رمضان کی بابرکت ساعتیں اور دنیا کی عارضی راحتیں

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۝۱۸۳﴾ (البقرة:183)
’’رمضان المبارک جو کہ برکتوں اور سعادتوں کا مہینہ ہے، نیکیوں کا موسم بہار ہے، اک موقع غنیمت ہے۔ دانشمندی اور سعادت و خوش بختی کا تقاضا ہے کہ اس سے استفادے کے لیے بھر پور کوشش کی جائے، ہم میں سے کون کسی قدر اس کے لیے کوشاں ہے، یہ تو اللہ تعالی کے بعد ہر شخص ہی اپنے بارے میں بہتر جان سکتا ہے کہ:
﴿بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِیْرَةٌۙ۝ وَّ لَوْ اَلْقٰى مَعَاذِیْرَهٗؕ۝﴾(القيامة:14،15)
’’بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے ، چاہے وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے۔‘‘
مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمت و کوشش اور سعی و جدو جہد اپنی جگہ لیکن اس سعادت و خوش بختی کا حصول اللہ تعالی کی خصوصی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے، اگر اللہ تعالی کی مدد اور اس کی توفیق شامل حال نہ ہو تو انسان کوئی نیکی نہیں کر سکتا ، سعادت حاصل نہیں کر سکتا، جیسا کہ اہل جنت ، جنت میں جانے کے بعد اس حقیقت کا اقرار و اعتراف کریں گے کہ:
﴿وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْ لَاۤ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ ۚ﴾ (الاعراف:43)
’’ اور ہم خود رہنمائی پانے والے نہ تھے اگر اللہ تعالی ہمیں ہدایت نہ دیتا ۔‘‘
اور حدیث قدسی ہے، اللہ فرماتے ہیں:
((يَا عِبَادِي كُلُّكُمْ ضَالٌ إِلَّا مَنْ هَدَيْتَهُ فَاسْتَهْدُونِي أَهْدِكُمْ))
’’اے میرے بندو! تم سب کے سب بھٹکے ہوئے اور گم گشتہ راہ ہو، الا یہ کہ میں جسے ہدایت دوں، پس مجھ سے ہدایت طلب کرو کہ میں تمہیں ہدایت دوں ۔‘‘
تو ایک طرف یہ حقیقت کہ ہدایت اور نیکی کی توفیق صرف اور صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اور اس کی توفیق کے بغیر کوئی نیکی ممکن نہیں اور دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی نیکی عبادت عمل صالح اور ہدایت کا اللہ تعالی کو ہرگز کوئی فائدہ نہیں ، صرف انسان ہی کے فائدے کے لیے ہے چنانچہ اس حدیث قدسی میں اللہ فرماتے ہیں،
((يَا عِبَادِي إِنَّكُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرَّی فَتَضُرُّونِي وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِي فَتَنْفَعُونِي)) (مسلم:2577)
’’اے میرے بندو! تم میرے نقصان کو نہیں پہنچ سکتے کہ کوئی نقصان پہنچاؤ اور میرے فائدے کو نہیں پہنچ سکتے کہ کوئی فائدہ پہنچاؤ۔‘‘
یعنی تمہارے کسی گناہ، سرکشی اور نادانی سے میرا کوئی نقصان نہیں ہے اور تمہاری کسی نیکی سے میرا فائدہ نہیں ہے۔اور پھر اس بات کی مزید وضاحت یوں فرمائی کہ:
((يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ مَا زَادَ ذَلِكَ فِي مُلْكِي شَيْئًا))
’’اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے تمہارے انسان اور جن، سارے کے سارے تم میں سے کسی متقی ترین دل والے شخص کی طرح بن جائیں، تو اس سے میرے ملک میں کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوگا ۔‘‘
((يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوْا عَلٰى اَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَا نَقَصَ ذٰلِكَ مِنْ مُلْكِي شَيْئًا))
’’اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے تمہارے انسان اور جن سارے کے سارے تم میں سے کسی فاجر ترین دل والے شخص کی طرح ہو جائیں تو اس سے میری حکومت میں کوئی نقصان نہیں ہونے والا ۔‘‘
اور پھر فرمایا:
((يَا عِبَادِي إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُكُمْ أُحْصِيهَا لَكُمْ ثُمَّ أَو فِيكُمْ إِيَّاهَا))
’’اے میرے بندو! یہ تمہارے ہی اعمال ہیں، میں انہیں تمہارے لیے گن گن کر رکھتا ہوں، پھر تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا۔‘‘
((فَمَن وَجَدَ خَيْرًا فَلْيَحْمَدِ اللهِ وَمَنْ وَجَدَ غَيْرَ ذٰلِكَ فَلَا يَلُوْمَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ)) (مسلم:2577)
’’ جو اچھا بدلہ پائے ، وہ اللہ کی حمد بیان کرے اس کا شکر ادا کرے اور جو کوئی اس کے علاوہ پائے تو وہ صرف اپنے آپ کو ہی ملامت کرے۔‘‘
اس لیے اللہ تعالی نے رمضان المبارک کی صورت میں نیکیوں کا جو موقع عطا فرمایا ہے تو اس میں سراسر انسان ہی کا فائدہ ہے، اسے نیمت جان کر نیکیاں کر لینے سے اللہ تعالی کا کوئی فائدہ ہے اور نہ اسے نظر انداز کر دینے سے اللہ تعالی کا کوئی نقصان ہے۔ مگر کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالی کی اس قدر عنایتوں اور کرم فرمائیوں کو سراہا نہیں جاتا ، ان کی قدر نہیں کی جاتی ، ان کا شکر ادا نہیں کیا جاتا، انہیں غنیمت نہیں جانا جاتا!
اس قدر بڑی عنایت اور فضل و احسان کہ انسان کی پوری زندگی کی لغزشوں اور کوتاہیوں پر خط تنسیخ پھیر دینے کے لیے یہ ایک مبارک مہینہ عطا فرمایا بلکہ اس میں بھی صرف ایک رات جسے دس راتوں میں تلاش کرنا ہوتا ہے۔ لیکن انسان کا دل نیکی کی طرف مائل ہوتا ہی نہیں، اگر کوئی نیکی کرتا بھی ہے تو بس سرسری کسی اور نیم دلی سے، پوری توجہ انتہاک ، شوق اور جذبے کے ساتھ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، اس کے برعکس اپنی تمام تر توجہ اور صلاحیتیں دنیا کے حصول کے لیے وقف کر رکھی ہوتی ہیں۔ متعدد خطبات میں یہ بات سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر ہم اس مبارک مہینے سے مستفید ہونا چاہیں تو ہمیں دنیا کی مصروفیات کو کچھ کم کرنا ہوگا۔ ان مبارک ایام کے لیے کچھ وقت نکالنا ہو گا مگر اس کے برعکس مشاہدہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے رمضان المبارک میں اپنی دنیوی مصروفیات مزید بڑھالی ہیں۔ تو اصل بات یہ ہے کہ ایک تو دنیا کی کشش نے انسان کی عقل پر پردہ ڈال رکھا ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ کم ہمتی انسان کے ستاروں پر کمند ڈالنے کی راہ میں روکاوٹ بنی ہوئی ہوتی ہے۔ تو اللہ تعالی کی اس پیشکش کو نظر انداز کرنے اور آخرت سے بے رخی اختیار کرنے کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ طول الأمل بھی ہے یعنی لمبی لمبی امیدیں باندھ لینا جو کہ دنیا کی کشش کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ لمبی لمبی امید میں انسان کو آخرت سے غافل کر دیتی ہیں، اللہ تعالی ایسے لوگوں کی خدمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ۝۲﴾ ( الحجر:2)
’’بعید نہیں کہ ایک وقت وہ آجائے جب منکرین حق تمنا کریں گے کہ اے کاش وہ مسلمان ہوتے ، سر تسلیم کر دیا ہوتا ۔‘‘
﴿ذَرْهُمْ یَاْكُلُوْا وَ یَتَمَتَّعُوْا وَ یُلْهِهِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ۝۳﴾ (الحجر:3)
’’ انہیں چھوڑ دیجئے، یہ کھاتے پیتے پیش کرتے اور امیدوں میں کھوئے رہیں، انہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا۔‘‘
امیدیں لگانا اگر چہ انسان کی اک فطری ضرورت اور کمزوری ہے، کہ اگر امیدیں نہ ہوں تو زندگی بے مزہ ہو جائے، ہمت ٹوٹ جائے اور انسان مایوسی کا شکار ہو جائے، امیدیں ایسی حقیقت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
((لَا يَزَالُ قَلْبُ الْكَبِيرِ شَابًّا فِي اثْنَتَيْنِ فِي حُبِّ الدُّنْيَا وَطُولِ الأَمَلِ)) (بخاري:6420)
’’بوڑھے آدمی کا دل ہمیشہ دو چیزوں میں جوان رہتا ہے دنیا کی محبت میں اور لمبی امیدوں میں ۔‘‘
مگر ایسی امیدیں کہ جو آخرت سے انسان کو غافل کر دیں، اس سے نیکی کی توفیق چھین لیں، یقینًا قابل مذمت ہیں، ایسی امیدوں میں کھوئے رہنے کے نقصانات میں سے ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی اپنی امید کے ہر آنے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ اس کی اجل اسے آکے دبوچ لیتی ہے۔
حدیث میں ہے کہ:
((خَطَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُطُوطًا))
’’آپ نے کچھ لکیریں کھینچیں ۔‘‘
((فَقَالَ هٰذَا الْأَمَلُ وَهٰذَا أَجَلُهُ))
’’ان کی طرف اشارہ کر کے کہا: یہ امیدیں ہیں اور یہ انسان ہے۔‘‘
((فَبَيْنَمَا هُوَ كَذٰلِكَ إِذْ جَاءَهُ الْخَط الأَقْرَبُ)) (بخاري:6418)
’’انسان اسی حال میں ہوتا ہے یعنی امیدوں میں کھویا ہوا ہوتا ہے کہ قریب والی لگیر اسے آلیتی ہے، یعنی موت ۔‘‘
لمبی لمبی امیدوں کے ساتھ یقینی طور پر انسان لمبی عمر کی امید بھی لگائے ہوتا ہے اور انسان کی عمر کی حقیقت کیا ہے؟ ہم انسان کی عمر کو سالوں میں شمار کرتے ہیں: ساٹھ سال ، ستر سال سو سال، مگر حقیقت میں اس کی عمر کتنی ہے؟ اگر غور کریں تو صرف تین دن اور وہ تین دن ہیں:
ایک گزرا ہوا کل، ایک آنے والا کل اور ایک وہ دن جس میں دوجی رہا ہوتا ہے۔ گزرا ہوا کل انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا، اس میں کوئی ردو بدل نہیں کر سکتا، وہ جیسے تھا ویسا ہی رہے گا۔ آنے والے کل پر بھی اس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا، اس میں پیشگی کچھ نہیں کر سکتا، بلکہ ممکن ہے، آنے والے کل میں مردوں میں اس کا شمار ہو۔
صرف ایک دن اس کا ہوتا ہے جس میں وہ جی رہا ہوتا ہے اور اس کی حقیقت بھی یہ ہے کہ اس ایک دن میں بھی اس کا صرف ایک لمحہ یا چند لمحے ہوتے ہیں، جس میں انجوائے کر رہا ہوتا ہے، جو لمحہ گزر چکا ہوتا ہے، وہ اس کا نہیں ہوتا اور جو آنے والا ہوتا ہے، اس کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔
مثلاً: انسان کسی لذیز ترین اور مہنگی ترین ڈش کی خواہش کرتا ہے، اس کے لیے پیسے جمع کرتا ہے، اس ڈش کی قیمت جمع کرنے کے لیے ممکن ہے اسے چند گھنٹے ، ایک دن، چند دن یا پورا مہینہ محنت کرنا پڑے انگر جب وہ کھانے کے لیے بیٹھتا ہے اور منہ میں نوالہ ڈالتا ہے اور اسے چباتا ہے، تو جتنی دیر وہ نوالہ اس کے منہ میں رہے گا اتنا ہی وقت اس کا ہے، اور نوالہ آدمی کتنی دیر منہ میں عموماً رکھتا ہے، تقریبًا تمہیں سیکنڈ، اس کے بعد اسے حلق میں اتارنا ہوگا یا باہر پھینکتا ہوگا ، اس نوالے سے پہلے جو توالہ کھایا تھا، وہ اس کا نہیں رہا، وہ ماضی ہو گیا اور جو توالہ وہ اس کے بعد کھانے والا ہے، معلوم نہیں وہ اس کو کھا بھی پائے گا کہ نہیں، اس لیے وہ بھی اس کا نہیں ہے۔
تو گویا کہ اگر بہت زیادہ انسان کی عمر شمار کی جائے تو وہ ایک نوالے کی مدت ہے، ورنہ حقیقت میں تو اس کی عمر ایک لمحہ ہے جس میں وہ سانس لے رہا ہوتا ہے، اور وہی لمحہ اس کے خوش بخت یا بد بخت ہونے میں فرق کرنے والا ہے، وہی لمحہ اس کی ہدایت اور گمراہی میں فرق کرنے والا ہے کہ موجودہ لمحے میں انسان کی حیثیت کیا ہے، اس موجودہ لمحے میں انسان با مقصد زندگی گزار رہا ہے، یا امیدوں میں کھویا ہوا ہے اور سراب کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔ دنیا کی حقیقت اک سراب ہی ہے، اک دھوکہ ہے، دنیا کی تمام تر لذتیں کہ جن کے پیچھے انسان ہلکان ہوا جاتا ہے ناقص اور ادھوری ہیں، دنیا کی کسی بھی نعمت پر غور کر لیں ، ناقص اور ادھوری ہے بلکہ بسا اوقات انسان کسی نعمت سے ہی مر جاتا ہے۔
مثلاً خوشی سے مر جانا، ایک محاورہ ہے مگر حقیقت میں بھی ایسے ہوتا ہے کہ بسا اوقات کوئی شخص خوشی کی خبر سن کر مر جاتا ہے، اسی طرح بعض اوقات بہت خوش ہو کر کھل کھلا کر ہنسنے سے بھی ۔ Cardiac Attack ہو جاتا ہے۔
آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ بسا اوقات آدمی بہت زیادہ ہنستا ہے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں ۔ یہ کیوں ہوتا ہے؟ پھیپھڑوں میں سانس اٹک جاتی ہے یا کچھ اور ، ڈاکٹر حضرات ہیں صحیح بتا سکتے ہیں۔
بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کی نعمتیں ایسی ناقص اور ادھوری ہیں کہ خود خوشی بھی کبھی انسان کے لیے جان لیوا ثابت ہو جاتی ہے، تو ایسی خوشیوں اور نعمتوں کی امید پر زندگی گزار دینا کہاں کی دانشمندی ہے۔
اگر دنیا کی بے ثباتی اور ادھورا پن سمجھ نہ آئے تو ہر خواہش کے ساتھ ایک سوال لگا دو اور وہ سوال یہ کہ اگر وہ خواہش جس کی تمنا لیے ہوئے آدمی زندگی گزار رہا ہو پوری ہو جائے تو پھر اس کے بعد کیا ہوگا ؟
پھر ظاہر بات ہے، آدمی کسی دوسری خواہش کا ذکر کرے گا، اس خواہش کے بعد بھی یہی سوال لگا دو کہ پھر اس کے بعد ! پھر کسی تیسری خواہش کا ذکر کرے گا، اس کے ساتھ بھی وہی سوال ۔ اسی طرح ہر خواہش کے بعد وہی سوال دھراتے جائیں جب تک کہ آخری اور صحیح جواب نہیں مل جاتا اور وہ ہے موت۔
تو آپ کو دنیا کی حقیقت سمجھ میں آجائے گی کہ وہ حقیقت جو ایک خواہش پوری ہونے سے پہلے بھی ظاہر ہو سکتی ہے، ایک خواہش پوری ہونے کے بعد بھی ظاہر ہوسکتی اور بہت سی خواہشات کے پوری ہونے کے بعد ظاہر ہو سکتی ہے لیکن ظاہر ہر حال میں ہو کر رہے گی۔ اس حقیقت کو بھول جانا جو تھی اور لازمی ہے، اسے نظر انداز کر دینا اور اس پر دوسری خواہشات کو ترجیح دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔
انسان کی شخصیت اور اس کی حیثیت کو اس کی خواہشات سے ہی جانا جاتا ہے کہ اس کی سوچ کیا ہے، اس کے ارادے اور اس کی خواہشات کیا ہیں ؟
بلند ہمت لوگوں کے بلند ارادے ہوتے ہیں اور پست ہمت لوگوں کے پست ارادے۔
کوئی مکھی پھولوں پر بیٹھنے والی ہوتی ہے اور کوئی گندگی کے ڈھیر پر ۔ ہماری تمام تر سوچ دنیوی لذتوں کے گرد گھومتی ہے، کھانا ، لباس، گاڑیاں، کوٹھیاں اور کاروبار و غیره الا ما شاء اللہ۔ ہمارے ہاں کامیابی کا معیار یہی چیزیں ہیں اور ناکامی انہیں چیزوں کا فقدان ۔ مگر کامیابی اور ناکامی کا معیار جو قرآن وحدیث ہلاتے ہیں اس پر کوئی کان نہیں دھرتا ۔
کامیابی کا معیار یہ ہے کہ:
﴿فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ﴾ (آل عمران:185)
’’ جو جہنم سے بچا کر کے جنت میں داخل کیا گیا بس وہ کامیاب ہے۔‘‘
اور نا کامی کا معیار بھی بیان فرمایا:
﴿ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ اَهْلِیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ﴾ (الزمر:15)
’’نا کام ہونے والے، کھانا پانے والے وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو گھاٹے میں ڈالا ۔‘‘
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی کامیابی اور ناکامی کے معیار کو اس پر پڑھیں، کیا ہم جہنم سے بچتے ہوئے جنت میں جانا چاہتے ہیں؟ اور اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر اس کے لیے تیاری کیا ہے؟
اور کیا ہم اس ناکامی سے بچنا چاہتے ہیں جو قرآن نے بتلائی ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو اس کے لیے ہمارے کوششیں کیا ہیں؟
یا درکھیں کہ خواہش اور ہمت کے مطابق ہی انسان کو مقام ملتا ہے، ہماری خواہشات کیا ہیں اور ان کے مطابق ہماری کوششیں کیا ہیں، اس کا جائزہ لینا چاہیے۔
مثال جنت میں بلند مقام پانے والوں میں سے ایک کا ذکر حدیث میں یوں آیا ہے کہ:
((يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ إِقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا فَإِنَّ مَنْزِلَتَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَأُ بِهَا))
’’قرآن والے سے کہا جائے گا، یعنی جو پابندی سے اور کثرت سے قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے۔ (اقرأ وارتق ) پڑھتا جا اور چڑھتا جا۔ ((وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا)) اور ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ اس کی تلاوت کرتا جا، جس طرح دنیا میں کیا
((فَإِنَّ مَنْزِلَتَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَأُ بِهَا)) (ترمذي:2914)
’’تیری منزل آخری آیت تک ہے جو تو پڑھا کرتا تھا ۔‘‘
اب ہم، عام دنوں کی بات تو چھوڑیئے ، اس مبارک مہینے میں ہم میں سے کس نے کم از کم ایک بار قرآن پاک ختم کیا ہوگا۔ یقینًا ایسے خوش قسمت لوگ بھی ہیں جنہوں نے ایک سے زیادہ بار تلاوت کی ہوگی مگر بہت سے ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے شاید ایک بار بھی نہ پڑھا ہو۔ اگر معاملہ ایسا ہے تو پھر غور کرنا ہوگا کہ ہماری منزل کیا ہے، ہماری خواہش کیا ہے اور ہمت کیا ہے؟
دنیا کے حساب سے ایک کامیاب انسان کی نشانی یہ ہے کہ اس کی منزل متعین ہو اور ہمت بلند ہو، بحیثیت مسلمان ، آخرت کے لحاظ سے ہماری منزل متعین ہے ، بس بلند ہمتی کی ضرورت ہے، اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے ہمیں بلند ہمتی نصیب فرمائے ۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين

…………….

View PDF