رمضان سے فائدہ کیسے اٹھائیں؟

﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۝﴾ (البقرة:183)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزہ رکھنا لکھ دیا گیا ہے جیسے ان لوگوں پر لکھا گیا جو تم سے پہلے تھے تا کہ تم بچ جاؤ۔‘‘
اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم، اپنی مشیت عادلہ اور حکمت بالغہ کے تحت اس دنیا کو آخرت کی کھیتی بنایا، اور اعمال صالحہ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے اسے میدان تنافس و تسابق قرار دیا، اور اپنی خصوصی عنایت و نوازش کرتے ہوئے تھوڑی سی سعی وجہد اور تحمل قلیل پر اجر کثیر عطا فرمایا، اور پھر احسان در احسان یہ فرمایا کہ اپنے بندوں کو مزید اجر و ثواب سے نوازنے کے لیے نیکیوں کے مواقع اور مواسم مقرر فرمائے کہ جس میں بندوں کو نیک عملوں کا ثواب بڑھا چڑھا کر دیا جاتا ہے۔
رمضان المبارک بھی انہی موسموں میں سے ایک اور سب سے اہم موسم ہے، جو کہ نیکیوں کا موسم بہار ہے ، تزکیہ و تربیت اور توبہ واستغفار کا مہینہ ہے۔
اس مبارک مہینے کی عظمت و فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَ الْفُرْقَانِ﴾ (البقرة:185)
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے، اور ایسی واضح تعلیمات ہیں جو راہ راست دکھانے والی ہیں، اور حق و باطل میں فرق کرنے والی ہیں ۔‘‘
لہٰذا لازم ہے کہ اللہ تعالی کی اس نوازش کی ، اس کے اس فضل و احسان اور اس کی اس پیشکش کی قدر کی جائے ، اس سے مستفید ہونے کی بھر پور کوشش کی جائے اور اس کا خوب اہتمام اور تیاری کی جائے۔ اوریقینًا ہر سچا مسلمان اس سے ضرور مستفید ہونا چاہے گا، اور نہیں چاہے گا کہ یہ موقعہ قیمت اس کے ہاتھ سے نکل جائے اور وہ اس سعادت سے محروم ہو جائے۔ اور یہ بہت بڑی بدنصیبی ، بدبختی اور بے ادبی ہوگی اگر اللہ تعالی کی اس پیشکش کو نظر انداز کر دیا جائے اور ٹھکرا دیا جائے۔ سب جانتے ہیں کہ ہم میں سے اگر کسی کی پیشکش کی قدر نہ کی جائے ،اسے بے نیازی سے ٹھکرا دیا جائے، تو اس کے اس طرز عمل کو تحقیر اور توہین پر محمول کیا جاتا ہے، اور اسے تکبر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اور اس سلسلے میں لوگوں کے طرز عمل کو اگر دیکھیں تو اس میں لوگوں کی دو قسمیں نظر آتی ہیں، اللہ فرماتے ہیں:
﴿إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتّٰي﴾ (الليل:4)
’’یقینًا تم لوگوں کی کوششیں مختلف قسم کی ہیں ۔‘‘
پھر ایک قسم یہ بیان فرمائی کہ
﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطٰى وَاتَّقٰى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰى فَسَيَسْرُهُ لِلْيُسْرٰى﴾ (الليل:5۔7)
’’جس نے اللہ کی راہ میں مال دیا، تقویٰ التیار کیا اور بھلائی کو سچ مانا ، اس کو ہم آسان راستے کی سہولت دیں گے۔‘‘
﴿وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰى وَكَذَّبَ بِالْحُسْنٰى ، فَسَنُيَسِّرُهُ العُسْرٰي﴾ (الليل:8 تا 10)
’’ اور جس نے بخل کیا، یعنی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا۔ بے نیازی برتی۔ اور بھلائی کو جھٹلایا تو ہم اسے تنگی اور سخت راستے کی سہولت دیں گے۔‘‘
ان آیات کی تفسیر و تشریح تو تفصیل طلب ہے، جو کہ اس وقت بیان نہیں کی جاسکتی، اس وقت یہاں عرض کرنا مقصود یہ ہے کہ نیکی کے حوالے سے، اللہ تعالی کی تمام تر عنایات اور نوازشات کے باوجود، اس کی خصوصی توجہ اور التفات اور اس کے خصوصی انعام واحسان اور پیشکش کے باوجود ایک قسم ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو نیکی کے معاملے میں بے نیازی اور بے اعتنائی اختیار کرتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کی حالت بیان کرنے کے لیے بد بختی اور بد نصیبی سے ہاگا اور کم تر کوئی لفظ نہیں ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے ۔ آمین
اور وہ کہ جن کے بارے میں اللہ فرماتے ہیں:
﴿فَأَمَّا مَنْ أعْطٰى وَاتَّقٰى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰي﴾
’’ جس نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا، تقوی اختیار کیا اور بھلائی کی تصدیق کی ۔‘‘
وہ تویقینًا خوش قسمت اور خوش نصیب لوگ ہیں۔
میں یہاں اک تیسری قسم کے لوگوں کا ذکر کرنا چاہوں گا، کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سچائی کے راستے پر چلنا چاہتے ہیں، تقوی اختیار کرنا چاہتے ہیں، رمضان المبارک سے مستفید ہوتا چاہتے ہیں مگر جانتے نہیں کہ کیسے مستفید ہوں ، یا وہ رمضان المبارک سے استفادے کا اپنا مفہوم رکھتے ہیں، جو حقیقت سے لگا نہیں رکھتا، قرآن وحدیث سے مطابقت نہیں رکھتا۔ آج کی گفتگو یوں تو یکساں طور پر تمام قسم کے لوگوں کے لیے ہو گی مگر خصوصی طور پر اس تیسری قسم کے لوگ اس کے مخاطب ہوں گے۔
لہٰذا جو شخص اس مبارک مہینے کی برکتوں اور سعادتوں سے صحیح معنوں میں مستفید ہوتا چاہتا ہے، اگر تو وہ اپنے اس دعوے اور مقصد سے سچا، مخلص اور سنجیدہ ہے، تو خلوص نیت کے بعد سب سے پہلا کام جو اسے کرنا ہوگا، وہ ہے عظیم وقت، کرنا، یعنی اسے اس کے حصے کا مناسب وقت دینا ہوگا ۔ اگر وقت نہیں دیں گے تویقینًا استفادہ نہیں کر سکیں گے، یہ کوئی اللہ دین کا چراغ نہیں کہ ادھر آپ نے زبان سے استفادہ کیا تو استفادہ ہو گیا، بلکہ یہاں آپ کی سنجیدگی اور اخلاص کو پرکھا جائے گا۔
ہم سب خوب جانتے ہیں کہ کسی کام سے سنجیدہ ہونے کا کیا مطلب ہوتا ہے! ہم کام سے سنجیدہ ہوتے ہیں، لہٰذا کام کو وقت دیتے ہیں، اور ہم میں سے بہت سے لوگ کام کو ضرورت سے زیادہ وقت دیتے ہیں بارہ بارہ بلکہ بعض لوگ چودہ چودہ گھنٹے وقت دیتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وقت دیے بغیر کام نہیں ہو سکتا۔
اور تعجب ہے ایسی سوچ اور ایسی عقل پر کہ وقت دنیا کے کاموں کو دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آخرت بن جائے۔
ترجوا النجاة ولم تسلك طريقتها
إِنَّ السَّفِيْنَةَ لَا تَجْرِي عَلٰى يَبَسٍ
’’نجات اور کامیابی کے خواہاں ہو مگر اس کا رستہ التیار نہیں کرتے ، کشتی کبھی خشکی پر نہیں چلا کرتی ۔‘‘
اب ذرا حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے وقت کا حساب لگا ئیں: اگر آپ بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں اور آٹھ گھنٹے نیند، تو یہ بیس گھنٹے ہو گئے۔
بارہ گھنٹے اس لیے کہا کہ اگر کوئی دس گھنٹے کام کرتا ہو تو ایک گھنٹہ کام شروع کرنے سے پہلے اور ایک گھنٹہ کام ختم کرنے کے بعد کام ہی کی مد میں خرچ ہوتا ہے، تو یوں کم از کم بارہ گھنٹے ہوئے۔ باقی چار گھنٹے رہگئے ۔ اور چار گھنٹوں میں سے بیوی بچوں کو ٹائم دینا، گراسری کرنا اور دیگر ضروریات زندگی کے کاموں کے لیے دو گھنٹے صرف ہو جاتے ہیں۔
باقی رہ گئے دو گھنٹے ، اب خود ہی بتلائیے ۔ گنجا نہائے گا کیا اور نچوڑے گا کیا؟
اگر آپ یہ چاہیں کہ خوش رہے شیطان بھی اور راضی رہے رحمان بھی۔ یا یہ کہ رند کے رندر ہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی ، تو ایسے نہیں ہو سکتا، آپ کو ایک چیز کو اختیار کرنا ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں سے ایک کا نقصان تو اٹھانا ہی پڑے گا، حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((مَنْ أَحَبُّ دُنْيَاهُ أَضَرَّ بِآخِرَته))
’’جس نے اپنی دنیا کو پسند کیا اس نے اپنی آخرت کا نقصان کیا۔‘‘
((وَمَنْ أَحَبَّ آخِرَتَهُ أَضَرَّبِدُنْيَاه))
’’اور جس نے اپنی آخرت کو چاہا اس نے اپنی دنیا کا نقصان کیا ۔‘‘
((فَاثِرُوا مَا يَبْقَى ، عَلَى مَا يَفْنٰى)) (مسند احمد، ج:4، ص:412، رقم:19712)
’’پس باقی رہنے والی کو فانی پر ترجیح دو ۔‘‘
دین پر چلیں گے تو دنیا جتنی مقدر ہے، پیچھے پیچھے آئے گی ، دنیا کے پیچھے بھا گو گے تو دین تمہارے پیچھے نہیں آئے گا۔ وقت کو منظم و مرتب کیے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ وقت کے بارے میں یاد رکھیں کہ انسان کے پاس بڑا محدود سا وقت ہے، اس وقت کو کھیل کود، اور لہو ولعب میں گزار دیں یا دین کے لیے استعمال کر لیں، ہمیں اختیار دیا گیا ہے۔ حساب بعد میں ہوگا۔ امتحان کے اس محدود وقت کے بعد پیپر چھین لیا جائے گا، آپ نے اس میں سچ لکھا، غلط لکھا یا خالی چھوڑا، اس کا حساب بعد میں ہونے والا ہے۔ (اللهم
حاسبنا حسابا يسيرا) آمین
تو جو شخص رمضان المبارک سے صحیح معنوں میں مستفید ہونا چاہتا ہے خلوص نیت کے بعدکرنے کا سبب سے پہلا کام وقت کا کچھ حصہ رمضان المبارک کے لیے مخصوص کرنا ہوگا۔
اب آئیے یہ جانتے ہیں کہ اس وقت میں کرنا کیا ہوگا! فرض نمازیں پابندی کے ساتھ یا جماعت ادا کرتا ہوں گی، یہ مرد حضرات کے لیے ہے، اور خواتین فرض نمازیں گھروں میں پڑھیں انہیں اول اوقات میں ادا کریں کہ عورت کے لیے گھر میں نماز افضل ہے، لیکن اگر وہ پھر بھی نمازوں کے لیے مسجدوں میں جانا چاہیں تو آپ سے تم نے مردوں کو حکم دیا ہے کہ:
((لَا تَمْنَعُوا نِسَاءَ كُمُ الْمَسَاجِدَ وَ بُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَّهُنَّ)) (ابوداؤد، رقم:567)
’’تم اپنی عورتوں کو مساجد میں آنے سے مت روکو اور ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں۔‘‘
تو اگر کوئی شخص فرض نمازوں کو کسی بھی لحاظ سے نظر انداز کر کے نوافل پر زور دے اور سمجھے کہ وہ رمضان المبارک سے مستفید ہو رہا ہے، تو یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔
یقینًا نوافل کے ذریعے بندہ اللہ تعالی کے قریب سے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے، مگرفرائض کی ادائیگی کے بعد، جیسا کہ حدیث قدسی ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
((وَمَا تَقَرَّبَ إِلَىَّ عَبْدِيْ بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَىَّ مِمَّا افْتَرَضْتُهُ عَلَيْهِ))
’’فرائض سے بڑھ کر کوئی ایسی میری پسندیدہ چیز نہیں ہے جس کے ذریعے میرا بندہ میرے قریب ہوتا ہے۔‘‘
((وَلَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَىَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبُّهُ)) (بخاری:6502)
’’اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ۔‘‘
یہاں نوافل سے مراد نقل نماز ہی نہیں، جیسا کہ نقل سے مراد عموما سمجھا جاتا ہے جب نقل کہیں تو عموماً نفل نماز سمجھا جاتا ہے مگر اس میں تمام اختیاری نیکیاں شامل ہیں جیسے نفلی روزے، نفلی صدقہ (فرض صدقہ، زکاۃ ہوتا ہے) اسی طرح نفلی حج اور نفلی عمرہ وغیرہ۔
تو فرض نمازوں کی پابندی کے بعد کثرت سے نوافل کی ادائیگی کرنا۔ اور اس میں نقل نمازیں، قرآن پاک کی تلاوت، صدقہ خیرات اور کثرت سے تسبیحات پڑھنا اور ذکر اذکار کرنا۔
عموماً لوگ تسبیحات اور ذکر اذکار کو اتنی اہمیت نہیں دیتے، لوگ نماز اور تلاوت قرآن پاک کو ہی عبادت سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے، حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((مَا عَمِلَ آدمِیٌّ عَمَلًا قَطُّ اَنْجِي لَهُ مِنْ عَذَابِ اللهِ مِنْ ذِكْرِ الله)) (مسند احمد، ج:5، ص:239 ، رقم:22132)
’’کوئی آدمی اللہ کے ذکر سے بڑھ کر ایسا عمل نہیں کرتا جو اسے سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے والا ہو ۔‘‘
اور تسبیحات کی اہمیت کا اندازہ کیجیے، حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((لِاَنْ أَقُوْلَ: سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلهِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ)) (مسلم:2695)
’’میں سبحان الله، والحمد للہ اور لا الہ الا اللہ واللہ اکبر کہوں، یہ مجھے ہر اس چیز سے زیادہ محبوب ہے جس پر سورج طوع ہوتا ہے، یعنی دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘
اسی طرح اور بہت سی تسبیحات ہیں جن میں سے بہت سی آپ کو معلوم ہوں گی، اور دعاؤں کی کتابوں میں بھی آپ کو مل جائیں گی ، اور ان شاء اللہ آئندہ خطبات میں بعض کا ذکر کریں گے۔ رمضان المبارک سے مستفید ہونے کا ایک کام عمرہ کرتا ہے، یوں تو سال بھر میں کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے، مگر رمضان المبارک میں اس کی خصوصیت یہ ہے کہ رمضان المبارک میں کیسے گئے عمرے کا ثواب حج کے برابر ہوتا ہے۔
حج کا متبادل نہیں ہوتا، کہ اگر رمضان میں عمرہ کر لیا تو حج کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ مطلب ہے کہ حج کے برابر ثواب ہوگا ۔ بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((عُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً مَعِي)) (ابوداؤد:1990)
’’رمضان المبارک میں کیے گئے عمرہ کا ثواب میرے ساتھ کیے گئے حج کے ثواب کے برابر ہے۔‘‘
لہٰذا اگر توفیق ہو، اور حالات اجازت دیتے ہوں تو ضرور کرنا چاہیے اور اگر کسی دوسرے کو کروا دیں تو بھی امید ہے اتنا ہی ثواب ہوگا ۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:
((مَنْ جَهَّزَ غَازِیًا فَقَدْ غَزَا))(مسلم:1895)
’’ جس نے کسی غازی کو تیار کیا اس نے خود جہاد کیا ۔‘‘
اور حج اور عمرہ ایک بہت بڑی سعادت یوں بھی ہے کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((الْحَاجُّ وَالْعُمَّارُ وَفْدُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ))
’’حاجی اور عمرے کے لیے آنے والے لوگ اللہ عز وجل کا وفد اور لشکر ہیں ۔‘‘
((دَعَاهُمْ فَأَجَابُوهُ، وَسَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ)) (ابن ماجه:2793)
’’اللہ تعالی نے ان کو بلایا، وہ حاضر ہو گئے، انہوں نے اللہ تعالی سے مانگا اللہ تعالی نے انہیں عطا کیا۔‘‘
اب یہاں ہم سب کے لیے اور بالخصوص ان حضرات کے لیے کہ جنہوں نے ابھی تک حج یا عمرہ نہیں کیا، ایک غور اور فکر کی بات ہے کہ کیا انہیں اللہ تعالی کی طرف سے پکارا نہیں جاتا بلا یا نہیں جاتا، یا وہ خود اس آواز پر لبیک نہیں کہتے دونوں صورتوں میں بات فکر مندی کی ہے۔
ہاں اگر کسی کے سامنے کوئی مجبوری حائل ہے، تو وہ اللہ تعالی بہتر جانتے ہیں۔ اور جنہوں نے پہلے حج و عمرہ کر رکھا ہے انہیں بھی مقدور بھر کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((اَلْعُمْرَةُ إلى العُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بينهما))( بخاری:1773)
’’ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ درمیانی وقفے کا کفارہ ہوتا ہے ۔‘‘
جیسے ایک عمرہ، سال کے بعد دوسرا عمرہ، درمیانی وقفے کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اسی طرح فرمایا:
((وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاء إِلَّا الْجَنَّةُ))( مسند احمد، ج:2، ص:246، رقم:7348)
’’اور حج مبرور کی جزا صرف جنت ہے۔‘‘
رمضان المبارک میں کی جانے والی خصوصی عبادات میں سے ایک عبادت صدقہ خیرات ہے اور روزے داروں کے روزے افطار کرواتا ہے۔
((مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يُنْقَصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شيئًا))( ترمذي ، رقم:807)
’’جس نے کسی روزے دار کا روزہ افطار کروایا، اس کو اس کے روزے کے اجر کے برابر اجر ملے گا، اور اس روزے دار کے اجر سے کچھ کم بھی نہیں کیا جائے گا۔‘‘
یہاں یہ بات یاد رہے کہ کسی کا روزہ افطار کروانے کے لیے ضروری نہیں کہ وہ غریب ہی ہو، بلکہ صرف روزہ دار ہونا شرط ہے۔
صدقہ اور روز وہ ان دو عبادات کا اکٹھا ہونا جنت کا مستحق ہونے کا باعث ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ فِي الْجَنَّةِ غُرَفًا يُرَى ظَاهِرُهَا مِنْ بَاطِنِهَا ، وَبَاطِنُهَا مِنْ ظَاهِرِهَا))
’’جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کا اندر باہر سے دیکھا جا سکتا ہے اور باہر اندر سے‘‘
((أَعَدَّهَا اللهُ تَعَالَى لِمَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَأَلَانَ الْكَلَامَ، وَتَابَعَ الصِّيَامَ، وصلَّى بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ)) (شرح السنة للبغوى، ج:4، ص:41، رقم:928)
’’اللہ تعالی نے ان لوگوں کے لیے تیار کیے ہیں جو کھانا کھلاتے ہیں، نرم گفتگو کرتے ہیں، پے در پے روزے رکھتے ہیں، اور راتوں کو نماز پڑھتے ہیں، جب لوگ سورہے ہوتے ہیں ۔ ‘‘
آخر میں جمعہ المبارک کے اہتمام کے حوالے سے بھی ہمیں جاننا چاہیے اور اس کو مد نظر رکھنا چاہیے، جمعہ کے لیے جلدی آنا چاہیے۔
جیسا کہ فرمان رسول اللہ ﷺہے:
((تَقْعُدُ المَلائِكَةُ عَلٰى أَبْوَابِ الْمَسَاجِدِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَيِكْتُبُوْنَ الْأَوَّلَ وَالثَّانِيَ، وَالثَّالِثَ، حَتّٰى إِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ رُفِعَتِ الصُّحُفُ)) (مسند احمد، ج:5، ص:260، رقم:22296)
’’فرشتے جمعے کے دن مساجد کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور سب سے پہلے آنے والوں ، دوسرے نمبر پر آنے والوں اور تیسرے نمبر پر آنے والوں کے نام لکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب امام (خطبہ دینے کے لیے) لگتا ہے تو دفاتر اُٹھا لیے جاتے ہیں ۔‘‘
………………