رمضان المبارک ایک عظیم انعام

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۝۱۸۳﴾ (البقرة:183)
اللہ تعالی کی انسان پر یقینًا بے شمار، لا تعداد اور ان گنت نعمتیں ہیں، ان نعمتوں پر اس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
یوں تو ہر نعمت اپنی جگہ پر ایک بہت بڑی نعمت ہے، مگر ان تمام نعمتوں میں سے جو سب سے بڑی نعمت ہے وہ نعمت اسلام ہے۔ اسلام انسان کو زندگی گزارنے کے طریقے بتلاتا ہے، آداب سکھاتا ہے اور دنیوی اور اخروی زندگی کی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔ اسلام پر چل کر انسان سکون و اطمینان والی اور پاکیزہ زندگی گزارتا ہے اور اسلام ہی کو اپنا کر وہ دار آخرت کا وارث قرار پاتا ہے۔
چنانچہ وہ دنیا میں بھی اس نعمت پر اس کا شکر بجالاتا ہے اور آخرت میں بھی وہ اللہ تعالی کی اس نعمت کا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے اس کی مدح وثنا کے گن گاتا ہوا نظر آتا ہے، وہ کہے گا:
﴿ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدٰىنَا لِهٰذَا ۫ وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْ لَاۤ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰ﴾ (الاعراف:43)
’’تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا، ہم خود راہ نہ پا سکتے تھے اگر اللہ ہماری رہنمائی نہ کرتا ۔‘‘
تو نعمت اسلام یقینًا اللہ تعالی کی سب سے بڑی اور خصوصی نعمت ہے اور اس نعمت کے بعد مزید خصوصی نعمت دین کی سمجھ، اس کا ذوق اور شوق اور چاہت و رغبت اور نیکی کی توفیق ہے۔ جیسا کہ آپ سلام نے فرمایا:
((مَنْ يُّرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ)) (بخاري:3116)
’’ اللہ تعالی جس کے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔‘‘
تفقہ فی الدین اللہ تعالی کی خصوصی نعمت ہے، اسی طرح نیکی کی توفیق بھی اس کی خصوصی نعمت ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدٍ خَيْرًا اسْتَعْمَلَهُ))
’’اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے کام لیتا ہے۔‘‘
((فَقِيلَ كَيْفَ يَسْتَعْمِلُهُ يَا رَسُولَ اللهِ))
’’عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول سلام اللہ تعالی اس سے کیسے کام لیتا ہے۔‘‘
((قَالَ يُوفِّقُهُ لِعَمَلِ صَالِحٍ قَبْلَ الْمَوْتِ)) (ترمذی:2142)
’’فرمایا: موت سے پہلے اسے عمل صالح کی توفیق عطا فرماتا ہے۔‘‘
اعمال صالحہ کی فہرست تو یقینًا بہت طویل ہے، مگر ان میں بھی کچھ اعمال خصوصی اہمیت کے حامل ہیں، ان میں سے ایک اور سب سے اہم رمضان المبارک کے روزے ہیں۔ رمضان المبارک کے روزے من وجہ تمام اعمال صالحہ میں سے سب سے اہم اس لیے ہیں کہ یہ واحد عمل ہے کہ جس کی نسبت اللہ تعالی نے اپنی طرف کی ہے اور یہ نسبت ہی اس عمل کے شرف اور فضیلات کی دلیل ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ فَإِنَّهُ لِي)) (بخاري:1904)
’’ ابن آدم کے تمام اعمال اس کے لیے ہیں سوائے روزے کے کہ وہ میرے لیے ہے۔‘‘
اب اس کا کیا مفہوم ہے کہ ابن آدم کے تمام کے تمام اعمال اس کے لیے ہیں، مگر روزہ اللہ کے لیے ہے، جبکہ روزے کے علاوہ بھی تمام نیک اعمال اللہ ہی کے لیے ہوتے ہیں۔ تو علماء کرام نے اس کا ایک مظلبوم تو یہ بیان کیا ہے کہ کفار نے اپنے معبودان باطلہ کی جس دور میں بھی جس قدر بھی تعظیم کی ہے انہیں سجدے کر کے نذرانے پیش کر کے، ان کے نام کے صدقے اور قربانیاں کر کے، بھنگڑے ڈال کر ، جشن مناکرہ میلے منعقد کر کے، ان کے عرس منا کر، مگر کسی نے کبھی بھی روزے کے ذریعے ان کی عبادت نہیں کی کہ ان کے نام کا روزہ رکھا ہو، انہیں خوش کرنے کے لیے روزہ رکھا ہو۔
تو روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ جو صرف اللہ ہی کے لیے کی جاتی ہے۔
اور ایک مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ چونکہ باقی تمام اعمال میں ریاء کاری کا اظہار ہو سکتا ہے، نماز میں، حج میں، صدقہ وخیرات میں، جہاد میں، مگر روزے میں نہیں، کیونکہ وہ خفیہ اور پوشیدہ عمل ہے، اس لیے اگر کسی نے روزہ رکھا ہے تو اللہ ہی کے لیے رکھا ہے ۔ ہاں اس روزے کو خراب کرنے والی اور باتیں ہو سکتی ہیں مگر ریاء کاری نہیں۔ اس لیے فرمایا: روزہ میرے لیے ہے۔
اور پھر اسی حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا یہ فرمانا کہ روزہ میرے لیے ہے اور
((وَأَنَا أَجْزِى بِهِ)) (بخاري:1904)
’’کہ اس کی جزا بھی میں ہی دوں گا۔‘‘
یہ ایک دوسرے انداز سے روزے کی اہمیت ظاہر کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام اعمال صالحہ کی جزاء اور اجر و ثواب بھی اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے، پھر خصوصی طور پر روزے کی جزاء کی نسبت اپنی طرف کرنا روزے کی فضیلت ثابت کرتا ہے اور اس کا مفہوم علماء کرام یہ بیان کرتے ہیں۔
کہ دیگر اعمال کا اجر و ثواب معلوم و مقرر ہے اور اس کی مقدار دس سے لے کر سات سو گنا تک اور اس سے بھی زیادہ اللہ تعالی جتنا چاہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔
((كُلُّ عَمَلٍ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سبْعِمالَة ضِعْفٍ إِلَى مَا شَاءَ اللهُ قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِى بِهِ)) (ابن ماجة:1707)
’’ابن آدم کے نیک اعمال کا بدلہ دس گناہ سے لے کر سات سو گنا تک اور اس سے بھی زیادہ اللہ تعالی جتنا چاہیے، مگر اللہ فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لیے ہے اور اس کا اجر میں ہی دوں گا۔‘‘
یعنی باقی اعمال کا اجر و ثواب تو بتا دیا گیا ہے مگر روزے کا ثواب صرف اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے، اس کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں۔
اور ایک مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ روزے کا ثواب کسی طرح کم یا ٹرانسفر نہیں ہوگا۔ جیسا کہ اگر کسی نے کسی کے ساتھ کوئی ظلم و زیادتی کی ہوگی تو مظلوم کو اس کا حق یوں والا یا جائے گا کہ ظلم کرنے والے کی نیکیاں مظلوم کو دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو پھر مظلوم کے گناہ علم کرنے والے پر ڈال دیئے جائیں گے اور یوں اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔ لیکن بعض علماء کے نزد یک ظلم کرنے والے کی نیکیاں اگر ختم بھی ہو جائیں تو روزے اس کے پاس موجود رہیں گے، ٹرانسفر نہیں ہوں گے، اس کے بجائے اللہ تعالی مظلوم کو اپنی طرف سے اجر دے کر خوش کر دے گا۔
تو رمضان المبارک کے روزے ایک نہایت ہی شرف اور فضیلت والا، قدر و منزلت والااور اللہ تعالی کے ہاں پسندیدہ عمل ہے۔ اس کی قدر کی جانی چاہیے، اسے نقیمت جاننا چاہیے اور اس کی توفیق پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ یہ اللہ تعالی کا کسی بھی بندے پر اک خصوصی انعام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک اس بات کا احساس اور ادراک نہیں ہو جاتا کہ یہ کس قدر عظیم عمل ہے انسان صحیح معنوں میں اس سے مستفید نہیں ہو سکتا۔
سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہ کہ جنہیں اس مبارک مہینے کی قدر تھی، جو اس کی قدر و منزلت اور اس کی عظمت کا اور اک رکھتے تھے، ان کا حال یہ تھا کہ قرآن وحدیث کا پڑھنا پڑھانا چھوڑ کر درس و تدریس اور تعلیم و تعلم چھوڑ کر وہ اپنا تمام تر وقت تلاوت قرآن پاک، صدقہ و خیرات نوافل کی ادائیگی اور توبہ واستغفار کے لیے وقف کر دیتے کہ جن میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور ان جیسے دیگر محدثین اور فقہاء بھی تھے جیسے سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ ، اور امام زہری رحمۃاللہ علیہ وغیرہ کہ جن کی نیکی کی سعی و طلب اور جستجو کا حال یہ تھا کہ انہیں اللہ تعالی سے شرم آتی کہ ان کا آج بھی ان کے کل جیسا ہی ہو یعنی ہر آنے والے دن میں کسی نہ کسی نیکی کا اضافہ نہ ہوا (
(كانوا يستحيون من الله ان يكونوا اليوم على مثل حالهم بالأمس)) (لطائف المعارف لابن رجب ، ص:300)
’’سلف صالحینرحمۃ اللہ علیہم اس بات پر اللہ تعالیٰ سے حیا کرتے تھے کہ ان کا آج بھی ان کے کل جیسا ہو ۔ مگر ہم ہیں کہ ہمیں تلاش معاش سے فرصت ہی نہیں، اگر چہ یقینًا اس مبارک مہینے کے قدردان آج اس دور میں بھی موجود ہیں مگر انہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔
ہم نہیں کہتے کہ آپ بالکل کام چھوڑ چھاڑ کر فارغ ہو کر بیٹھ جائیں ، ہاں اگر مقدور ہو توفیھا ، در نہ رمضان اور غیر رمضان کی مصروفیات میں کم از کم کچھ فرق تو ہوا یہ رزق کہ جس کے حصول کے لیے ہم اپنی آخرت کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں، اس کی خاطر ہم دین کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ، جیسا کہ قرآن کہتا ہے۔
﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَۙ۝۲۰
وَ تَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَؕ۝﴾ (القيامه:20،21)
’’تم لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔‘‘
اللہ تعالی اس رزق کے حصول کے لیے کی جانے والی کوششوں سے متعلق رہنمائی دیتے ہوئے ایک حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ﴾ (الزخرف:32)
’’دنیا کی زندگی میں ان کی معیشت کو ان کے درمیان ہم تقسیم کر چکے ہیں۔‘‘
یہ رزق، یہ دنیا کی دولت، اس کے حصے بخرے اور اس کی تقسیم تو انسان کی دنیا میں آمد سے پہلے طے کی جا چکی ہے۔ اس سے زیادہ ملنے والی ہے اور نہ اس سے کم ۔ قرآن وحدیث بہت وضاحت کے ساتھ اس مسئلے کو بیان کیا گیا ہے تو پھر یہ بے قراری اور بے چینی کیسی ؟ جان لیجئے کہ دولت کی قلت انسان کے دین اور ایمان کے لیے اتنی خطرناک نہیں ہے میں جتنی کہ اس کی کثرت اور فراوانی خطرناک ہے۔
آپ ﷺنے قسم کھا کر یہ بات ارشاد فرمائی:
(فَوَاللهِ لَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ))
’’اللہ کی قسم ! میں تم پر فقر و فاقے سے نہیں ڈرتا ۔‘‘
((وَلٰكِنْ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا كَمَا بُسِطَتْ علَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا وَتُهْلِكُكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ)) (بخاري:3157)
’’مگر مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ تم پر دنیا کشادہ ہو جائے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر ہوئی، پھر تم اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کوششیں کرنے لگو اور پھر تمھاری وہ مقابلہ بازی تمہیں تباہ و برباد کر دے، جس طرح انہیں تباہ و برباد کیا۔‘‘
آج ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے بارہ گھنٹے کام نہ کیا تو بہت نقصان ہو جائے گا، مگر یہ حقیقت نہیں ہے، یہ دھوکہ ہے، لوح محفوظ میں طے شدہ مقدار سے ایک پائی بھی کم ہونے والی نہیں ہے۔ ہاں آج کے دن میں کام نہ کرنے سے دولت میں جو کی آئے گی، وہ ظاہر ہے مگر وہ کسی اور موقعے پر پوری ہو جائے گی، آپ کے حصے کی ٹوٹل اماؤنٹ میں یقینًا ایک پائی بھی کم ہونے والی نہیں ہے۔ رزق کے لیے یہ بھاگ دوڑ، یہ بے چینی ، بے تابی اور بے قراری انسان کے رزق میں ہرگز اضافہ نہیں کر سکتی اور نہ عزت اور وقار کے ساتھ اور ٹھہراؤ کے ساتھ کی جانے والی جائز کوششوں سے کچھ کمی واقع ہونے والی ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((وَرِزْقُكَ لَيْسَ يُنْقِصُهُ التَّأَنِّي
وَلَيْسَ يَزِيدُ فِي الرِّزْقِ العَنَاءُ
إِذَا مَا كُنْتَ ذَا قَلْبٍ قَنُوْعٍ
فَأَنْتَ وَمَالِكُ الدُّنيا سواءُ
’’رزق کی تلاش میں ٹھہراؤ اور وقار کی چال سے رزق میں کچھ کمی نہیں آئے گی اور نہ مشقت اور بے چینی سے کچھ اضافہ ہونے والا ہے۔ اگر تمہیں قناعت والا دل نصیب نہ ہو تو پھر تم اور دنیا دار ایک جیسے ہی ہو ۔‘‘
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم رمضان المبارک کی قدر جانیں ، اس موقع کو غنیمت سمجھیں ، نہ جانے یہ موقع دوبارہ ملے نہ ملے۔ ہم وہ بات سننے سے کیوں گھبراتے ہیں، جو حق اور سچ ہے جس کا آنا یقینی ہے، جس سے چشم پوشی اپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے۔ کیا ہم کچھ ایسے لوگوں کو نہیں جانتے جو گذشتہ رمضان المبارک میں موجود تھے مگر آج نہیں ہیں۔
اگر وہ آج اس نعمت سے محروم ہیں اور ہم امید کر رہے ہیں کہ ہم اس مبارک مہینے کو پالیں گے تو کیا اس میں ہماری کوئی خوبی اور کمال ہے یا محض اللہ کا فضل اور احسان ہوگا جو ہمیں یہ مبارک ساعات نصیب ہو جائیں ۔ کیا ہم گارنٹی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اگلے سال بھی یہ موقع ملے گا، اور ہم یہ کہہ کر موقع ضائع کر دیں کہ اس بار تو مجھے بہت مصروفیت ہے مگر آئندہ سال رمضان المبارک میں میں وقت نکال لوں گا حتی کہ اعتکاف بھی بیٹھوں گا۔ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ہم تندرست و توانا ہیں اس لیے کچھ سال اور جی لیں گے؟ یہ سراسر دھوکہ ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:
وَكَمْ مِنْ صَحِيحَ مَاتَ مِنْ غَيْرِ عِلَّةٍ
وَكَمْ مِنْ سَقيْم﷭ٍ عَاشَ حِينَا مِنَ الدَّهْرِ
’’ کتنے ہی صحت مند، تندرست بغیر کسی بیماری اور سبب کے فوت ہو گئے اور کتنے ہی بیمار تھے جو ایک عرصے تک زندہ رہے۔‘‘
وَكَمْ مِنْ فَتًى أَمْسیٰ وأَصْبَحَ ضَاحِكاً
وَقَدْ نُسِجَتْ أَكْفَانُهُ وَهُوَ لَا يَدْرِي
’’ اور کتنے ہی نوجوان صبح و شام ہنستے مسکراتے نظر آتے ہیں مگر انہیں معلوم نہیں کہ ان کے کفن تیار ہو چکے ہیں ۔‘‘
لہٰذا! ر مضان المبارک کی صورت میں اللہ تعالی کے اس فضل اور اس کے انعام اور احسان کو سمجھو، اس کا ادراک کرو، کہ خوش نصیب اور سعادت مند وہی ہے جو موقع کو غنیمت جانے اور محروم وہی ہے جو ایسے مواقع ضائع کر دے۔
ایسے مواقع سے مستفید ہونے کی راہ میں آڑ اور روکاوٹ بننے والی چیزوں کو پہچانیں۔ ان کے سرفہرست شیطان تو ہے ہی، مگر اپنا نفس بھی اس کی راہ میں بہت زیادہ رکاوٹ بنتا ہے ، پھر وہ دوست و احباب جو گپ شپ اور انٹر ٹینمنٹ کے نام سے الجھا دیتے ہیں اور پھر کاروبار جس کے نقصان کا ڈر رہتا ہے۔
قرآن کہتا ہے:
﴿قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ِ۟اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠۝۲۴﴾ (التوبه:24)
’’ ان سے کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے ، تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر وہ کوٹھیاں جو تمہیں پسند ہیں۔ تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ تعالی فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کرتا ۔‘‘
رمضان المبارک سے استفادے کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں جن میں سے یہ چند موٹی موٹی ہیں۔
ایک اور رکاوٹ کہ جسے رکاوٹ سمجھنے میں عموما لوگوں کو دشواری ہوتی ہے وہ ہے ٹی وی۔ کچھ لوگ ٹی وی دیکھنے کے جواز کے لیے دلیل کے طور پر کہتے ہیں کہ ٹی وی پر خبریں دیکھنی ہوتی ہیں۔ اپنے ملک کے حالات کا اور گردو پیش کا آدمی کو علم ہونا چاہیے۔
یہ بات جو بظاہر صیح معلوم ہوتی ہے مگر حقیقت میں بہت بڑا دھوکہ ہے۔ ان حالات سے آپ باخبر رہنا چاہتے ہیں، بہت ممکن ہے کہ زندگی میں ایک بار بھی آپ کو اس کی ضرورت پیش نہ آئے مگر ایک وہ خبر کہ جس پر آپ کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار ہے اس کے جاننے کی کوئی فکر نہیں۔
اور وہ خبر ہے قیامت کی ، قرآن پاک کی جس صورت میں وہ خبر دی گئی ہے، اس کا نام ہی خبر ہے۔ سورة النبأ ہے۔
﴿عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَۚ۝۱
عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِۙ۝﴾ ( النباء:1:2)
’’یہ لوگ کس چیز کے بارے میں پوچھ کچھ کر رہے ہیں، اک بہت بڑی خبر کے متعلق ۔‘‘
قرآن پاک اس کو نباء عظیم کہتا ہے اور پھر اس عظیم اور ہولناک خبر کی چند جھلکیاں قرآن پاک میں مختلف مقامات پر بیان کی گئی ہیں۔
﴿يٰأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ﴾(الحج:1)
’’لوگو! رب کے غضب سے بچو، قیامت کا زلزلہ یقینًا بڑی ہولناک چیز ہے۔‘‘
﴿یَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّاۤ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَ تَرَی النَّاسَ سُكٰرٰی وَ مَا هُمْ بِسُكٰرٰی وَ لٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِیْدٌ۝۲﴾ (الحج:2)
’’جس روز تم اسے دیکھو گے، حال یہ ہوگا ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہو جائے گی۔ ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہوگا ۔‘‘
تو آئیے ہم اس خبر کی فکر کرتے ہوئے آنے والے اس مبارک مہینے کی تیمت کو جانیں اور اس کی سعادتیں سمیٹنے کی کوشش کریں، اور اللہ تعالی سے اس کی توفیق کی دعا مانگیں۔
……………….