رد شرک

الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ
﴿فَاعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمُ﴾ (سورة محمد: 19)
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ’’پس اس بات کو جان لو کہ یقینا اللہ ہی سچا معبود ہے اور اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی چاہو اور مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کے لیے مغفرت مانگا کرو اور اللہ تعالی تمہاری آمد ورفت در رہنے سہنے کی جگہ کو خوب جانتا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور معبودیت بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالی کو ایک جانو اور اس کو ہر قسم کی عبادتوں کا مستحق سمجھو اور اپنے گناہوں اور مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش طلب کرو۔ وہ تمہاری تمام حرکات و سکنات سے واقف ہے عبادت کے معنی اطاعت فرمانبرداری کے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے ہر حکم و قانون کو مان کر اس کے مطابق عمل کرنے کا نام عبادت ہے اور خدا معبود ہے ہر قسم کی عبادت اس کے لیے کی جائے ۔ وہ معبود حقیقی صرف اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ ذات میں کوئی شریک ہے نہ صفات میں۔ شرک کی بہت سی قسمیں ہیں یہاں پر صرف چار قسمیں بیان کی جاتی ہیں۔
(1) شرک فی العبادت
یعنی عبادت میں اللہ تعالی کے ساتھ دوسرے کو شریک کرنا کہ جس طرح اللہ تعالٰی عبادت کا مستحق ہے اس طرح دوسرے کو بھی مستحق سمجھنا جیسے نماز، روزہ، حج، زکوۃ، رکوع، سجدہ کرنا، ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا ان سے دعائیں مانگنا نذرو نیاز وغیرہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے اب کسی زنده یا مرده، پیر، پیغمبر، ولی، امام شهید و غیرہ کے لیے ان کو کرنا۔ اور ان کی قبر پر سجدہ رکوع اور طواف کرنا شرک فی العبادت ہے۔
(2) شرک فی العلم
یعنی اللہ تعالی جیسا علم دوسروں میں ماننا ہے جیسے ہر جگہ حاضر و ناظر رہنا ہر چیز کا جاننا دور و نزدیک سے برابر سنا و غیر و سب اللہ تعالی کی شان ہے ان ہی صفتوں کو دوسروں کے لیے کسی طرح ثابت ماننا کہ دوسرا کوئی نبی، ولی، پیر، شہید، فرشتہ وغیرہ بھی اللہ تعالی کی طرح ہر چیز کو جانتے ہیں اور ہر جگہ حاضر و ناظر رہتے ہیں اور دور ونزدیک کی ہر چیز کی خبر رکھتے ہیں یہ عقیدہ سرا سر غلط اور بالکل باطل ہے اور ایسا عقیدہ رکھنے کو شرک فی العلم کہتے ہیں۔
(3) شرک فی التصرف
یعنی مخلوق میں سے کسی کا اللہ تعالی کی طرح تصرف تسلیم کرنا مخلوق میں اپنے ارادے سے تصرف کرانا اور اپنا حکم جاری کرنا اپنی مرضی سے مارنا زندہ کرنا آرام و تکلیف دینا، تندرست و بیمار کرنا، مرادیں پوری کرنا اور مشکل کے وقت کام آنا، روزی عنایت کرنا اور اولاد دینا، ہوا چلانا، مینہ برسانا وغیرہ یہ سب باتیں اللہ تعالی ہی کے لیے خاص ہیں کسی نبی، ولی، پیر و مرشد، زندہ، مردہ میں یہ باتیں ہرگز ہرگز نہیں پائی جاتیں ہیں ان ہاتوں کو دوسروں میں ثابت ماننا کہ دورہ اشخص بھی مشکل کشائی اور حاجت روائی کرتا ہے آرام و تکلیف دیتا ہے۔ مارتا ہے اور زندہ کرتا ہے اور عالم میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرتا ہے اس قسم کے شرک کو شرک فی التصرف کہتے ہیں:۔
(4) شرک فی العادت
عادت کے طور پر جو کام اللہ تعالی کی تعظیم کے لیے کرنے چاہیں وہ غیر اللہ کے لیے کیے جائیں جیسے قسم کھانا اٹھتے بیٹھتے نام لینا وغیرہ سب کام اللہ تعالی کی تعظیم و بڑائی کے لیے کیے جاتے ہیں تو کلمہ لا الہ الا اللہ میں توحید الہی کا اثبات اور شرک کی نفی ہے سب سے پہلے فی العبادت کا تذکرہ کیا جاتا ہے کہ ہر قسم کی عبادتیں صرف اللہ ہی کے لیے خاص ہیں اور وہی ان کا مستحق ہے اللہ تعالی نے تمام جہان والوں کو یہ تعلیم دی ہے۔
﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ (الفاتحة: (٤)
’’ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔‘‘
ہماری ہر قسم کی مالی، بدنی، قلبی، لسانی، اور باطنی سب عبادتیں صرف تیرے ہی لیے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے یہ حکم دیا۔
﴿قُلْ إِنَّ صَلٰوتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ﴾ (الانعام:162،163)
’’آپ فرما دیجئے بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور مرنا سب خالص اللہ ہی کے لیے ہے جو مالک ہے سارے جہاں کا۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اس کا حکم دیا گیا ہے اور میں اپنے زمانے کے ماننے والوں میں پہلا مسلمان ہوں۔‘‘
نماز روزہ حج زکوۃ اور تمام فرضی و نفلی عبادتیں صرف اللہ تعالی ہی کے لیے ہیں غیر خدا کے لیے ہرگز نہیں اسی کو توحید فی العبادت کہتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَ السَّمَاءَ بِنَاءً وَانزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادً وَّأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ (البقرة۔ 21،22)
’’اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا یہی تمہارا بچاؤ ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا اور آسمان کو چھت اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کر کے تمہیں روزی دی۔ خبردار با وجود جاننے کے خدا کے ساتھ شریک مقرر نہ کرو۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے ضرورت کی تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کی ہیں زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہاری شکلیں اور صورتیں بنا میں آسمان سے پانی برسایا اور ہر قسم کے پھل تمہیں روزی دینے کے لیے پیدا کیے۔ لہذا تم اس کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔
بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے۔
(قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَىُّ الذَّنْبِ عِنْدَ اللَّهِ أَكْبَرُ؟ قَالَ أَنْ تَدْعُوَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ) الْحَدِيثِ
(صحیح بخاری: 1014؍2 كتاب التوحيد، باب قول الله تعالى يا ايها الرسول بلغ ما انزل اليك …. رقم الحديث: 7532، صحیح مسلم:63؍1 كتاب الإيمان باب بيان كون الشرك اقبح الذنوب ….. رقم الحديث: 258)
’’ایک شخص نے دریافت کیا کہ یا رسول ﷺ کون سا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ جس نے تم کو پیدا کیا ہے شریک ٹھہرانا یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔‘‘
بخاری و مسلم شریف میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت معاذرضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا:
(يَا مُعَاذُ اتَدْرِي مَا حَقُ اللهِ عَلَى عِبَادِهِ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ، قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَّعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَ حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَّا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا)
(صحیح بخاری: 400؍1، كتاب الجهاد باب اسم الفرس و الحمار رقم الحديث:2756، صحیح مسلم: 44؍1 كتاب الإيمان، باب الدليل على أن من مات على التوحيد دخل الجنة قطعًا، رقم الحديث:143،144،145)
’’اے معاذ! کیا تم یہ جانتے ہو کہ اللہ تعالی کا حق بندوں پر کیا ہے اور بندوں کا حق اللہ پر کیا ہے میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ملی تاہم زیادہ جانتے ہیں آپﷺ نے فرمایا اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اس کی عبادت کریں اس کو ایک سمجھیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور بندوں کا حق اللہ تعالی پر یہ ہے کہ اللہ ان موحدین کو سزا نہ دے جو اللہ کو ایک ہی مانتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔‘‘
شرک سے بچنے کی بڑی تاکید آئی ہے اور شرک کی چال چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہے آدمی شرک کر بیٹھتا ہے اور اس کو اس کا احساس نہیں ہوتا جیسے بعض لوگ یوں کہہ دیتے ہیں کہ جو خدا چاہے اور فلاں چاہے یا جو خدا چاہے اور اس کا رسول ﷺ چاہے تو اس طرح کہنے سے بھی شرک پیدا ہو جاتا ہے۔
صحیح حدیث میں ہے کہ کسی نے رسول اللہ ﷺ سے کہا جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں تو آپﷺ نے فرمایا: کیا تو مجھے اللہ تعالی کا شریک ٹھہراتا ہے۔(مسند احمد:72؍5، و طبرانی کبير:324؍8۔ رقم الحديث: 8214، 8215، و ابن ماجه: كتاب الكفارات باب النهي ان یقال ماشاء الله و شئت، رقم الحدیث 2118)
دوسری حدیث میں ہے تم اچھے لوگ ہوا کر تم شرک نہ کرتے تم کہتے ہو کہ جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے یہ شرک ہے۔. (مسند احمد:72؍5، و طبرانی کبير:324؍8۔ رقم الحديث: 8214، 8215، و ابن ماجه: كتاب الكفارات باب النهي ان یقال ماشاء الله و شئت، رقم الحدیث 2118)
اللہ تعالی کی ذات شرک سے بالاتر ہے جب کوئی عبادت میں خدا کے سوا دوسرے کو شریک کرتا ہے تو اللہ تعالی سب کو چھوڑ دیتا ہے اور اس کی عبادت کو بھی قبول نہیں فرماتا ہے۔ حدیث قدسی میں ہے۔ (قَالَ اللهُ تَعَالَى أَنَا أَغْنَى الشَّرَكَاء عَنِ الشِّرْكِ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي ترَكْتُهُ وَشِرْكَهُ وَأَنَا مِنْهُ بَرِى).
’’اللہ تعالی نے فرمایا ہے میں تمام ساتھیوں سے بے پرواہ ہوں جس نے کوئی ایسا کام کیا کہ اس کام میں میرے ساتھ دوسروں کو شریک کر لیا ں کو بھی چھوڑ دیتا ہوں اور اسکے ساتھی کو بھی چھوڑ دیتا ہوں اور میں اس سے بیزار ہوں۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہیں کرنا چاہیے یہ بڑی ہے انصافی کی بات ہے کہ اللہ تعالی کھلائے پلائے اور سب کچھ دے اور عبادت غیروں کے لیے ہو اس کی مثال تو ایسی ہے کہ کوئی ملازم یا نوکر رکھے اور ماہوار یا سالانہ اس کو اجرت اے اور وہ مالک کا کام نہ کرے بلکہ دوسرے کا کرے یا کچھ کما کے دوسرے کو دے دے تو ایسا غلام و ملازم بہت ہی ناکارہ ہے اور آقا ایسے غلام سے کبھی خوش نہیں ہو سکتا۔
اللہ تعالی کی سب سے بڑی تعظیم اور بندگی یہ ہے کہ اس کو ایک ہی جاتا جائے اگر کوئی خدا کے برابر دوسروں کو جانے اور سمجھے اور یہ عقیدہ رکھے کہ خدا کی طرح دوسرا بھی خدا ہے یا خدا کی صفات کی طرح دوسروں میں بھی وہ صفیں پائی جاتی ہیں جیسے کہ اللہ تعالی خالق اور پیدا کرنے والا ہے دوسروں کو بھی خالق سمجھے اللہ تعالی رازق اور مربی ہے دوسرے کو بھی رازق اور رب جانا جائے تو یہ خدا کے مثل اور برابر بناتا ہوا جو شرک ہے یا یہ کہ اللہ تعالی ہی کے لیے قیام تعظیمی ہے جیسا کہ فرمایا: ﴿قَوْمُوا اللَّهِ فَانتين﴾
’’صرف اللہ کے لیے تعظیما کھڑے ہو‘‘ غیر خدا کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونا شرک ہے اسی طرح سے رکوع سجدہ کرنا صرف اللہ تعالی ہی کو کرنا چاہیے دوسروں کے لیے یہ کرنا شرک فی العبادت ہے ۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا
﴿لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ﴾ (حم السجدة:37)
’’نہ سورج کو سجدہ کرو نہ چاند کو بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا اگر تم خدا کی عبادت کرتے ہوں) پس کسی امیر کبیر فقیر، بادشاہ، ولی، پیر پیغمبر اور بزرگ کے لیے سجدہ کرنا شرک ہے اس نے فرمایا ﴿وَأَنَّ الْمَسْجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا﴾ (الجن :18)
’’سجدہ صرف اللہ کے لیے ہے لہٰذا اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔ )
ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لْوَكُنتُ امُرُانُ يُّسْجُدَ لِأَحَدٍ لَاَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا)
’’اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ دو اپنے خاوند کو سجدہ کیا کرے۔‘‘ لیکن خدا کے سوا کسی کے لیے سجدہ کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے ہماری شریعت کو پہلی شریعتوں پر قیاس نہیں کیا جا سکتا اور تعظیمی طور پر جھکنا اور آداب بجالانا اور رکوع کرنا اور اٹھتے بیٹھتے نام لینا اللہ تعالیٰ ہی کے لیے مخصوص ہے غیر کے لیے کرنا شرک ہے جیسا کہ فرمایا۔
﴿وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ﴾ (البقرة:43)
’’رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘
اور خدا کے نیک بندوں کی تعریف میں قرآن مجید میں فرمایا:
﴿الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ﴾ (آل عمران:191)
’’یعنی مسلمان وہی لوگ ہیں جو اٹھتے بیٹھتے اور سوتے وقت اللہ تعالی ہی کو یاد کرتے ہیں۔‘‘
عبادت اور نماز کے وقت مؤدب قبلہ رخ کھڑا ہونا اللہ ہی کے لیے ہونا چاہیے عبادت کے وقت بیت اللہ شریف کے علاوہ کسی درخت یا پتھر یا کسی بزرگ کی قبر کی طرف تعظیمًا و تکریمًا ہاتھ باندھ کر متوجہ ہونا اور منہ کر کے اس کے سامنے کھڑا ہونا شرک ہے جیسا کہ فرمایا۔
﴿قَوْلِ وَجُهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ (البقرة: 144)
’’بیت اللہ شریف کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو۔‘‘
حج کرنا اور دور دراز سے سفر کر کے بیت اللہ شریف کی زیارت کے لیے جانا اور اس کا طواف کرنا اس کے دروازے کو چومنا اس کے پردہ اور خلاف کو پکڑ کر دعا کرنا صفا مروہ پر مخصوص مقام کی سعی کرنا، منی مزدلفہ عرفات جانا اور وہاں قربانی کرنا اور حرم مکہ و مدینہ کا احترام کرنا شجر ممنوعہ کو نہ کاٹنا وغیرہ سب اللہ کی تعظیم اور اس کے حکم کی بجا آوری اور عبادت کے لیے مخصوص ہے ان مقامات مقدسہ کے علاوہ دوسرے مقامات کی اسی طرح کی تعظیم و زیارت ناجائز بلکہ شرک فی العبادت ہے اللہ تعالی نے فرمایا
﴿وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ﴾ (آل عمران : 97)
(جامع الترمذي: 203؍2۔ كتاب الرضاع: باب ما جاء في حق الزوج على المرأة، رقم الحديث1159)
’’اللہ ہی کے لیے لوگوں پر بیت اللہ شریف کی زیارت فرض ہے۔‘‘
اور سورۃ حج میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔
﴿وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰی كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ۝۲۷
لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ ۚ فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآىِٕسَ الْفَقِیْرَؗ۝۲۸
ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۝۲﴾ (الحج:27 تا 29)
’’لوگوں کو حج کی منادی کر دیجئے لوگ تمہارے پاس پا پیادہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی دور دراز کی تمام راہوں سے آئیں گے اور اس لیے کہ وہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے آجائیں اور ان مقررہ دنوں میں اللہ تعالی کا نام یاد کریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہوں پس تم آپ بھی اسے کھاؤ اور بھو کے فقیروں کو بھی کھلاؤ پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور خدا کے قدیم گھر کا طواف کریں۔‘‘
آج کل بعض لوگ مردوں کے تقرب کے واسطے قرآن پڑھتے ہیں اور کھانا بزرگوں کی نذر کے واسطے کرتے ہیں اسی طرح نقدی غیر اللہ کے نام پر صرف کرتے ہیں جیسا کہ موحد لوگ یہ سب عباد میں محض خدا کے واسطے کرتے ہیں اسی طرح بعض لوگ اپنے کھیت باغ مویشی اپنی تجارت اور کمائی میں سے غیروں کے نام کی نذر نیاز کرتے ہیں تو یہ بھی شرک ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا۔
﴿وَيَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا يَعْلَمُوْنَ نَصِيْبًا مِّمَّا رَزَقْنَاهُمْ وَاللَّهِ لَتُسْتَلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَفْتَرُوْنَ﴾ (النحل:56)
’’بعض نادان ہماری پیدا کی ہوئی روزی میں سے غیروں کے لیے حصہ بخبراتے ہیں اللہ کی قسم ان کی ان افترا بازیوں کی ان سے ضرور باز پرس ہوگی۔)
شرک فی العلم
حمد و صلوۃ کے بعد اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
﴿وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ﴾ (سورة الانعام:59)
’’اور اللہ کے پاس تمام غیب کی کنجیاں میں اس کے علاوہ کوئی ان کو نہیں جانتا۔‘‘
یعنی اللہ تعالی ہر چیز کا جاننے والی اور دور نزدیک سے برابر دیکھنے کا اور پوشیدہ و ظاہر کا واقف کار اور ہر جگہ حاضر و ناظر اور ہر ایک کی بات کو سننے والا ہے یہ صفت صرف اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہے اس آیت کریمہ میں اس نے یہ بتایا ہے کہ غیب کی کنجیاں صرف ہمارے ہاتھ میں ہیں اور کسی کے پاس نہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے بندوں کو ظاہری چیزیں دریافت کرنے کی ترکیبیں بتادی ہیں جیسے دیکھنے کو آنکھ سنے کو کان سوکھنے کو ناک لکھنے کو زبان ۔ چھونے کو ہاتھ سمجھنے کو عقل دی ہے کہ ضرورت کے وقت جیسا دیکھنے کو دل چاہے آنکھ کھول کر دیکھنے لگیں اور جب چاہیں بند کر لیں اسی طرح اور چیزوں کو بھی معلوم کر لیتے ہیں تو گویا ان ظاہری چیزوں کے دریافت کرنے کی ان کو کنجیاں دی ہیں جس کے ہاتھ میں کنجیاں ہوتی ہیں اس کے ہاتھ میں اختیار ہوتا ہے جب چاہے قتل کھول کر سب چیزوں کو دیکھ لے اور جب چاہے نہ کھولے لیکن غیب کے دریافت کرنے کی کنجی کسی کو نہیں دی بلکہ اس کو اپنے پاس ہی رکھا ہے کسی نبی، ولی، شہید، جن، اور فرشتے کو یہ طاقت نہیں کہ اگر ان کو کوئی غیب دان جانے گا تو وہ ان کو اللہ کے ساتھ شریک کرے گا۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یوں فرمایا ہے:
﴿قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ ؕ وَ لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ ۛۖۚ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوْٓءُ ۛۚ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۠۝۱﴾ (سورة اعراف: 188)
’’اے ہمارے نبی! آپ لوگوں سے فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے نفع و نقصان کا کچھ بھی مالک و مختار نہیں ہوں مگر جو اللہ چاہے اگر میں غیب جانتا تو میں بہت سی خوبیاں جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف اور برائی نہ پہنچتی میں تو صرف نافرمانوں کو عذاب الہی سے ڈراتا ہوں اور ایمان والوں کو خوشی سناتا ہوں۔‘‘
اس میں شک نہیں کہ کائنات میں آپ مل نیلام کے برابر کا بھی کوئی ہوا نہ ہوگا پھر بھی اپنی ذات کے نفع و نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے تھے تو دوسرے کسی شمار میں ہیں اللہ تعالی اپنے نبی سے فرما رہا ہے کہ آپ خود لوگوں میں اس کا اعلان کر دیں کہ میں اپنی ذات کے نفع و ضرر کا مالک و مختار نہیں ہوں تو دوسروں کو کیا نفع و نقصان پہنچا سکتا ہوں اور نہ میں غیب جانتا ہوں کہ بغیر اللہ تعالیٰ کے بنائے معلوم کرلوں اگر میرے قابو میں غریب داعی ہوتی تو پہلے ہر کام کی بھلائی برائی معلوم کر لیتا اور اس کام کے انجام کو سوچ لیتا اگر اچھا ہوتا تو کرتا اور خراب ہوتا تو نہیں کرتا اس صورت میں بھی بھی تکلیف نہیں پہنچتی اور نہ کبھی نقصان اٹھاتا مگر تمہیں معلوم ہے کہ مجھے تکلیف پہنچتی ہے نقصان بھی ہوتا ہے دیکھو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پر منافقوں نے تہمت لگائی ایک ماہ تک سخت پریشانی رہی جب وحی آئی اور اللہ نے بتایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سچی پاک دامن ہیں تب معلوم ہوا۔ اس قسم کے بہت سے واقعات موجود ہیں۔
اس آیت کریمہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ غیب صرف اللہ ہی جانتا ہے اس کے علاوہ کوئی نہی، ولی، شہید، پیر، جن اور فرشتہ غیب نہیں جانتا اگر کوئی غیب جاننے کا دعویٰ کرے تو وہ اس آیت کا مخالف و منکر ہے۔
اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے۔
﴿قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُ ؕ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ۝۶﴾ (سورة النمل: 65)
’’اے ہمارے نبی! آپ لوگوں سے فرمادیجیے کہ زمین اور آسمان میں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا (بلکہ) ان کو یہ بھی خبر نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔‘‘
اللہ تعالی اپنے نبیﷺ کو حکم دے رہا ہے کہ آپ لوگوں میں اعلان کر دیں کہ زمین و آسمان میں اللہ تعالی کے علاوہ کوئی جن فرشتہ اور پیر و پیغمبر غیب نہیں جانتے یہ یقین ہے کہ قیامت ضرور آئے گی مگر ان نبیوں، ولیوں وغیرہ کو یہ پتہ نہیں ہے کہ قیامت کب ہو گی اور کب یہ لوگ اپنی قبروں سے اٹھائے جائیں گے اس کے تعین کا علم صرف اللہ ہی کو حاصل ہے قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ ۚ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ ؕ وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًا ؕ وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۠۝۳﴾ (سورة لقمان: 34)
’’یقینًا قیامت کے خاص وقت کی خبر اللہ ہی کو ہے اور وہی مینہ برساتا ہے اور ماؤں کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اس کو وہی جانتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ فلاں جاندار کل کیا کرے گا اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ فلاں جاندار کہاں مرے گا بیشک اللہ تعالی بڑا جاننے والا پوری خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
ان سب باتوں کا جاننا صرف اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہے اور کوئی ان کو نہیں جانتا قیامت کا آنا بہت مشہور ہے مگر اس کے آنے کی خبر کسی کو نہیں اس کے علاوہ اور باتوں کا جانتا جیسے آئندہ فتح اور شکست کا ہونا یا کسی کا بیمار و تندرست ہونا وغیر ہ تو قیامت کے برابر نہیں ہے حالانکہ اس کا وقت مقرر ہے اور موسم بندھا ہوا ہے ان موسموں میں بھی برستا ہے اور سب چھوٹے بڑے عالم جاہل نبی، ولی، وغیرہ سب کو اس کی ضرورت بھی رہتی ہے لیکن کسی کو یہ خبر نہیں کہ کسی دن بارش ہوگی اس کا علم صرف اللہ تعالی ہی کو حاصل ہے کہ جن چیزوں کا موسم نہیں بندھا ہوا ہے جیسے مرنا، جینا، پیدا ہونا، غنی ہونا، فقیر ہونا، وغیرہ وغیرہ بھی کوئی نہیں جانتا ہے اسی طرح مادہ کے پیٹ میں کیا ہے تر ہے یا مادہ ایک ہے یا دو ناقص ہے یا کامل خوبصورت ہے یا بدصورت کوئی نہیں جانتا ہے صرف خدا ہی جانتا ہے اسی طرح کل آئندہ کیا ہوگا وہ کیا کرے گا اس طرح کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں مرے گا اور کہاں دفن ہو گا ان سب باتوں کو اور کوئی نہیں جانتا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(وَاللَّهِ لَا أَدْرِى وَاللَّهِ لَا أَدْرِي وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُم ).[1]
’’خدا کی قسم! میں نہیں جانتا خدا کی قسم! میں نہیں جانتا حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا مجھے معلوم نہیں۔‘‘
یعنی اللہ تعالی دنیا میں کیا کرے گا اس کی حقیقت خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا میں اللہ کا رسول ہونے کے باوجود نہیں جانتا ہوں۔
اسی طرح حجتہ الوداع میں آپﷺ نے فرمایا:
(لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِى مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا سُقْتُ الْهَدْي)[2]
’’جو مجھے اب معلوم ہوا ہے اگر پہلے معلوم ہو جاتا تو میں اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہ لاتا۔‘‘
اس قسم کے صد با واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بغیر اللہ کے بتائے ہوئے خود غیب کی باتیں نہیں جانتے تھے اور اگر اللہ تعالی نے آپ کو بتایا اور اس کے بتانے پر آپ نے کوئی بات آئندہ کے متعلق بتا دی جیسے معجزات اور علامات قیامت وغیرہ تو یہ علم غیب نہیں ہے کیونکہ علم غیب وہ ہے جو بغیر کسی کے بتائے معلوم ہو کیونکہ علم اس ملکہ (قوت) کو کہتے ہیں جس سے جس وقت بھی چاہے اس کی جزئیات کو معلوم کرلے ایسا علم غیب کسی مخلوق کو نہیں ہے اور نہ بھی پہلے تھا اور نہ آئندہ بھی ہوگا اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایا۔
﴿قُلْ لَّاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآىِٕنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّیْ مَلَكٌ﴾ (سورة الانعام: 50)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] (صحیح بخاری: 1039/2، کتاب التعبير، باب العين الجارية في المنام، رقم الحديث:2018)
[2] (صحیح بخاری: کتاب التمني (94) باب نمبر 3 قول النبي صلى الله عليه وسلم لو استقبلت من امری ما استدبرات، رقم الحديث: 7229، صحيح مسلم: 396/1، كتاب الحج باب حجة النبيﷺ، رقم الحديث: 950)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آپ کہہ دیجیے کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالی کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا کہ فرشتہ ہوں۔‘‘
یہ بھی یادرکھو کہ علم کے معنی یقین کے ہیں اس لیے اندازے اور ظن اور گمان کی باتیں علم غیب نہیں ہیں کیونکہ بہت دفعہ ان باتوں کے خلاف ظہور میں آتا ہے اور علم غییب کے خلاف ہرگز نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے اندازوں اور تخمینوں کی باتوں کو سچ اور غیب کی بات ماننے والا شرک فی العلم کے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے جادوگر جوتشی، رمال، نجومی اور سفلی علم کی باتوں پر ایمان رکھنے سے ایمان باللہ ختم ہو جاتا ہے ہر ایمان والے کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ جس طرح خدا کی ذات یکتا ویگانہ ہے اسی طرح اسکی تمام صفتیں بھی یکتا اور بے مثل ہیں اور خدا تعالی کی یہ صفت کہ وہ حاضر غائب اور دور نزدیک کی تمام چیزوں کو جانتا ہے یکتا اور بے مشکل ہے اللہ عز وجل اپنی ذات میں بھی وحدہ لاشریک ہے اور اپنی صفات میں بھی وہ وحدہ لاشریک ہے یہی عقید و قرآن مجید نے بتایا ہے اور اسی کا سبق رسول اللہﷺ نے دیا ہے اور تمام صحابہ اور تمام سلف و صالحین کا یہی عقید ہ ہے۔
شرک فی التصرف کا بیان
اللہ اکیلا ہے واحد ہے احد ہے، فرد ہے صمد ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کا کوئی شریک نہیں ساتھی نہیں مشیر نہیں وزیر نہیں مددگار نہیں پھر ضد کرنے والا اور خلاف کہنے والا تو کہاں۔ جن جن کو پکارا کرتے ہو پکار کر دیکھ لو معلوم ہو جائے کہ ایک ذرے کے بھی مالک و مختار نہیں محض بے بس اور بالکل محتاج و عاجز ہیں نہ زمینوں میں انکی کچھ چلے گی اور نہ آسمانوں میں جیسے اور آیت میں ہے:
﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرِ﴾ (فاطر:13)
’’جن کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ مجبور کے ایک چھلکے کے بھی مالک نہیں۔‘‘
اور یہی نہیں کہ انہیں خود اختیاری حکومت نہ ہو نہ کہیں شرکت کے طور پر ہی ہو نہیں شرکت کے طور پر بھی نہیں نہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے کسی کام میں مدد لیتا ہے بلکہ یہ سب کے سب محتاج و فقیر ہیں اسکے در کے غلام اور بندے ہیں اسکی عظمت اور کبریائی عزت و بڑائی ایسی ہے کہ بغیر اسکی اجازت کے کسی کی جرات نہیں کہ اس کے سامنے کسی کی سفارش کے لیے لب ہلا سکے جیسے کہ فرمان ہے۔
﴿مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِاِذْنِهَ﴾ : (سورة بقرة: 255)
’’کون ہے جو اسکے سامنے کسی کی سفارش بغیر اس کی رضا مندی کے کر سکے۔‘‘
﴿كمْ مِنْ مَلَكَ فِي السَّمَوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يّشَاءُ وَ يَرْضٰى﴾ (النجم : 26)
’’یعنی آسمانوں کے کل فرشتے بھی اس کے سامنے کسی کی سفارش کے لیے لب نہیں ہلا سکتے ۔ مگر جس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی رضامندی سے اجازت دے دے۔‘‘
اور جگہ فرمان ہے:
﴿وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُوْنَ﴾ (الانبیاء: 28)
’’وہ لوگ صرف ان کی سفارش کر سکتے ہیں جن کے لیے اللہ تعالی کی رضا مندی ہو فرشتے تو خود ہی اس کے خوف سے تھرا رہے ہیں۔‘‘
تمام اولاد آدم علیہ السلام کے سردار سب سے بڑے شفیع اور سفارشی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ بھی جب قیامت کے دن مقام محمود میں شفاعت کے لیے تشریف لے جائیں گے کہ اس وقت بھی آپ فورا عرض شروع نہیں کر دیں گے بلکہ آپ فرماتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ میں گر پڑوں گا۔ خدا ہی جانتا ہے کہ میں کب تک سجدہ میں پڑا رہوں گا اس سجدے میں اس قدر اپنے رب کی تعریفیں بیان کروں گا کہ اس وقت تو وہ الفاظ بھی مجھے معلوم نہیں پھر مجھ سے کہا جائے اے محمد ﷺ اپنا سر اٹھایئے! آپ بات کیجئے آپ کی بات سنی جائے گی آپ مانگیے آپ کو دیا جائے گا اور آپ شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی۔ [1]
حقیقت شفاعت
اکثر لوگ انبیاء اور اولیا ء کی شفاعت پر معنی غلط سمجھ کر اللہ کو بھول گئے ہیں شفاعت کہتے ہیں سفارش کو اور دنیا میں سفارش کئی طرح کی ہوتی ہے جیسے ظاہر طور پر بادشاہ کے ہاں کسی شخص کی چوری ثابت ہو جائے اور کوئی امیر وزیر اس کو سفارش سے بچالے تو ایک تو یہ صورت ہے کہ بادشاہ کا ہی تو اس چور کے پکڑنے ہی کو چاہتا ہے اور اس کے آئین کے موافق اس کو سزا پہنچتی ہے مگر اس امیر سے دب کر اس کی سفارش مان لیتا ہے اور اس چور کی تقصیر معاف کر دیتا ہے۔ اس کو شفاعت وجاہت کہتے ہیں یعنی اس امیر کی وجاہت کے سبب سے اس کی سفارش قبول کی سواس قسم کی سفارش اللہ کی جناب میں ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتی اور جو کوئی کسی نبی، ولی کو یا امام اور شہید کو یا کسی فرشتہ کو یا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] (صحیح بخاری: 971/2، كتاب الرقاق، باب صفة الجنة والنار، رقم الحديث:6565، صحیح مسلم: 109/1، كتاب الإيمان، باب ادنرٰ اهل الجنة منزلة فيها رقم الحديث:475)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی پیر کو اللہ کی جناب میں اس قسم کا شفیع سمجھے سو وہ اصل مشرک ہے اور بڑا جاہل ہے کہ اس نے خدا کے معنی کچھ بھی نہ سمجھے اور اس مالک الملک کی قدر کچھ بھی نہ پہچانی ۔
دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شہزادہ یا بادشاہ کا کوئی پیارا اس چور کا سفارشی ہو کر کھڑا ہو جائے اور بادشاہ اسکی محبت میں لاچار ہو کر اس چور کی تقصیر معاف کر دے اس کو شفاعت محبت کہتے ہیں یعنی بادشاہ نے محبت کے سبب سے سفارش قبول کر لی اور یہ بات کبھی کہ ایک بار غصہ پی جانا اور ایک چور کو معاف کر دینا بہتر ہے اس رنج سے کہ جو اس محبوب کے روٹھ جانے سے مجھ کو ہو گا اس قسم کی شفاعت بھی اس کے دربار میں کسی طرح ممکن نہیں کیونکہ وہ مالک الملک اپنے بندوں کو جس قدر چاہے نوازے اور کسی کو حبیب کا اور کسی کو خلیل کا اور کسی کو کلیم کا اور کسی کو روح اللہ وجیہ کا خطاب بخشے اور کسی کو رسول کریم اور مکین اور روح القدس روح الامین فرمادے مگر پھر مالک مالک ہے اور غلام غلام ۔ کوئی بندگی کے رتبہ سے قدم باہر نہیں رکھ سکتا اور غلامی کی حد سے زیادہ نہیں بڑھ سکتا۔
تیسری صورت یہ ہے کہ چور پر چوری تو ثابت ہو گئی مگر وہ ہمیشہ کا چور نہیں ہے اور چوری کو اس نے اپنا کچھ پیشہ نہیں ٹھہرایا مگر نفس کی شامت سے قصور ہو گیا سو اس پر وہ شرمندہ ہے اور رات دن ڈرتا ہے اور بادشاہ کے آئین کو سر آنکھوں پر رکھ کر خود کو قصور وار سمجھتا ہے اور لائق سزا کے جانتا ہے اور بادشاہ سے بھاگ کر کسی امیر وزیر کی پناہ نہیں ڈھونڈتا اور اس کے مقابلہ میں کسی کی حمایت نہیں جتاتا اور رات دن اسی کا منہ دیکھ رہا ہے کہ دیکھیے کہ میرے حق میں کیا حکم فرمادے سو اس کا یہ حال دیکھ کر بادشاہ کے دل میں اس پر ترس آتا ہے مگر آئین بادشاہت کا خیال کر کے بے سبب در گذرنہیں کرتا کہ کہیں لوگوں کے دلوں میں اس آئین کی قدر نہ گھٹ جائے سو کوئی امیروزیر اسکی مرضی پا کر اس تقصیر وار کی سفارش کرتا ہے اور بادشاہ اس امیر کی عزت بڑھانے کو ظاہر میں اس کی سفارش کا نام لے کر اس چور کی تقصیر معاف کر دیتا ہے سواس امیر نے اس چور کی سفارش اس لیے نہیں کی کہ دو اس کا قرابتی ہے یا آشنا بلکہ محض بادشاہ کی مرضی سمجھ کر اس کو شفاعت بالا ذن کہتے ہیں یعنی یہ سفارش خود مالک کی اجازت سے ہوتی ہے سو اللہ کی جناب میں اس قسم کی شفاعت ہو سکتی ہے اور جس نبی یا ولی کی شفاعت کا قرآن وحدیث میں مذکور ہے سو اس کے معنی یہی ہیں۔
اعتدال کی راہ
سو ہر بندے کو چاہیے کہ ہر دم اللہ ہی کو پکارے اور اسی سے ڈرتا رہے اور اس کی التجا کرتا رہے اور اس کے روبرو اپنے گناہوں کا قائل رہے اور اسی کو اپنا مالک بھی سمجھے اور حمائتی بھی اور جہاں تک خیال دوڑائے اللہ کے سوا نہیں اپنا بچاؤ نہ جانے اور کسی کی حمایت پر بھروسہ نہ کرے وہ بڑا غفور رحیم ہے سب مشکلیں اپنے ہی فضل سے کھول دے گا اور سب گناہ اپنی رحمت سے بخش دے گا اور جس کو چاہے گا اپنے حکم سے اس کا شفیع بنا دے گا۔
مذکورہ بالا آیات سے اور ان کی تشریح سے بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالی مختار کل ہے اور وہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے اور ہر کام اس کی مثبت اور ارادے سے ہوتا ہے اور جس طرح چاہے تصرف کرتا ہے اور اس کے علاوہ کسی میں یہ طاقت وقوت نہیں ہے اگر اللہ تعالی جیسا تصرف دوسروں میں مانے تو وہ خدا کا نافرمان بن کر مشرک ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُلْ مَنْۢ بِیَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَیْءٍ وَّ هُوَ یُجِیْرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۸۸ سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ ؕ قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوْنَ۝۸۹﴾ (سورة المؤمنون: 88،89)
’’آپ دریافت کیجئے کہ تمام چیزوں کے اختیارات کس کے ہاتھ میں ہیں جو پناہ دیتا ہے اور جس کے مقابلہ میں کوئی پناہ نہیں دیا جاتا اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ وہ یہی جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے آپ کہہ دیجئے پھر تم کدھر جادو کر دیے جاتے ہو۔‘‘
یعنی اللہ تعالی تمام کائنات عالم کا مالک اور قادر مطلق اور حاکم کل ہے اس کا ارادہ کوئی بدل نہیں سکتا ہے اس کا کوئی حکم مل نہیں سکتا اس سے کوئی باز پرس کر نہیں سکتا اس کی چاہت کے بغیر پتا بل نہیں سکتا وہ سب سے باز پرس کرے کسی کی مجال نہیں کہ اس سے کوئی سوال کر سکے اس کی عظمت اس کی کبریائی اس کا غلبہ اس کا دباؤ اس کی خدمت اس کی عزت اس کی حکمت اس کا عدل بے پایاں اور بے مثل ہے مخلوق سب اس کے سامنے عاجز پست اور لاچار ہے اب ساری مخلوق کی باز پرس کرنے والا ہے اس سوال کا جواب بھی ان کے پاس بجز اس کے اور نہیں کہ وہ اقرار کریں کہ اتنا بڑا بادشاہ ایسا خود مختار اللہ واحد ہی ہے کہہ دیجئے کہ تم پر پھر کیا مصیبت پڑی ہے ایسا کون سا جادو تم پر ہو گیا ہے کہ باوجود اس اقرار کے پھر بھی دوسروں کی پرستش کرتے ہو۔ جیسے فرمایا:
﴿وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَالَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ فَلَا تَضْرِبُو اللَّهِ الْأَمْثَالَ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (النحل:(73،74)
’’اور خدا کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو آسمان اور زمین سے انہیں کچھ بھی روزی نہیں دے سکتے اور نہ کچھ مقدور رکھتے ہیں ۔ لوگو! اللہ پر مثالیں مت بناؤ ۔ اللہ خوب جانتا ہے اور تم کچھ نہیں جانتے۔‘‘
دنیا میں خدا کے کارخانے میں نہ کسی کو دخل ہے اور نہ تصرف کا حق ہے قیامت میں بھی بغیر خدا کی اجازت کے کوئی کسی کے کام آسکے حتی کہ خویش واقارب بھی الگ ہو جائیں گے قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّةُؗ۝۳۳
یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِۙ۝۳۴
وَ اُمِّهٖ وَ اَبِیْهِۙ۝۳۵ وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِیْهِؕ۝۳۶ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ یَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِؕ۝۳۷﴾ (عبس:33 تا 37)
’’پس جب کہ کان بہرے کر دینے والی قیامت آجائے گی اس دن آدمی اپنے بھائی سے اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایک ایسا مشغلہ ہوگا جو اسے مشغول رکھنے کے لیے کافی ہوگا۔‘‘
اس دن انسان اپنے قریبی رشتہ داروں کو دیکھے گا لیکن بھاگتا پھرے گا کوئی کسی کے کام نہ آئے گا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں جب یہ آیت کریمہ ﴿وَاَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِيْنَ﴾ یعنی ’’آپ اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈرائے‘‘ نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ ہم نے سب کو جمع کر کے یہ نصیحت فرمائی۔
يَابَنِي كَعْبِ بْنِ لُوَى انْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ فَإِنِّي لَا أُغْنِى عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا بَنِي مُرَّةَ بْنِ كَعْبٍ انْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ فَإِنِّي لَا أُغْنِي عَنكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَيَابَنِي عَبْدِ شَمْسٍ انْقِذُوا الْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ فَإِنِّي لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَيَاتِنِي عَبْدِ مَنَافٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ فَإِنِّي لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِّنَ اللَّهِ شَيْئًا وَيَابَنِي هَاشِمِ انْقِذُوا انْفُسَكُمُ مِنَ النَّارِ فَإِنِّي لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ انْقِدُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ فَإِنِّي لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا فَاطِمَةٌ انْقِذِي نَفْسَكِ مِنَ النَّارِ سَلِينِي مَا شَئْتِ مِنْ مَّالِي فَإِنِّي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شيئًا) [2]
’’یعنی اے بنی کعب بن لوئی! تم اپنے آپ کو جہنم سے بچالو کیونکہ میں اللہ کے یہاں تمہارے کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] یہ حضرت عکرمہ کا قول ہے۔ تفسیر ابن کثیر 473؍4)
[2] صحیح بخاری: کتاب الوصايا، باب هل يدخل النساء و الولد في الأقارب رقم الحديث: 2753 و صحیح مسلم:114؍1 كتاب الإيمان، باب في قوله تعالى ﴿وانذر عشيرتك الأقربين﴾ رقم
الحديث: 501)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں آسکتا ہوں اور اے مرہ بن کعب کے لوگو! تم اپنی جانوں کو جہنم سے چھڑا لو کیونکہ میں تم کو کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور اے اولا د عبد شمس! تم اپنے آپ کو جہنم سے چھڑا لو کیونکہ میں قیامت کے دن تمہارے کام نہیں آؤں گا اور اے بنی عبد مناف! تم اپنے آپ کو جہنم سے بچالو کیونکہ بغیر ایمان اور عمل صالح کے تمہارے لیے خدا کے یہاں تمہارے کچھ کام نہ آؤں گا اور اے بنی ہاشم تم اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا لو میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہ آؤں گا اور اے بنی عبد المطلب! تم بھی اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچالو یقینًا میں اللہ کے یہاں تمہیں فائدہ نہیں پہنچا سکوں گا اوار اے بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا! تو اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا لو اور دنیا میں تو جتنا چاہے مجھ سے میرا مال مانگ لیے اللہ کے یہاں میں تیرے کام نہ آؤں گا۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہو کہ اللہ تعالی کے یہاں کسی کو اختیار نہیں ہے کہ جس کو چاہیں بخشوالیں اور جس کو نہ چاہیں نہ بخشوا میں خدا کے سامنے سب مجبور اور عاجز میں خدا کے اوپر ایمان لاکر اور عمل صالح کر کے خدا کی مہربانیوں اور رحمتوں کی امید رکھے بس یہی ایمان او عمل صالح انشاء اللہ کام آئیں گے حدیث قدسی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا:
(إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَقُولُ یٰعِبَادِي إلى قوله كُنْ فَيَكُونُ). [1]
اور سورہ بقرہ میں ہے۔
﴿أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَّلِي ولَا نَصِيرٍ﴾ (البقرة: 107)
’’یعنی فرمایا اللہ تعالیٰ نے اور کیا تم کو معلوم نہیں کہ اللہ ہی کی سلطنت ہے آسمان اور زمین کی اور تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی حمائتی اور مدد کرنے والا نہیں۔‘‘
شرک فی العادت
﴿قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَ لَا نُشْرِكَ بِهٖ شَیْـًٔا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۝۶۴﴾ (آل عمران:64)
[1] (مسند احمد: 154/5، و ترمذی: 316/3، کتاب صفة القيامة، باب في نسخة اربعة احاديث، رقم الحديث: 2495، و ابن ماجه: كتاب الزهد باب ذكر التوبة، رقم الحديث:4257)
’’آپ کہہ دیجئے کہ اے کتاب والو! تم ایسی انصاف کی بات کی طرف آؤ جو ہم میں اور تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں اور نہ اس کو چھوڑ کر ہم آپس میں ایک دوسرے کو رب بنا ئیں اگر دو اس سے منہ موڑیں تو تم ہی کہو کہ تم گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں۔‘‘
اس آیت کریمہ میں یہ ہے کہ غیر خدا کو رب اور پرورش کرنے والا نہیں بنانا چاہیے اور نہ کسی (مولوی عالم) اور درویش کو رب سمجھ کر اس کی ہر بات مانیں یعنی جس چیز کو یہ لوگ اپنی طبیعت سے حلال کریں اس کو حلال سمجھیں اور جس کو حرام بتا ئیں اس کو حرام جانیں بلکہ حالت و حرمت خدا کی طرف سے ہے جس کو خدا نے حلال کیا وہ حلال ہے اور جس کو خدا نے حرام کیا و و حرام سے بعض لوگ عادتا کہہ دیا کرتے ہیں کہ فلاں ہمارا مربی اور روزی رساں ہے اور ہم اس کی بات مانیں گے تو اس قسم کی بات کہنا شرک فی العادت میں شامل ہے
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ِ۟ابْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِ ؕ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ ۚ یُضَاهِـُٔوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ؕ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ ؗۚ اَنّٰی یُؤْفَكُوْنَ۝۳۰
اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ ۚ وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ؕ سُبْحٰنَهٗ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ﴾ (التوبة: 30)
’’یہود کہتے ہیں عزیر خدا کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح خدا کا بیٹا ہے یہ تو صرف ان کے منہ کی بات ہے اگلے منکروں کی طرح یہ بھی ایسی بات کرنے لگے انہیں خدا غارت کرے کیسے پلٹائے جاتے ہیں ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور دریشوں کو خدا بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو بھی حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوائے کوئی معبود نہیں وہ پاک ہے انکے شریک مقرر کرنے سے۔‘‘
یعنی اللہ تعالی کی کوئی اولاد نہیں اور نہ ماں باپ اور نہ بیوی اور نہ کوئی شریک و سہیم ہے اس نے فرمایا:
﴿قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌه اللهُ الصَّمَدُه لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُه وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ﴾ (الاخلاص:1 تا 4)
’’کہہ دیجیے کہ اللہ ایک ہی ہے اللہ بے نیاز ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے اور نہ کوئی اس کا ہم جنس ہے۔‘‘
حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ یہود کہتے تھے ہم عزیر کو پوجتے ہیں جو خدا کے بیٹے ہیں اور نصرانی کہتے تھے کہ ہم حضرت مسیح علیہ السلام کو پوجتے ہیں جو خدا کے بیٹے ہیں اور مجوسی کہتے تھے ہم سورج، چاند کی پرستش کرتے ہیں اور مشرک کہتے تھے ہم بت پرست ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ اتاری کہ ’’اے نبی! تم کہہ دو کہ ہمارا معبود تو اللہ تعالی ہے جو واحد ہے۔ احد ہے۔ اس جیسا کوئی نہیں۔‘‘ جس کا وزیر نہیں جس کا کوئی شریک نہیں، جس کا کوئی ہمسر نہیں، جس کا کوئی ہم جنس نہیں، جس کے برابر اور کوئی نہیں جس کے سوا کسی میں الوہیت نہیں اس لفظ کا اطلاق صرف اسی کی ذات پر ہوتا ہے وہ اپنی صفتوں میں اور اپنے حکمت بھرے کاموں میں یکتا اور بینظیر ہے۔ [1]
بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے دریافت کیا یا رسول اللہ سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شریک کرنا جو سب کا خالق ہے۔[2]
حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ خدا کا بندوں پر کیا حق ہے تو آپﷺ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک مت ٹھراؤ۔[3]
دوسری حدیث میں ہے کہ تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ جو خدا چاہے اور فلاں چاہے بلکہ یوں کہے کہ جو کچھ اللہ اکیلا چاہے پھر جو فلاں چاہیے۔[4]
طفیل بن سخبرہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے سوتیلے بھائی فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں چند آدمیوں کو دیکھا میں نے ان سے پوچھا تم کون ہو؟ انہوں نے کہا ہم یہودی ہیں میں نے کہا افسوس تم میں یہ بڑی خرابی ہے کہ تم حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہتے ہو انہوں نے کہا تم بھی اچھے لوگ ہو افسوس تم کہتے ہو جو خدا چاہے اور محمدﷺ چاہیں پھر میں نصرانیوں کی جماعت کے پاس گیا اور ان سے بھی اسی طرح پوچھا انہوں نے بھی یہی جواب دیا میں نے ان سے کہا افسوس تم بھی مسیح علیہ اللام کو خدا کا بیٹا جانتے ہو انہوں نے بھی یہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] (تفسیر ابن کثیر : 570/4)
[2] (صحیح بخاری: کتاب التوحيد، باب قول الله تعالى يا ايها الرسول بلغ ما انزل اليك …… رقم الحديث: 7532، صحیح مسلم: 63/1، كتاب الإيمان، باب بيان كون الشرك أقبح الذنوب ….. رقم الحديث:258)
[3] (صحیح بخاري: كتاب الجهاد و السير، باب اسم الفرس والحمار، رقم الحديث:2856،
و صحيح مسلم: 44/1، كتاب الإيمان، باب الدليل على أن من مات على التوحيد دخل الجنة قطعًا، رقم الحديث143،144،145،146)
[4] (سنن ابن ماجة: كتاب الكفارات، باب النهي ان يقال ما شاء الله وشئت، رقم الحديث: 2118، كتاب الأسماء والصفات:237/1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب دیا میں نے صبح اپنے اس خواب کا ذکر کچھ لوگوں سے کیا پھر دربار نبوی میں حاضر ہو کر آپﷺ سے بھی خواب کا یہ واقعہ بیان کیا آپ ﷺ نے پوچھا کیا کسی اور سے بھی تم نے اس کا ذکر کیا ہے میں نے کہا ہاں حضور- آپ ﷺ ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور فرمایا کہ طفیل نے ایک خواب دیکھا اور تم میں سے بعض سے بیان بھی کیا۔ میں چاہتا تھا کہ تمہیں اس کلمہ کے کہنے سے روک دوں لیکن فلاں فلاں کاموں کی وجہ سے میں اب تک نہ کہہ سکا یاد رکھو اب ہرگز ہرگز خدا چاہے اور رسول چاہے کبھی نہ کہنا بلکہ یوں کہو کہ صرف اللہ تعالی اکیلا جو چاہے۔.[1]
ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا جو اللہ تعالیٰ چاہے اور آپ چاہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کیا تو مجھے اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے یوں کہہ جو اللہ تعالی اکیلا چاہے۔[2]
یہ تمام کلمات توحید کے سراسر خلاف ہیں توحید باری کے بچاؤ کے لیے یہ سب احادیث بیان ہوئی ہیں واللہ اعلم تمام کفار اور منافقوں کو اللہ تعالی نے اپنی عبادت کا حکم دیا اور فرمایا اللہ کی عبادت کرو یعنی اس کی توحید کے پابند بن جاؤ اس کیساتھ کسی کو شریک نہ کرو جو نہ نفع دے سکے نہ نقصان پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اس کے سوا کوئی رب نہیں جو تمہیں روزی پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ تمہیں اس توحید کی طرف بلا رہے ہیں جس کے سچ اور حق ہونے میں کوئی شک نہیں شرک اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے جیسے چیونٹی جو رات کے اندھیرے میں کسی صاف پتھر پر چل رہی ہو انسان کا یہ کہنا بھی شرک ہے بیٹے کی قسم آپ کی قسم انسان کا یہ کہنا بھی شرک ہے کہ اگر یہ کتیا نہ ہوتی تو چور رات کو ہمارے گھر میں گھس آتے یہ کہنا بھی شرک ہے جو اللہ تعالیٰ چاہے اور آپ چاہیں یہ کہنا بھی شرک ہے کہ مجھے اللہ کا اور آپ کا سہارا ہے۔
صحیح حدیث میں ہے کہ کسی نے رسول اللہﷺ سے کہا کہ جو اللہ تعالی چاہے اور آپ چاہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو مجھے اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے۔[3]
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۝۲۱ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً ۪ وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۚ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرة: 21۔22)
’’اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں تم سے پہلے کے سب لوگوں کو پیدا کیا اسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] (مسند احمد: 72/5، طبراني كبير: 324/8، رقم الحديث 8214، 8215)
[2]، [3] مسند احمد: 214/1، كتال الاسماء والصفات: 238/1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تمہارا بچاؤ ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا ہے اور آسمان کو چھت اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کر کے تمہیں روزی دی خبر دار با وجود جاننے کے خدا کے ساتھ شریک مقرر نہ کرو۔)
غیراللہ کی قسم کھانا بھی شرک فی العبادت میں داخل ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (مَنْ خَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ أَشْرَكَ)[1]
’’جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔‘‘
بعض لوگ باپ دادوں کی قسم کھاتے ہیں یا کسی نبی ولی کی قسم کھا لیتے ہیں یا پیر فقیر کی قسم کھاتے ہیں یا سر کی قسم کھاتے ہیں یہ سب شرک فی العادت میں داخل ہے اس سے بچنا ضروری ہے اسی طرح سے غیر اللہ کے نام سے نذرو نیاز ماننا بھی شرک سے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
﴿حرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ﴾ (المائدة:3)
’’تم پر مردار حرام کیا گیا ہے اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جو خدا کے سوا دوسرے کے نام پر مشہور کیا گیا ہو۔‘‘
لہذا سانڈھ وغیرہ جو غیراللہ کے نام پر چھوڑے جاتے ہیں وہ حرام ہیں کیونکہ اس میں شرک معنوی سرایت کر گیا ہے اسی طرح کاہنوں اور جوتشیوں کے پاس جا کر غیب کی خبریں معلوم کرنا بھی شرک فی العادت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ أَتَى عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ لَمْ تُقْبَلُ لَهُ صَلوةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً)[2]
’’جو غیب کی خبر میں بتانے والے کے پاس گیا اور اس سے کوئی بات پوچھی تو اس کی چالیس روز تک عبادت قبول نہ ہوگی‘‘
اسی طرح شگون بدلینا بھی شرک ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (الطَّيِّرَةُ شِرْكٌ)[2]
’’شگون بد لینا شرک ہے۔‘‘
بچوں کا نام غیراللہ کے نام پر رکھنا جیسے پیر بخش، نبی بخش، وغیرہ شرک فی التسمیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] (مسند احمد: 86،87/2، و ابو داود: 217/3، كتاب الايمان والنذور، باب اليمين بغير الله، رقم الحديث:3245، و ترمذي 371/3، کتاب النذور و الايمان باب مما یلی كراهية الحلف بغير الله، رقم الحديث:1535)
[2] (صحیح مسلم:233/2 ،کتاب السلام، باب تحريم الكهانة و اتيان الكهان، رقم الحديث: 5821)
[3] (مسند احمد:438/1 و ابو داود: 24/4، کتاب الطب، باب في الطيرة، رقم الحديث:3904 و ترمذي:400/2، کتاب السير، باب ماجاء في الطير، رقم الحديث:1614)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے اس سے بچنا بھی ضروری ہے قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ اِلَیْهَا ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ ۚ فَلَمَّاۤ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَىِٕنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ۝۱۸فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَآءَ فِیْمَاۤ اٰتٰىهُمَا ۚ فَتَعٰلَی اللّٰهُ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ۝۱۹۰﴾ (سورة اعراف:189،190)
’’وہ اللہ تعالی ایسا ہے جس نے تم کو ایک تن واحد سے پیدا کیا۔ اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اپنے اس جوڑے سے انس حاصل کرے پھر جب میاں نے بیوی سے قربت کی تو اس کو حمل رہ گیا ہلکا سا سو وہ اس کو لیے ہوئے چلتی پھرتی رہی پھر جب وہ بوجھل ہوئی تو دونوں میاں بیوی اللہ سے جو ان کا مالک ہے دعا کرنے لگے کہ اگر آپ نے ہم کو صیح سالم اولاد دے دی تو ہم شکر گزاری کریں گے سو جب اللہ تعالی نے صحیح سالم اولاد دیدی تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اللہ کے شریک قرار دینے لگے سو اللہ تعالیٰ پاک ہے ان کے شرک ہے۔‘‘
یعنی اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو ایک مرد عورت سے پیدا کیا ہے اور ان دونوں میں محبت اور رحمت ڈال دی ہے اور اس سے ایک دوسرے کو راحت ملتی ہے اس فطری محبت کی وجہ سے جب دونوں میں مقاربت اور موانست ہوتی ہے تو حمل رو جاتا ہے تو اس وقت سے اولاد کی امید ہو جاتی ہے اور دعا میں کرتے ہیں کہ اگر صحیح و سالم اولاد ہوئی تو خدا کے شکر گزار ہوں گے لیکن جب صحیح و سالم اولاد پیدا ہو جاتی ہے تو بجائے شکر گزاری کے ناشکری کرنے لگتے ہیں۔ اور غیروں کے نام پر نذریں چڑھاتے ہیں بچے کو کوئی کسی مزار پر لیجاتا ہے کوئی کسی کے تھان پر، اور بچے کے زندہ رہنے کے لیے کوئی اس کا نام عبدالحارث رکھتا ہے اور کوئی نبی بخش، امام بخش علی بخش وغیرہ نام رکھتا ہے تو اس طرح کا نام رکھنا شرک ہے جو اللہ کے نزدیک بہت معیوب ہے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کے نزدیک سب ناموں سے پسندیدہ نام عبدالله، عبدالرحمن ہے۔[1]
جانوروں میں اور کھیتی باڑی میں اللہ تعالی کے ساتھ غیروں کو شریک کرنا بھی شرک ہے جیسے کوئی یوں کہے کہ یہ جانور فلاں کے نام کا ہے نہ اس پر کوئی سواری کرے نہ اس کا کوئی دودھ اپنے یا اس کھیتی کی پیدا وار اتنی فلاں پیر کے لیے ہے اور اتنی خدا کے لیے ہے تو اس قسم کی نذر و نیاز مانی شرک ہے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] (صحیح مسلم:206/2، كتاب الادب، باب النهي عن التكنى بأبي القاسم و بيان ما يستحب من
الاسماء، رقم الحديث: 5587)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
﴿وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا هٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَ هٰذَا لِشُرَكَآىِٕنَا ۚ فَمَا كَانَ لِشُرَكَآىِٕهِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَی اللّٰهِ ۚ وَ مَا كَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ یَصِلُ اِلٰی شُرَكَآىِٕهِمْ ؕ سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ۝۱۳۶ وَ كَذٰلِكَ زَیَّنَ لِكَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ قَتْلَ اَوْلَادِهِمْ شُرَكَآؤُهُمْ لِیُرْدُوْهُمْ وَ لِیَلْبِسُوْا عَلَیْهِمْ دِیْنَهُمْ ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ﴾ (سورة الانعام:138)
’’اور وہ اپنے خیال پر یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کھیت اور مویشی ہیں جن کا استعمال ہر شخص کو جائز نہیں ان کو کوئی نہیں کھا سکتا سوائے ان کے جن کو ہم چاہیں اور مویشی جن پر سواری یا بار برداری حرام کردی گئی ہے اور مویشی ہیں جن پر یہ لوگ اللہ تعالی کا نام نہیں لیتے محض اللہ پر افترا باندھنے کے لیے۔ ابھی اللہ تعالی ان کے افترا کی سزا دیے دیتا ہے۔)
اس قسم کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن میں شرک کی مذمت بیان کی گئی ہے اس لیے ہر قسم کے شرک سے بچنا ضروی ہے تا کہ صیح ایمان قائم رہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چھوٹے بڑے گناہ کو معاف کر دے گا لیکن شرک کو کبھی معاف نہیں فرمائے گا اللہ تعالی ہم سب کو ایمان پر قائم رکھے اور شرک و بدعت سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین۔
(سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ – وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ – وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)