رمضان کی تیاری

﴿وَ سَارِعُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ۝۱﴾ (آل عمران:133)
گذشتہ خطبہ جمعۃ المبارک میں رمضان المبارک کے لیے تیاری کی ضرورت واہمیت پر بات ہو رہی تھی، کہ کسی بھی اہم کام کے لیے تیاری نہایت ہی ضروری اور اہم ہوتی ہے۔ تو چونکہ کسی کام کے لیے تیاری، اس کام سے متعلق آدمی کی خلوص نیت اس کی سنجیدگی ، اس کے عزم و ارادے کی پختگی اور صداقت کی دلیل ہوتی ہے، جیسا کہ گزشتہ خطبہ جمعہ میں ہم نے سنا کہ اللہ تعالی نے منافقین کے اپنے دعوے میں جھوٹا ہونے کی ایک دلیل یہ بیان فرمائی کہ
﴿وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً ﴾ (التوبة:46)
’’اگر ان کا جہاد کے لیے نکلنے کا ارادہ ہوتا تو اس کے لیے تیاری کرتے۔‘‘
یعنی تیاری دلیل ہے آدمی کے اپنے مقصد کے ساتھ مخلص اور سچا ہونے کی ۔ لہٰذا تیاری کی اس قدر اہمیت کی بنا پر آج ہم تیاری کے متعلق کچھ مزید جاننے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ
تیاری کے متعلق ایک بنیادی بات یہ یاد رہنی چاہیے کہ تیاری جہاں ایک طرف آدمی کے اپنے مقصد کے ساتھ مخلص اور سنجیدہ ہونے کی دلیل ہوتی ہے، وہاں تیاری کے دیگر متعدد فوائد بھی ہیں۔ ایک یہ کہ تیاری آدمی کو کسی معین کام، کسی خوبی اور کسی صلاحیت کو ذہنی اور جسمانی طور پر قبول کرنے کے قابل بناتی ہے، اس میں شوق، جذبہ اور رغبت پیدا کرتی ہے۔ اس کام سے متعلق آدمی میں موجود پوشیدہ قوت کو ابھارتی ہے، اس میں قوت اور نشاط پیدا کرتی ہے، اس کے لیے اصل کام سے پہلے مشق کا کام دیتی ہے، جیسے کھیل سے پہلے کھلاڑی وارم اپ ہوتے ہیں، ہلکی پھلکی ورزش کرتے ہیں تاکہ کھیل کے لیے جسم پھلدار اور مانوس و مالوف ہو جائے۔ ایسے ہی عبادت کے لیے بھی کچھ ایسا ہی اصول ہے، چنانچہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ مِنَ اللَّيْلِ فَلْيَفْتَتِحِ الصَّلاةَ بِرَكْعَتَيْنِ خَفِيْفَتَيْنِ)) (مسلم:768)
’’جب تم میں سے کوئی رات کو قیام کرے تو دو ہلکی رکعتوں کے ساتھ افتتاح کرے۔‘‘
یعنی جب کوئی رات کو تہجد کے لیے اٹھے تو پہلی دو رکعتیں ہلکی پڑھے، تاکہ بعد میں لمبا قیام اس کے لیے آسان ہو جائے۔ اور خود آپﷺ اپنا بھی یہی معمول تھا، حدیث میں ہے، حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
((أنَّ النَّبِي كَانَ يَفْتَتِحُ صَلَاتَهُ مِنَ اللَّيْلِ بِرَكْعَتَيْنِ خَفِیْفَتَیْنِ)) (البيهقي، ج:3، ص:6 ، رقم:4447)
’’آپﷺ رات کی نماز کو یعنی مسجد کو دو ہلکی رکعتوں سے شروع کرتے۔ اور پھر لمبا قیام فرماتے انتا لمبا کہ آپ ﷺکے پاؤں مبارک سوج جاتے ۔‘‘
تو یہ طریقہ کار تہجد کی تیاری کے ضمن میں آتا ہے، اگر چہ تہجد کی تیاری میں کچھ اور باتیں بھی ہیں ، جیسا کہ رات کو عشاء کے بعد جلدی سونا وغیرہ۔
اسی طرح رمضان المبارک کی تیاری کے حوالے سے بھی آپ ﷺکا معمول تھا کہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھتے، تقریبًا مہینہ بھر روزے رکھتے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
((مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ قَطُّ إِلَّا رَمَضَانَ، وَ مَا رَأَيْتُهُ فِي شَهْرٍ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ)) (مسلم:1156)
’’میں نے آپﷺ کو رمضان کے علاوہ کسی مہینے کے پورے دنوں کے روے رکھتے نہیں دیکھا، اور شعبان کے علاوہ کسی مہینے میں سب سے زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا۔‘‘
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((هُوَ شَهْرٌ تُرَفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلٰى رَبِّ الْعَالَمِينَ عَزَّوَجَلَّ ، فَاَحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ)) (النسائي، رقم:2356)
’’اس مہینے میں یعنی شعبان میں اللہ تعالی کے حضور اعمال پیش کیے جاتے ہیں، اور میں چاہتا ہوں کہ جب میرے عمل پیش ہوں تو میں روزے کی حالت میں ہوں ۔‘‘
اور ایک سبب یہ بھی ہے کہ رمضان سے پہلے روزوں کی گویا ایک مشق سی ہو جائے ، نفس اس عمل سے مانوس ہو جاتا ہے، اس کی اہمیت کا اظہار اور اس کا استقبال بھی ہو جاتا ہے، جیسے فرض نماز سے پہلے اور بعد میں سنتیں ادا کی جاتی ہیں، جو کہ گویا نماز شروع کرنے اور ختم کرنے کے آداب ہیں۔
سنتوں کے بغیر فرض نمازوں کا ذرا تصور کریں تو لگتا ہے جیسے کوئی سرسری سا کام انجام دے کر فارغ ہوئے ہیں سنتیں ان کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں اور دو بالا کرتی ہیں۔ رمضان المبارک کی تیاری کے حوالے سے سلف صالحین جسم کا طرز عمل بھی ہم دیکھتے ہیں تو وہ بڑا پر شوق اور جوش و خروش اور ولولے سے بھر پور ہوتا، جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ:
((كان اصحاب رسول الله اذا استهل شهر شعبان اکبوا على المصاحف فقرؤوها واخذوا زكاة أموالهم فقووا بها الضعيف والمسكين على صيام شهر رمضان))
’’رسول اللہﷺ کے صحابہ جب شعبان کا مہینہ شروع ہوتا تو قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف ہو جاتے، اپنے مال کی زکاۃ غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کرتے تاکہ رمضان المبارک کے روزوں میں انہیں تقویت مل سکے۔‘‘
اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((شهر رجب شهر الزرع))
’’رجب کا مہینہ تم ریزی اور حج ہونے کا مہینہ ہے۔‘‘
((و شهر شعبان شهر سقى الزرع))
’’ اور شعبان کا مہینہ آبیاری کا مہینہ ہے ۔‘‘
((و شهر رمضان شهر حصاد الزرع))
’’ اور رمضان کا مہینہ کھیتی کالنے کا مہینہ ہے۔‘‘
((ومن لم يزرع ويغرس في رجب، ولم يسق في شعبان، فكيف يريد ان يحصد في رمضان)) ((حاشية قواعد ابن رجب لأبي عبيدة مشهور بن الحسن، ج:3، ص:291)
’’جو شخص رجب میں بیج نہیں ہوتا، شعبان میں اس کی آبیاری نہیں کرتا، وہ رمضان میں فصل کاٹنے کی کیسے امید لگا لیتا ہے۔‘‘
تو کسی بھی اہم کام کی تیاری کی اہمیت کو ہم نے سمجھا اور رمضان المبارک کا مہینہ تویقینًا ایک بہت ہی اہم اور مبارک مہینہ ہے، اس میں لیلتہ القدر ہے جو کہ ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ اور ((من حرمها فقد حرم الخير كله .)) جو اس رات کو پانے سے محروم رہا وہ ہر
خیر سے محروم رہا۔ ((ولا يحرم خيرها الا محروم)) اور اس خیر کو پانے سے صرف بد نصیب ہی محروم رہتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا رمضان المبارک کی اہمیت کو ہم ایسے ہی سمجھتے ہیں جیسا کہ قرآن وحدیث میں بیان کی گئی ہے اور کیا ہم واقعی اس سے صحیح معنوں میں مستفید ہونا چاہتے ہیں اور کیا ہم جبریل علیہ السلام کی بددعا اور آپ ﷺکی اس پر آمین کے مستحق ہونے سے بچنا چاہتے ہیں۔
حدیث میں جس بد نصیب کا ذکر کیا گیا ہے کہ لیلۃ القدر کو پانے سے صرف بد نصیب ہی محروم رہتا ہے، کیا ہم وہ بد نصیب ہونے سے بچنا چاہتے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس کے لیے مناسب تیاری کر رکھی ہے؟
اس کا جواب شاید مشکل ہوا لیکن شاید اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی، اب بھی اس کی تیاری کی جا سکتی ہے اور وہ یوں کہ رمضان المبارک سے جس طرح مستفید ہونا چاہتے ہیں اس کی اب سے نیت کر لیں، نیت خالص اور پختہ ہو، اور عزم مصم ہو۔ پھر اگر کسی وجہ سے رمضان المبارک نہ بھی پاسکیں، تو اللہ کے فضل سے اس کے اجر سے ہرگز محروم نہیں رہیں گے۔
اللہ تعالی کا اپنے بندوں پر کتنا بڑا کرم اور احسان ہے کہ محض نیت خالص کر لینے سے اجر کا مستحق قرار دے دیا جاتا ہے چاہے بالفعل اسے وہ عمل کرنے کا موقع نہ بھی ملے۔
اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ مَنْ یُّهَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِیْرًا وَّسَعَةً ؕ وَ مَنْ یَّخْرُجْ مِنْۢ بَیْتِهٖ مُهَاجِرًا اِلَی اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ یُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَ قَعَ اَجْرُهٗ عَلَی اللّٰهِ ؕ﴾ (النساء: 100)
’’ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کے لیے نکل کھڑا ہو، پھر اسے موت آجائے، تو بھی یقینًا اس کا اجر اللہ کے ذمے ثابت ہو گیا۔‘‘
اور اللہ تعالی کے اس انعام و احسان کی نوید متعدد احادیث میں بھی سنائی گئی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، حدیث قدسی ہے، اللہ فرماتے ہیں: ((إِذَا تَحَدَّثَ عَبْدِى بِأَنْ يَعْمَلَ حَسَنَةً، فَأَنَا أَكْتُبُهَا لَهُ حَسَنَةً مَا لَمْ يَعْمَلْهَا))
’’جب میرا بندہ اپنے دل میں نیک کام کرنے کی نیت کرتا ہے تو میں اُسے اُس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہوں ، جب تک کہ اس نے ابھی نیکی کی نہیں ہوتی ۔‘‘
((فَإِذَا عَمِلَهَا فَأَنَا أَكْتبُهَا لَهُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا))
’’لیکن جب وہ نیکی کر لیتا ہے تو میں اس ایک نیکی کو اس کے لیے دس گنا کر کے لکھ دیتا ہوں۔‘‘
((وَإِذَا تَحَدَّثَ بِأَنْ يَعْمَلَ سَيِّئَةً فَأَنَا أَغْفِرُ لَهُ مَا لَمْ يَعْمَلُهَا))
’’اور جب وہ کسی برائی کرنے کا ارادہ اور نیت کرتا ہے تو جب تک وہ برائی نہیں کرتا میں اسے بخش دیتا ہوں ۔‘‘
((فَإِذَا عَمِلَهَا فَأَنا اكتبهَا لَهُ بِمِثْلِهَا))(مسلم129)
’’لیکن جب وہ برائی کر لیتا ہے تو میں اسے اس کے لیے ایک ہی برائی لکھتا ہوں ۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ رمضان المبارک سے مستفید ہونے کے لیے آپ کیا نیست کرنا چاہیں گے؟ کوئی شاید یہ کہے کہ رمضان المبارک میں روزے رکھیں گے، تراویح پڑھیں گے بس یہی نیت ہے۔ مگر یہ نیت تو کم از کم ہے، اس کے بغیر تو رمضان المبارک کا کوئی مطلب ہی نہیں۔ رمضان المبارک سے صحیح معنوں میں مستفید ہونے کا مطلب کچھ اضافی کام کرنا ہے۔ جیسے کم از کم ایک بار پورے قرآن پاک کی تلاوت کرنا۔ اور دل کھول کر صدقہ و خیرات کرنا وغیرہ۔
رمضان المبارک میں یوں تو انواع و اقسام کی نیکیاں کی جاسکتی ہیں۔ مگر اس نیکی کو رمضان المبارک سے ایک خاص نسبت بھی ہے، اور وہ یہ کہ آپ ﷺ رمضان المبارک میں بالخصوص زیادہ صدقہ کیا کرتے تھے، جیسا کہ حدیث میں ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں۔
((كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ أَجُودَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ وَكَانَ أَجُودَ مَا يَكُونُ فِي رَمْضَانَ))
’’ آپﷺ لوگوں کے ساتھ خیر اور بھلائی کرنے میں بہت تھی تھے اور رمضان میں تو اور بھی زیادہ سخی ہو جاتے۔‘‘ ((كَانَ جِبْرِيلُ يَلْقَاهُ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ يَعْرِضُ عَلَيْهِ النَّبِيُّ القرآن))
’’رمضان المبارک میں حضرت جبریل علیہ السلام ہر رات تشریف لاتے اور نبی ﷺ انہیں قرآن مجید سناتے ۔‘‘
((فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ كَانَ أَجُوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ)) (بخاری:1902 ، مسلم:2308)
’’جب جبریل علیہ السلام آپ کے پاس تشریف لاتے ، تو آپ ﷺ کی سخاوت تیز ہواؤں سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ۔‘‘
صدقہ ایک ایسا عمل ہے جو روزانہ کی بنیاد پر ہونا چاہیے اور اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِى غَضَبَ الرَّبِ وَتَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوء)) (ترمذی:664)
’’صدقہ اللہ تعالی کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے، اور بری موت سے بچاتا ہے ۔‘‘
بری موت سے بچانے کا مطلب ہے کہ گناہ اور معصیت کے راستے پر موت نہیں آتی۔
اور اللہ تعالی کے غضب کو ٹھنڈا کرنا کسی قدر ہماری ضرورت ہے ہم سے روزانہ کتنے ایسے کام سرزد ہو جاتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کو غصہ آتا ہے، بہت سے ہوں گے۔ ہم انہیں گناہ نہ سمجھیں یا ہمیں ان کے گناہ ہونے کا علم نہ ہو یہ الگ بات ہے، مگریقینًا بہت سی باتیں ایسی کہہ جاتے ہیں جو اللہ تعالی کی ناراضی کا باعث ہوتی ہیں۔ جیسے کسی کی دل آزاری کرنا، کسی کی غیبت کرنا، جھوٹ بولنا وغیرہ۔ اور کسی مسلمان کی دل آزاری کرنا چھوٹی بات نہیں، بہت بڑی بات ہے، بہت سنگین جرم ہے اور کسی غریب آدمی کا یا کسی دیندار آدمی کا مذاق اڑانا تو ہم گویا اپنا حق سمجھتے ہیں اور اپنے بڑکپن کی علامت سمجھتے ہیں اور چو ہدراہٹ کے لیے لازمی سمجھتے ہیں، یا اس کو معمولی گناہ سمجھتے ہیں مگر حقیقت میں بہت بڑا جرم ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی نہ جانے کیسی کیسی باتیں ہماری زبانوں سے نکلتی ہیں جنہیں ہم نے آزاد چھوڑ رکھا ہے، مگر وہ کیسی کیسی سنگینی ہو سکتی ہیں ، حدیث میں ہے ، آپﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللهِ ، لَا يُلْقِي لَهَا بَالا یَهْوِیْ بِهَافِی جَهَنَّمَ))
’’کوئی شخص اللہ تعالی کی ناراضی کا ایسا کلمہ کہہ جاتا ہے جسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا، یعنی معمولی سمجھ رہا ہوتا ہے۔‘‘
((يَهْوِي بِهَا فِي جَهَنَّمَ)) (بخاری:6478)

’’جبکہ اس کی وجہ سے وہ جہنم میں گرتا چلا جاتا ہے ۔‘‘
اگر ہم جاننا چاہیں کہ جو باتیں ہم معمولی سمجھ کر کہہ دیتے ہیں وہ حقیقت میں کتنی سنگین ہو سکتی ہیں تو انہیں اس معیار پر پرکھ کر جان سکتے ہیں۔
حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بیان کرتی ہیں:
((قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ صَفِيَّةَ إِمْرَأَةٌ وَقَالَتْ بِيَدِهَا هٰكَذَا كَانَهَا تَعْنِي قَصِيرَةٌ))
’’فرماتی ہیں میں نے کہا: اے اللہ کے رسول نے اہم صفیہ جو ہیں وہ یوں ہیں اور ہاتھ سے اشارہ کیا، یعنی چھوٹے قد کی ہیں۔‘‘
فَقَالَ: ((لَقَدْ قُلْتِ كَلِمَةً لَوْ مُرْجَتْ بِمَاءِ الْبَحْرِ لَمَزَجَتْهُ))(ترمذی:2502)
’’ تو آپ ﷺنے فرمایا: تم نے ایک ایسی بات کہی ہے کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملایا جائے تو اسے بھی آلودہ کر دے۔‘‘
اندازہ کریں جس بات کو ہم بھی معمولی سمجھتے ہیں وہ کتنی سنگین ثابت ہوئی، بلکہ ہم تو اس سے کہیں آگے ہیں اور شیطان ہمیں نت نئے طریقے سمجھاتا ہے۔ مثلا کچھ لوگوں کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ اگر دو آدمیوں کا آپس میں اختلاف اور جھگڑا ہو تو ان میں سے کسی ایک کو چھیڑ کر کہ وہ کیا معاملہ تھا، اور پھر خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں، دوسرا آدمی شروع ہو جاتا ہے، اور وہ صاحب انجوائے کر رہے ہوتے ہیں مگر اپنے آپ کو یوں مطمئن کر رکھا ہوتا ہے کہ میں نے تو کوئی بات ہی نہیں کی۔
ہاں تو صدقے کی بات ہو رہی تھی کہ صدقہ روزانہ کی بنیاد پر ہونا چاہیے، ایک تو اس لیے کہ وہ اللہ تعالی کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اس کا غصہ دور کرتا اور بری موت سے بچاتا ہے۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ فرشتے صدقہ نہ کرنے والے کے لیے بددعا کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((مَا مِنْ يَّوْمِ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيهِ إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ))
’’ہر روز، ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ۔‘‘
((فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا اَللّٰهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلفًا))
’’ان میں سے ایک دعا کرتا ہے کہ اے اللہ جو تیری راہ میں خرچ کرتا ہے اسے نعم البدل عطا فرما۔‘‘
((وَيَقُولُ الآخَرُ: اَللّٰهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا))(بخاری: 1442)
’’اور دوسرا دعا کرتا ہے کہ یا اللہ ! ہاتھ روک لینے والے کو تباہ کر دے۔‘‘
یوں تو الحمد اللہ جو بھی حدیث بیان کی جاتی ہے ایمانداری سے تحقیق کر کے صحیح حدیث بیان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر صرف اس بات پر آپ کی توجہ دلانے کے لیے بتا رہا ہوں کہ یہ حدیث متفق علیہ ہے، یعنی یہ حدیث بخاری اور مسلم کی ہے۔ اور بخاری اور مسلم دو ایسی کتابیں ہیں کہ پوری امت مسلمہ کے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان میں تمام احادیث صحیح ہیں۔ بات میں تاکید پیدا کرنے اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ایسا ہوتا ہے جس طرح آپﷺ بسا اوقات کوئی بات قسم کھا کر ارشاد فرماتے ، جس کا مقصد اس کی اہمیت بیان کرنا ہوتا۔
تو صدقے سے متعلق یہ حدیث بہت ہی اہم ہے، لہٰذا ہر روز صدقہ کریں، ضروری نہیں کہ بڑی اماؤنٹ ہی ہو تو صدقہ ہوگا بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق روزانہ صدقہ کریں۔ البتہ صدقہ کرتے وقت اتنی بات ضرور ذہن میں رہے کہ ریا کاری نہ ہو اور کسی کی دل آزاری نہ ہو، جس کو صدقہ دے رہے ہیں اس کی عزت نفس کا خیال رہے۔ اس معاملے حضرت سعید ابن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کا طرز عمل اک مثالی طرز عمل ہے۔
حضرت ابن سعید بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ نہایت سخی تھے، کوفہ کے گورنر بھی رہے اور مدینہ منورہ کے گورنر بھی رہے۔ ایک بار ان کی مجلس میں ایک فقیر اور ضرورت مند مگر خود دار شخص آ کر بیٹھ گیا۔ سخت تنگی کے حالات میں اس کی بیوی نے کہا کہ ہمارے امیر کی سخاوت کا بڑا چر چا ہے۔ ذرا ان سے اپنے حالات کا ذکر کر کے دیکھو۔ اس نے کہا: مجھے کیوں شرمندہ کرنا چاہتی ہو! بیوی نے اصرار کیا۔ چنانچہ وہ گیا اور چپ کر کے مجلس میں بیٹھا رہا، لوگ چلے گئے مگر وہ پھر بھی بیٹھا ر ہا لیکن خاموش۔
حضرت سعید بن العاص رضی ا للہ تعالی عنہ نے پوچھا، کوئی کام، کوئی ضرورت ہو تو بتاؤ، مگر وہ خاموش رہا۔
حضرت سعید رضی ا للہ تعالی عنہ نے اپنے خادموں سے کہا: تم لوگ چلے جاؤ، حضرت سعید رضی اللہ تعالی عنہ پھر اس شخص سے مخاطب ہوئے: اب میرے اور تمہارے سوا یہاں کوئی دوسرا شخص نہیں ہے۔ کہو کیا کام ہے؟
پھر بھی خاموش۔
حضرت سعید رضی اللہ تعالی عنہ نے چراغ بجھا دیا، اور فرمایا: اب تو تم میرا چہرہ بھی نہیں دیکھ رہے، کہوکیا کام ہے؟
پھر اس نے اپنی ضرورت کا ذکر کیا۔ تو حضرت سعید رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے ڈھیروں مال، غلہ اور چندغلام دیے۔
علماء کرام اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں حضرت سعید رضی اللہ تعالی عنہ چراغ بجھانا ان کے صدقہ کرنے سے زیادہ بڑا عمل ہے۔
آج ہمارے ہاں کوئی صدقہ کرنا چاہے تو پہلے ٹی وی چینل والوں کو بلایا جاتا ہے، اور پھر غریب کے سر پر آٹے کی بوری رکھتے ہوئے فوٹو بنوائی جاتی ہے۔
…………..