رمضان المبارک سے استفادے کی راہ میں روکاوٹیں
﴿فَفِرُّوا إِلَى اللهِ إِنِّي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ مُّبِين﴾ (الذاريات:50)
’’پس اللہ کی طرف دوڑو یقینًا اس کی طرف سے تمھارے لیے کھلا ڈرانے والا ہوں۔‘‘
رمضان المبارک کی اہمیت و فضیلت اور اس کے بابرکت و با سعادت ہونے کے حوالے سے مسلمانوں کی غالب اکثریت بہت حد تک آگاہ ہے اور لوگ اس سے مستفید ہونا بھی چاہتے ہیں، مگر شاید مسلمانوں کی غالب اکثریت اس سے صحیح معنوں میں مستفید نہیں ہو پانی، اور سبب اس کا کوئی ایک نہیں، بلکہ متعدد اسباب ہیں اور پھر ان متعدد اسباب کے متعدد ذیلی اسباب بھی ہیں، گذشتہ جمعے اُن میں سے چند بنیادی اسباب کا ذکر ہوا اور مزید ان میں سے چند ایک کچھ یوں ہیں: دین سے لاعلمی اور پھر اپنے ہی جیسے بعض دین سے لا علم لوگوں کی صحبت، دنیا کی شدید محبت، اور اس کے ضائع ہونے کا ڈر اور خوف ، پست ہمتی اور ایمان کی کمزوری وغیرہ۔
رمضان المبارک میں ایمان کے درجات بلند کرنے والے اسباب و وسائل اور ذرائع تو الحمد للہ بہت میسر ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی ایمان کا درجہ اس حد تک بلند نہیں ہو پاتا کہ ہم رمضان المبارک کی برکتوں سے صحیح معنوں میں مستفید ہوسکیں۔
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان بلند کرنے والے اسباب اگر چہ بہت ہیں مگر اس کو کم کرنے والے اور تہہ تیغ کرنے والے اسباب اس سے کہیں زیادہ، مسلسل اور پیہم ہیں، لگا تار اور پے درپے ہیں اور بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ایمان کی کمی اور زیادتی رمضان المبارک سے استفادے اور عدم استفادو میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے، اس میں تو کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے قرآن وحدیث میں بکثرت دلائل موجود ہیں، جن میں سے چند ایک یہ ہیں: اللہ فرماتے ہیں:
﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ۲﴾(الانفال:2)
’’سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو اُن کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں ۔‘‘
اسی طرح اور بہت سی آیات ہیں۔ اور حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((يَدْخُلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ))
’’جنت والے جنت میں داخل ہو جائیں گے اور جہنم والے جہنم میں۔‘‘
((ثُمَّ يَقُولُ عَزَّوَجَلَّ))
’’پھر اللہ تعالی فرمائیں گے:‘‘
((أَخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إيمان)) (صحيح البخاري:22)
’’ہر اس شخص کو جہنم سے نکال لو جس کے دل میں رائی یعنی سرسوں کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ کتاب الایمان میں لائے ہیں اور اس کے لیے باب باندھا ہے:
((بَابُ تَفَاضُلِ أَهْلِ الْإِيمَانِ فِي الْأَعْمَالِ))
’’اہل ایمان کا اعمال میں ایک دوسرے سے بڑھ جاتا جس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان میں اُتار چڑھاؤ اور کمی اور زیادتی ہوتی ہے ۔‘‘
اور اسی طرح وہ حدیث جس میں آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ الْإِيْمَانَ لَيَخْلَقُ فِي جَوْفِ أَحَدِكُمْ كَمَا يَخْلَقُ الثَّوْبُ))
’’ایمان تم میں سے کسی کے سینے میں یوں بوسیدہ ہو جاتا ہے جس طرح کپڑا بوسیدہ ہوتا ہے۔‘‘
((فَا سَأَلُوا اللهَ تَعَالَى أَنْ يُجَدِّدَ الْإِيْمَانَ فِي قُلُوبِكُمْ)) (صحيح الجامع:1590)
’’پس اللہ تعالی سے سوال کرو کہ وہ تمہارے دلوں میں ایمان کی تجدید فرمادے۔‘‘
اور اسی طرح اور بہت سی احادیث ہیں، تو ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے، اور ایمان کی کمی اور کمزوری رمضان المبارک سے استفادے کی راہ میں حائل ہوتی ہے۔ تو ایمان کا بڑھانا اور مسلسل بڑھاتے رہنا ایک مسلمان کی بنیادی ضرورت ہے، کیونکہ ایمان کبھی مستقل ایک حالت پر قائم نہیں رہتا، کہ ایمان دل میں ہوتا ہے اور دل کے لیے عربی میں قلب کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کا معنی ہی الٹ پلٹ ہوتے رہتا ہے لہذا اس کو ثبات ہرگز نہیں ہے۔
چنانچہ دل کی اس کیفیت کو آپﷺ نے یوں بیان فرمایا: ((لَقَلْبُ ابْنِ آدَمَ أَسْرَعُ تَقَلُّباً مِنَ الْقِدْرِ إِذَا اسْتَجْمَعَتْ
علياناً)) (السنة لابن ابی عاصم:226، المعجم الكبير للطبراني:599)
’’ابن آدم کا دل اس ہنڈیا سے بھی زیادہ متقلب و مضطرب ہوتا ہے کہ جب وہ امبنے پر آتی ہے۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے آپﷺ نے فرمایا:
((إِنَّمَا سُمِّيَ الْقَلْبُ مِنْ تَقَلْبِهِ))
’’لفظ قلب اُس کے متقلب و بے قرار ہونے سے ہے۔‘‘
یعنی تقلب کا معنی الٹ پلٹ ہونا اور بے قرار و مضطرب ہوتا ہے اور لفظ قلب بھی اس سے ماخوذ ہے جو کہ دل کے لیے مستعمل ہے۔
((إِنَّمَا مَثَلُ الْقَلْبِ كَمَثَلِ رِيشَةِ مُعَلَّقَةٍ فِي أَصل شَجَرَةٍ تُقلبها الريح ظهرا البطن)) (مسند احمد:19661)
’’فرمایا: دل کی مثال اُس پر کی سی ہے جو درخت کے تنے کے ساتھ لڑکا ہوتا ہے، ہوا اسے اوپر تلے کرتی رہتی ہے۔‘‘
تو دل کی کیفیت اور اس کی اہمیت کے بارے میں بہت سی آیات واحادیث ہیں جس کے لیے ایک مستقل نشست درکار ہے، دل کی اہمیت اور اس کی اسی کیفیت کے حوالے سے آپ ﷺ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
((يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ))
’’اے دلوں کو الٹ پلٹ کرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھ‘‘
تو جب دل یوں ہر دم منتخب ہوتا رہتا ہے، تو اس میں موجود ایمان بھی ہر دم کم اور زیادہ ہوتا رہتا ہے مگر ایمان کی کمی اور زیادتی کے حوالے سے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایمان کے زیادہ کرنے کے لیے محنت درکار ہوتی ہے جبکہ ایمان کو کم کرنے والے اسباب و وجوہات بکثرت موجود ہیں جو کہ مسلسل و ہم عمل میں رہتے ہیں اور غیر مرئی اور غیر محسوس بھی چنانچہ آپ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ انسان کو اپنے ایمان کو بڑھانے اور اس میں مسلسل سل اضافہ کرتے رہنے کی کس قدر اشد ضرورت ہے۔ ایمان کو مسلسل بڑھاتے رہنے کی ضرورت و اہمیت کو سمجھنا ہو تو اس حقیقت کو سامنے رکھیں کہ اگر آدمی کا ایمان بڑھ نہیں رہا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کم ہو رہا ہے، اور جیسے جیسے ایمان کو کمزور کرنے والے اسباب و وجوہات بڑھتے جائیں گے ایمان کم ہوتا جائے گا۔
یوں تو ایمان کو کمزور کرنے والے اسباب و وجوہات ہر دور میں بہت رہے ہیں ، مگر اس دور میں تو اس کثرت سے ہیں کہ ان سے بچنا تقریبا ناممکن ہے۔ حضرت حنظلہ بنی اللہ والا واقعہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ جب انھوں نے اپنا ایمان کمزور ہوتے ہوئے محسوس کیا تو آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسے منافقت سے تعبیر کیا، کہ لگتا ہے کہ میں منافق ہو گیا ہوں۔
ان کے ایمان کی کمزوری یقینًا ہماری ایمان کی کمزوری جیسی نہیں تھی کہ معاذ اللہ وہ کسی گناہ کے مرتکب ہوتے ہوں ، سودی کاروبار کرتے ہوں ، شراب اور خنزیر بیچتے ہوں، نمازوں میں سستی اور کاہلی سے کام لیتے ہوں وغیرہ۔
اور پھر ان کے ایمان کی کمزوری کا سبب کیا تھا ؟ صرف یہ کہ بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کچھ دیر خوش گپیوں میں مصروف ہوتے تو محسوس کرتے کہ ایمان کا حال وہ نہیں رہا جو آپ سے تعلیم کی محفل میں بیٹھ کر ہوتا ہے، حالانکہ ان کے بیوی بچے بھی انھی کی طرح دیندار اور نیک و پارسا ہوتے تھے ۔
آج ہم بے دین دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر اور گپ شپ لگا کر سمجھیں کہ ہمارا ایمان کمزور نہیں ہوا۔ اس کا کچھ نہیں بگڑا ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر سمجھیں کہ ہمارے ایمان کو نقصان نہیں پہنچا اور دیگر بے شمار قسم کے گمراہ کن مناظر دن بھر دیکھتے رہیں اور پھر سمجھیں کہ ہمارے ایمانوں پر کوئی آنچ نہیں آئی۔
ہم جھوٹ بولیں اور ایمان میں فرق نہ آئے ، فراڈ کریں اور ایمان نہ بگڑے، چغلی، غیبت اور گالی گلوچ کریں اور سمجھیں کہ ایمان میں کوئی دراڑ پیدا نہیں ہوئی۔ تو یہ کوئی سادگی اور بھول پن نہیں ہے، بلکہ یہ سراسر بے حسی ہے، یہ تجاہل عارفانہ ہے، یعنی جان بوجھ کر انجان بنتا ہے۔
تو بات یہ ہو رہی تھی کہ ایمان خود بخود غیر شعوری طور پر اور لا محالہ کم ہوتا ہے۔ مگر ایمان کو بڑھانے کے لیے خوب سعی و جہد کرنا پڑتی ہے۔ پہاڑ سے اترتے ہوئے آدمی اس تیزی اور اس آسانی اترتا ہے کہ اگر وہ سنبھل کر نہ چلے تو اس کے گرنے کے قوی امکانات ہوتے ہیں، مگر پہاڑ پر چڑھنے کے لیے اسے کسی قدر جد و جہد کرنا پڑتی ہے، ہر آدمی اچھی طرح سمجھتا ہے
دریا کے بہاؤ کی سمت تیرتے ہوئے کچھ زیادہ محنت درکار نہیں ہوتی، مگر اس کی مخالف سمت پر تیرتے ہوئے آدمی کو خوب زور لگا نا پڑتا ہے۔
اس کمزور ایمان کے ساتھ ہم چاہیں کہ ہم رمضان المبارک سے مستفید ہوں تو یہ ایک خواہش نا تمام ہے، رمضان المبارک سے مستفید ہونے کے لیے ہمیں اپنے ایمان کو بڑھانا ہوگا اور اس لیول پر لانا ہوگا کہ جس سے ہم رمضان المبارک کی برکتوں اور سعادتوں سے مستفید ہو سکیں۔
ہم اگر جائزہ لیں کہ ہم نے ان مبارک ایام میں ، اس مبارک مہینے کی سعادتوں سے مستفید ہونے کے لیے کیا کیا ہے تو شاید ہم کوئی معقول بات پیش نہ کر سکیں۔ ہم رمضان المبارک سے مستفید ہونے کے لیے کتنی تڑپ رکھتے ہیں، کتنا ذوق اور شوق رکھتے ہیں اور اس کے لیے کتنی جدو جہد کر رہے ہیں ، اس حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا اپنا جائزہ لیں، اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور ایمانوں کو ٹولیں۔
حدیث میں ہے، حضرت واقد اللیثی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں ، ((أَنَّ رَسُولَ اللهِ بَيْنَمَا هُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَالنَّاسُ معه ))
’’رسول اللہ ﷺمسجد میں تشریف فرما تھے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ تھے۔‘‘
((إِذْ أَقْبَلَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ))
’’کہ تین لوگ حاضر ہوئے۔‘‘
((فَأَقْبَلَ اثْنَانِ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ وَ ذَهَبَ وَاحِدٌ))
’’ان میں سے دو تو آپ ﷺکی طرف بڑھے جبکہ تیسرا چلا گیا۔‘‘
((قَالَ: فَوَقَفَا عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ ))
’’وہ آپﷺ کے پاس آکر کھڑے ہو گئے ۔‘‘
((فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَرَأَى فُرْجَةً فِي الْحَلْقَةِ فَجَلَسَ فِيهَا)
’’ان میں سے ایک نے اس حلقے میں ایک خالی جگہ دیکھی اور اس میں بیٹھ گیا۔‘‘
((وأما الآخَرُ فَجَلَسَ خَلْفَهُمْ))
’’جبکہ دوسرا ان بیٹھے ہوئے لوگوں کے پیچھے بیٹھ گیا۔‘‘
((وَأَمَّا الثَّالِثُ فَادْبَرَ ذَاهِباً))
’’اور تیسرا شخص مڑکر چلا گیا ۔‘‘
(( فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللهِ ، قَالَ: ((أَلَا أُخْبِرُكُمْ عَنِ النَّفَرِ الثلاثة ))
’’جب آپ سے فارغ ہوئے تو فرمایا: "کیا میں تمھیں تین لوگوں کے بارے میں نہ بتلاؤں ؟‘‘
((أَمَّا أَحَدُهُمْ فَأَوَى إِلَى اللَّهِ فَأَوَاهُ اللَّهُ))
’’ان میں سے ایک نے اللہ کے پاس جگہ حاصل کرنا چاہی، تو اللہ تعالی نے اسے جگہ دے دی، ٹھکانہ دے دیا۔‘‘
یعنی اس کی کوشش کو قبول کرتے ہوئے اسے اپنے قریب کر لیا اور جگہ دے دی۔
((أما الآخَرُ فَاسْتَحْيَا، فَاسْتَحْيَا اللهُ مِنْهُ))
’’جبکہ دوسرے نے کچھ حیا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس سے حیا کی ۔‘‘
یعنی اس نے حیا کی کہ لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے آگے جائے، چنانچہ وہ وہیں لوگوں کے پیچھے ہی بیٹھ گیا، یعنی اس نے آگے جگہ تلاش کرنے کی کوشش کی بجائے شرم کے مارے وہیں پیچھے ہی بیٹھنا پسند کیا، تو اللہ تعالی نے اُس سے حیا کرتے ہوئے اسے بھی اپنی
رحمت میں شامل کر لیا۔
((وَأَمَّا الْآخَرُ فَأَعْرَضَ ، فَأَعْرَضَ اللَّهُ عَنْهُ)) (صحيح البخاري:66)
’’البتہ تیسرے نے اعراض کیا، اس سے منہ پھیر کر چلا گیا تو اللہ تعالی نے بھی اس سے اعراض کیا ۔‘‘
یعنی تیسرے شخص نے اُس مجلس کو اتنی اہمیت نہ دی، اس کے ذوق وشوق نے اسے آگے بڑھنے یا کم از کم وہیں پیچھے بیٹھ جانے پر آمادہ نہ کیا، تو اللہ تعالی نے بھی اس سے اعراض کیا اور اس کو اپنی رحمت میں نہ ڈھانپا اور اس سے ناراضی کا اظہار کیا۔ یہاں تیسرے شخص پر اللہ تعالی کا اپنی ناراضی دکھانا، اس بات کی دلیل ہے کہ وہ شخص کسی ضرورت کسی کام اور عذر کی بنا پر وہاں سے نہیں گیا تھا بلکہ اس کو اہمیت نہ دیتے ہوئے چلا گیا تھا، چنانچہ اس کے لیے اعراض کا لفظ بولا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے جانا۔
اب ہم اگر ایمان داری سے اس بات کا جائزہ لینا چاہیں کہ ہم رمضان المبارک سے مستفید ہونے کے لیے کس حد تک مخلص اور سنجیدہ ہیں، تو ہمیں اپنے آپ کو اُن پہلے دو لوگوں میں کہیں نہ کہیں ڈھونڈنا ہوگا۔ اور اللہ نہ کرے کہ تیسری کیٹگری میں ہمارا شمار ہو۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ہم خطبہ جمعہ بڑے ذوق و شوق سے سنتے ہیں اور کہیں درس وغیرہ ہو رہا تو وہ بھی بڑے انہماک سے سنتے ہیں، جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ ذوق و شوق رکھتے ہیں اور رمضان المبارک سے استفادے میں سنجیدہ ہیں تو اس کے جواب میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ محض اتنی سی سعی و جہد کافی نہیں ہے۔ ایک تو اس لیے کہ امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
( (قَدْ يَعْرِضُ عِنْدَ سِمَاعِ الْمَوَاعِظِ لِلسَّامِعِ يَقَظَةٌ))
’’وعظ و نصیحت سنتے وقت بھی سامعین کو بیداری حاصل ہوتی ہے۔‘‘
((فَإِذَا انْفَصَلَ عَنْ مَجْلِسِ الذِّكْرِ عَادَتِ الْقَسْوَةُ وَالْغَفْلَةُ))
’’ جو نبی مجلس وعظ ختم ہوئی پھر سے وہی غفلت اور قساوت قلبی لوٹ آئی ۔‘‘
اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ:
((أَنَّ الْمَوَاعِظَ كَالسَّيَاطِ))
’’کہ وعظ کوڑوں کی طرح ہوتا ہے‘‘
((وَالسِّيَاطُ لَا تُؤلِمُ بَعْدَ انْقِضَائِهَا إِيلَامَهَا وَقتَ وُقُوعِهَا))(صيد الخاطر:14)
’’اور کوڑے پڑتے وقت جو درد ہوتی ہے، جب کوڑے پڑتے بند ہو جاتے ہیں تب وہ درد نہیں کرتے ۔‘‘
اور دوسری بات یہ ہے جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ کوئی بھی کامیابی کے ساتھ امتحان پاس کر لینے کے لیے ہفتے میں صرف ایک بار پڑھ لینا کافی نہیں ہوتا ، کسی موضوع کو سمجھنے ، ذہن نشین کرنے اور اس پر گرفت حاصل کرنے کے لیے اسے بار بار پڑھنا اور سمجھ کر پڑھنا ضروری ہوتا ہے اور ہم ایک ایسی جنت حاصل کرنا چاہتے کہ جس کا عرض زمین و آسمان ہے اور ایسی جہنم سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ جس کی آگ محل جیسی بڑی بڑی چنگاریاں پھینکے گی۔ اور اس کے لیے صرف ایک خطبہ سننے پر اکتفا کر لینا! آپ ہی کہیے کیا اس کو سنجیدگی کہتے ہیں، کیا اس کو رمضان المبارک سے مستفید ہونے کے لیے سنجیدہ کوشش کہا جا سکتا ہے؟
گفتگو کو مختصر کرتے ہوئے آخری بات عرض کرنا چاہوں گا، گذشتہ جمعے اللہ تعالی کی طرف بھاگنے کا ذکر ہو رہا تھا کہ:
((فَفِرُّوْ اِلَى الله)) ’’بھا گو اللہ کی طرف ‘‘
یہ اللہ تعالی نے انسان کو رجوع الی اللہ کی ترغیب دیتے ہوئے ایک ایسی تعبیر اختیار فرمائی جو انتہائی جامع اور انتہائی معنی خیز ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ انسان جب کسی ایسی چیز سے ڈر کر بھاگتا ہے جس سے اس کی جان کو خطرہ ہوتو اس کی کیا کیفیت ہوتی ہے، یقینًا انتہائی بھیانک اور خوفناک ، اور ایسی خوفناک کہ جب تک اسے کہیں پناہ نہ مل جائے اس کا ڈر اور خوف ختم نہیں ہوتا ، اس کی بے قراری اور بے چینی ختم نہیں ہوتی ، چنانچہ وہ مسلسل اس فکر اور کوشش میں رہتا ہے کہ کسی طرح اس کی جان چ جائے ، تو ہمیں بھی کچھ ایسی ہی کوششوں کی ضرورت ہے ، اللہ تعالی ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
…………………….