رمضان سے فائدہ اٹھالیں

﴿وَ سَارِعُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ۝﴾(البقرۃ:133)
’’اور تم اپنے رب کی بخشش کی طرف دوڑو اور اس جنت کی طرف کہ اس چوڑائی سارے آسمان اور زمین ہیں جو ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے ۔‘‘
رمضان المبارک تزکیہ و تربیت کا مہینہ ہے، آداب و اخلاق سنوار نے گا، اور برتاؤ اور رویہ درست کرنے کا مہینہ ہے، ضبط نفس کا مہینہ ہے، تقویٰ حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔ روزوں کی ظاہری شکل اور کیفیت دیکھ کر بہت سے لوگ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ روزوں کا مقصد بھوک اور پیاس برداشت کرنے کی مشق اور پریکٹس کرنا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ مقررہ اوقات میں کھانے پینے سے باز رہنا اور بھوک پیاس برداشت کرنا بھی تزکیہ و تربیت کا حصہ ہے، مگر بھوکا پیاسا رہنے اور بھوک پیاس برداشت کرنے کی عادت ڈالنے میں کئی ایک حکمتیں اور متعدد دیگر حسی اور معنوی فوائد بھی ہیں۔ تاہم کھانے پینے سے باز رہنے کا اصل مقصد بھوک پیاس کے ذریعے حقیقی مقصد تک پہنچتا ہے اور وہ ہے تقوی کا حصول۔ کھانا پینا زندہ رہنے کے لیےیقینًا ضروری ہے اور انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے، مگر جیسا کہ ہر چیز کی ایک حد اور لمٹ ہوتی ہے، اس سے تجاوز انسان کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے، وہ افراط کی صورت میں ہو، یا تفریط کی صورت میں۔ افراط زیادتی کو اور تفریط کمی کو کہتے ہیں۔
کھانے پینے کے معاملے میں لوگ عموماً زیادتی کی صورت میں تجاوز تو کرتے ہیں مگر کمی کی صورت میں نہیں۔
اسلام بہر حال اعتدال کا سبق دیتا ہے، کی اور زیادتی کی تائید نہیں کرتا، چنانچہ اسلام نے کھانے پینے سے متعلق ہدایت نامہ جاری کرتے ہوئے ایک ضابطہ اور اصول مقرر فرما دیا ہے۔
سب سے پہلے تو اکل کثیر یعنی بسیار خوری کی خدمت اور سنگینی بیان کرتے ہوئے فرمایا:
((مَا مَلَاءَ ابْنُ آدَمَ وَعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ))
’’کوئی آدمی کبھی اپنے پیٹ سے زیادہ کسی بری چیز کو نہیں بھرتا ۔‘‘
((بِحَسْبِ ابنِ آدَمَ أُكُلاتٌ يُقمْنَ صُلْبَهُ))
’’ابن آدم کو اپنی کمر سیدھی کرنے کے لیے چند نوالے ہی کافی ہیں ۔‘‘
آپ جانتے ہیں کہ جب آدمی کو شدید بھوک لگی ہو تو کمر سیدھی کر کے چلنا بھی دشوار ہوتا ہے، مگر کمر سیدھی کرنے کے لیے کوئی بہت زیادہ کھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چند نوالے ہی کافی ہوتے ہیں۔
((فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ))
’’پھر اگر لا محالہ اس سے زیادہ کھانا چاہیے۔‘‘
تو پھر اس کی حد یہ ہے کہ:
((فَثُلُثَ لِطَعَامِهِ، وَثُلُثَ لِشَرَابِهِ، وَثُلُثٌ لِنَفْسِهِ)) (مسند احمد، ج:4، ص:132 ، رقم:17225)
’’ایک تہائی کھانے کے لیے، ایک تہائی پانی کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے۔‘‘
یعنی پیٹ میں جتنی گنجائش ہے، اس کو اس طرح تین حصوں میں تقسیم کر کے کھائے ۔ اتنا نہ کھائے کہ سانس لینا بھی دشوار ہو جائے اور بیماری کی صورت میں اگر دوا کھانے کی ضرورت پیش آئے تو وہ بھی نہ کھا سکے تو گویا اس سے زیادہ کھانا زیادتی تصور ہوگا اور اس کا نتیجہ بیماریوں کی صورت میں ظاہر ہوگا۔
زیادہ کھانے کے منفی اثرات اور نقصانات میں سے ایک جو کہ نسبتا ذرا ہلکا نقصان ہے یہ ہے کہ جو زیادہ کھاتا اور پیتا ہے وہ زیادہ ہوتا ہے، اور جو زیادہ ہوتا ہے وہ اسی قدر خیر اور بھلائی اور نیکی کے کاموں سے محروم رہتا ہے۔
زیادہ کھانے کے بعد آپ جانتے ہیں کہ آدمی کا جسم ہو جھل ہو جاتا ہے، ستی چھا جاتی ہے، غنودگی آنے لگتی ہے، کھانے کا شمار چڑھ جاتا ہے، آرام کرنے کو جی چاہنے لگتا ہے۔ ہمت پست ہو جاتی ہے، کچھ کرنے کو جی نہیں چاہتا بالخصوص کوئی نیک عمل، کیونکہ اس میں مکمل توجہ درکار ہوتی ہے۔
بسیار خوری کی مذمت اور اس کے نقصانات جاننے کے لیے یہ حدیث نہایت ہی اہم ہے، حدیث میں ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
((تَجَشَّأَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّﷺ))
’’ایک شخص نے آپ ﷺ کی موجودگی میں ڈکار مارا۔‘‘
((فَقَالَ: كُفَّ عَنَّا جُشَاءَ كَ))
’’تو آپﷺ نے فرمایا: اپنے ڈکار کو ہم سے باز رکھو۔‘‘
((فَإِنَّ أَكْثَرَهُمْ شِبْعًا فِي الدُّنْيَا، أَطْوَلُهُمْ جُوعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ))(ترمذی:2478)
’’دنیا میں جو زیادہ پیٹ بھرے ہوئے ہیں، قیامت کے دن لمبی بھوک کا شکار ہوں گے۔‘‘
اس حدیث میں ایک تو بسیار خوری کی مذمت بیان کی گئی ہے، اور قیامت کے دن بسیار خور کا برا انجام بتلایا گیا ہے، اور دوسری بات یہ کہ مجلس میں ڈکار مارنے کو نہایت نا پسندیدہ عمل بتایا گیا ہے۔
اندازہ کریں کسی مجلس میں ڈکار مارنا اگر اتنا نا پسندیدہ ہے تو نماز میں ڈکار مارنا کتنا قابل نفرت عمل ہوگا ، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے ہی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو نماز میں ہے دھڑک ڈکار مارتے ہیں اور پھر ایک ڈکار پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ پورا منہ کھول کر، پورے ترنم کے ساتھ مزے لے لے کر، بد بودار ڈکار مارتے چلے جاتے ہیں، اور ساتھ والوں کو اذیت دیتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ وہ یقینًا حدیث سے لاعلمی کی وجہ سے کرتے ہوں گے، مگر افسوس ان کے بے حس ہونے پر ہے کہ جنہیں اتنا احساس نہیں ہوتا کہ کسی دوسرے کو ان کے اس فعل سے تکلیف کی رہی ہے، لہٰذا اس سے ضرور اجتناب کریں۔ کھانے پینے کے حوالے سے یوں تو اسلام نے بہت کی ہدایات دے رکھی ہیں مگر چونکہ وہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے، اس لیے اسے کسی دوسرے موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں، البتہ چلتے چلتے ایک اور اہم حدیث کا ذکر کرتا چلوں، کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے اور اس کی وجہ بھی مسئلہ سے لاعلمی ہی ہے اور وہ یہ کہ بہت گرم گرم کھانا نہیں کھانا چاہیے ذرا ٹھنڈا کر لینا چاہیے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عننہ بیان کرتی ہیں۔
((أَنَّهَا كَانَتْ إِذَا ثَرَدَتْ، غَطَّتْهُ شَيْئًا، حَتّٰى يَذْهَبُ فَوْرَهُ))
’’ فرماتی ہیں کہ جب وہ ثرید بناتیں تو اسے کسی چیز سے ڈھانک دیتیں حتی کہ اس کا ابلنا بند ہو جاتا اور دھواں ختم ہو جاتا ۔‘‘
((ثم تقول:)) ’’ پھر فرماتیں‘‘
((إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: ((إِنَّهُ أَعْظَمُ لِلْبَرَكَةِ)) (مسند احمد، ج:1، ص:350، رقم: 27003)
’’ کہ میں نے آپ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ وہ برکت کے لیے بہت بڑی بات ہے ۔‘‘
عموماً گھروں میں گرم گرم کھانا پسند کیا جاتا ہے، یہ ایک عام ٹرینڈ ہے، مگر ریسٹورانٹس میں تو Sizzling food Dishes کا ایک رواج چل نکلا ہے، کہ سوں سوں کرتا ہوا کھانا پیش کیا جاتا ہے اور وہ شاید بزنس پوائٹ آف ویو سے کیا جاتا ہے، حدیث معلوم ہونے کے بعد اس سے بھی اجتناب کریں۔
تا ہم روزے اور کھانے پینے کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے اسلام نے اس ضمن میں خصوصی احکامات صادر فرمائے ہیں، کہ ایک معینہ وقت میں کھانے پینے سے رکے رہنا ہی روزہ ہے۔
روزے کے لیے مقررہ اوقات میں کھانے پینے سے منع رکھنے میں جو مختلف اور متعدد حکمتیں ہیں ، ان میں سے ایک یہ بھی سمجھ آتی ہے کہ آدمی کو بھوک پیاس برداشت کرنے ، صبر کرنے اور حکم کی تعمیل اور اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی ایک عادت ڈالی جائے اور مشق کروائی جائے۔ اور ایک حکمت یہ بھی نظر آتی ہے کہ بھوک اور پیاس برداشت کرتے وقت غریبوں کی بھوک کا احساس پیدا ہو۔
اور ایک حکمت یہ بھی سمجھ آتی ہے کہ بھوکا رہنے سے آدمی کھانے کے شمار اور غنودگی سے محفوظ رہتا ہے، بیدار مغز اور چاق و چوبند ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ عبادت میں مصروف رہ سکتا ہے۔
اور یوں کھانے پینے سے باز رہنا تقویٰ کے حصول میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ روزے کا بنیادی مقصد تو آپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں میں تقویٰ پیدا کرنا بتلایا گیا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ روزے کے اور بہت سارے جزوی منطقی نتائج بھی پائے جاتے ہیں، جیسا کہ آنکھ، کان، زبان اور ہاتھ پاؤں کا تزکیہ و تربیت، اگر چہ یہ بھی تقوی کے ضمن میں ہی آتے ہیں۔
اسی طرح روزے کے فوائد اور اس کے منطقی نتائج میں سے اخلاقی تربیت ہونا، پری صفات سے چھٹکارا اور ان کی جگہ اخلاق حمیدہ پیدا ہونا وغیرہ بھی ہے۔ مگر ان سب کے سرفہرست ضبط االنفس کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔
ضبط نفس کی انسان کو اس دنیا میں اشد ضرورت ہے، دنیا کی زندگی خوش اسلوبی سے گزارنے کے لیے بھی اور آخرت سنوارنے کے لیے بھی۔ بالخصوص آج کے اس پرفتن دور میں اس کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ضبط نفس کسی خاص شخص، یا خاص عمر کے اشخاص کے لیے نہیں، بلکہ تمام انسانوں کو اس کی ضرورت ہے، چاہے بچہ ہو، بوڑھا ہو، مرد ہو، عورت ہو، عالم ہو، جاہل ہو، کسی بھی عمر کا شخص ہو، کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو ضبط نفس کی ہر شخص کو اشد ضرورت ہے۔
ضبط نفس اصل میں غصے پر قابو پاتا ہے، اور زندگی میں اچانک پیش آنے والے حادثات اور معاملات کے وقت کہ جہاں بہادری، حلم و بردباری، حکمت و دانشمندی اور حسن تصرف کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں انسان ضبط نفس کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحیح فیصلہ کرے۔ اور غصے پر قابو پانا اور ضبط نفس حاصل ہونا متقین کی صفات میں سے ایک ہے جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ سَارِعُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ۝﴾ (آل عمران:133)
’’اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کے حصول کے لیے کہ جس کی وسعت زمین و آسمان جیسی ہے جلدی کرو اور دوڑ کر چلو، وہ جنت جو کہ متقین کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘
﴿ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ۝﴾ (ال عمران:134)
’’اور متقی وہ لوگ ہیں جو ہر حال میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں چاہے خوش حال ہوں یا بدحال، اور وہ غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں، ایسے لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں ۔‘‘
ضبط نفس کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ کریں کہ دنیا میں بہت سے جرائم محض عدم ضبط نفس کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر، حدیث میں ہے کہ:
((أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَقُودُ رَجُلًا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ قَتَلَ ابْنِي))
’’ایک شخص رسول اللہ سے کام کے پاس ایک آدمی کو کھینچتا ہوا لے کر آیا، اس نے کہا انے اللہ کے رسول ! اس نے میرے بیٹے کو قتل کیا۔ ‘‘
((فَقَالَ لَهُ الرَّسُوْلُ اَقَتَلْتَهَ))
’’رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا: کیا تو نے اسے قتل کیا ہے ۔‘‘
((قَالَ: نَعَمْ))
’’اس نے کیا: جی ہاں!‘‘
((قَالَ وَلِمَا؟))
’’آپﷺ نے فرمایا: کس لیے؟‘‘
((قَالَ: كُنتُ أَحْتَطِبُ أَنَا وَإِيَّاهُ، فَسَبَّنِي وَشَتَمَنِي فَأَهْوَيْتُ بِالْفَأْسِ عَلٰى رَأْسِهِ فَقَتَلْتُهُ)) أو كما ورد في الحديث))
’’کہا: میں اور یہ ایک ساتھ لکڑیاں اکٹھی کرتے تھے، اس نے مجھے گالی دی اور برا بھلا کیا، میں نے جھک کر اس کے سر پر کلہاڑی کا وار کر کے اس کو قتل کر دیا ۔‘‘
خیر ضبط نفس ایک مستقل موضوع ہے جس پر پھر ان شاء اللہ کبھی بات کی جائے گی ۔
اس وقت ان مبارک اوقات سے استفادہ کے حوالے سے بات کرنا چاہیں گے جس کا دو تہائی حصہ گزر چکا ہے اور باقی کے چند روز بھی تیزی کے ساتھ گزر رہے ہیں۔ اب بھی موقع ہے کہ ہم ان سے استفادہ کر لیں ، ان کی قدر و قیمت کو سمجھیں۔ جو وقت گزر جاتا ہے وہ زندگی میں دوبارہ کبھی نہیں آتا، اور جس کی امید لگائے بیٹھے ہیں اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس لیے ان کی اہمیت سمجھیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم جن کے بارے میں قرآن پاک کا اعلان ہے کہ:
﴿رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ﴾
’’اللہ تعالی ان سے راضی ہو گیا وہ اللہ سے راضی ہو گئے ۔‘‘
اس سے بڑا اعزاز اور انعام اور خوشخبری کیا ہوگی، مگر اس کے باوجود وہ نیکیوں کی تلاش میں کسی طرح بے قرار ہوتے اور موقعوں کی جستجو میں کسی طرح فکر مند ہوتے ، ملاحظہ کیجیے۔ حدیث میں ہے:
((عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَاصِ أَنَّهُ كَانَ قَاعِدًا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ مَا إِذْ طَلَعَ خَبَابٌ))
’’سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کےپاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک خباب رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے ۔‘‘
فَقَالَ: ((يَا عَبْدَ اللهِ بن عُمر! أَلَا تَسْمَعُ مَا يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَة))
’’اور انھوں نے کہا: اے عبداللہ بن عمر ! کیا تم نے سنا نہیں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کیا کہتے ہیں ؟‘‘
((أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ ﷺ يقول: ((مَنْ خَرَجَ مَعَ جَنَازَةِ مِنْ بَيْتِهَا وَصَلَّى عَلَيْهَا ، ثُمَّ تَبِعَهَا حَتَّى تُدْفَنَ، كَانَ لَهُ قِيرَاطَانِ مِنْ أجْرٍ ، كُلُّ قِيرَاطٍ مِثل أحدٍ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيْهَا ثُمَّ رَجَعَ ، كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أَحدٍ))
’’کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺسے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: جو شخص اپنے گھر سے جنازے کے ساتھ نکلے، اس پر نماز پڑھے پھر دفن ہونے تک اس کے ساتھ رہے تو اس کو دو قیراط ثواب ملے گا، اور ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے۔ اور جو شخص نماز جنازہ پڑھ کر واپس آ جائے تو اسے ایک احد پہاڑ جتنا ثواب ملے گا۔‘‘
((فَأَرْسَلَ ابْنُ عُمَرَ خَبَّابًا إِلَى عَائِشَةَ رضي الله تعالي عنها يَسْأَلُهَا عَنْ قَوْلِ أَبِي هريرة، ثم يَرْجِعُ إِلَيْهِ فَيُخْبِرُهُ مَا قَالَتْ ))
’’چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے خباب رضی اللہ عنہ کو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی طرف ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی بابت پوچھنے بھیجا کہ وہ واپس آکر انہیں بتائیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہانے کیا کہا۔‘‘
((وَاَخَذَ ابنُ عُمَرَ قَبْضَةً مِن حَصْبَاء المسجد، يُقَلِّبُهَا فِي يَدِهِ حَتَّى رَجَعَ إِلَيْهِ الرَّسُولُ))
’’اور ابن عمر رضی اللہ عنہ مسجد سے مٹھی بھر کنکریاں پکڑ کر انہیں اپنے ہاتھ میں لوٹ پوٹ کرنے لگے یہاں تک کہ وہ قاصد واپس آیا۔‘‘
((فَقَالَ: قَالَتْ عَائِشةُ رضی الله عنها صَدَقَ أَبُو هُرَيْرَةَ))
’’اس نے کہا: ام المؤمنین سیدہ عائشہ بنی انہوں نے فرمایا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ صحیح کہتے ہیں ۔
((فَضَرَبَ ابنُ عُمَرَ بِالْحَصَى الَّذِي كَانَ فِي يَدِهِ الْأَرْضِ ثُمَّ قَالَ لقَدْ فَرَّطْنَا فِي قَرَارِيْطَ كَثِيْرَةٍ))(مسلم:945)
’’پھر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کنکریاں زمین پر مارتے ہوئے فرمایا: افسوس! ہم نے بہت سے قیراط کا نقصان اٹھالیا ۔‘‘
اور ہمارا حال کیا ہے ہمارے لیے ایسی کوئی بشارت نہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے ہے، اور بے عمل بھی ہم جی بھر کر کرتے ہیں، نیکیوں کی دمڑی جیب میں نہیں ہے اور اتراتے پھر رہے ہیں، نیکیوں سے بے نیاز ہیں اور ایسے مواقع کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ جن میں زندگی بھر کے گناہوں کی تلاقی ہو جائے۔
یاد رکھیں ! اگر قبر کی منزل کو کٹھن سمجھتے ہیں، قیامت کی ہولنا کیوں کا دل میں کچھ بھی ڈر اور خوف اور فکر ہے اور جنت کا شوق اور چاہت موجود ہے تو پھر وقت نکالنا ہوگا۔ اور جلدی کرنا ہوگی اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے۔ جسے موقع ہاتھ سے نکل جانے کا ڈر ہوتا ہے وہ اس کا پیشگی اہتمام کرتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ ((مَنْ خَافَ أَدْلَجَ ، وَمَنْ أَدْلَجَ بَلَغَ الْمَنْزِلَ ، أَلَّا إِنَّ سِلْعَةَ اللهِ غَالِيَةٌ أَلَا إِنَّ سَلْعَةَ الله الجَنَّةُ)) (ترمذی:2450)
’’جو شخص (رات کے آخری حصہ میں سفر کرنے سے) ڈرتا ہو وہرات کے شروع میں سفر کرتا ہے اور جو شروع رات کے حصے میں سفر کرتا ہے وہ منزل تک پہنچ جاتا ہے، سن لو! اللہ کا مال تجارت قیمتی ہے۔ جان لو کہ اللہ تعالی کا مال تجارت جنت ہے۔‘‘
جسے بخیریت منزل پر پہنچنے کی فکر ہو اسے اپنے طرز عمل پر ضرور غور کرنا چاہیے، اگر دل نیکیوں کی طرف مائل نہیں ہوتا تو اس کے اسباب جاننے کی کوشش کریں اور اس کا ایک سبب دلوں کا زنگ آلود ہونا ہے۔
﴿ كَلَّا بَلْ ٚ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۝﴾ (المطففين:14)
’’ہرگز نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں پر ان کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔‘‘
((قال الفضيل بن عياض إذا لَمْ تَقْدِرُ عَلَى قِيَامِ اللَّيْل وَصِيَامِ النَّهَارِ فَاعْلَمْ أَنَّكَ مَحْرُومٌ مُكَبَّلٌ كَبَّلَتْكَ خَطِيْئَتُكَ))
’’ قاضی فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر تمھیں راتوں کو قیام کرنے اور دن کو روزہ رکھنے کی ہمت نہیں ہوتی تو جان لو کہ تم توفیق سے محروم اور جکڑے ہوئے ہو، تمھیں تمھارے گناہوں نے جکڑ رکھا ہے۔‘‘(المنتظم لابن الجوزی، ج:9، ص:148)
…………….