قرآن: شفاء اور رحمت

 

اہم عناصر :

❄ قرآن شفاء ہے                     ❄ قرآن رحمت ہے

إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا [بنی اسرائیل: 82]

ذی وقار سامعین!

اللہ تعالٰی نے انسانوں کو پیدا کرکے اور زمین پر بھیج کر بے یارومددگار اور شتر بے مہار نہیں چھوڑا ، بلکہ ان کی رشد و ہدایت کے لئے انبیاء و رسل کا ایک عظیم سلسلہ شروع فرمایا ، جو بستیوں اور علاقوں کی طرف مبعوث کئے گئے۔ ہر نبی کو اللہ تعالٰی نے کوئی نہ کوئی معجزہ عطا فرمایا اور وہ معجزہ علاقے اور دور کے مطابق ہوتا تھا، سیدنا موسٰی علیہ السلام کے دور میں جادو اپنے عروج پر تھا تواللہ تعالٰی نے موسٰی علیہ السلام کو ویسا ہی معجزہ عطا فرمایا۔ سیدنا عیسٰی علیہ السلام کے دور میں حکمت اور طبّ اپنے عروج پر تھی تو اللہ تعالٰی نے سیدنا عیسٰی علیہ السلام کو ویسا ہی معجزہ عطا فرمایا کہ وہ کوڑھی اور برص کے مریض کے جسم پر ہاتھ پھیرتے تھے تو اللہ تعالٰی اس مریض کو شفاء دے دیتے تھے۔ سیدنا داؤد علیہ السلام کے دور میں لوہےکا کاروباراور لوہے سے زرہیں وغیرہ بنانے کا فن اپنے بامِ عروج پر تھا تو اللہ تعالٰی نے سیدنا داؤد علیہ السلام کو ویسا ہی معجزہ عطا فرمایا کہ آپ علیہ السلام کے لئے لوہے کو نرم بنادیا گیا تھا۔

بالکل اسی طرح جنابِ محمد رسول اللہﷺکے دور میں فصاحت و بلاغت اپنے عروج پر تھی، عرب میں فصیح و بلیغ شعراء کا طوطی بولتا تھااور عرب میں بڑے بڑے شعراء موجود تھے، تو اللہ تعالٰی نے جناب محمد رسول اللہﷺکو ویسا ہی فصیح و بلیغ معجزہ قرآن کی صورت میں دیا، جو یقیناً فصاحت و بلاغت کا ایک عظیم شاہکار ہے۔پہلے نبیوں کے معجزے ان کے دنیا سے جانے کے ساتھ ہی ختم ہو گئے لیکن آقا علیہ السلام کا معجزہ قرآن کی صورت میں آج بھی موجود ہے اور تا قیامِ قیامت موجود رہے گا۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے اس کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے۔

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ [الحجر: 9]

"بے شک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔”

قرآنِ کریم کے بہت سارے فضائل ہیں ، قرآنِ مجید ایک لاریب یعنی شک و شبہ سے پاک کتاب ہے۔

ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ [البقرہ: 2]

"یہ کامل کتاب، اس میں کوئی شک نہیں، بچنے والوں کے لیے سرا سر ہدایت ہے۔”

رمضان کے مہینے کا قرآن کے ساتھ گہرا تعلق ہے، کیونکہ اس مہینے میں قرآن نازل ہوا۔

❄شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ

"رمضان کا مہینا وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ہدایت کی اور (حق و باطل میں) فرق کرنے کی واضح دلیلیں ہیں۔”[البقرہ: 185]

❄إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْر [القدر: 1] "بلاشبہ ہم نے اسے قدر کی رات میں اتارا۔”

قرآنِ مجید وہ عظیم کتاب ہے جس کے پڑھنے پڑھانے والے کو آقا علیہ السلام کائنات کے بہترین انسان کہا ہے۔

عَنْ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ

ترجمہ : سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے۔ ] بخاری: 5027[

یہ قرآن وہ عظیم کتاب ہے جس کے ساتھ تعلق کی وجہ جوڑنے کی وجہ سے اللہ تعالٰی غلاموں کے سر پر گورنری اور امارت کے تاج سجا دیتا ہے۔ نافع بن عبدالحارث (مدینہ اور مکہ کے راستے پر ایک منزل) عسفان آکر حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ملے،(وہ استقبال کے لئے آئے) اور حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  انھیں مکہ کا عامل بنایا کرتے تھے،انھوں (حضرت  عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ) نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اہل وادی،یعنی مکہ کے لوگوں پر(بطور نائب) کسے مقرر کیا؟نافع نے جواب دیا:ابن ابزیٰ کو۔انھوں نے پوچھا ابن ابزیٰ کون ہے؟کہنے لگے :ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک ہے۔حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نےکہا:تم نے ان پر ایک آزاد کردہ غلام کو اپنا جانشن بنا ڈالا؟تو (نافع نے) جواب دیا؛

إِنَّهُ قَارِئٌ لِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَإِنَّهُ عَالِمٌ بِالْفَرَائِضِ

"و ہ اللہ عزوجل کی کتاب کو پڑھنے والا ہے اور فرائض کا عالم ہے۔”

عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا؛

أَمَا إِنَّ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ

” (ہاں واقعی) تمہارے نبی  ﷺ  نے فرمایا تھا۔اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن) کے ذریعے بہت سے لوگوں کو اونچا کردیتا   ہے اور بہتوں کو اس کے ذریعے سے نیچا گراتا ہے۔” [مسلم: 1897]

آج کے خطبہ جمعہ میں ہم قرآن کریم کے بہت سارے اوصاف میں سے صرف دو وصف اور صفات کو سمجھیں گے، جو اللہ تعالٰی نے قرآنِ کریم کی ایک آیت کے اندر بیان کئے ہیں۔ اور وہ دو وصف یہ ہیں کہ قرآن شفاء بھی ہے اور قرآن رحمت بھی ہے۔

قرآن شفاء ہے

بیماری والا معاملہ ہر بندے کے ساتھ ہے ، ہر بندہ بیمار ہوجاتا ہے اور اسے شفاء کے لئے علاج معالجہ کی ضرورت ہوتی ہے ، قرآنِ مجید اللہ کا کلام ہے ، یہ شفاء ہے ، اللہ تعالٰی فرماتے ہیں؛

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا

"اور ہم قرآن میں سے تھوڑا تھوڑا نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے سراسر شفا اور رحمت ہے اور وہ ظالموں کو خسارے کے سوا کسی چیز میں زیادہ نہیں کرتا۔”[بنی اسرائیل: 82]

اس آیت کے تحت مولانا عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں؛

"اگرچہ اس آیت میں شفا سے اولین مراد روحانی شفا یعنی کفر و نفاق، شکوک و شبہات اور جہل سے شفا ہے، مگر اس کے احکام پر عمل کرنے سے انسان جسمانی بیماریوں سے بھی شفا پاتا ہے اور ان سے محفوظ بھی رہتا ہے۔ اس کے علاوہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ قرآن دم کے لیے پڑھا جائے تو اس سے مسلم و کافر دونوں کی جسمانی بیماریاں دور ہوتی ہیں۔ "

❄يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ [یونس: 57]

"اے لوگو! بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے عظیم نصیحت اور اس کے لیے سراسر شفا جو سینوں میں ہے اور ایمان والوں کے لیے سرا سر ہدایت اور رحمت آئی ہے۔”

❄قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ [فصلت: 44]

"(اے نبی) کہہ دیجئے یہ(قرآن)ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہدایت اور شفا ہے۔”

❄سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ کے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم سفر میں تھے۔ دوران سفر میں وہ عرب کے ایک قبیلہ پر اترے۔ صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے انہیں اپنا مہمان بنالیں، لیکن انہوں نے مہمانی نہیں کی، بلکہ صاف انکار کر دیا۔ اتفاق سے اسی قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا، قبیلہ والوں نے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی، لیکن ان کا سردار اچھا نہ ہوا۔ ان کے کسی آدمی نے کہا کہ چلو ان لوگوں سے بھی پوچھیں جو یہاں آکر اترے ہیں۔ ممکن ہے کوئی دم جھاڑنے کی چیز ان کے پاس ہو۔ چنانچہ قبیلہ والے ان کے پاس آئے اور کہا کہ بھائیو ! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے ہر قسم کی کوشش کر ڈالی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کیا تمہارے پا س کوئی چیز دم کرنے کی ہے؟ ایک صحابی نے کہا کہ قسم اللہ کی میں اسے جھاڑ دوں گا لیکن ہم نے تم سے میزبانی کے لیے کہا تھا اور تم نے اس سے انکار کر دیا۔ اس لیے اب میں بھی اجرت کے بغیر نہیں جھاڑ سکتا، آخر بکریوں کے ایک گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا۔ وہ صحابی وہاں گئے اور الحمد للہ رب العالمین پڑھ پڑھ کر دم کیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کی رسی کھول دی گئی۔ وہ سردار اٹھ کر چلنے لگا، تکلیف و درد کا نام و نشان بھی باقی نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے طے شدہ اجرت صحابہ کو ادا کردی۔ کسی نے کہا کہ اسے تقسیم کرلو، لیکن جنہوں نے جھاڑا تھا، وہ بولے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر پہلے ہم آپ سے اس کا ذکر کر لیں۔ اس کے بعد دیکھیں گے کہ آپ ﷺ کیا حکم دیتے ہیں۔ چنانچہ سب حضرات رسول کریم ﷺ خدمت میں حاضر ہوئے اورآپ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا یہ تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ بھی ایک رقیہ ہے؟ اس کے بعد آپ نے فرمایا؛

قَدْ أَصَبْتُمْ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

تم نے ٹھیک کیا۔ اسے تقسیم کر لو اور ایک میرا حصہ بھی لگاؤ۔ یہ فرما کر رسول کریم ﷺ ہنس پڑے۔ [بخاری: 2276]

❄عَنْ خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ التَّمِيمِيِّ، عَنْ عَمِّهِ, أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْلَمَ، ثُمَّ أَقْبَلَ رَاجِعًا مِنْ عِنْدِهِ، فَمَرَّ عَلَى قَوْمٍ عِنْدَهُمْ رَجُلٌ مَجْنُونٌ مُوثَقٌ بِالْحَدِيدِ، فَقَالَ أَهْلُهُ: إِنَّا حُدِّثْنَا أَنَّ صَاحِبَكُمْ هَذَا قَدْ جَاءَ بِخَيْرٍ، فَهَلْ عِنْدَكَ شَيْءٌ نُدَاوِيهِ؟ فَرَقَيْتُهُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَبَرَأَ، فَأَعْطَوْنِي مِائَةَ شَاةٍ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: هَلْ إِلَّا هَذَا؟- وَقَالَ مُسَدَّدٌ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ: هَلْ قُلْتَ غَيْرَ هَذَا؟، قُلْتُ: لَا، قَالَ:خُذْهَا، فَلَعَمْرِي لَمَنْ أَكَلَ بِرُقْيَةِ بَاطِلٍ, لَقَدْ أَكَلْتَ بِرُقْيَةِ حَقٍّ

ترجمہ: جناب خارجہ بن صلت تمیمی اپنے چچا ( علاقہ بن صحار سلیطی التمیمی ؓ ) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا ۔ پھر واپس لوٹے تو ایک قوم کے پاس سے گزرے ‘ ان کے ہاں ایک مجنون آدمی تھا جو زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا ۔ اس کے گھر والوں نے ان سے کہا : تحقیق ہمیں خبر ملی ہے کہ تمہارا یہ صاحب ( رسول اللہ ﷺ ) خیر کے ساتھ آیا ہے ۔ تو کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے جس سے تم اس کا علاج کر دو ؟ چنانچہ میں نے اس کو سورۃ فاتحہ سے دم کیا تو وہ ٹھیک ہو گیا ۔ پھر انہوں نے مجھے سو بکریاں دیں تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو اور آپ ﷺ کو خبر دی ۔ آپ ﷺ نے پوچھا ” کیا بس یہی ؟ “ مسدد نے دوسرے موقع پر کہا : ” کیا تم نے اس کے علاوہ بھی کچھ پڑھا تھا ؟ “ میں نے کہا : نہیں ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا ” لے لو ۔ قسم میری عمر کی ! لوگ باطل دم جھاڑ سے کھاتے ہیں ‘ جبکہ تم ایسے دم سے کھا رہے ہو جو حق ہے ۔ “ [ابوداؤد: 3896 صححہ الالبانی]

❄عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اشْتَكَى يَقْرَأُ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ وَيَنْفُثُ فَلَمَّا اشْتَدَّ وَجَعُهُ كُنْتُ أَقْرَأُ عَلَيْهِ وَأَمْسَحُ بِيَدِهِ رَجَاءَ بَرَكَتِهَا [بخاری: 5016]

ترجمہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ جب بیمار پڑتے تو معوذات کی سورتیں پڑھ کر اسے اپنے اوپر دم کرتے ( اس طرح کہ ہوا کے ساتھ کچھ تھوک بھی نکلتا ) پھر جب ( مرض الموت میں ) آپ کی تکلیف بڑھ گئی تو میں ان سورتوں کو پڑھ کر آنحضور ﷺ کے ہاتھوں سے برکت کی امید میں آپ کے جسد مبارک پر پھیر تی تھی ۔

قرآن رحمت ہے

ہر بندہ یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالٰی کی رحمت مجھ پر ہو جائے ، اللہ کی رحمت مجھے ڈھانپ لے ، اللہ تعالٰی کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ اللہ تعالٰی نے اسے اپنے آپ پر فرض کر لیا ہے۔

 اللہ تعالٰی فرماتے ہیں؛

❄كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ

"تمھارے رب نے رحم کرنا اپنے آپ پر لازم کرلیا ہے” [الانعام: 54]

❄وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ

"اور تیرا رب نہایت بخشنے والا، خاص رحمت والا ہے” [الکہف: 58]

اللہ تعالٰی کی رحمت بہت وسیع ہے۔

❄قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

"کہہ دے اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ، بے شک اللہ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے۔ بے شک وہی تو بے حدبخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔” [الزمر: 53]

❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ كَتَبَ فِي كِتَابِهِ وَهُوَ يَكْتُبُ عَلَى نَفْسِهِ وَهُوَ وَضْعٌ عِنْدَهُ عَلَى الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي

ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو پنی کتاب میں اسے لکھا ‘ اس نے اپنی ذات کے متعلق بھی لکھا اور یہ اب بھی عرش پر لکھا ہوا موجود ہے کہ ” میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے “ [بخاری: 7404]

❄أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «جَعَلَ اللَّهُ الرَّحْمَةَ مِائَةَ جُزْءٍ، فَأَمْسَكَ عِنْدَهُ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ جُزْءًا، وَأَنْزَلَ فِي الأَرْضِ جُزْءًا وَاحِدًا، فَمِنْ ذَلِكَ الجُزْءِ يَتَرَاحَمُ الخَلْقُ، حَتَّى تَرْفَعَ الفَرَسُ حَافِرَهَا عَنْ وَلَدِهَا، خَشْيَةَ أَنْ تُصِيبَهُ»

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے رحمت کے سو حصے بنائے اور اپنے پاس ان مےںسے ننانوے حصے رکھے صرف ایک حصہ زمین پر اتارا اور اسی کی وجہ سے تم دیکھتے ہو کہ مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے ، یہاں تک کہ گھوڑی بھی اپنے بچہ کو اپنے سم نہیں لگنے دیتی بلکہ سموں کواٹھا لیتی ہے کہ کہیں اس سے اس بچہ کو تکلیف نہ پہنچے ۔ [بخاری: 6000]

اللہ کی رحمت اسے ملتی ہے جسے اللہ دینا چاہتے ہیں؛

❄وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ

"اور اللہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہتا ہے خاص کرلیتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔” [البقرہ: 105]

❄يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَيَرْحَمُ مَن يَشَاءُ ۖ وَإِلَيْهِ  تُقْلَبُونَ

"وہ عذاب دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور رحم کرتا ہے جس پر چاہتا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔” [العنکبوت: 21]

اللہ کی رحمت اتنی اہم چیز ہے کہ اس کا سوال اللہ سے تقریباً ہر نبی نے کیا ہے، آدم علیہ السلام سے بھول ہوئی تو کہا؛

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

"اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہوجائیں گے۔” [الاعراف: 23]

سیدنا سلیمان علیہ السلام کہتے ہیں؛

رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ

"میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر کروں، جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پرکی ہے اور یہ کہ میں نیک عمل کروں، جسے تو پسند کرے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما۔” [النمل: 19]

سیدنا ایوب علیہ السلام بیمار ہوئے تو فرمایا؛

❄  وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ [الانبیاء: 83]    "اور ایوب، جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ بے شک میں، مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم والا ہے۔”

اصحابِ کہف نے بھی اللہ سے رحمت کا سوال کیا؛

رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا

"اے ہمارے رب! ہمیں اپنے پاس سے کوئی رحمت عطا کر اور ہمارے لیے ہمارے معاملے میں کوئی رہنمائی مہیا فرما۔” [الکھف: 10]

اللہ تعالٰی نے قرآنِ مجید میں نبیﷺکو حکم دیا ہے کہ آپ رحمتِ الٰہی کا مطالبہ کریں؛

وَقُل رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ  الرَّاحِمِينَ

ترجمہ: اور تو کہہ اے میرے رب! بخش دے اور رحم کر اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم والا ہے۔ [المؤمنون: 118]

اور صحیح بخاری میں موجودہے؛

أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَنْ يُدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُهُ الجَنَّةَ» قَالُوا: وَلاَ أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:   لاَ، وَلاَ أَنَا، إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِي اللَّهُ بِفَضْلٍ وَرَحْمَةٍ

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ نے فرمایا کسی شخص کا عمل اسے جنت میں داخل نہیں کر سکے گا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کا نہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں ، میرا بھی نہیں ، سوا اس کے کہ اللہ اپنے فضل ورحمت سے مجھے نوازے. [بخاری: 5673]

مختصر بات یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی رحمت بڑی اہم چیز ہے اور ہمیں ہر وقت اللہ کی رحمت کے متلاشی ہونا چاہئے ، اللہ کی رحمت کو حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ قرآن مجید ہے ، قرآن اللہ کی رحمت ہے ، اللہ تعالٰی فرماتے ہیں؛

❄وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا

"اور ہم قرآن میں سے تھوڑا تھوڑا نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے سراسر شفا اور رحمت ہے اور وہ ظالموں کو خسارے کے سوا کسی چیز میں زیادہ نہیں کرتا۔”[بنی اسرائیل: 82]

❄وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ  تُرْحَمُونَ

"اور یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے، بڑی برکت والی، پس اس کی پیروی کرو اور بچ جاؤ، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔” [الانعام: 155]

ان آیات کریمہ میں اللہ تعالٰی نے قرآن کریم کا دوسرا وصف یہ بیان کیاہے کہ قرآن رحمت ہے، قرآن کو پڑھنے سے رحمت نازل ہوتی ہے اور رحمت کے فرشتے نازل ہوتے ہیں۔

❄سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ رات کے وقت وہ سورہ بقرہ کی تلاوت کر رہے تھے اور ان کا گھوڑا ان کے پاس ہی بندھا ہوا تھا ۔ اتنے میں گھوڑا بدکنے لگا تو انہوں نے تلاوت بند کر دی تو گھوڑا بھی رک گیا ۔ پھر انہوں نے تلاوت شروع کی تو گھوڑا پھر بدکنے لگا ۔ اس مرتبہ بھی جب انہوں نے تلاوت بند کی تو گھوڑا بھی خاموش ہو گیا ۔ تیسری مرتبہ انہوں نے جب تلاوت شروع کی تو پھر گھوڑا بدکا ۔ ان کے بیٹے یحیی چونکہ گھوڑے کے قریب ہی تھے اس لیے اس ڈر سے کہ کہیں انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے ۔ انہوں نے تلاوت بند کر دی اور بچے کو وہاں سے ہٹا دیا پھر اوپر نظر اٹھائی تو کچھ نہ دکھائی دیا ۔ صبح کے وقت یہ واقعہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : ابن حضیر ! تم پڑھتے رہتے تلاوت بند نہ کرتے ( تو بہتر تھا ) انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے ڈر لگا کہ کہیں گھوڑا میرے بچے یحیی کو نہ کچل ڈالے ، وہ اس سے بہت قریب تھا ۔ میں سر اوپر اٹھایا اور پھر یحیی کی طرف گیا ۔ پھر میں نے آسمان کی طرف سر اٹھایا تو ایک چھتری سی نظر آئی جس میں روشن چراغ تھے ۔ پھر جب میں دوبارہ باہر آیا تو میں نے اسے نہیں دیکھا ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہیں معلوم بھی ہے وہ کیا چیز تھی ؟ اسید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ نہیں ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ؛

تِلْكَ الْمَلَائِكَةُ دَنَتْ لِصَوْتِكَ ، وَلَوْ قَرَأْتَ لَأَصْبَحَتْ يَنْظُرُ النَّاسُ إِلَيْهَا لَا تَتَوَارَى مِنْهُمْ

” وہ فرشتے تھے تمہاری آواز سننے کے لیے قریب ہو رہے تھے اگر تم رات بھر پڑھتے رہتے تو صبح تک اور لوگ بھی انہیں دیکھتے وہ لوگوں سے چھپتے نہیں ۔  [بخاری: 5018]

❄عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ كَانَ رَجُلٌ يَقْرَأُ سُورَةَ الْكَهْفِ وَإِلَى جَانِبِهِ حِصَانٌ مَرْبُوطٌ بِشَطَنَيْنِ فَتَغَشَّتْهُ سَحَابَةٌ فَجَعَلَتْ تَدْنُو وَتَدْنُو وَجَعَلَ فَرَسُهُ يَنْفِرُ فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ تِلْكَ السَّكِينَةُ تَنَزَّلَتْ بِالْقُرْآنِ

ترجمہ : حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صحابی ( اسید بن حضیر ) سورۃ کہف پڑھ رہے تھے ۔ ان کے ایک طرف ایک گھوڑا دو رسوں سے بندھا ہواتھا ۔ اس وقت ایک ابر اوپر سے آیا اور نزدیک سے نزدیک تر ہونے لگا ۔ ان کا گھوڑا اس کی وجہ سے بدکنے لگا ۔ پھر صبح کے وقت وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ( ابر کا ٹکڑا ) سکینہ تھا جو قرآن کی تلاوت کی وجہ سے اترا تھا ۔ [بخاری: 5011]