رمضان المبارک ۔ نیکیوں کا موسم بہار
اہم عناصر خطبہ :
1۔ ماہِ رمضان المبارک کا پانا نعمت ہے
2۔رمضان المبارک کی خصوصیات
3۔ رمضان المبارک میں ضروری اعمال : روزہ ۔ فضائل روزہ ۔ قیام ۔ صدقہ ۔ تلاوتِ قرآن
دعا ، ذکر ، استغفار
4۔ آدابِ روزہ
پہلا خطبہ
برادرانِ اسلام !
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ماہِ رمضان المبارک کا آغاز ہو چکا ہے ۔ اس لئے ہم سب کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمیں زندگی میں ایک بار پھر یہ مبارک مہینہ نصیب فرمایا۔ ایک ایسا مہینہ کہ جس میں اللہ تعالیٰ جنت کے دروازے کھول دیتا ہے ، جہنم کے دروازے بند کردیتا ہے اور شیطان کو جکڑ دیتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندوں کو اس طرح گمراہ نہ کر سکے جس طرح عام دنوں میں کرتا ہے ۔ ایسا مہینہ کہ جس میں اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی کا انعام عطا کرتا ہے ، جس میں خصوصی طور پراللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مغفرت کرتا اور ان کی توبہ اور دعائیں قبول کرتا ہے … تو ایسے عظیم الشان مہینے کا پانا یقینا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کی قدر ومنزلت کا اندازہ آپ اسی بات سے کر سکتے ہیں کہ سلف صالحین رحمہم اللہ چھ ماہ تک یہ دعا کرتے تھے کہ یا اللہ ! ہمیں رمضان المبارک کا مہینہ نصیب فرما، پھر جب رمضان المبارک کا مہینہ گذرجاتا تو وہ اس بات کی دعا کرتے کہ اے اللہ ! ہم نے اس مہینے میں جو عبادات کیں تُوانھیں قبول فرما۔ کیونکہ وہ اس بات کو جانتے تھے کہ یہ مہینہ کس قدر اہم ہے ! لہٰذا ہمیں بھی اس مہینے کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس کی برکات سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے ۔
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دونوں نے بیک وقت اسلام قبول کیا ،اس کے بعد ان میں سے ایک آدمی زیادہ عباد ت کرتا تھا اور وہ اللہ کی راہ میں شہید ہو گیا ، جبکہ دوسرا آدمی ‘ جو پہلے آدمی کی نسبت کم عبادت گذار تھا اُس کی شہادت کے ایک سال بعد فوت ہوا ۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ یہ دوسرا آدمی شہادت پانے والے آدمی سے پہلے جنت میں داخل ہوا ہے اور جب صبح ہوئی تو میں نے یہ خواب لوگوں کوسنایا جس پر انھوں نے تعجب کا اظہار کیا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( أَلَیْسَ قَدْ مَکَثَ ہٰذَا بَعْدَہُ سَنَةٌ فَأَدْرَكَ رَمَضَانَ فَصَامَہُ،وَصَلّٰی کَذَا وَکَذَا سَجْدَۃً فِیْ السَّنَةِ،فَلَمَا بَیْنَہُمَا أَبْعَدُ مِمَّا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأرْضِ))
’’ کیا یہ ( دوسرا آدمی ) پہلے آدمی کے بعد ایک سال تک زندہ نہیں رہا ؟ جس میں اس نے رمضان کا مہینہ ایا، اس کے روزے رکھے اور سال بھر اتنی نمازیں پڑھیں ؟ تو ان دونوں کے درمیان ( جنت میں ) اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین وآسمان کے درمیان ہے ۔ ‘‘
اس حدیث میں ذرا غور فرمائیں کہ دو آدمی اکٹھے مسلمان ہوئے ، ان میں سے ایک دوسرے کی نسبت زیادہ عبادت گذار تھا اور اسے شہادت کی موت نصیب ہوئی۔ جبکہ دوسرا آدمی پہلے آدمی کی نسبت کم عبادت کرتا تھا اور اس کی موت عام موت تھی لیکن کیا وجہ ہے کہ یہ جنت میں پہلے داخل ہوا ؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ پہلے آدمی کی شہادت کے بعد ایک سال تک زندہ رہا اور اس دوران اسے رمضان المبارک کا مہینہ نصیب ہوا جس میں اس نے روزے رکھے اور سال بھر نمازیں بھی پڑھتا رہا ۔ توروزوں اور نمازوں کی بدولت وہ شہادت پانے والے آدمی سے پہلے جنت میں چلا گیا …یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رمضان المبارک کا پانا اور اس کے روزے رکھنا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ اور آپ ذرا غور کریں کہ ہمارے کتنے رشتہ دار اور کتنے دوست احباب پچھلے سال رمضان المبارک میں ہمارے ساتھ تھے لیکن اس رمضان المبارک کے آنے سے پہلے ہی وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے اور انھیں یہ مبارک مہینہ نصیب نہ ہوا۔ جبکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے زندگی اور تندرستی دی اور یہ مبارک مہینہ نصیب فرماکر ہمیں ایک بار پھر موقعہ دیا کہ ہم تمام گناہوں سے سچی توبہ کر لیں اور اپنے خالق ومالک اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیں …تو کیا یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت نہیں ؟
اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ رمضان المبارک ہماری زندگی کا آخری رمضان ہواور آئندہ رمضان کے آنے سے پہلے ہی ہم بھی اس جہانِ فانی سے رخصت ہو جائیں !تو ہمیں یہ موقعہ غنیمت تصور کرکے اس کی برکات کو سمیٹنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہئے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کے آنے کی بشارت سناتے اور انھیں مبارکباد دیتے ۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کی آمد کی بشارت سناتے ہوئے فرمایا :
(( أَتَاکُمْ رَمَضَانُ،شَہْرٌ مُبَارَكٌ،فَرَضَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْکُمْ صِیَامَہُ، تُفْتَحُ فِیْہِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِِ،وَتُغْلَقُ فِیْہِ أَبْوَابُ الْجَحِیْمِ،وَتُغَلُّ فِیْہِ مَرَدَۃُ الشَّیَاطِیْنِ،لِلّٰہِ فِیْہِ لَیْلَةٌ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَہْرٍ،مَنْ حُرِمَ خَیْرَہَا فَقَدْ حُرِمَ))
’’ تمھارے پاس ماہِ رمضان آ چکا جو کہ با برکت مہینہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کئے ہیں ۔ اس میں جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور اس میں سرکش شیطان جکڑ دئے جاتے ہیں اور اس میں اللہ کی ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس کی خیر سے محروم رہ جائے وہی دراصل محروم ہوتا ہے ۔ ‘‘
خصائص ِ رمضان المبارک
اس مبارک مہینے کی متعدد خصوصیات ہیں جن کی بناء پر اسے دیگر مہینوں پر فضیلت حاصل ہے ۔ ان میں سے چند خصوصیات یہ ہیں :
(۱) نزولِ قرآن مجید
اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابوں میں سے سب سے افضل کتاب (قرآن مجید ) کو مہینوں میں سے سب سے افضل مہینہ (رمضان المبارک ) میں اتارا ، بلکہ اس مبارک مہینے کی سب سے افضل رات ( لیلۃ القدر ) میں اسے لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر یکبارگی نازل فرمایا اور اسیبیت العزۃ میں رکھ دیا۔ فرمان الٰہی ہے :
﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ﴾
’’ وہ رمضان کا مہینہ تھا جس میں قرآن نازل کیا گیاجو لوگوں کیلئے باعث ِ ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کی اور ( حق وباطل کے درمیان ) فرق کرنے کی نشانیاں ہیں ۔ ‘‘
اور فرمایا :﴿إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ﴾
’’ ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل کیا ‘‘
(۲) جہنم سے آزادی
اس مبارک مہینے کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بہت سارے بندوں کو جہنم سے آزادی نصیب کرتا ہے ۔ جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ لِلّٰہِ تَعَالٰی عِنْدَ کُلِّ فِطْرٍ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ،وَذَلِكِ فِیْ کُلِّ لَیْلَةٍ ))
’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر افطاری کے وقت بہت سے لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اور ایسا ہر رات کرتا ہے۔‘‘
اور حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ لِلّٰہِ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰی عُتَقَاءَ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَةٍ ۔ یَعْنِیْ فِیْ رَمَضَانَ ۔ وَإِنَّ لِکُلِّ مُسْلِمٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَةٍ دَعْوَۃً مُسْتَجَابَةٌ ))
’’ بے شک اللہ تعالیٰ( رمضان المبارک میں ) ہر دن اور ہر رات بہت سے لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اور ہر دن اور ہر رات ہر مسلمان کی ایک دعا قبول کی جاتی ہے۔ ‘‘
ان احادیث کے پیشِ نظر ہمیں اللہ تعالیٰ سے خصوصی طور پر یہ دعا کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں بھی اپنے ان خوش نصیب بندوں میں شامل کرلے جنھیں وہ اس مہینے میں جہنم سے آزاد کرتا ہے کیونکہ یہی اصل کامیابی ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ﴾
’’ پھر جس شخص کو آگ سے دور کردیا گیا اور اسے جنت میں داخل کردیا گیا یقینا وہ کامیاب ہو گیا اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے ۔ ‘‘
(۳) جنت کے دروازوں کا کھولا جانا
(۴) جہنم کے دروازوں کا بند کیا جانا
(۵) سرکش شیطانوں کا جکڑا جانا
یہ تینوں امور بھی رمضان المبارک کی خصوصیات میں سے ہیں ۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِذَا کَانَ أَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ صُفِّدَتِ الشَّیَاطِیْنُ وَمَرَدَۃُ الْجِنِّ ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ،فَلَمْ یُفْتَحْ مِنْہَا بَابٌ ،وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ یُغْلَقْ مِنْہَا بَابٌ،وَیُنَادِی مُنَادٍ:یَا بَاغِیَ الْخَیْرِ أَقْبِلْ،وَیَا بَاغِیَ الشَّرِّ أَقْصِرْ ))
’’جب ماہِ رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ کھلا نہیں چھوڑا جاتا اور جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ بند نہیں چھوڑا جاتا اور ایک اعلان کرنے والا پکار کر کہتا ہے :’’ اے خیر کے طلبگار ! آگے بڑھ اور اے شر کے طلبگار ! اب تو رک جا ۔ ‘‘
(۶) ایک رات ۔۔۔ ہزار مہینوں سے بہتر
ماہِ رمضان المبارک کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ فرمان الٰہی ہے :
﴿ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ﴾
’’ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ ‘‘
اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ماہِ رمضان شروع ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ ہَذَا الشَّہْرَ قَدْ حَضَرَکُمْ ، وَفِیْہِ لَیْلَةٌ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ ، مَنْ حُرِمَہَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَیْرَ کُلَّہُ ، وَلاَ یُحْرَمُ خَیْرَہَا إِلَّا مَحْرُوْمٌ))
’’بے شک یہ مہینہ تمھارے پاس آ چکا ہے ۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے اور جو شخص اس سے محروم ہو جاتا ہے وہ مکمل خیر سے محروم ہو جاتا ہے اور اس کی خیر سے تو کوئی حقیقی محروم ہی محروم رہ سکتا ہے ۔ ‘‘
(۷) رمضان میں عمرہ حج کے برابر
اس عظیم الشان مہینے کی ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عمرہ حج کے برابر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری خاتون کو فرمایا :
(( فَإِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فَاعْتَمِرِیْ،فَإِنَّ عُمْرَۃً فِیْہِ تَعْدِلُ حَجَّةٌ ))
’’ جب ماہِ رمضان آجائے تو تم اس میں عمرہ کر لینا کیونکہ اس میں عمرہ حج کے برابر ہوتا ہے۔ ‘‘
ایک روایت میں اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری خاتون سے ‘ جسے ام سنان کہا جاتا تھا ‘ کہا : تم نے ہمارے ساتھ حج کیوں نہیں کیا ؟ تو اس نے سواری کے نہ ہونے کا عذر پیش کیا ، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( فَإِنَّ عُمْرَۃً فِیْ رَمَضَانَ تَقْضِیْ حَجَّةٌ مَّعِیْ ))
’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کی قضا ہے ۔ ‘‘یعنی جو شخص میرے ساتھ حج نہیں کر سکا وہ اگر رمضان میں عمرہ کر لے تو گویا اس نے میرے ساتھ حج کر لیا ۔
رمضان المبارک میں ضروری اعمال
رمضان المبارک کے چند خصائص ذکر کرنے کے بعد اب ہم وہ اعمال بیان کرتے ہیں جن کی خصوصی طور پر اس مہینے میں تاکید کی گئی ہے ۔
(۱) روزہ
رمضان المبارک کے خصوصی اعمال میں سب سے اہم عمل روزہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے ہر مکلف مسلمان پر فرض کئے ہیں۔ فرمان الٰہی ہے :
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴾
’’اے ایمان والو !تم پر روزے فرض کر دئے گئے ہیں ، ویسے ہی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقوی کی راہ اختیار کرو ۔‘‘
اور فرمایا :﴿فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ﴾
’’ پس جو شخص بھی اس مہینہ کو پائے وہ اس کے روزے رکھے ۔ ‘‘اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہِ رمضان المبارک کے روزوں کو اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک رکن قرار دیا۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( بُنِیَ الْإِسْلاَمُ عَلٰی خَمْسٍ:شَھَادَۃِ أَن لَّا إِلٰہَ إلِاَّ اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ،وَإِقَامِ الصَّلاَۃِ ،وَإِیْتَاءِ الزَّکَاۃِ،وَحَجِّ بَیْتِ اللّٰہِ ،وَصَوْمِ رَمَضَانَ ))
’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اﷲ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اﷲ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا ، حج بیت اللہ کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔ ‘‘
ان دلائل سے ثابت ہوا کہ رمضان المبارک کے روزے ہر مکلف مسلمان پر فرض ہیں ، ہاں مریض اور مسافر کو اللہ تعالیٰ نے رخصت دی ہے کہ وہ رمضان کے جن دنوں میں بسببِ مرض یا سفر روزے نہ رکھ سکیں ان کے روزے بعد میں قضا کر لیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ﴾
’’ پس تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو ، تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے ۔ ‘‘
روزوں کے فضائل
قرآن وحدیث میں روزہ کے متعدد فضائل ذکر کئے گئے ہیں ۔ تو لیجئے آپ بھی وہ فضائل سماعت فرمالیجئے:
(۱) مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ
اللہ تعالیٰ نے روزہ داروں سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔
﴿إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿٣٥﴾
’’ بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ، مومن مرد اور مومنہ عورتیں ، فرمانبرداری کرنے والے مرد اور فرمانبرداری کرنے والی عورتیں ، راست باز مرد اور راست باز عورتیں ، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں ، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں ، صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں ، روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں ، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں ، بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ، ان سب کیلئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ۔ ‘‘اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَاِحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ ))
’’جس نے حالت ایمان میں اللہ سے حصول ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کردئے جاتے ہیں ۔ ‘‘
(إِیْمَانًا وَاِحْتِسَابًا)کا مفہوم یہ ہے کہ وہ نیت ِ صادقہ اور یقین ِ کامل کے ساتھ ، محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے اجر وثواب کو حاصل کرنے کی خاطر ، دل کی خوشی کے ساتھ اور روزوں کو بوجھ سمجھ کر نہیںبلکہ رمضان المبارک کے ایام کو غنیمت تصور کرتے ہوئے روزے رکھے۔ اگر وہ اس کیفیت کے ساتھ روزے رکھے گا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کردئے جائیں گے ۔
(۲) روزے کا اجر صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ یُضَاعَفُ،اَلْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا إِلٰی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ،قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ:إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّہُ لِیْ وَأَنَا أَجْزِیْ بِہ،یَدَعُ شَہْوَتَہُ وَطَعَامَہُ مِنْ أَجْلِیْ ))
’’ ابن آدم کا ہر ( نیک ) عمل کئی گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے ، ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ، حتی کہ سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : سوائے روزے کے جو کہ صرف میرے لئے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دونگا کیونکہ وہ میری وجہ سے اپنی شہوت اور اپنے کھانے کو چھوڑتا ہے ۔ ‘‘
إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّہُ (لِیْ)’’ کے جو کہ سوائے روزے صرف میرے لئے ہوتا ہے ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ مومن کے باقی نیک اعمال مثلا نماز ، صدقہ اور ذکر وغیرہ تو ظاہری ہوتے ہیں اور فرشتے انھیں نوٹ کر لیتے ہیں ، جبکہ روزہ ایسا عمل نہیں جو ظاہر ہو بلکہ صرف نیت کرنے سے ہی انسان روزے کی حالت میں چلا جاتا ہے اور نیت کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں ہوتا حتی کہ فرشتے بھی نہیں جانتے ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ صرف میرے لئے ہے اور اس کا بدلہ بھی میں ہی دونگا اور شاید یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کو بے مثال عمل قرار دیا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول ! مجھے کوئی حکم دیں جس پر میں عمل کروں ( ایک روایت میں ہے کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ مجھے نفع پہنچائے اور ایک روایت میں ہے کہ مجھے کسی ایسے عمل کا حکم دیں جو مجھے جنت میں داخل کردے ۔) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(عَلَیْكَ بِالصِّیَامِ فَإِنَّہُ لَا عِدْلَ لَہُ )
’’ تم روزہ رکھا کرو کیونکہ اس کے برابر کوئی عمل نہیں ۔ ‘‘
یعنی شہوت کو ختم کرنے اور نفس امارہ اور شیطان کا مقابلہ کرنے میں اور اجر وثواب میں روزے جیسا کوئی عمل نہیں ۔اور چونکہ روزے کا اجرو وثواب بہت زیادہ ہے اور اسکی مقدار کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اِس لئے روزہ دار جب قیامت کے روز اللہ تعالیٰ سے ملے گا اور اسے اللہ تعالیٰ روزے کا اجر وثواب دے گا تو اسے بے انتہا خوشی ہو گی ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ یَفْرَحُہُمَا:إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ،وَإِذَا لَقِیَ رَبَّہُ فَرِحَ بِصَوْمِہ ))
’’ روزہ دار کیلئے دو خوشیاں ہیں ، ایک افطاری کے وقت اور دوسری اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت ۔ ‘‘
(۳) روزہ ڈھال ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( وَالصِّیَامُ جُنَّةٌ،وَإِذَا کَانَ یَوْمُ صَوْمِ أَحَدِکُمْ فَلَا یَرْفُثْ،وَلَا یَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّہُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَہُ فَلْیَقُلْ إِنِّی امْرُؤٌ صَائِمٌ ))
’’ روزہ ڈھال ہے اور تم میں سے کوئی شخص جب روزے کی حالت میں ہو تو وہ نا شائستہ بات نہ کرے اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرے اور اگر کوئی شخص اسے گالی گلوچ کرے یا اس سے لڑائی کرے تو وہ کہے : میں روزہ دار ہوں ۔ ‘‘
’’ روزہ ڈھال ہے ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ روزہ شہوات اور گناہوں سے روکتا ہے اور اسی طرح جہنم سے بچاتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( اَلصِّیَامُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ کَجُنَّةِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ ))
’’ روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسا کہ تم میں سے کوئی شخص جنگ سے بچنے کیلئے ڈھال لیتا ہے۔ ‘‘
(۴) باب الریان
جنت کے ایک دروازے کا نام ( باب الریان ) ہے ، یہ دروازہ صرف روزہ داروں کیلئے مخصوص ہو گا ۔ جیسا کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ فِی الْجَنَّةِ بَابًا یُقَالُ لَہُ الرَّیَّانُ ، یَدْخُلُ مِنْہُ الصَّائِمُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ لَا یَدْخُلُ مِنْہُ أَحَدٌ غَیْرُہُمْ ، یُقَالُ : أَیْنَ الصَّائِمُوْنَ؟ فَیَقُوْمُوْنَ لَا یَدْخُلُ مِنْہُ أَحَدٌ غَیْرُہُمْ ، فَإِذَا دَخَلُوْا أُغْلِقَ فَلَمْ یَدْخُلْ مِنْہُ أَحَدٌ ))
’’بے شک جنت میں ایک دروازہ ہے جسے باب الریان کہا جاتا ہے ، اس سے قیامت کے دن صرف روزے دار ہی داخل ہو نگے اور ان کے علاوہ کوئی اور اس سے داخل نہیں ہو گا اور پکار کر کہا جائے گا : کہاں ہیں روزے دار ؟ تو وہ کھڑے ہو جائیں گے اور ان کے علاوہ اور کوئی اس سے جنت میں داخل نہیں ہو گا اور جب وہ سب کے سب جنت میں چلے جائیں گے تو اس دروازے کو بند کردیا جائے گا۔ ‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَیْنِ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ نُوْدِیَ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ : یَا عَبْدَ اللّٰہِ ہٰذَا خَیْرٌ ، فَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الصَّلاَۃِ دُعِیَ مِنْ بَابِ الصَّلاَۃِ ، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الْجِہَادِ دُعِیَ مِنْ بَابِ الْجِہَادِ ، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الصِّیَامِ دُعِیَ مِنْ بَابِ الرَّیَّانِ ، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الصَّدَقَةِ دُعِیَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ ))
’’ جو شخص اللہ کے راستے میں جوڑا ( ایک نہیں بلکہ دو ) خرچ کرتا ہے اسے جنت کے دروازوں سے پکار کر کہا جائے گا : اے اللہ کے بندے ! یہ (دروازہ ) تمہارے لئے بہتر ہے ۔ لہٰذا نمازی کو باب الصلاۃ سے پکارا جائے گا ، مجاہد کو باب الجہاد سے پکارا جائے گا ، روزہ دار کو باب الریان سے پکارا جائے گا اور صدقہ کرنے والے کو باب الصدقۃ سے پکارا جائے گا۔ ‘‘ چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جس شخص کو ان تمام دروازوں سے پکارا جائے گااسے تو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہو گی ۔ تو کیا کوئی ایسا شخص بھی ہوگا جسے ان تمام دروازوں سے پکارا جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( نَعَمْ،وَأَرْجُوْ أَنْ تَکُوْنَ مِنْہُمْ ))
’’ ہاںاور مجھے امید ہے کہ آپ بھی انہی لوگوں میں سے ہوں گے ۔ ‘‘
(۵) روزہ شفاعت کرے گا
قیامت کے دن روزہ ‘ روزہ دار کے حق میں شفاعت کرے گا اور اس کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( اَلصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ، یَقُوْلُ الصِّیَامُ : أَیْ رَبِّ ! مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّہْوَۃَ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ،وَیَقُوْلُ الْقُرْآنُ:مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ،قَالَ : فَیُشَفَّعَانِ ))
’’ روزہ اور قرآن دونوں بندے کے حق میں روزِ قیامت شفاعت کریں گے ۔ روزہ کہے گا : اے میرے رب ! میں نے اسے کھانے سے اور شہوت سے روکے رکھا ، اس لئے تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول کر لے اور قرآن کہے گا : میں نے اسے رات کو سونے سے روکے رکھا ، لہٰذا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول کر لے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چنانچہ ان دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی ۔ ‘‘
(۶) روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری سے بھی زیادہ اچھی ہے
جی ہاں ! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری سے بھی زیادہ اچھی ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَخَلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْكِ ))
’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے ! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے بھی زیادہ اچھی ہے۔ ‘‘
(۷) روزے کی حالت میں خاتمہ ہو جائے تووہ سیدھا جنت میں جائے گا
حضرت حذیفۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ قَالَ َلا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ابْتِغَاءَ وَجْہِ اللّٰہِ،خُتِمَ لَہُ بِہَا،دَخَلَ الْجَنَّةَ،وَمَنْ صَامَ یَوْمًا اِبْتِغَاءَ وَجْہِ اللّٰہِ،خُتِمَ لَہُ بِہَا،دَخَلَ الْجَنَّةَ،وَمَنْ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ اِبْتِغَاءَ وَجْہِ اللّٰہِ،خُتِمَ لَہُ بِہَا،دَخَلَ الْجَنَّةَ ))
’’ جس شخص نے لا إلہ إلا اﷲ کہا اور اسی پر اس کا خاتمہ ہو گیا وہ سیدھا جنت میں جائے گا اور جس شخص نے اللہ کی رضا کی خاطر ایک دن کا روزہ رکھا اور اسی حالت میں اس کا خاتمہ ہو گیا تو وہ بھی سیدھا جنت میں جائے گا ، اور جس شخص نے اللہ کی رضا کی خاطر صدقہ کیا اور اسی وقت اس کا خاتمہ ہو گیا تو وہ بھی سیدھا جنت میں جائے گا ۔ ‘‘
(۸) روزہ جنت میں لے جانے والے اعمال میں سے ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا :اے اللہ کے رسول ! مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جس پر میں عمل کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں ؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( تَعْبُدُ اللّٰہَ لَا تُشْرِكُ بِہ شَیْئًا،وَتُقِیْمُ الصَّلَاۃَ الْمَکْتُوْبَةَ،وَتُؤَدِّی الزَّکَاۃَ الْمَفْرُوْضَةَ، وَتَصُوْمُ رَمَضَانَ))
’’ تُو اللہ کی عبادت کراور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت بنا ۔ فرض نماز قائم کر ، فرض زکاۃ ادا کر اور رمضان کے روزے رکھ ۔ ‘‘
یہ سن کردیہاتی نے کہا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں ہمیشہ نہ اس سے زیادہ کرونگا اور نہ اس سے کم ۔پھر جب وہ چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَّنْظُرَ إِلٰی رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّةِ فَلْیَنْظُرْ إِلٰی ہٰذَا ))
’’جو آدمی اہلِ جنت میں سے کسی شخص کو دیکھنا چاہتا ہو وہ اسے دیکھ لے ۔ ‘‘
روزہ خوروں کا انجام
ماہِ رمضان المبارک کی خصوصیات اور روزہ کے فضائل سماعت کرنے کے بعدآئیے اب یہ بھی جان لیجئے کہ رمضان المبارک میں بغیر عذر شرعی روزے نہ رکھنا کتنا بڑا گناہ ہے اور اس کی کیا سزا ہے ؟
حضرت ابو اُ مامہ الباہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’میں سویا ہوا تھا کہ خواب میں میرے پاس دو آدمی آئے جنہوں نے میرے بازوؤںکو پکڑ کر مجھے اٹھایا اور ایک دشوار چڑھائی والے پہاڑ تک لے جاکر مجھے اس پر چڑھنے کے لئے کہا۔میں نے کہا:میں اس پر چڑھ نہیں سکتا ۔انھوں نے کہا : ہم اسے آپ کیلئے آسان بنا دیں گے۔ چنانچہ میں نے اس پر چڑھنا شروع کیا حتی کہ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ گیا تو میں نے وہاں چیخنے اور چلانے کی آوازیں سنیں۔میں نے دریافت کیا کہ یہ چیخ وپکار کیسی ہے ؟انھوں نے جواب دیا کہ یہ جہنمیوں کی آہ وبکاء کا شور ہے ۔پھر مجھے اس سے آگے لے جایا گیا جہاں میں نے کچھ لوگوں کو اُلٹا لٹکے ہوئے دیکھا جن کی باچھیں چیر دی گئی تھیں اور ان سے خون بہہ رہا تھا ۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ جواب ملا کہ یہ و ہ لوگ ہیں جو روزوں کے ایام میں کھایا پیا کرتے تھے ۔ ‘‘
(۲) قیامِ رمضان ( نماز تراویح )
رمضان المبارک کے خصوصی اعمال ‘ جن کی اس مہینے میں زیادہ تاکید کی گئی ہے ان میں سے ایک عمل قیام رمضان یعنی نماز تراویح ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامِ رمضان کی ترغیب تو دلاتے تھے تاہم انھیں سختی سے اس کا حکم نہیں دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے :
(( مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ ))
’’ جس شخص نے ایمان کے ساتھ اور اللہ کی رضا کو طلب کرتے ہوئے رمضان کا قیام کیا اس کے پچھلے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔ ‘‘
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات کے وقت مسجد میں تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ۔ چنانچہ لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھی اورجب صبح ہوئی تو لوگوں نے ایک دوسرے کو ( اس نماز کے بارے میں ) بتایا۔ پھر جب اگلی رات آئی تو پہلی رات کی نسبت زیادہ لوگ جمع ہو گئے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی ۔ پھر جب صبح ہوئی تو انھوں نے مزید لوگوں کو آگاہ کیا ، اِس طرح جب تیسری رات آئی تو لوگوں کی تعداد اور زیادہ ہو گئی۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کی۔ پھر جب چوتھی رات آئی تو لوگ اتنے زیادہ تھے کہ مسجد چھوٹی پڑ گئی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس رات مسجد میں تشریف نہ لے گئے یہاں تک کہ فجر کی اذان ہو گئی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی اور لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ مسنونہ پڑھا اور ارشاد فرمایا:
(( أَمَّا بَعْدُ،فَإِنَّہُ لَمْ یَخْفَ عَلَیَّ مَکَانُکُمْ،وَلٰکِنِّیْ خَشِیْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ فَتَعْجِزُوْا عَنْہَا))
’’ لوگو ! آج رات مسجد میں تمہاری موجودگی مجھ سے مخفی نہیں تھی لیکن ( میں مسجد میں اس لئے نہ آیا کہ ) مجھے اس بات کا اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض ہی نہ ہو جائے اور پھرتم اس سے عاجز آ جاؤ ۔ ‘‘
اور جہاں تک رکعاتِ تراویح کی تعداد کا تعلق ہے تو اس کے متعلق بھی چند احادیث بغور سماعت فرمالیجئے۔
1۔ صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا :
رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسی تھی ؟تو انھوں نے جواب دیا :
(( مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وََلا فِیْ غَیْرِہٖ عَلٰی إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَةٌ ))
’’رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماہِ رمضان اوردیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘
2۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات اور نمازِ وتر پڑھائی۔پھر اگلی رات آئی تو ہم جمع ہوگئے اور ہمیں امید تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر نکلیں گے لیکن ہم صبح تک انتظار کرتے رہ گئے۔ پھر ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنِّیْ خَشِیْتُ ۔ أَوْ کَرِہْتُ ۔ أَنْ یُّکْتَبَ عَلَیْکُمُ الْوِتْرُ ))
’’مجھے خطرہ تھا کہ کہیں تم پر وتر فرض نہ کردیا جائے۔ ‘‘
3۔امام مالک نے السائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور تمیم الداری رضی اللہ عنہ کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا ۔‘‘ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ
۱۔ رمضان اوردیگر مہینوں میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نمازگیارہ رکعات تھی ۔
۲۔اوریہی گیارہ رکعات ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی باجماعت پڑھائیں ۔
۳۔ پھر جب حضرت عمرر رضی اللہ عنہ نے نماز تراویح کے لئے لوگوں کو جمع کیا تو انھوں نے بھی دوصحابہ کرام ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور تمیم الداری رضی اللہ عنہ کو گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا ۔
نماز تراویح ہی ماہِ رمضان میں نمازتہجد ہے
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دوران ہمیں قیام نہ کرایایہاں تک کہ صرف سات روزے باقی رہ گئے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۳ کی را ت کو ہمارے ساتھ قیام کیااور اتنی لمبی قراء ت کی کہ ایک تہائی رات گزرگئی۔ پھر چوبیسویں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام نہ کیا۔ پھر پچیسویں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام کیایہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی۔ تو میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کاش آج آپ ساری رات ہی قیام کرتے !
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :
(( إِنَّہُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتّٰی یَنْصَرِفَ کُتِبَ لَہُ قِیَامُ لَیْلَةٍ ))
’’ جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ امام قیام سے فارغ ہو جائے تو اس کیلئے پوری رات کے قیام کا اجر لکھ دیاجاتا ہے ۔ ‘‘
پھر چھبیسویں رات گذر گئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام نہ کیا۔ پھر ستائیسویں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام کیا اور اپنے گھر والوں اور اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو بھی بلا لیا اور اتنا لمبا قیام کیا کہ ہمیں سحری کے فوت ہوجانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں نماز تراویح پر ہی اکتفاء کیا اور اس کے بعد نماز تہجد نہیں پڑھی کیونکہ سحری تک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تراویح ہی پڑھاتے رہیاور اگر اس میں اور نماز تہجد میں کوئی فرق ہوتا یا دونوں الگ الگ نمازیں ہوتیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم تراویح کے بعد تہجد پڑھتے۔ لہٰذا رمضان میں تراویح ہی نماز تہجد ہیاورعام دنوں میں جسے نماز تہجد کہتے ہیں وہی نماز رمضان میں نماز تراویح کہلاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی (پہلی )حدیث کو کتاب التراویح میں روایت کیا ہے ،اس لئے اس سے نماز تہجد مراد لینا اور پھر اس میں اورنماز تراویح میں فرق کرنا قطعاً درست نہیں۔
کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا؟
ہم نے مؤطا اور ابن ابی شیبہ کے حوالے سے السائب بن یزید رضی اللہ عنہ کا یہ اثر نقل کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور حضرت تمیم الداری رضی اللہ عنہ کوگیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا، امام مالک نے جہاں یہ اثر روایت کیا ہے وہاں اس کے فوراً بعد ایک دوسرا اثر بھی لائے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں : یزید بن رومان بیان کرتے ہیں کہ لوگ عہدِ عمر رضی اللہ عنہ میں رمضان کے دوران ۲۳ رکعات پڑھتے تھے۔
لیکن یہ اثر منقطع یعنی ضعیف ہے کیونکہ اس کے راوی یزید بن رومان نے عہد عمر رضی اللہ عنہ کو پایا ہی نہیںاور اگر اسے بالفرض صحیح بھی مان لیا جائے تو تب بھی پہلا اثر راجح ہے کیونکہ اس میں یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوگیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھاجبکہ دوسرے اثر میں یہ ہے کہ لوگ عہد عمر رضی اللہ عنہ میں ۲۳ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ لہٰذا جس کام کا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا وہی راجح ہوگا کیونکہ وہ سنت کے مطابق ہے۔
(۳) صدقہ کرنا اور دیگر نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا
رمضان المبارک میں صیام وقیام کے علاوہ حسب ِ استطاعت صدقہ بھی کرنا چاہئے اور نیکی کے کام کثرت سے کرنے چاہئیں،کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس مبارک مہینے میں خیر کے تمام کاموں کی طرف سبقت لے جاتے تھے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ
(( کَانَ النَّبِیُّ صلي الله عليه وسلم أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَیْرِ،وَکَانَ أَجْوَدَ مَا یَکُوْنُ فِیْ رَمَضَانَ حِیْنَ یَلْقَاہُ جِبْرِیْلُ،وَکَانَ جِبْرِیْلُ علیہ السلام یَلْقَاہُ کُلَّ لَیْلَةٍ فِیْ رَمَضَانَ حَتّٰی یَنْسَلِخَ ،یَعْرِضُ عَلَیْہِ النَّبِیُّ صلي الله عليه وسلم الْقُرْآنَ،فَإِذَا لَقِیَہُ جِبْرِیْلُ علیہ السلام کَانَ أَجْوَدَ بِالْخَیْرِ مِنَ الرِّیْحِ الْمُرْسَلَةِ))
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ خیر کے کام کرتے تھے اور آپ سب سے زیادہ خیر کے کام رمضان المبارک میں کرتے جبکہ حضرت جبریل آپ سے ملتے اور حضرت جبریل آپ سے رمضان المبارک کی ہر رات کو ملتے اور دورانِ ملاقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں قرآن مجید سناتے۔ لہٰذا جب حضرت جبریل ملتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیز ہوا سے بھی زیادہ جلدی کرتے ہوئے خیر کے کاموں کی طرف سبقت لے جاتے۔ ‘‘
خاص طور پر روزہ داروں کی افطاری کا اہتمام ضرور کرنا چاہئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا کَانَ لَہُ مِثْلُ أَجْرِہٖ غَیْرَ أَنَّہُ لَا یَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَیْئٌ ))
’’ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے اسے بھی اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا روزہ دار کو ملتا ہے اور خود روزہ دار کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں آتی ۔‘‘
(۴) تلاوتِ قرآن :
رمضان المبارک میں جن اعمالِ صالحہ کا زیادہ اہتمام کرنا چاہئے ان میں سے ایک عمل تلاوت قرآن مجید ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میںجہاں رمضان کے روزوں کی فرضیت ذکر کی ہے وہاں اس کے ساتھ ماہِ رمضان المبارک کی ایک خصوصیت یہ بھی ذکر فرمائی ہے کہ اس نے اس ماہ میں قرآن مجید کو نازل فرمایا جوکہ لوگوں کیلئے باعث ہدایت ہے ۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کا رمضان المبارک سے گہرا تعلق ہے ، اس لئے اس مبارک مہینے میں قرآن مجید کی تلاوت زیادہ سے زیادہ کرنی چاہئے ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس ماہ میں اس کا خاص اہتمام فرماتے اور رمضان المبارک کی ہر رات حضرت جبریل علیہ السلام کو قرآن مجید سناتے تھے ۔ جیسا کہ ہم صحیح بخاری کی حدیث کے حوالے سے پہلے عرض کر چکے ہیں ۔اور تلاوتِ قرآن مجید کے فضائل میں یہی فضیلت کافی ہے کہ اس کے ایک ایک حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ فَلَہُ بِہ حَسَنَةٌ،وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا،لَا أَقُوْلُ:ألٰمّ حَرْفٌ،وَلٰکِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ،وَلَامٌ حَرْفٌ،وَمِیْمٌ حَرْفٌ))
’’جو آدمی کتاب اللہ ( قرآن مجید ) کا ایک حرف پڑھتا ہے اسے ایک نیکی ملتی ہے اور ایک نیکی اس جیسی دس نیکیوں کے برابر ہوتی ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ( ألم ) ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے ، لام دوسرا اور میم تیسرا حرف ہے ۔ ‘‘
واضح رہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس میں تدبر اور غور وفکر بھی کرنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب اسی لئے اتاری ہے کہ اسے پڑھا جائے ، اس میں غور وفکر کیا جائے اور اسے اپنا دستورِ حیات بنایا جائے ۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿٢٩﴾
’’ یہ کتاب بابرکت ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ اس کی آیتوں میں غور وفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں ۔ ‘‘
(۵) دعا ، ذکر اور استغفار
رمضان المبارک کے اہم اعمال میں سے ایک عمل روزے کے دوران زیادہ سے زیادہ دعا ، استغفار اور ذکر الٰہی کرنا ہے کیونکہ روزہ دار کی دعا ان دعاؤں میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوتی ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ لَا تُرَدُّ:دَعْوَۃُ الْوَالِدِ لِوَلَدِہٖ،وَدَعْوَۃُ الصَّائِمِ،وَدَعْوَۃُ الْمُسَافِرِ ))
’’تین دعائیں رد نہیں کی جاتیں۔اپنی اولاد کے لیے والد کی دعا ، روزہ دار کی دعا اور مسافر کی دعا ۔ ‘‘
ایک روایت میں فرمایا :
(( ثَلاَثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ:دَعْوَۃُ الصَّائِمِ،وَدَعْوَۃُ الْمَظْلُوْمِ،وَدَعْوَۃُ الْمُسَافِرِ ))
’’ تین دعائیں قبول کی جاتی ہیں : روزہ دار کی دعا ، مظلوم کی دعا اور مسافر کی دعا ۔ ‘‘
خاص طور پر افطاری کے وقت ضرور دعا کرنی چاہئے کیونکہ وہ وقت قبولیت کے اوقات میں سے ہے ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کرامی ہے:
(( إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِہٖ لَدَعْوَۃً مَا تُرَدُّ ))
’’ بے شک روزہ دار کی‘ افطاری کے وقت ایک دعا ایسی ہوتی ہے جسے رد نہیں کیا جاتا۔ ‘‘ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس ماہِ مبارک کی برکات سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے۔ آمین
دوسرا خطبہ
پہلے خطبہ میں ہم نے رمضان المبارک کی اہمیت وفضیلت اور رمضان المبارک کے خصوصی اعمال ذکر کئے ، اب آئیے روزے کے چند ضروری آداب ومسائل بھی سن لیجئے ۔
(۱) روزہ کی نیت :
فرض روزے کی نیت طلوع فجر سے پہلے کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(( مَنْ لَّمْ یُبَیِّتِ الصِّیَامَ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ،فَلَا صِیَامَ لَہُ))
’’جس نے طلوع فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں ہے ۔ ‘‘
لیکن نفلی روزے کی نیت طلوع فجر کے بعد ظہر سے پہلے بھی کی جاسکتی ہے بشرطیکہ طلوعِ فجر کے بعد کچھ نہ کھایا پیا ہو ۔واضح رہے کہ نیت کا تعلق دل سے ہے، لہٰذا دل ہی میں روزہ کی نیت کی جائے اورجہاں تک نیت کے مروجہ الفاظ (وَبِصَوْمِ غَدٍ نَوَیْتُ مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ)کا تعلق ہے تو یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہیں ۔
(۲) سحری کھانا
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( تَسَحَّرُوْا فَإِنَّ فِی السَّحُوْرِ بَرَکَةً ))
’سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ ‘‘
اور دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا:
((اَلسَّحُوْرُ کُلُّہُ بَرَکَةٌ،فَلَا تَدَعُوْہُ،وَلَوْ أَنْ یَّجْرَعَ أَحَدُکُمْ جُرْعَةً مِّنْ مَّاءٍ،فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ عَلَی الْمُتَسَحِّرِیْنَ))
’’ سحری ‘ پوری کی پوری برکت ہے ، اس لئے اسے مت چھوڑا کرو اگرچہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ سحری کرنے والوں پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے ان کیلئے دعا کرتے ہیں ۔ ‘‘
سحری تاخیر سے کھانا افضل ہے۔ جیسا کہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ سحری کھاتا، پھر جلدی جلدی آتا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ لوں۔
اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کرتے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی طرف چلے جاتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے پوچھا : اذان اور سحری کے درمیان کتنا وقفہ ہوتا تھا ؟ تو انھوں نے کہا : پچاس آیات کی تلاوت کے بقدر ۔ ‘‘
اور اگر رات کو روزے کی نیت کرکے سوئے اور صبح سحری کے لئے بیدار نہ ہوسکے تو ایسی صورت میں بغیر کچھ کھائے پیئے روزہ مکمل کرلے تو روزہ صحیح ہوگا ۔اور اگر غسل ِ واجب کی حاجت ہو اور سحری کا وقت کم ہو تو ایسی صورت میں وضو کرکے پہلے سحری کھا لی جائے اور بعد میںغسل کرکے نماز ادا کرلیں۔ جیسا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ بعض اوقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کے وقت اس حالت میں بیدار ہوتے کہ آپ اپنے گھر والوں سے جنبی ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرتے اور اس دن کا روزہ بھی رکھتے ۔
(۳) جھوٹ‘بہتان طرازی ‘ غیبت‘ چغلی ‘ گالی گلوچ اور طعن وتشنیع سے بچنا
روزے کے دوران ان تمام چیزوں سے بچنا ضروری ہے ۔ جیسا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(( مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَةٌ أَنْ یَّدَعَ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ))
’’ جو شخص جھوٹی بات اور اس پر عمل کو نہیں چھوڑتا تو اﷲ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑدے ۔ ‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَیْسَ الصِّیَامُ مِنَ الْأَکْلِ وَالشُّرْبِ،إِنَّمَا الصِّیَامُ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ،فَإِنْ سَابَّكَ أَحَدٌ أَوْ جَہِلَ عَلَیْكَ فَقُلْ:إِنِّیْ صَائِمٌ،إِنِّیْ صَائِمٌ ))
’’ روزہ صرف کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں بلکہ بے ہودگی اور بے حیائی کو چھوڑنا بھی روزے میں شامل ہے۔ پس اگر تمھیں کوئی شخص گالی دے یا بد تمیزی کرے تو تم کہو:میں تو روزے کی حالت میں ہوں ، میں تو روزے کی حالت میں ہوں ۔‘‘
(۴) افطاری
آفتاب غروب ہوتے ہی روزہ افطار کرلینا چاہئے اور اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے :
(( لَا یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا عَجَّلُوْا الْفِطْرَ))
’’ جب تک لوگ جلدی افطاری کرتے رہیں گے وہ خیر کے ساتھ رہیں گے ۔ ‘‘
بہتر یہ ہے کہ افطاری تازہ کھجور کے ساتھ کی جائے اور اگرتازہ کھجور میسر نہ ہوتو پرانی کھجور سے کر لی جائے اور اگر پرانی کھجور بھی نہ ہو تو پانی سے افطاری کی جا سکتی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ( مغرب ) سے پہلے تازہ کھجوروں سے افطاری کرتے ، اگر تازہ کھجور نہ ملتی تو پرانی کھجور سے کر لیتے اور اگر پرانی کھجور بھی نہ ملتی تو پانی کے چند گھونٹ پی کر افطاری کر لیتے۔
افطاری کی دعا
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار فرماتے تو یہ دعا پڑھتے:
(( ذَھَبَ الظَّمَأُوَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءاللّٰہُ ))
’’پیاس بجھ گئی اور رگیں تر ہوگئیں اور اللہ نے چاہا تو اجر بھی ثابت ہوگیا ۔ ‘‘
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس مبارک مہینے میں زیادہ سے زیادہ اپنی عبادت کرنے کی توفیق دے اور ہمیں ان خوش نصیبوں میں شامل کردے جن کی وہ اس میں مغفرت کرے گا اور ان کی گردنیں جہنم سے آزاد کرے گا ۔ آمین