ تو منافق ہو گیا ہے۔ انہوں نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے سبحان اللہ کہا اور کہا تم کیسی بات کہہ رہے ہو میں نے وضاحت بیان کی کہ جب ہم رسول اللہﷺ کے پاس ہوتے ہیں آپﷺ ہمیں جنت اور دوزخ کا وعظ سناتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم ان کا مشاہدہ کر رہے ہیں، لیکن جب ہم رسول اللہﷺ کی مجلس سے نکل کر بیوی بچوں میں گھل مل جاتے ہیں تو ہم اکثر و بیشتر وعظ کی باتیں فراموش کر دیتے ہیں۔ ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کی قسم ہمارا بھی اسی طرح کا حال ہے۔ چنانچہ میں ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی معیت میں چلا۔ ہم دونوں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ حنظلہ تو منافق ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے استفسار کیا کس لئے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! جب ہم آپ کی مجلس میں ہوتے ہیں آپ کی کہ ہمیں دوزخ اور جنت کی باتیں بتاتے ہیں گویا ہم ان کا مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جب ہم آپﷺ کی مجلس سے باہر آتے ہیں بیوی بچوں اور کاروبار میں مشغول ہوتے ہیں تو ہم آپﷺ کی بتائی ہوئی اکثر و بیشتر باتیں بھول جاتے ہیں۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر ہمیشہ تمہاری وہی حالت رہے جو میرے پاس اور مجلس میں ذکر ہوتی ہے تو فرشتے تم سے تمہارے بستروں اور تمہاری گزرگاہوں میں تم سے مصافحہ کریں لیکن حنظلہ کبھی وہ اور کبھی یہ حال ہونا فطری امر ہے، آپﷺ نے (یکلمہ) تین بار دہرایا۔‘‘[صحیح مسلم، النوبة، باب فضل دوام الذكر والفكر في أمور الآخرة (2750)]
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ جنہیں رسول اللہﷺ نے اللہ تعالی سے مانگ کر لیا تھا، جن کی زبان پر اللہ تعالی نے حق جاری کر دیا تھا وہ عمر جن کے مشورے پر قرآن اتر پڑتا تھا۔ شراب کی حرمت، شرعی پردے کا حکم، مقام ابراہیم کے پاس دو رکعتیں …، یہ سب کچھ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے پہ نازل ہوا۔ وہ عمر جنہیں دیکھ کر شیطان راستہ بدل جاتا تھا۔ شیاطین الجن والانس جن سے ڈر کر بھاگتے تھے وہ عمر جن بارے ناطق وحی نے فرمایا تھا اگر میرے بعد نبی ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نبی ہوتے۔ یہ عظیم المرتبت عمر ایک دن حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کہتے ہیں: تم رازدان پیغمبر ہو، صاحب سرِّ رسول ہو۔ آپ کو رسول اکرم ﷺ نے چند منافقوں کے نام بتلائے تھے۔ سچ سچ بتلاؤ کیا اُن میں میرا نام تو نہیں تھا ؟
لیکن آج ہم نے کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی خیر نہیں لی اور اپنی فکر نہیں کی۔ اللہ ہمیں منافقوں والی تمام خصلتوں سے بچائے۔
آخری بات
منافقوں کی بُری خصلتیں اس قدر خطر ناک ہیں کہ منافقوں کو کھلے کافروں اور مشرکوں کے مقابلے میں زیادہ سخت سزا دی جائے گی۔ جس طرح سورۃ النساء میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ﴾ [النساء: 145)
’’یقینًا منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔‘‘
اور سورۃ المجادلہ میں فرمایا:
﴿ اِتَّخَذُوْۤا اَیْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ۝۱۶ لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْـًٔا ؕ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ؕ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۱ ﴾ [المجادلة: 16،17]
’’ان (منافقوں) نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور یہ (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اس لئے ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے اُن کے مال اور اُن کی اولا دیں انہیں اللہ سے کچھ بھی کفایت نہیں کریں گے۔ یہ لوگ آگ والے ہیں یہ اس میں ہمیشہ رہیں گئے۔‘‘
اللہ تعالی جہنم والے کاموں سے بچائے اور جنت والے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔