رمضان المبارک – نعمت و غنیمت

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۝﴾ (البقرة:183)

گزشتہ خطبات میں ہم نے رمضان المبارک کی فضیلت اور اہمیت جانی، یا یوں کہہ لیجیے کہ تجدید معلومات کی، کیونکہ رمضان المبارک کی فضیلت واہمیت سے ہر مسلمان بخوبی واقف ہے، یہ الگ بات ہے کہ دنیا کی رونق، چمک دمک ، چہل پہل اور آب و تاب میں مگن اور مستغرق ہو جانے کی وجہ سے اس کی اہمیت کچھ ماندی پڑ جاتی ہے، لہٰذا تجدید معلومات سے قلوب واذہان میں اس کی اہمیت پھر سے تازہ ہو جاتی ہے ذوق وشوق بڑھ جاتا ہے، رغبت و چاہت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اس کی برکتوں سے مستفید ہونے کے لیے پیشگی اہتمام کیا جاسکتا ہے۔

اس مبارک مہینے کے قیمتی اور مبارک لمحات میں سے ایک ہفتہ گزر چکا ہے اور ابھی تک ہم نے اس سے مستفید ہونے کے طریقے نہیں جانے، تو آئیے اس سے مستفید ہونے کے طریقے جانتے ہیں۔

تو اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو وہی ہے جس کا کئی خطبات جمعہ سے ذکر ہوتا چلا آرہا ہے، اور جو سب سے بنیادی بات ہے، اس کے بغیر استفادہ ممکن ہی نہیں اور وہ ہے اس مبارک مہینے سے مستفید ہونے کے لیے خصوصی وقت نکالنا۔

دنیا کے بارے میں تو ہم سب کو معلوم ہے کہ وقت دیں گے تو کام ہوگا، اور جتنا وقت دیں گے اسی نسبت سے فائدہ ہوگا، مگر آخرت کے بارے میں یہ بات ہم میں سے اکثرلوگوں کو کیوں سمجھ میں نہیں آتی ۔ نہایت ہی تعجب اور افسوس والی بات ہے، اور خطرے والی بات ہے۔ خطرے والی بات اس لیے ہے کہ دین کے معاملے میں دوری اور محرومی اور بات سمجھ نہ آنا بدبختی اور بدنصیبی کی علامت ہو سکتی ہے، بالخصوص اس وقت جب دنیا کے حوالے سے نفع و نقصان کی باتیں خوب سمجھ آرہی ہوں۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم  تو اس بات سے پریشان ہو جاتے اگر انہیں قرآن پاک کی کسی آیت کا مفہوم سمجھ نہ آتا، جیسا کہ حضرت عمرو بن مرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:

((مَا مَرَرْتُ بِآيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ لَا أَعْرِفُهَا إِلَّا أَحْزَنَنِي))

’’ میں قرآن پاک کی اگر کسی ایسی آیت سے گزروں جو سمجھ نہ آرہی ہو تو وہ مجھے غمگین کر جاتی ہے ۔‘‘

((لِأنِّي سَمِعْتُ اللهَ تَعَالَى يَقُولُ:))

’’اس لیے کہ میں نے اللہ تعالی کا فرمان سنا ہے کہ‘‘

﴿وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۚ وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ۝﴾(العنكبوت:43) (تفسیر ابن ابی حاتم، ج:10، ص:272، رقم:17327)

’’اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں مگر انہیں صرف علماء ہی سمجھتے ہیں‘‘

 حالانکہ قرآن پاک کی کسی آیت کا معنی و مفہوم سمجھ نہ آنا کوئی معیوب بات نہیں ہے، بلکہ حکم ہے:

﴿فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ۝﴾(النحل:43)

’’اگر کسی بات کا علم نہیں ہے تو اہل علم سے پوچھو۔‘‘

معیوب بات یہ ہے کہ جاننے کی کوشش نہ کرنا، اور اگر بتائی جائے تو سمجھنے کی کوشش نہ کرنا اور سمجھ آجائے تو عمل کی کوشش نہ کرنا۔

اور اگر کوئی ایسی بات ہو جو اظہر من الشمس ہو، روز روشن کی طرح عیاں ہو، دو اور دو  چار کی طرح واضح ہو تو اس کا سمجھ نہ آنایقینًا   خطرے والی بات ہو سکتی ہے، کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ دل اس طرف مائل نہیں ہو رہا۔ اور دل کا دین کی طرف مائل نہ ہونا نہایت ہی سنگین خطرے والی بات ہے کہ اللہ فرماتے ہیں:

﴿وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهٖ ﴾ (الانفال:24)

’’اور جان رکھو! کہ اللہ تعالی آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے۔‘‘

 یعنی کافر کے کفر اور ایمان کے درمیان اور مومن کی اطاعت اور معصیت کے درمیان حائل ہے، وہ جب چاہتا ہے، جدھر چاہتا ہے، دلوں کو پھیر دیتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ مگر وہ دلوں کو ان کی رغبت اور چاہت، ان کی خواہش اور میلان کے مطابق ہی پھیرتا ہے۔ وہ ہدایت کی بات سننے اور سمجھنے کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ اور سننے اور سمجھنے نہیں دیتا۔

﴿وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِیْهِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ ؕ﴾(الانفال:23)

’’اور اگر اللہ تعالی ان میں کوئی خوبی دیکھتا تو ان کو سننے کی توفیق دے دیتا ۔‘‘

اس لیے اسکی بات سمجھ نہ آتا کہ جو دو اور دو چار کی طرح واضح ہو، تعجب اور حیرانی والی بات بھی ہے اور خطرے والی بات بھی ہے۔

تو بات ہو رہی تھی کہ ہم سب کو بخوبی معلوم ہے کہ دنیا کو وقت دیں گے تو کامیاب ہوں گے، اور عملا ایسا ہوتا ہے، ہم سب کے مشاہدے میں ہے۔

مگر یہی اصول دین کے بارے میں ہماری سمجھ میں کیوں نہیں آتا ! یہ بات قابل توجہ اور قابل غور ہے۔

اور اگر غور کرنے کا ارادہ ہو تو تصور کرتے وقت دوسری آیات کے ساتھ اس آیت کریمہ کو بھی سامنے رکھ لیں ۔

اللہ فرماتے ہیں:

﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ ۚ﴾ (الانعام:125)

’’ اور جسے اللہ تعالی ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔‘‘

 اسے اسلام کی صداقت پر شرح صدر اور اطمینان قلب حاصل ہو جاتا ہے، شکوک و شبہات دور ہو جاتے ہیں، اسے اسلام کی باتیں سمجھ آنے لگتی ہیں، اس پر دنیا کی بے ثباتی عیاں ہو جاتی ہے، آخرت کی حقیقت منکشف ہو جاتی ہے۔ اور وہ باتیں جو زندگی میں موت اور آخرت کے حوالے سے ایک غافل انسان کو سمجھ نہیں آرہی ہوتیں، دوموت کے وقت سمجھ آتی ہیں، اور خوب سمجھ آتی ہیں جس کے بارے میں اللہ فرماتے ہیں:

﴿لَقَدْ كُنْتَ فِیْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَآءَكَ فَبَصَرُكَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ۝﴾(ق:22)

’’اے انسان تو آج کے اس دن سے غفلت میں تھا﴿ فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَآءَكَ ﴾

’’وہ حجاب جو تمہارے دل، تمہارے کانوں اور تمہاری آنکھوں پر تھا، آج ہم نے ہٹا دیا ہے۔‘‘

﴿ فَبَصَرُكَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ﴾(ق: 22)

’’آج تیری نگاہ خوب تیز ہے۔‘‘

آج دنیا تمہیں اپنی اصلی حالت میں نظر آرہی ہے، وہ محض نظر کا دھوکہ تھا، جس طرح دنیا تمہیں نظر آرہی تھی ، اور جس کی وجہ سے دنیا کو روزانہ  بیس بیس گھنٹے دیتا تھا اور آخرت کو صرف امیدوں پر چھوڑ رکھا تھا۔ اور آخرت تمہاری خواہشات اور تمہاری تمناؤں اور آرزوؤں پر موقوف نہیں بلکہ ۔

﴿ وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىِٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا۝﴾(النساء:124)

’’اور جو نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت ، بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ایسے لوگ ہی جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی۔‘‘

 تو دین کی باتیں سمجھ نہ آنے کی وجہ معلوم کرتے ہوئے یہ آیت کریمہ سامنے رکھیں کہ ﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ ۚ﴾ (الانعام:125)  ’’اور جسے اللہ تعالی ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے ‘‘  اسے وہ باتیں جو نافرمانوں کو موت کے وقت سمجھ میں آتی ہیں کہ جب تو بہ کا دروازہ بند ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ اس انسان کو زندگی میں ہی سمجھ آنے لگ جاتی ہیں کہ جنہیں اللہ تعالی ہدایت دینا چاہتا ہو۔

﴿وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ ؕ ﴾(النساء:125)

’’اور جسے اللہ تعالی گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو تنگ کر دیتا ہے، اور ایسا بھینچتا ہے‘‘  کہ اسلام کا اور نیکی کا تصور کرتے ہی اسے یوں معلوم ہونے لگتا ہے۔ جیسے وہ زور لگا کر آسمان میں چڑھ رہا ہے یعنی اس پر اسلام کی باتیں گراں گزرتی ہیں۔

بنیادی طور پر یہ بات منکرین حق کے لیے ہے مگر نام نہاد مسلمانوں اور دین بے زار لوگوں کی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہوتی ہے کہ دین کی باتیں ان پر شاق گزرتی ہیں۔

تو رمضان المبارک سے مستفید ہونے کے طریقے جاننے کی بات ہو رہی تھی اس ضمن میں سب سے پہلی اور بنیادی بات کا ذکر ہوا کہ وقت دیں گے تو استفادے کا سلسلہ شروع ہوگا ۔

اور اللہ تعالی کی رمضان المبارک کی صورت میں اس خصوصی عنایت پر خصوصی وقت راستوں اور طریقوں کی یقینًا   ایک طویل فہرست ہے، بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں راستے اور نکالنے والوں کے لیے استفادہ کرنے کے چند طریقوں کا ذکر کرتے ہیں، اگر چہ نیکی کے طریقے ہیں۔

اور نیکی کے بارے میں یہ بات ہمیشہ مد نظر دینی چاہیے کہ کسی نیکی کو حقیر اور معمولی نہیں جاننا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا وَلَوْ أَنْ تَلْقٰى أَخَاكَ بِوَجْهِ طَلْقٍ)) (مسلم:2626)

’’کسی نیکی کو کبھی حقیر مت جانو چاہے تم اپنے مسلمان بھائی کو خندہ پیشانی سے ہی ملو۔‘‘

جو نیکی قبول ہو جائے وہی سب سے بڑی نیکی ہے، اور کون سی نیکی قبول ہونے والی ہے اور کون سی نہیں ، کوئی نہیں جانتا۔ اور ایسے واقعات آپ نےیقینًا   سن رکھے ہوں گے کہ کچھ لوگ معمولی سی نیکیوں کے سبب بخشے گئے، جیسا کہ کتے کو پانی پلانے والی عورت کےبارے میں حدیث میں آتا ہے کہ وہ بخشی گئی۔

اسی طرح ایک حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا:

((مَرَّ رَجُلٌ بِغُضَنِ شَجَرَةٍ عَلَى ظَهْرِ طَرِيقٍ))

’’ایک شخص ایک درخت کے پاس سے گزرا جس کی ایک ٹہنی لوگوں کے راستے پر پڑرہی تھی ، جو کسی کے لیے اذیت کا باعث بن سکتی تھی ۔‘‘

((فَقَالَ: وَاللهِ لأُنْحِّيَنَّ هٰذَا عَنْ طَرِيقِ الْمُسْلِمِينَ، فَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ))( مسلم:1914)

’’اس نے کہا: واللہ میں ضرور اس شاخ کو مسلمانوں کے راستے سے ہٹا دوں گا۔‘‘

(فَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ)

’’وہ اپنی کی نیت پختہ ارادے اور عزم مصمم کے باعث جنت میں داخل کر دیا گیا۔‘‘

یعنی اک معمولی سی نیکی کی مخلص نیت سے مغفرت و بخشش حاصل ہوگئی۔

اس حوالے سے اور بہت سی احادیث ہیں، مگر میں اس وقت صرف اتنا عرض کرنا چاہتا تھا کہ کسی نیکی کو بھی معمولی اور حقیر نہ جائیں، یعنی معمولی سمجھ کر ترک نہ کریں، نہ جانے وہی قبول ہونے والی ہو۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بڑی نیکی کی توفیق ہو تو اسے چھوڑ کر چھوٹی نیکی پر اکتفا کر لیں جیسا کہ صدقہ کرتے وقت بڑے بڑے نوٹ پیچھے بناتے ہوئے ، سب سے چھوٹا نوٹ نکال کر صدقہ کریں۔

صدقہ ان چند کاموں میں سے ایک ہے کہ جن کا ذکر رمضان المبارک میں کرنے والے کاموں کے حوالے سے کرنا چاہتے ہیں۔ قیامت کے دن دھوپ اور گرمی کس قدر شدید ہوگی ، یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ آپ نے بار با مرتبہ وہ حدیث سنی ہوگی ۔ جس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

تَدْنُو الشَّمْسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى قَدْرِ مِيلٍ))

’’قیامت کے دن سورج ایک میل کی مسافت سے قریب ہوگا ۔‘‘

((وَيُزَادُ فِي حَرَّهَا كَذَا وَكَذَا))

’’اور اس گرمی اور تپش میں ایسا ایسا اضافہ کیا جائے گا۔‘‘

((يَغْلِي مِنْهَا الْهَوَامُّ كَمَا يَغْلِي الْقُدُورُ))

’’اس سے کیڑے مکوڑے اس طرح ابل رہے ہوں گے، جس طرح ہنڈیا ابلتی ہے۔‘‘

((يَعْرِفُونَ فِيهَا عَلَى قَدْرِ خَطَايَاهُمْ))

’’لوگوں کا اس میں اپنے گناہوں کے حساب سے پسینہ بہہ رہا ہوگا ۔‘‘

((مِنْهُمْ مَن يَّبْلُغُ إِلٰى كَعْبَيْهِ))

’’ کوئی اپنے ٹختوں تک ڈوبا ہوگا۔‘‘

((وَمِنْهُمْ مَنْ يَبْلُغُ إِلٰى سَاقَيهِ))

’’کوئی پنڈلیوں تک پسینے میں ڈوبا ہوگا۔‘‘

((وَمِنْهُمْ مّن يَّبْلُغُ إِلٰى وَسْطِه))

’’کوئی درمیان تک ڈوبا ہوگا۔‘‘

((وَمِنْهُمْ مَن يُلْجِمُهُ العَرَقُ)) (مسند احمد، ج:5 ص:254، رقم:22240)

’’اور کوئی منہ تک پسینے میں ہوگا۔‘‘

دنیا کی گرمی جو آخرت کی گرمی کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے اس کی شدت تو آپ نے دیکھ ہی لی، کہ دنیا میں ہزاروں لوگ گرمی کی شدت کی وجہ سے لقمہ اجل ہے۔ اس دنیا کی گرمی سے تو بچا بھی جاسکتا ہے اور ویسے بھی ایسی شدید گرمی صرف چند دنوں کی ہوتی ہے۔ مگر قیامت کے دن سورج کی گرمی سے بچنے کے لیے دنیا کا کوئی وسیلہ اور حربہ کام نہ آئے گا۔ اور اس گرمی کا دورانیہ بھی کوئی دنوں، ہفتوں اور مہینوں کی بات نہیں، بلکہ پچاس ہزار سال کے عرصے پر محیط ہوگا۔ اور اس سے بچنے کا طریقہ صرف نیکیاں ہی ہیں، اور ان میں سے ایک نیکی صدقہ ہے۔

حدیث میں ہے آپ ﷺنے فرمایا:

((كُلُّ امْرِئٍ فِي ظِلِّ صَدَقَتِهِ حَتَّى يُفْصَلَ بَيْنَ النَّاسِ))( مسند احمد، ج:4، ص:147، رقم:1737)

’’آدمی قیامت کے دن اپنے صدقے کے سائے میں ہوگا، لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک۔‘‘

یعنی جب تک لوگوں کا حساب کتاب ہوتا رہے گا، سورج ایک میل کے فاصلے سے قریب ہوگا اور صدقہ کرنے والا ، اتنا عرصہ اپنے صدقے کے سائے میں رہے گا۔ اب جس کو جتنا بڑا اور جتنا گھنا سایہ چاہیے وہ اس کے مطابق دنیا میں اللہ کی راہ میں خرچ کرلے۔ اور صدقے کے سائے کے بارے میں حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:

 ((إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ يَسْتَظِلُّ فِي ظِلَّ اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَرَجُلُ اَنْظَرَ مُعسِرًا حَتّٰى يَجِدَ شَيْئًا أَوْ تَصَدَّقَ عَلَيْهِ بِمَا  یَطْلُبُهُ))( ۳۷۷ المعجم الكبير للطبراني ، ج:19، ص:167 ، رقم:377)

’’قیامت کے دن سب سے پہلے اللہ تعالی کے سائے میں آنے والا وہ شخص ہوگا جس نے کسی مقروض تنگ دست کو مہلت دی یہاں تک کہ اس نے کچھ کشادگی پالی، یا اس کی طلب کے مطابق اس پر صدقہ کر دیا ہو۔‘‘

 رمضان المبارک میں صدقہ کے علاوہ اور بہت سی نیکیاں بھی ہیں جیسے تلاوت قرآن پاک ، ذکر و اذکار اور تسبیحات وغیرہ۔ مگر صدقے کی ایک خاص اہمیت ہے، کیونکہ دوسری نیکیاں کرنا نسبتا آسان ہیں، مگر صدقہ مشکل ہے۔ صدقہ کرنے سے تزکیہ نفس ہوتا ہے، یعنی انسان میں جو بڑی بڑی بری خصلتیں ہیں ان میں سے ایک بجل اور کنجوسی ہے اور صدقہ کرنے سے بخل جیسی مکر وہ صفت سے چھٹکارا حاصل ہوتا ہے۔

﴿وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ۝۹﴾ (الحشر:9)

’’ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘

صدقے کی ترغیب کا مقصد اور مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ خود اسی مسجد میں صدقہ کریں، جس سے آپ کا تعلق ہے بلکہ جہاں زیادہ ضرورت محسوس کریں وہاں صدقہ کریں۔ بالخصوص اپنے رشتہ داروں میں، وہ آپ کی توجہ کے مستحق ہیں اور آپ کو اس کا ان شاء اللہ دہرا اجر ملے گا، ایک صدقے کا اور دوسرا صلہ رحمی کا۔ چاہے میں ایک بار پھر اس موضوع پر آنا چاہوں گا کہ رمضان المبارک سے استفادہ کرنا ہیں تو وقت نکالیں۔ آپ اگر استفادہ نہیں کرتے تو میرا نقصان نہیں ہے اور اگر میں استفادہ نہیں کرتا تو آپ کا نقصان نہیں ہے۔ مگر از راہ ہمدردی اور خیر خواہی اور از راہ ذمہ داری یہ باتیں عرض کر رہا ہوں ۔ از راہ ذمہ داری اس لیے کہ حدیث میں ہے۔

((مَنْ وَلِي مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ شَيْئًا فَغَشَّهُمْ فَهُوَ فِي النَّارِ))( المعجم الأوسط للطبراني، ج:4، ص:11، رقم:3481)

’’جسے مسلمانوں کے معاملات میں سے کسی معاملے کی کوئی ذمہ داری ملی، اور اس اوراس نے ان کو دھوکہ دیا تو وہ جہنم میں ہوگا ۔‘‘

((كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ))(بخاری:893)

’’ تم میں سے ہر شخص راعی اور نگہبان ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی ۔‘‘

﴿وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ (العصر:3)

’’ اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے ہیں ۔‘‘

 اور تو اصی بالحق کا تقاضا یہ ہے کہ پوری امانت داری کے ساتھ دوسروں تک حق بات پہنچا دی جائے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

…………………