قربانی کا پیغام میرے اور آپ کے نام
01.قربانی اخلاص کا درس دیتی ہے کہ اعمال صالحہ خالص اللہ تعالٰی کے لیے ہی بجا لائے جائیں
ارشاد باری تعالیٰ ہے
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الأنعام : 162)
کہہ دے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔
مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی قلبی، زبانی اور جسمانی عبادات، مثلاً قیام، رکوع اور سجود، یہ سب غیر اﷲ کے لیے تھیں، اسی طرح ان کی قربانیاں اور زندگی اور موت کا وقت سب انھی کی نذر تھا، ہاں کبھی ﷲ تعالیٰ کو بھی شامل کر لیتے تھے۔ فرمایا، ان سے صاف کہہ دیجیے کہ میرا تو یہ سب کچھ ایک اﷲ کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے یہی حکم ہے اور سب سے پہلے میں اپنے آپ کو ایک اﷲ تعالیٰ کے سپرد کرنے والا اور اس کا فرماں بردار بنانے والا ہوں، میرا جینا اور مرنا بھی اس اکیلے کا کلمہ بلند کرنے اور اس کے ساتھ شرک کو ختم کرنے کے لیے ہے، حتیٰ کہ اسی پر میری موت آ جائے۔
02.قربانی تقوی کا درس دیتی ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے
لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ (الحج : 37)
اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون اور لیکن اسے تمھاری طرف سے تقویٰ پہنچے گا۔ اسی طرح اس نے انھیں تمھارے لیے مسخر کر دیا، تاکہ تم اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمھیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دے۔
یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس نہ قربانیوں کے گوشت پہنچیں گے، جو کھا لیے گئے اور نہ ان کے خون، جو بہا دیے گئے۔ یہ سب کچھ یہیں رہ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ان سے غنی ہے، اس کے پاس تو تقویٰ یعنی تمھارے دل کا وہ خوف پہنچے گا جو اللہ کی ناراضگی سے بچاتا ہے، جو دل پر غالب ہو جاتا ہے تو آدمی اللہ کے ہر حکم کی تعمیل کرتا اور ہر منع کردہ کام سے باز آ جاتا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ إِنَّ اللّٰهَ لَا يَنْظُرُ إِلٰی صُوَرِكُمْ وَ أَمْوَالِكُمْ وَلٰكِنْ يَّنْظُرُ إِلٰی قُلُوْبِكُمْ وَ أَعْمَالِكُمْ ] [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم ظلم المسلم و خذلہ… : 2564/34 ]
’’اللہ تعالیٰ تمھاری شکلوں اور تمھارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمھارے دلوں اور تمھارے عملوں کو دیکھتا ہے۔‘‘
اس آیت اور حدیث سے دل کے تقویٰ اور نیت کے اخلاص کی اہمیت ظاہر ہے، اس لیے قربانی خالص اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے، نہ دکھاوا مقصود ہو اور نہ شہرت، نہ فخر اور نہ یہ خیال کہ لوگ قربانی کرتے ہیں تو ہم بھی کریں۔ نیت کے بغیر عمل کا کچھ فائدہ نہیں۔ نیت خالص ہو تو بعض اوقات عمل کے بغیر ہی بلند مقامات تک پہنچا دیتی ہے۔
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس آئے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو فرمایا :
[ إِنَّ بِالْمَدِيْنَةِ اَقْوَامًا مَا سِرْتُمْ مَسِيْرًا وَلَا قَطَعْتُمْ وَادِيًا إِلَّا كَانُوْا مَعَكُمْ قَالُوْا يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ! وَهُمْ بِالْمَدِيْنَةِ ؟ قَالَ وَهُمْ بِالْمَدِيْنَةِ حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ ] [ بخاري، المغازی، باب : ۴۴۲۳ ]
’’مدینہ میں کئی لوگ ہیں کہ تم نے کوئی سفر نہیں کیا اور نہ کوئی وادی طے کی ہے مگر وہ تمھارے ساتھ رہے ہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! مدینہ میں رہتے ہوئے؟‘‘ فرمایا : ’’ہاں! مدینہ میں رہتے ہوئے، انھیں عذر نے روکے رکھا۔‘‘
نیت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ آدمی کی زندگی جتنی بھی ہو محدود ہے، یعنی صرف چند سال، اگر اس میں نیک عمل کرے تو ہمیشہ ہمیشہ جنت میں اور برے عمل کرے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ محدود عمل پر غیر محدود جزا نیت کی وجہ سے ہے کہ نیک کی نیت ہمیشہ نیکی کرتے رہنے کی اور بد کی نیت ہمیشہ بدی کرتے رہنے کی تھی۔
تقویٰ ہر وقت اللہ کے خوف سے اس کے احکام پر عمل اور اس کی نافرمانی سے بچنے کا نام ہے۔
احسان بھی یہی ہے کہ ہر وقت یہ بات دل و دماغ میں حاضر رکھے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حدیث جبریل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کی تفسیر فرمائی :
[ أَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ ] [ بخاري، الإیمان، باب سؤال جبریل… : ۵۰ ]
’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ یقینا تمھیں دیکھ رہا ہے۔‘‘
03.قربانی سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کے اسوہ حسنہ پر بھی عمل کرنے کا پیغام دیتی ہے کیونکہ قربانی سنت ابراہیم علیہ السلام ہے
سنتِ ابراہیمی اپنانے کے ساتھ ساتھ عقیدہءِ ابراہیمی بھی اپنایا جائے
ارشاد باری تعالیٰ ہے
قَدۡ كَانَتۡ لَـكُمۡ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ فِىۡۤ اِبۡرٰهِيۡمَ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۚ (الممتحنة – آیت 4)
یقینا تمہارے لیے ابراہیم اور ان لوگوں میں جو اس کے ساتھ تھے ایک اچھا نمونہ ہے
اور فرمایا
اُولٰٓٮِٕكَ الَّذِيۡنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰٮهُمُ اقۡتَدِهۡ ؕ (الأنعام – آیت 90)
یہی( انبیاء )وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی، سو تو ان کی ہدایت کی پیروی کر،
یعنی توحید اور عقائد میں ان کی راہ پر قائم رہیے، کیونکہ تمام انبیاء ان باتوں میں متفق ہیں، باقی احکام میں سے بھی جو منسوخ نہیں ہوئے ان کی بھی پیروی کیجیے۔ یا مطلب یہ ہے کہ ان انبیاء کی طرح آپ بھی دشمنوں کی ایذا رسانی پر صبر کیجیے۔ اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ جن کاموں میں کوئی نیا حکم نہیں آیا ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے انبیاء کے طریق پر رہنے کا حکم تھا۔
مجاہد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا :
’’کیا سورۂ ص میں سجدہ ہے؟‘‘
تو انھوں نے «وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ يَعْقُوْبَ» سے لے کر «فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ» تک تلاوت کر کے فرمایا :
’’ہاں، وہ (داؤد علیہ السلام ) بھی ان لوگوں میں سے تھے جن کی پیروی کا آپ کو اس آیت میں حکم دیا گیا ہے اور اس آیت میں داؤد علیہ السلام کے سجدے کا ذکر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان انبیاء کی پیروی کا حکم ہے۔‘‘
[بخاری، التفسیر، باب قولہ: «أولئك الذين هدي الله … » : ۴۶۳۲ ]
04.*قربانی، اللہ تعالٰی کی راہ میں جان، مال اور اولاد تک کی قربانیوں کے لیے تیار کرتی ہے
اسی لئے تو پہلے ابراہیم علیہ السلام کو بیٹا ذبح کرنے کا حکم دیا گیا اور یہی قربانی کا فلسفہ ہے*
ارشاد باری تعالیٰ ہے
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعۡىَ قَالَ يٰبُنَىَّ اِنِّىۡۤ اَرٰى فِى الۡمَنَامِ اَنِّىۡۤ اَذۡبَحُكَ فَانْظُرۡ مَاذَا تَرٰىؕ قَالَ يٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ سَتَجِدُنِىۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيۡنَ (الصآفات 102)
پھر جب وہ اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچ گیا تو اس نے کہا اے میرے چھوٹے بیٹے ! بلاشبہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ بیشک میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، تو دیکھ تو کیا خیال کرتا ہے ؟ اس نے کہا اے میرے باپ ! تجھے جو حکم دیا جا رہا ہے تو اسے کر گزر اگر اللہ نے چاہا تو تو مجھے ضرور صبر کرنے والوں میں سے پائے گا
ابراہیم علیہ السلام وقتاً فوقتاً شام سے اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ کی خبر گیری کے لیے آتے رہتے تھے۔ جب بیٹا اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچ گیا، یعنی اس قابل ہو گیا کہ باپ کا ہاتھ بٹا سکے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابراہیم علیہ السلام کو ایک نیا امتحان پیش آیا۔ وہ یہ کہ انھوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ بڑی دعاؤں اور آرزؤوں کے بعد بڑھاپے میں ملنے والے نہایت عزیز بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔ نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے، اس لیے انھوں نے اسے اللہ کا حکم سمجھ کر کسی بھی تردّد کے بغیر اس پر عمل کا پکا ارادہ کر لیا اور بیٹے سے کہا، اے میرے پیارے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، سو دیکھ، تو کیا خیال کرتا ہے۔
بیٹے کی رائے پوچھنے کا مطلب یہ نہ تھا کہ اگر وہ نہ مانتا تو وہ اللہ کے حکم پر عمل نہ کرتے، بلکہ وہ اپنے ساتھ بیٹے کو اللہ کے حکم کی اطاعت میں شریک کرنا چاہتے تھے اور انھیں امید تھی کہ بیٹا اللہ کے حکم کی تعمیل کے لیے ضرور آمادگی کا اظہار کرے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں حلیم لڑکے کی بشارت دی تھی اور واقعی بیٹے نے یہ کہہ کر حلیم ہونے کا ثبوت دیا
قَالَ يٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ
اے میرے باپ ! تجھے جو حکم دیا جا رہا ہے تو اسے کر گزر
اس سے معلوم ہوا کہ اسماعیل علیہ السلام نے اسے محض خواب نہیں بلکہ اللہ کا حکم سمجھا اور کہا اے میرے باپ! آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے وہ کیجیے۔ یہ صاف دلیل ہے کہ انبیاء کا خواب وحی ہوتا ہے۔ ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام دونوں نے یہی سمجھا اور دونوں اسے اللہ کا حکم سمجھ کر اس کی تعمیل کے لیے تیار ہو گئے۔
سَتَجِدُنِيْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ : اس میں اسماعیل علیہ السلام کی کمال اطاعت کے ساتھ ان کا کمال صبر ظاہر ہو رہا ہے، جو ان کے ’’ غُلَامٌ حَلِيْمٌ ‘‘ ہونے کا نتیجہ تھا۔ اطاعت اور صبر کے ساتھ ان کا اللہ تعالیٰ کے لیے حسنِ ادب بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ انھوں نے اپنی اطاعت اور قربانی کو اللہ تعالیٰ کی مشیّت کے تابع قرار دیا کہ اگر اس نے چاہا تو میں اس آزمائش پر صبر کروں گا۔
(تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)
کسی صاحب نے لکھا ہے کہ اصل قربانی تو باپ بیٹے کی گفتگو تھی
دنبہ کی قربانی تو اس کا فدیہ تھی
ہمیں دنبہ یاد رہا گفتگو یاد نہیں رہی
05.قربانی اپنے سب سے اچھے اور محبوب مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا پیغام دیتی ہے
فرمان باری تعالٰی
لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ (آل عمران – آیت 92)
تم پوری نیکی ہرگز حاصل نہیں کرو گے، یہاں تک کہ اس میں سے کچھ خرچ کرو جس سے تم محبت رکھتے ہو اور تم جو چیز بھی خرچ کرو گے تو بیشک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔
نیکی میں کامل درجہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عزیز ترین چیز صرف کی جائے۔
اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کی ایک دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
01.انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : ’’یا رسول اللہ ! میری جائداد میں سے مجھے سب سے محبوب ’’بَيْرُحَاء‘‘ باغ ہے (جو عین مسجد نبوی کے سامنے تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا نفیس پانی پیا کرتے تھے) اور اے اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
«لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ »
سو میں اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور اس کے اجر و ثواب کی امید رکھتا ہوں، آپ اس کے بارے میں جو چاہیں فیصلہ فرما دیں۔‘‘
[ بخاری، الزکوٰۃ، باب الزکوٰۃ علی الأقارب … : ۱۴۶۱، مختصرًا ]
02.عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :
’’اے اللہ کے رسول! مجھے خیبر میں سے جو حصہ ملا ہے اس سے بڑھ کر نفیس مال مجھے آج تک حاصل نہیں ہوا، میں نے ارادہ کیا ہے کہ اسے صدقہ کر دوں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’اصل اپنے پاس رکھو اور اس کے پھل کو اللہ کے راستے میں تقسیم کر دو۔‘‘
چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے وقف کر دیا۔
[ بخاری، الشروط، باب الشروط فی الوقف : ۲۷۳۷۔ ابن ماجہ :۲۳۹۶، ۲۳۹۷ ]
قربانی کے جانور کے لیے جوان، تندرست اور بے عیب ہونے کی شروط لگائی گئی ہیں تاکہ اللَّهُ کی راہ میں محبوب ترین مال خرچ کرنے کی عادت پیدا ہو
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا
لَا يَجُوزُ مِنْ الضَّحَايَا الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ عَرَجُهَا وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا وَالْعَجْفَاءُ الَّتِي لَا تُنْقِي (نسائي 4376)
’’چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں: کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو، لنگڑا جس کا لنگڑا پن واضح ہو، مریض جس کا مرض واضح ہو اور اتنا کمزور جانور کہ اس میں گودا تک نہ ہو۔‘‘
06.قربانی، غریبوں، مسکینوں اور عام مسلمانوں کو کھانہ کھلانے، مظلوم اور دکھی انسانیت کی خدمت کا درس دیتی ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے
فَكُلُوۡا مِنۡهَا وَاَطۡعِمُوا الۡبَآٮِٕسَ الۡفَقِيۡـرَ (الحج – آیت 28)
سو ان میں سے کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو کھلاؤ۔
اور فرمایا
فَكُلُوۡا مِنۡهَا وَاَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَالۡمُعۡتَـرَّ ؕ (الحج – آیت 36)
تو ان سے کچھ کھاؤ اور قناعت کرنے والے کو کھلاؤ اور مانگنے والے کو بھی۔
حدیث میں آتا ہے
جس سال مدینہ منورہ میں باہر سے کافی زیادہ تعداد میں لٹے پھٹے مہاجرین آئے تھے اس سال نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تین دن سے زیادہ گوشت ذخیرہ کرنے سے منع فرمایا تھا تاکہ ان سے تعاون کیا جا سکے
عبد اللہ بن ابی بکر نے حضرت عبد اللہ بن واقد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا:
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمْرَةَ فَقَالَتْ صَدَقَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ حَضْرَةَ الْأَضْحَى زَمَنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادَّخِرُوا ثَلَاثًا ثُمَّ تَصَدَّقُوا بِمَا بَقِيَ فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ النَّاسَ يَتَّخِذُونَ الْأَسْقِيَةَ مِنْ ضَحَايَاهُمْ وَيَجْمُلُونَ مِنْهَا الْوَدَكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا ذَاكَ قَالُوا نَهَيْتَ أَنْ تُؤْكَلَ لُحُومُ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ فَقَالَ إِنَّمَا نَهَيْتُكُمْ مِنْ أَجْلِ الدَّافَّةِ الَّتِي دَفَّتْ فَكُلُوا وَادَّخِرُوا وَتَصَدَّقُوا (مسلم 5103)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین (دن رات ) کے بعد قربانیوں کے گو شت کھا نے سے منع فر ما یا ۔عبد اللہ بن ابی بکر نے کہا : میں نے یہ بات عمرہ (بنت عبد الرحمان بن سعد انصار یہ ) کو بتا ئی عمرہ نے کہا : انھوں نے سچ کہا: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بادیہ کے کچھ گھرانے (بھوک اور کمزوری کے سبب) آہستہ آہستہ چلتے ہو ئے جہاں لو گ قربانیوں کے لیے مو جو د تھے (قربان گا ہ میں)آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :” تین دن تک کے لیے گو شت رکھ لو ۔ جو باقی بچے (سب کا سب ) صدقہ کر دو۔”دوبارہ جب اس (قربانی ) کا مو قع آیا تو لو گوں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !لو گ تو اپنی قربانی (کی کھا لوں ) سے مشکیں بنا تے ہی اور اس کی چربی پگھلا کر ان میں سنبھال رکھتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” کیا مطلب ؟” انھوں نے کہا : یہ (صورتحال ہم اس لیے بتا رہے ہیں کہ) آپ نے منع فرما یا تھا کہ تین دن کے بعد قربانی کا گو شت (وغیرہ استعمال نہ کیا جا ئے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :” میں نے تو تمھیں ان خانہ بدوشوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو اس وقت بمشکل آپا ئے تھے ۔اب (قربانی کا گو شت ) کھا ؤ رکھو اور صدقہ کرو۔”
لوگوں کو کھانا کھلانے کی عظمت و شان ان آیات میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا (الإنسان : 8)
اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور قیدی کو۔
إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (الإنسان : 9)
(اور کہتے ہیں) ہم تو صرف اللہ کے چہرے کی خاطر تمھیں کھلاتے ہیں، نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔
إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا (الإنسان : 10)
یقینا ہم اپنے رب سے اس دن سے ڈرتے ہیں جو بہت منہ بنانے والا، سخت تیوری چڑھانے والا ہو گا۔
فَوَقَاهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا (الإنسان : 11)
پس اللہ نے انھیں اس دن کی مصیبت سے بچا لیا اور انھیں انوکھی تازگی اور خوشی عطا فرمائی۔
وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا (الإنسان : 12)
اور انھیں ان کے صبر کرنے کے عوض جنت اور ریشم کا بدلہ عطا فرمایا۔
مُتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ لَا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِيرًا (الإنسان : 13)
وہ اس میں تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے، نہ اس میں سخت دھوپ دیکھیں گے اور نہ سخت سردی۔
07.قربانی درس دیتی ہے کہ اللہ تعالٰی کی نعمتیں اور نشانیاں دیکھ کر سبق حاصل کیا جائے اور اللہ تعالٰی کا شکر ادا کیا جائے
وَالۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰهَا لَـكُمۡ مِّنۡ شَعَآٮِٕرِ اللّٰهِ لَـكُمۡ فِيۡهَا خَيۡرٌ ۖ فَاذۡكُرُوا اسۡمَ اللّٰهِ عَلَيۡهَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُهَا فَكُلُوۡا مِنۡهَا وَاَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَالۡمُعۡتَـرَّ ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرۡنٰهَا لَـكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ (الحج – آیت 36)
اور قربانی کے بڑے جانور، ہم نے انھیں تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں سے بنایا ہے، تمہارے لیے ان میں بڑی خیر ہے۔ سو ان پر اللہ کا نام لو، اس حال میں کہ گھٹنا بندھے کھڑے ہوں، پھر جب ان کے پہلو گر پڑیں تو ان سے کچھ کھاؤ اور قناعت کرنے والے کو کھلاؤ اور مانگنے والے کو بھی۔ اسی طرح ہم نے انھیں تمہارے لیے مسخر کردیا، تاکہ تم شکر کرو۔
"الْبُدْنَ ‘‘ بڑے بدن والا جانور۔
یہ لفظ بڑے جسم کی وجہ سے اونٹ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
گائے کو بھی ’’بَدَنَةٌ‘‘ کہہ لیتے ہیں
قاموس میں ہے :
’’ اَلْبَدَنَةُ مُحَرَّكَةً مِنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ كَالْأُضْحِيَةِ مِنَ الْغَنَمِ‘‘
’’یعنی جس طرح بھیڑ بکری کی قربانی کو اضحیہ کہتے ہیں اسی طرح اونٹ اور گائے کو بدنہ کہتے ہیں۔‘‘
حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں :
[ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّيْنَ بِالْحَجِّ فَأَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَنْ نَّشْتَرِكَ فِي الْإِبِلِ، وَالْبَقَرِ، كُلُّ سَبْعَةٍ مِنَّا فِيْ بَدَنَةٍ ] [ مسلم، الحج، باب جواز الاشتراک في الھدی… : 1318/351 ]
’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھے ہوئے نکلے تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم اونٹوں اور گائیوں میں شریک ہو جائیں، ہم میں سے ہر سات آدمی ایک بدنہ میں شریک ہو جائیں۔‘‘
فائدہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اونٹ اور گائے دونوں کو بدنہ کہتے ہیں اور یہ کہ حج کے موقع پر اونٹ اور گائے دونوں میں سات سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔
یعنی یہ ہم ہیں جنھوں نے اس طرح بے بس کرکے اتنے بڑے قوی ہیکل اونٹ اور بیل، جو طاقت میں تم سے کہیں زیادہ ہیں، تمھارے تابع کر دیے ہیں۔ تم ان سے جو فائدہ چاہتے ہو اٹھاتے ہو، ان پر بوجھ لادتے ہو، سواری کرتے ہو، دودھ پیتے ہو اور جب چاہتے ہو ذبح کر لیتے ہو، وہ اف نہیں کرتے۔ مقصد یہ ہے کہ تم ہمارا شکر ادا کرو، نہ کہ مشرکین کی طرح ان کا جن کا نہ ان چوپاؤں کے پیدا کرنے میں کوئی دخل ہے اور نہ تمھارے لیے تابع کرنے میں
اتنے بڑے، مضبوط اور قوی ہیکل جانور، اللہ کے حکم سے انسان کے ایسے تابع فرمان ہوئے کہ جب چاہے انہیں ذبح کر کے کھا جائے اور جب چاہے ان پر سواری کرے شائد یہی وجہ ہے کہ بوقت سواری اللہ کی تسبیح بیان کرنے کا حکم دیا گیا ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَالَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْكَبُونَ (الزخرف : 12)
اور وہ جس نے سب کے سب جوڑے پیدا کیے اور تمھارے لیے وہ کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔
لِتَسْتَوُوا عَلَى ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ (الزخرف : 13)
تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر جم کر بیٹھو، پھر اپنے رب کی نعمت یاد کرو، جب ان پر جم کر بیٹھ جاؤ اور کہو پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لیے تابع کر دیا، حالانکہ ہم اسے قابو میں لانے والے نہیں تھے۔
وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ (الزخرف : 14)
اور بے شک ہم اپنے رب کی طرف ضرور لوٹ کر جانے والے ہیں۔
ہمارے استاذ گرامی جناب حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ لکھتے ہیں
انسان جب گھوڑوں، گدھوں، خچروں، اونٹوں یا کشتیوں پر سوار ہوتا ہے اور جم کر بیٹھ جاتا ہے تو عام عادت بن جانے کی وجہ سے اسے احساس ہی نہیں ہوتا کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سواریوں کو تابع کر دیے جانے کی کتنی بڑی نعمت عطا ہوئی ہے۔ ذرا کسی شیر یا چیتے یا کسی اور جنگلی جانور پر اس طرح جم کر بیٹھے، پھر اسے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر ہو گی۔ یہی حال سمندر میں پہاڑوں جیسی موجوں کے درمیان بحری جہازوں پر سکون و اطمینان کے ساتھ سواری کا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے کشتیوں اور چوپاؤں میں سے تمھارے لیے سواریاں بنائیں، تاکہ ان کی پشتوں پر جم کر بیٹھو، پھر جب ان پر جم کر بیٹھ جاؤ تو اپنے رب کی انھیں تمھارے لیے مسخر کرنے کی نعمت یاد کرو۔
اور دل میں یاد کرنے کے ساتھ زبان سے بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح ان الفاظ میں بیان کرو، تاکہ تمھیں احساس رہے اور اقرار بھی ہوتا رہے کہ ان سواریوں کو قابو میں لانا کبھی ہمارے بس کی بات نہ تھی اور یہ بھی کہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ان سواریوں کی محتاجی ہم مجبور بندوں کی ضرورت ہے۔ ہمارا مالک ہر قسم کے احتیاج اور مجبوری سے پاک ہے۔اگر انسان سوچے تو سواریوں سے پہلے زمین کی پشت بھی چوپاؤں اور کشتیوں کی پشت کی طرح ہے، جس پر سوار وہ زمانے کے حوادث اور تھپیڑوں کے درمیان جم کر محوِ سفر ہے۔ سو ہماری ابتدا ہمارے رب کی طرف سے ہوئی، اس نے زندگی بسر کرنے کے لیے زمین کی پشت کو ہمارے لیے بچھونا بنا دیا، پھر اس نے چوپاؤں اور کشتیوں کی پشت کو ہمارے لیے جائے سکون بنا دیا، اب ساری عمر ہم ان پر سکون و اطمینان کے ساتھ سوار ہوتے رہتے ہیں۔
ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر کی طرف نکلتے ہوئے سواری پر جم کر بیٹھ جاتے تو تین دفعہ ’’اَللّٰهُ أَكْبَرُ‘‘ کہتے، پھر کہتے : [ سُبْحَانَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِيْنَ وَإِنَّا إِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ، اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِيْ سَفَرِنَا هٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی، اَللّٰهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هٰذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ، اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلِيْفَةُ فِي الْأَهْلِ، اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ وَسُوْءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَ الْأَهْلِ ]
’’ پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لیے تابع کر دیا، حالانکہ ہم اسے قابو میں لانے والے نہ تھے اور بے شک ہم اپنے رب کی طرف ضرور لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اے اللہ ! ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ کا سوال کرتے ہیں اور عمل میں سے ایسے عمل کا جسے تو پسند فرمائے۔ اے اللہ ! ہم پر ہمارا یہ سفر آسان کر دے اور اس کی دوری کو ہم سے لپیٹ دے۔ اے اللہ ! تو ہی سفر میں ساتھی اور گھر والوں میں جانشین ہے۔ اے اللہ ! میں سفر کی مشقت اور غم ناک منظر دیکھنے سے اور مال اور اہل میں ناکام لوٹنے کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
08.قربانی ہمیں درس دیتی ہے کہ اللہ تعالٰی کو جوانی کی عبادت اور جوانی کی قربانی بہت پسند ہے
یعنی اپنے آپ کو بھی اور اپنی اولاد کو بھی عین جوانی، صحت اور تندرستی کی حالت میں اللہ تعالٰی کے لیے وقف رکھا جائے یہ نہیں کہ جب خود بوڑھے ہوگئے تو مسجد میں ڈیرے ڈال دیے اور اپنی اولاد میں سے بھی جو بچہ سب سے زیادہ نالائق، کمزور اور اپاہج ہو اسے مسجد، مدرسہ اور حفظ قرآن کے لیے چھوڑ دیا
لاغر، کمزور، لنگڑے، بھیگنے اور انتہائی بوڑھے جانور کی قربانی کے ممنوع ہونے میں یہی فلسفہ ہے
جوانی کی عبادت کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عظیم خوش خبری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا
سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ:
سات طرح کے آدمی ہوں گے۔ جن کو اللہ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔ جس دن اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔
الإِمَامُ العَادِلُ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ (بخاری 660)
اوّل انصاف کرنے والا بادشاہ، دوسرے وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں جوانی کی امنگ سے مصروف رہا
09.قربانی ہمارے گھروں اور گلی محلوں کو خون سے رنگین کرکے جہاد فی سبیل اللہ کا پیغام دیتی ہے
اور اپنے بیٹوں، بھائیوں کی اللہ کی راہ میں قربانی کیلئے تیار کرتی ہے
جیسا کہ اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم قربانی کے اصل فلسفے کی طرف اشارہ کررہا ہے
اسماعیل اور ابراہیم علیہما السلام کے اس عظیم واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کبھی ایسا ہو کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہو اور اسلام کی خاطر جہاد کرتے ہوئے سب کچھ قربان کر دینے کی ضرورت ہو اور دوسری طرف ماں باپ اور خویش و اقارب کی محبت ہو اور دنیا کے دوسرے تعلقات یا مفادات و خطرات اس کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہوں تو مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ہر شخص اور ہر مصلحت سے بے پروا ہو کر اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی پیروی کرے اور کوئی دنیوی مفاد یا خطرہ ایسا نہیں ہونا چاہیے جو اسے اللہ کا حکم ماننے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے باز رکھ سکے، ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بھی وقت عذاب آ سکتا ہے۔
اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار واضح فرمایا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
[ بخاری، الإیمان، باب حب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من الإیمان : ۱۵، عن أنس رضی اللہ عنہ]
عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا۔
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :
’’آپ مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں سوائے اپنی جان کے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب تک کہ میں تجھے تیری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی :
’’اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔‘‘
فرمایا :
’’اب اے عمر ! (تیرے ایمان کا معاملہ درست ہوا)۔‘‘
[ بخاری، الأیمان والنذور، باب کیف کانت یمین النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ۶۶۳۲ ]
یہی بات قرآن میں موجود ہے
قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (التوبة : 24)
کہہ دے اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا خاندان اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور رہنے کے مکانات، جنھیں تم پسند کرتے ہو، تمھیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
10.قربانی توحید کا پیغام دیتی ہے کہ معبود و مسجود صرف ایک اللہ رب العزت کی ذات اقدس ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا عبادت کی کسی بھی قسم کا مستحق نہیں ہے
قُلۡ اِنَّ صَلَاتِىۡ وَنُسُكِىۡ وَ مَحۡيَاىَ وَمَمَاتِىۡ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ (الأنعام – آیت 162)
کہہ دے بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔
مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی قلبی، زبانی اور جسمانی عبادات، مثلاً قیام، رکوع اور سجود، یہ سب غیر اللہ کے لیے تھیں، اسی طرح ان کی قربانیاں اور زندگی اور موت کا وقت سب انھی کی نذر تھا، ہاں کبھی اللہ تعالیٰ کو بھی شامل کرلیتے تھے۔ فرمایا، ان سے صاف کہہ دیجیے کہ میرا تو یہ سب کچھ ایک اللہ کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے یہی حکم ہے اور سب سے پہلے میں اپنے آپ کو ایک اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے والا اور اس کا فرماں بردار بنانے والا ہوں، میرا جینا اور مرنا بھی اس اکیلے کا کلمہ بلند کرنے اور اس کے ساتھ شرک کو ختم کرنے کے لیے ہے، حتیٰ کہ اسی پر میری موت آجائے۔( الأستاذ بھٹوی ح)
قربانی اور دیگر عبادات کے لائق صرف اور صرف اللہ تعالٰی کی ہی ذات ہے
فرمایا
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (الكوثر – آیت 2)
پس تو اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔
اس آیت مبارکہ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ نماز پڑھو تو صرف اپنے رب کے لیے اور قربانی کرو تو وہ بھی اسی کے لیے، کسی غیر کے لیے نہیں
غیراللہ کے لیے جانور ذبح کرنا لعنت کا کام ہے
ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں بیان کیا کہا : میں حضرت علی بن ابی طا لب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھا ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو راز داری سے کیا فر ما تے تھے؟ آپ ناراض ہو ئے اور کہا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کو ئی راز نہیں بتا یا جس کو اور لوگوں سے چھپایا ہو۔البتہ آپ نے مجھے چار باتیں ارشاد فر ما ئی تھیں ۔اس نے پو چھا : امیر المومنین ! وہ کیا باتیں ہیں ؟ انھوں نے کہا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :
لَعَنَ اللہُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَهُ وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ آوَى مُحْدِثًا وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ غَيَّرَ مَنَارَ الْأَرْضِ (مسلم 5124)
” جو شخص اپنے والد پر لعنت کرے اس پر اللہ کی لعنت ہے اور جو شخص غیر اللہ کے نام پر ذبح کرے اس پر اللہ لعنت کرے اور جو شخص کسی بدعتی کو پناہ دے اس پر اللہ لعنت کرے اور جس شخص نے زمین (کی حد بندی) کا نشان بدلا اس پر اللہ لعنت کرے۔”
مگر افسوس کہ آج بہت سے مسلمان یا تو صریح غیراللہ کے نام پر جانور ذبح کرتے ہیں یا پھر ذبح تو اللہ کے نام پر کرتے ہیں لیکن بعد گیارہویں شریف کے ختم کے کی آڑ میں غیر اللہ کو اس میں شامل کر لیتے ہیں
11.قربانی اتباع سنت کا پیغام دیتی ہے اور یہ کہ خلاف سنت اعمال قبول نہیں ہوتے
دلیل….
ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے سنت سے ہٹ کر عید کی نماز سے پہلے جانور ذبح کر دیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے کہا تھا کہ یہ محض گوشت کا جانور ہے قربانی نہیں ہے
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :
إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا نُصَلِّي ثُمَّ نَرْجِعُ فَنَنْحَرُ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا وَمَنْ ذَبَحَ فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ قَدَّمَهُ لِأَهْلِهِ لَيْسَ مِنْ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ وَكَانَ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ قَدْ ذَبَحَ فَقَالَ عِنْدِي جَذَعَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُسِنَّةٍ فَقَالَ اذْبَحْهَا وَلَنْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ (مسلم 5073 وبخاري)
” آج کے دن ہم جس کا م سے آغاز کریں گے (وہ یہ ہے ) کہ ہم نماز پڑھیں گے، پھر لوٹیں گے، اور قربانی کریں گے۔جس نے ایسا کیا ، اس نے ہمارا طریقہ پالیا اور جس نے (پہلے) ذبح کر لیا تو وہ گو شت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کو پیش کیا ہے۔وہ کسی طرح بھی قربانی نہیں ہے ۔”حضرت ابو بردہ بن دینار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( اس سے پہلے) ذبح کر چکے تھے انھوں نے کہا : میرے پاس بکری کا ایک سالہ بچہ ہے جو دودانتی بکری دودانتا بکرے سے بہتر ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :تم اس کو ذبح کردو ،اور تمھا رے بعد یہ کسی کی طرف سے کا فی نہ ہو گی۔
یعنی اعمال کے قبول ہونے کی شرط یہ ہے کہ آدمی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا پابند رہے۔ اگر کوئی شخص اطاعت سے نکل کر کوئی اعمال شروع کر دے تو اس کے سارے اعمال باطل ہیں، خواہ وہ اپنے خیال میں کتنے اچھے عمل کرتا رہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ (محمد : 33)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا حکم مانو اور اس رسول کا حکم مانو اور اپنے اعمال باطل مت کرو۔
ہر وہ عمل جس میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ ہو اور وہ ان کے بتائے ہوئے طریقے پر نہ ہو وہ باطل ہے، کیونکہ عمل کی قبولیت کے لیے اخلاص اور اتباع سنت شرط ہے،
جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ ] [ مسلم، الأقضیۃ، باب نقض الأحکام الباطلۃ و رد محدثات الأمور : ۱۸ /۱۷۱۸ ]
’’جو شخص وہ عمل کرے جس پر ہمارا عمل نہیں وہ مردود ہے۔‘‘
12.قربانی اللہ کی راہ میں بڑھ چڑھ کر خرچ کرنے کا پیغام دیتی ہے
دلیل….
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک عید موقعہ پر سو اونٹ قربان کیے
ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَنْحَرِ فَنَحَرَ بِيَدِهِ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ وَأَمَرَ عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ (ابو داؤد 1905)
پھر رسول اللہ ﷺ قربان گاہ کی طرف تشریف لے گئے اور اپنے ہاتھ سے تریسٹھ اونٹنیاں نحر کیں اور بقیہ کے متعلق سیدنا علی ؓ کو حکم دیا اور ان کو اپنی قربانی میں شریک بنایا
آج مالدار صاحب استطاعت لوگوں کو چاہیے کہ ضرور اس سنت پر عمل کریں اور بڑھ چڑھ کر قربانی کیا کریں
13.قربانی، جانوروں پر بھی رحم، شفقت اور نرمی کرنے کا پیغام دیتی ہے
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،انھوں نے کہا:دو باتیں ہیں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد رکھی ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛:
«إِنَّ اللهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ، فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ»، (مسلم 5055)
"اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ سب سے اچھا طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔اس لئے جب تم(قصاص یاحد میں کسی کو) قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو،اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو،تم میں سے ایک شخص(جو ذبح کرنا چاہتا ہے) وہ اپنی(چھری کی ) دھار کو تیز کرلے اور ذبح کیے جانے والے جانور کو اذیت سے بچائے۔”
ایسے ہی شریعت اسلامیہ میں قربانی کے جانوروں کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحِلُّوۡا شَعَآٮِٕرَ اللّٰهِ وَلَا الشَّهۡرَ الۡحَـرَامَ وَلَا الۡهَدۡىَ وَلَا الۡقَلَٓاٮِٕدَ (المائدة – آیت 2)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! نہ اللہ کی نشانیوں کی بےحرمتی کرو اور نہ حرمت والے مہینے کی اور نہ حرم کی قربانی کی اور نہ پٹوں (والے جانوروں) کی
”الْهَدْيَ“ ایسے جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی حرم میں قربان کرنے کے لیے ساتھ لے جاتے تھے۔ اونٹوں کی کوہان کی دائیں طرف تھوڑا سا زخم کر کے مل دیتے، اسے اشعار کہتے ہیں اور گلے میں ایک جوتا یا پٹا ڈال دیتے۔
”الْقَلَآئدَ“ یہ ’’ قِلاَدَةٌ ‘‘ کی جمع ہے، جس سے مراد وہ پٹا یا رسی وغیرہ ہے جو پرو کر ہدی ( قربانی) کے گلے میں بطور علامت باندھ دی جاتی تھی۔ چھوٹے جانوروں کا اشعار نہیں کرتے تھے۔
”الْقَلَآئدَ“ کا معنی اگرچہ پٹے ہیں مگر مراد وہ جانور ہیں جن کے گلے میں وہ پٹا ڈالا گیا ہو۔ ان سب چیزوں کا ذکر اگرچہ ”شَعَآئرَ اللّٰهِ“ کے ضمن میں آ چکا ہے مگر ان کے مزید احترام کی خاطر ان کو الگ بیان کیا ہے۔
مزید فرمایا
َ وَمَنۡ يُّعَظِّمۡ شَعَآٮِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنۡ تَقۡوَى الۡقُلُوۡبِ (الحج – آیت 32)
اور جو اللہ کے نام کی چیزوں کی تعظیم کرتا ہے تو یقینا یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔ ۔
قربانی کے جانور بھی ” شعائر اللہ “ میں داخل ہیں
چناچہ فرمایا :
(وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَاۗىِٕرِ اللّٰهِ ) [ الحج : ٣٦ ]
” اور قربانی کے بڑے جانور، ہم نے انھیں تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں سے بنایا ہے۔ “
ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے آتے ہوئے انھیں کوئی نقصان نہ پہنچائے، جانور قیمتی خریدے اور عیب دار جانور نہ خریدے۔ ان پر جھول اچھی ڈالے، انھیں خوب کھلائے پلائے اور سجا کر رکھے، جیسا کہ گلے میں قلادے ڈالنے سے ظاہر ہے، مجبوری کے بغیر ان پر سواری نہ کرے، اور قربانی کے بعد ان کے جھول وغیرہ بھی صدقہ کر دے۔
( تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ )
14.قربانی, چند عارضی پابندیوں سے گزار کر مستقل حرام اور ممنوع کاموں سے اجتناب کی مشق کرواتی ہے
مثال کے طور
دس دن ناخن اور بال نہیں کاٹنے یعنی قربانی کا ارادہ رکھنے والا شخص جب ذوالحجہ کا چانددیکھ لے یا یہ خبر عام ہو جائے کہ چاند نظر آگیا ہے تو اس رات سے لے کر اپنے جا نور کی قربانی کر لینے تک اپنے جسم کے کسی حصے سے کوئی بال یا ناخن نہ کاٹے کیونکہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ» (صحیح مسلم، الأضاحي، باب نهى من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو يريد التضحية أن يأخذ من شعره…، ح:۱۹۷۷)
"جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔
بوڑھا جانور ذبح نہیں کرنا
کمزور جانور ذبح نہیں کرنا
بھینگا اور لنگڑا جانور ذبح نہیں کرنا
شریعت اسلامیہ میں قربانی کی عارضی پابندیوں کی طرح بعض مستقل اور دائمی پابندیاں بھی موجود ہیں مثال کے طور پر دس دن جسم کے کسی بھی حصے سے بال نہیں کاٹنے تو پوری زندگی داڑھی کے بال نہیں کاٹنے
اگر قربانی میں عیب دار جانور ذبح کرنے کی پابندی ہے تو پوری زندگی حرام کمائی سے حاصل کیا ہوا جانور یا مال کھانے پر بھی پابندی ہے
15.نماز پڑھنے اور قربانی کرنے والے شخص کے دشمنوں کو اللہ تعالٰی کافی ہوجاتے ہیں اور ان کی جڑ کاٹ دیتے ہیں نیز اس شخص کا تذکرہ دیر تک باقی رہتا ہے اور اللہ تعالٰی ایسے شخص کو کثیر اولاد عطا فرماتے ہیں ان شاء اللہ
اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ
بلاشبہ ہم نے تجھے کوثر عطا کی۔
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ
پس تو اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔
اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ (الكوثر )
یقینا تیرا دشمن ہی لاولد ہے۔
–
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
اخلاص، تقوی، قربانیاں
بڑھ چڑھ کر صدقات
توحید
سنت کی اہمیت (داڑھی)
عارضی سے مستقل پابندی(حرام خوری)
تعاون باہمی
قربانی کرنے والا ضائع نہیں ہوتا
جہاد، جوانی کی عبادت
یوم عرفہ اور یوم نحر کی ترغیب