رمضان المبارک سے استفادہ نہ کر سکنے کی وجوہات
﴿فَفِرُّوا إِلَى اللهِ ۖ إِنِّي لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيرٌ مُبِينٌ﴾ (الذاريات:50)
’’پس اللہ کی طرف دوڑ و یقینًا میں اس کی طرف سے تمھارے لیے کھلا ڈرانے والا ہوں ۔‘‘
رمضان المبارک اللہ تعالی کے اہل ایمان پر خصوصی انعامات میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے، ایک بہت بڑا موقع غنیمت ہے، اپنی گذشتہ تمام غلطیوں، کوتاہیوں اور لغزشوں کی تلافی کا موقع اور موسم ہے۔
رمضان المبارک کی فضیلت، اس کی افادیت اور اس کی برکت و سعادت کو ہر مسلمان اچھی طرح سمجھتا اور اس پر یقین رکھتا ہے کیونکہ وہ رمضان المبارک کی فضیلت اور برکت و سعادت کے بارے میں بچپن ہی سے گھروں میں، مساجد اور مدارس میں، دینی جلسوں اور محفلوں میں اور حتی کہ گلیوں اور بازاروں میں سنتا چلا آ رہا ہے اور اس کے لیے جو خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے اس کے مناظر بھی اس کے دل و دماغ میں رچ بس گئے ہوتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود دیکھنے میں آتا ہے کہ اکثر لوگ رمضان المبارک سے صحیح معنوں میں استفادہ نہیں کر پاتے۔
رمضان المبارک کی اہمیت سے آگاہ ، اس سے استفادے کا خواہش مند اور اپنی اس صورت حال پر فکر مند ہر شخص یقینًا یہ جاننا چاہے گا کہ آخر اس کا سبب کیا ہے؟
رمضان المبارک سے مستفید نہ ہو پانے کے اسباب میں کوئی نئی چیز تو ہرگز نہیں ہے، اس کے وہی اسباب و وجوہات ہیں جنھیں لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ رمضان المبارک سے استفادے کی راہ میں بہت ساری روکاوٹوں میں سے بنیادی اور سب سے بڑی روکاوٹیں دو ہی ہیں، ایک شیطان اور دوسرا انسان کا اپنا نفس۔
اس مبارک مہینے میں شیطان سے تو ایک حد تک انسان کو نجات مل جاتی ہے کہ بڑے بڑے سرکش شیطانوں کو قید کر دیا جاتا ہے ، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((آتَاكُمْ شَهْرُ رَمَضَانَ ، شهر مبارك ، فَرَضَ الله عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَ تُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَحِيمِ وَتُغَلُّ فِيهِ مَرَدَةُ الشَّيَاطِينِ لِلَّهِ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ ، مَنْ حرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ)) (صحيح الجامع:55، صحيح الترغيب:999)
’’ کہ تمھارے پاس رمضان کا مہینہ، برکت کا مہینہ آیا ہے، اللہ تعالی نے تم پر اس کے روزے فرض کیے ہیں ، اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ، اس میں بڑے بڑے سرکش شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے جو اس کی خیر سے محروم رہا تو وہ محروم ہے۔‘‘
دوسری طرف نفس کے شر سے بھی ایک حد تک Relief مل جاتا ہے کہ اک خاص ماحول میں رہنے سے برائی سے دور اور نیکی کے قریب ہو جاتا ہے مگر پوری طرح رمضان کی برکتوں سے استفادہ نہیں کر سکتا، اس کی دیگر بہت سی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی کو صحیح رہنمائی میسر نہیں آتی ۔
انسان کی یہ فطری کمزوری ہے کہ اسے بہت سے کاموں میں ہمیشہ رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، اللہ تعالی کی طرف سے رہنمائی تو ہر کام میں اور ہر وقت درکار ہوتی ہے، چنانچہ ہمیں یہ دعا سکھلائی گئی ہے کہ: ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيم﴾ ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔‘‘ یعنی زندگی کے ہر شعبے میں صحیح اور سیدھے راستے کی رہنمائی فرما۔
مگر چونکہ اللہ تعالی نے دنیا کے معاملات کو اسباب کے ساتھ منسلک کر رکھا ہے، اس لیے انسانوں کو بہت سے معاملات میں ایک دوسرے کی مدد اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ دنیا کے معاملات ہوں یا دین سے ان کا تعلق ہو، صرف معلومات پہنچا دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ تزکیہ و تربیت بھی ضروری ہوتا ہے، اور اس کے لیے ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان میں کچھ نہ کچھ خوبیاں اور صلاحیتیں ضرور موجود ہوتی ہیں، کسی میں کم کسی میں زیادہ اور کسی میں بہت زیادہ، مگر ان صلاحیتوں سے کام لینا انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کچھ لوگ اپنی صلاحیتوں سے خود کام لیتے ہیں اور ایسے لوگ دنیا میں بہت کم ہیں، اکثر لوگوں کو اپنی صلاحیتوں سے کام لینے کے لیے کسی نہ کسی رہنما کی ضرورت ہوتی ہے، اور اگر کوئی مناسب رہنما میسر نہ آئے تو صلاحیتیں ضائع ہو جاتی ہیں یا وہ منفی راہ میں استعمال ہونے لگتی ہیں۔
جب آدمی کو اپنی صلاحیتوں کا اندازہ نہیں ہوتا، یا ان کے پہننے اور پھلنے پھولنے کی صورت نظر نہیں آتی تو وہ اپنے آپ کو کسی ایسی شخصیت کے حوالے کر دیتا ہے جو اُس کی نظر میں مسیحا ہوتا ہے، جو اس کے جذبات و احساسات اور افکار و نظریات کی ترجمانی کرتا ہوا نظر
آدمی کی زندگی میں یہ موڑ انتہائی نازک، پُر خطر اور اندیشناک ہوتا ہے، جب وہ اپنے کسی رہنما کا انتخاب کر رہا ہوتا ہے، کیونکہ اس کے پاس انتخاب کا کوئی مستند معیار نہیں ہوتا، اس کے پاس اپنے لیے کسی لیڈر اور رہنما کے انتخاب کی بنیاد صرف اس کے جذبات ہوتے ہیں۔ جبکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں اچھے لیڈر اور رہنما کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ انسان کے خود ساختہ معیار سے یکسر مختلف ہیں ، اس کی تفصیل میں نہیں جاتے ، بس اتنی بات یا درکھیں کہ لیڈر اور رہنما دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو قرآن پاک کی اصطلاح میں ائمة الهدی کہلاتے ہیں، جن کے بارے میں اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ جَعَلْنَا مِنْهُمْ اَىِٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا ؕ۫ وَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ﴾(السجدة: ٢٤)
’’اور جب انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو اُن کے اندر ہم نے ایسے پیشوا اور رہنما پیدا کئے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے۔‘‘
اور دوسری طرف ایک وہ امام، لیڈر اور رہنما ہیں جو لوگوں کو جہنم کی طرف بلاتے ہیں، فرمایا:
﴿وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً یَّدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ ۚ﴾ (القصص:41)
’’اور ہم نے انھیں ایسے امام اور پیشوا بنا دیا جولوگوں کو جہنم کی طرف بلائیں ۔‘‘
اور احادیث میں ایسے رہنماؤں کی کچھ مزید علامات اور نشانیاں بیان کی گئی ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةً لَا يَهْتَدُونَ بِهدَايَ وَلَا يَسْتَنُونَ بِسنَّتِي))
’’فرمایا: میرے بعد ایسے حکمران بنیں گے جو میری ہدایت کے مطابق لوگوں کی رہنمائی نہیں کریں گے اور نہ ہی میری سنت پر لوگوں کو چلا میں گے۔‘‘
((وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبَهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ انس)) (صحيح مسلم:1847)
’’ اور ان میں ایسے حاکم بھی ہوں گے جو انسانی جسموں میں شیطان کے دل رکھتے ہوں گے۔‘‘
اماموں، لیڈروں اور رہنماؤں کی یہ اقسام اور ان کی صفات جان لینے کے بعد اپنے لیے لیڈر اور رہنما کے انتخاب میں مشکل نہیں ہونی چاہیے ۔
اگر آپ عبقری قسم کے انسان نہیں ہیں، اتنے ذہین وفطین نہیں ہیں کہ اپنی صلاحیتوں سے خود کام لے سکیں، جو کہ نہیں ہیں، کیونکہ ایسے لوگ دنیا میں اتنے کم ہیں کہ گویا وہ انگلیوں پر گئے جاسکتے ہیں بالخصوص اس دور میں، کہ یہ دور قحط الرجال کا دور ہے، یعنی مردوں کا قحط پڑا ہوا ہے جنس کے اعتبار سے مرد تو بہت ہیں، مگر صفات کے لحاظ سے مرد کوئی اکا دکا اور خال خال ہی نظر آئیں گے۔
تو چونکہ ہم ایسے عبقری قسم کے لوگ نہیں ہیں، لہٰذا ہمیں ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے، جو ہمیں صحیح صحیح قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی دے سکیں، ہمارا تزکیہ کر سکیں، ہماری تربیت کر سکیں۔
ہمیں اپنے لیے رہنماؤں کے انتخاب میں انتہائی چوکنا اور بیدار مغز رہنا چاہیے، کیونکہ جب ہم کسی رہنما کا انتخاب کرتے ہیں تو پھر ہم اپنا دل، دماغ ، اپنی صلاحیتیں اور قوتیں ان کے سپرد کر رہے ہوتے ہیں۔
لہٰذا ہمیں اتنا نادان نہیں بننا چاہیے کہ کوئی ہمارے جذبات سے اور ہمارے دل و دماغ سے جس طرح چاہے کھیلتا رہے اور ہماری صلاحیتوں کو جس طرح چاہے استعمال کرتا رہے، وہ ہمیں ناچ گانے اور بے حیائی پر لگادے تو ہم اس پر لگ جائیں، کوئی کہے کہ دھرنے دو، ہڑتالیں کرو، لوگوں کے راستے بند کر دو، کوئی کام پر نہ جائے ، کوئی ایمبولینس نہ گزرنے پائے ، پہیہ جام کر دو ، یہ سب کچھ کیا ہے؟ یہ جہنم کی طرف بلانا نہیں تو اور کیا ہے ۔ ہماری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے، یہ کون سا دین اور کون سا کھچر ہے! اسلام تو کہتا ہے؟
﴿وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠﴾ (الاحزاب:57)
’’جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں انھوں نے ایک بہت بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے ۔‘‘
تعجب ہے کہ ہم ایسے جہنم کی طرف بلانے والے لوگوں کو آنکھیں بند کر کے اپنا لیڈر اور رہنما مان لیتے ہیں اور اپنا دل ، دماغ اور تمام صلاحیتیں ان کے سپر د کر دیتے ہیں ۔
حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((لَا يَحْقِرَنَّ أَحَدُكُمْ نَفْسه)) (مسند احمد:11255)
’’کوئی تم میں سے اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھے یعنی ہر آدمی کی اپنی ایک حیثیت ہے۔‘‘
غریب ہونے سے اس کی حیثیت اور اس کے مقام کو نقصان نہیں پہنچتا، کم علم ہونے سے اس کی حیثیت پر کوئی زدنہیں آتی ، اپنی حیثیت پہچانو، لہذا اپنا دل اور دماغ ، اپنی قوتیں اور صلاحیتیں اور اپنے جذبات کسی کے حوالے نہ کرو، انسان کی حیثیت، بالخصوص ایک مسلمان کی حیثیت اور مقام و مرتبہ کیا ہے، اللہ تعالی نے انسان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ، فرشتوں سے سجدہ کروایا، یاد رکھیں اگر آپ اپنی حیثیت نہیں پہچانیں گے اپنے آپ کو یوں ہی حقیر سمجھتے رہیں گے تو استحصال کرنے والے، لفاظی کے ذریعے لوگوں کو بے وقوف بنانے والے، بے وقوف بناتے رہیں گے۔
اگر آپ اپنی عقل اور اپنی صلاحیتوں کو استعمال نہیں کریں گے تو انھیں کوئی اور استعمال کرے گا، اگر آپ انھیں Use نہیں کریں گے تو انھیں Lose کریں گے۔
خیر یہ تو چند تمہیدی باتیں تھیں، اصل بنیادی بات یہ ہے جو کہ فکر مندی کی بات ہے کہ ہمیں یہ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود کہ رمضان المبارک ایک بہت بڑی نعمت ہے بہت بڑا موقع نقیمت ہے، تلاقی مافات کا ایک بہترین موقع ہے، پھر بھی کیوں اس سے مستفید نہیں ہو پاتے!
اس کی یقینًا بہت سی وجوہات ہیں اور ان سب کا احاطہ کسی ایک مختصری نشست میں تو نہیں ہو سکتا، اس لیے صرف دو ایک اسباب کا ذکر کرنا چاہوں گا اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہمیں شاید اس طرح کی رہنمائی کہ ہمیں اس مبارک مہینے کے ایام سے مستفید ہونے کے لیے بالتفصیل اور جزئیات کے ساتھ درجہ بدرجہ ، لمحہ بہ لحہ بتلایا جائے کہ ہمیں صبح کیا کرنا ہے شام کو کیا کرنا ہے اور رات کو کیا کرتا ہے وغیرہ۔
چلیے یہ بھی جاننے کی کوشش کر کے دیکھ لیتے ہیں مگر اس سے پہلے ایک اور بات سمجھ لینی ضروری ہے اور شاید وہ اس ساری گفتگو کا لب لباب اور خلاصہ ہو اور وہ یہ کہ: جب تک ہم اس مبارک مہینے کو اپنی زندگی کا آخری رمضان سمجھ کر نہیں گزاریں گے بات بنتی ہوئی نظر نہیں آتی، اس کے بغیر رمضان المبارک سے استفادے کا وہ ذوق اور شوق پیدا نہیں ہو سکتا ، وہ ہمت پیدا نہیں ہو سکتی، وہ جذبہ، وہ تڑپ وہ لگن پیدا نہیں ہو سکتی ، و و خشوع و خضوع پیدا نہیں ہو سکتا۔
رمضان المبارک کی فضیات میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں، ان میں ایک یہ بات بھی بتلائی گئی ہے کہ:
((وَلِلَّهِ عُتَقَاهُ مِنَ النَّارِ، وَذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ)) (ترمذي ، كتاب الصوم:682)
’’اس مبارک مہینے میں لوگوں کو جہنم سے آزاد کیا جاتا ہے اور یہ عمل اور اللہ کا فضل ہر رات ہوتا ہے ۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں اس خاص وقت کا ذکر بھی فرما دیا گیا ہے فرمایا:
((إِنَّ لِلَّهِ عِنْدَ كُلِّ فِطْرٍ عُتَقَاءَ وَ ذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ)) (ابن ماجة، كتاب الصيام:6)
اللہ تعالی ہر روز افطار کے وقت لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتے ہیں ۔” اور انسان آزاد کیسے ہوتا ہے؟ کیا آدمی محض صبح سے شام تک کھانا پینا چھوڑ دینے سے آزاد ہو جاتا ہے؟ آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی کو اس کی قطعاً ضرورت نہیں کہ صرف کھانا پینا چھوڑ دے اور باقی کام ویسے جاری رکھے، جیسا کہ حدیث میں ہے: ((مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يدع طعامه وشرابه)) (صحیح البخاری:1903)
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنانہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ۔‘‘
رمضان المبارک اس طریقے پر گزارا جائے جو مطلوب ہے جو احادیث میں بیان ہوا ہے تو ان شاء اللہ جہنم سے آزدی کا پروانہ مل سکتا ہے۔” جہنم سے آزادی حاصل کرنے کے لیے بالخصوص جو کام ہمیں کرنا ہوگا وہ ہے، نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ کے حضور گڑ گڑا، گڑ گڑا کر دعا میں کرنا۔ اور جب تک دعا میں ایسی کیفیت پیدا نہیں ہوتی کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں آنکھوں سے آنسو جاری ہو جا ئیں دعا میں وہ اثر پیدا نہیں ہوتا کہ جس سے آدمی کو کچھ تسلی بھی ہو جائے اور سکون سا آجائے اور بخشش کی امید پیدا ہو جائے۔
تو آئیے رمضان المبارک سے مستفید ہونے کے چند طریقے اور اعمال جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان میں سے ایک یہ ہے کہ سب سے پہلے اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ جو کام اور جو باتیں روزے کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ اور مانع ہیں ان سے بچا جائے کیوں کہ کہ حدیث میں ہے کہ:
((مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَ شَرَابَهُ))
’’جو شخص جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا، اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑے رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘
جھوٹ بولنا کیا ہے اور اس پر عمل کرنا کیا ہوتا ہے؟ یوں تو ہر شخص اس کا مفہوم خوب سمجھتا ہے تا ہم خلاصہ یہ ہے کہ ہر گناہ کا کام جھوٹ کہلاتا ہے چاہے زبان سے اس کا ارتکاب ہو یا ہاتھ پاؤں سے سرزد ہو۔
اس دور میں کچھ گناہ کے کام ایسے ہیں کہ وہ کثرت استعمال کی وجہ سے گناہ نہیں سمجھے جاتے ، ان کے سرفہرست ٹی وی ہے۔
ٹی وی عام دنوں میں بھی یقینی طور پر آدمی کے اخلاق، اس کے ایمان اور شرم و حیا پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کا ایک لازما نقصان ہوتا ہے، مگر رمضان المبارک میں ٹی وی اور فیس یک وغیرہ کا نقصان تو کہیں زیادہ ہے۔
رمضان المبارک سے استفادہ کرنا ہو تو ان چیزوں سے اجتناب نہایت ضروری ہے۔ اس کے بعد پابندی کے ساتھ جو کرنے کے کام ہیں ان میں سے سب سے پہلا کام فرض نمازوں کی ادائیگی ہے، جو کہ با جماعت ہو اور سنتوں کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت پابندی کے ساتھ ہو، اپنی سہولت کے مطابق اس کا وقت اور مقدار مقرر کر لی جائے۔ تلاوت قرآن پاک کا سب سے مناسب وقت فجر کی نماز کے بعد کا ہے، اور مقدار کم از کم ایک پارہ ہو، اس کے علاوہ باقی نمازوں کے بعد بھی تھوڑی تھوڑی مقدار مقرر کر لی جائے ۔ ظاہر ہے کہ تلاوت صبح و شام کے اُن مسنون اذکار و وظائف کے بعد ہے جو احادیث میں بیان ہوئے ہیں، آیة الکرسی، سید الاستغفار ، اور دیگر اذکار ہیں۔ صدقہ خیرات کا بھی خصوصی اہتمام کیا جائے، اگر ممکن ہو تو روزانہ کی بنیاد پر ہو، ورنہ یک مشت بھی دیا جا سکتا ہے۔ تراویح کا اہتمام ضروری ہے کہ حدیث میں بڑی ترغیب دی گئی اور اجر بیان کیا گیا ہے ، جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا:
((مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَمَ مِنْ ذَنْبِهِ))
’’جس نے رمضان میں ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔‘‘
اسی طرح دعا میں بھی نہایت اہتمام کے ساتھ ہونی چاہیں، اور آخر میں روزے کی حفاظت بھی نہایت ضروری ہے چنانچہ چغلی، غیبت اور فضول گوئی جو کہ گپ شپ کہلاتی ہے اس سے مکمل طور پر اجتناب کیا جائے۔ ایسے ہی بیت اللہ کا طواف بھی رمضان المبارک سے
استفادے کا ایک بہترین ذریعہ ہے جیسا کہ حدیث میں ہے:
((مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ كَانَ كَعِتْقِ رقبة)) (شعب الایمان:3751 ، صحيح الجامع: 6379)
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے بیت اللہ کے سات چکر لگا کر طواف کیا اور دو رکعات نماز پڑھی تو وہ ایک غلام آزاد کرنے جیسا ہے ۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ اتنے سارے کام جب پابندی کے ساتھ کرنے ہوں تو وقت کہاں سے لائیں گے؟ تو وقت پیدا کرنے کا ایک بڑا آسان سا نسخہ ہے اگر اس پر عمل کر سکیں تو پھر آدمی کے پاس وقت ہی وقت ہوگا اور وہ یہ ہے کہ اس رمضان کو دل کی گہرائیوں سے اپنی زندگی کا آخری رمضان سمجھ لیں، اور پھر اس کا کرشمہ دیکھیں۔ رمضان المبارک سے استفادے کی ایک صورت اور تدبیر یہ بھی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو روزہ داروں کی روزہ کشائی کا اہتمام کیا جائے اور روزہ افطار کرانے کا اجر و ثواب تو آپ کو معلوم ہی ہو گا: ((مَنْ فَطَرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنقُصُ مِنْ أَجْرٍ الصائم شيئًا)) (ترمذي ، كتاب الصوم:807)
’’جس نے روزہ دار کو روزہ افطار کرایا، اسے بھی اتنا ہی اجر ملے گا جتنا روزہ رکھنے والے کو ملے گا، جب کہ روزہ دار کے اجر سے کچھ بھی کم نہ کیا جائے گا۔‘‘
خلاصہ یہ کہ رمضان المبارک کے روزے فرض کرنے کا جو مقصد اللہ تعالی نے بیان کیا ہے وہ ہے تقوی کا حصول، اور تقوی کے حصول کے لیے جو کوئی بھی نیک عمل ممکن ہو ضرور کریں ، تقوی حاصل ہو جائے تو اس کے اور بہت سارے ذیلی فوائد حاصل ہو جاتے ہیں۔
لہذا تقوی کے حصول کے لیے بھر پور کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرنے ، اس کی طرف رجوع کرنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے انسان کو کس طرح جدو جہد کرنی چاہیے، اس کے لیے قرآن وحدیث میں ترغیب دینے کے لیے مختلف الفاظ اور مختلف پیرائے اور انداز اختیار کئے گئے ہیں۔ مگر سب سے پرکشش اور سب سے پر زور انداز شاید اس سے زیادہ کوئی اور نہ ہو۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿فَفِرُّوا إِلَى اللهِ﴾ (الذاريات:50)
’’اللہ کی طرف بھا گو۔‘‘
اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہونے اور رغبت کرنے کے لیے (سار عوا) جلدی کرو، (سابقوا) دوڑ لگاؤ، ایک دوسرے سے آگے نکلنے اور سبقت لے جانے کی کوشش کرو، وغیرہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں، مگر (فَفِرُّوا ) لفظ فرار سے ہے، جس کا معنی ہوتا ہے ڈر کر بھاگنا۔ اب یہاں کسی سے ڈر کر اللہ تعالی کی طرف بھاگنا مراد ہے؟ خود اللہ تعالی سے ڈر کر، اس کے عذاب اور عقاب سے ڈر کر اللہ تعالی کی طرف بھاگنا ہے۔ اس کی تائید میں متعدد احادیث ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ آپ ﷺفرمایا کرتے تھے۔
(( اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ ، لَا أَحْصِي ثَنَاءَ عَلَيْكَ ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ))
’’اے اللہ! میں تیری ناراضی سے بچتے ہوئے تیری خوشنودی کی پناہ میں آتا ہوں، اور تیری سزا سے بچتے ہوئے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں، اور میں تجھ سے (تیرے غیض و غضب سے) تیری (رحمت کی ) پناہ چاہتا ہوں میں تیری تعریفیں شمار نہیں کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی صفات بیان فرمائی ہیں ۔‘‘
اس میں ایک لفظ ہے (و اعوذ بك منك ) تجھ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ تفصیل ان شاء اللہ بھر کبھی عرض کریں گے، اس وقت ذرا اس بات پر غور کرتے ہیں۔ شاید کبھی آپ نے دیکھا ہو، اگر نہ دیکھا ہو تو تصور بھی کر سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی چیز سے ڈر کر بھاگے، کسی ایسی مصیبت سے جس کے بارے میں اس کو یقین ہو کہ اگر اس کی گرفت میں آگیا تو یقینًا مارا جائے گا ، فرض کر لیجئے: شیر سے ڈر کر بھاگ رہا تو اس کی کیفیت کیا ہوگی ، کیا اس کو کسی اور چیز کی فکر ہوگی ، کیا وہ کسی محفوظ جگہ پر پہنچنے سے پہلے کہیں رکے گا؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ اسے اپنی نجات اور اپنے بچاؤ کی فکر دامن گیر ہوگی ، تو اللہ تعالی کی طرف ڈر کر بھاگنا بھی کچھ ایسے ہی معنوں میں ہے ، مگر اس کے ساتھ ہی اس لفظ میں ایک نہایت ہی خوبصورت تصیح بھی پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ عموماً آدمی جس سے ڈرتا ہو تو اس کی طرف نہیں بھاگتا ، بلکہ اس سے دور بھاگتا ہے، مگر یہاں اللہ تعالی سے ڈر کر خود اس ہی کی طرف بھاگنے کا حکم ہے، جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی سے ڈر کر بھا گو مگر یہ بھی جان لو کہ اس کے سوا کہیں پناہ بھی نہیں ہے، اس لیے لامحالہ اس سے ڈر کر اسی کی طرف بھاگنا ہوگا۔
…………………