رنج و غم کی حقیقت

﴿ وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ۝﴾ (البقرة:155)
’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔“
یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی غم میں ضرور مبتلا ہوتا ہے غم تو آپ جانتے ہی ہیں کہ کیا ہوتا ہے !
غم: رنج، دکھ، افسوس اور حزن و ملال کو کہتے ہیں،
غم: دل میں پائی جانے والی گھٹن اور انقباض کو کہتے ہیں۔ اور شاید آپ جاننا چاہیں گے کہ یہ رنج ، ملال، گھٹن اور انقباض کیوں ہوتا ہے؟ رنج و غم اور حزن و ملال انسان کو دو طرح سے ہوتا ہے، ایک مستقبل میں متوقع کسی نقصان ، ضرر، تکلیف اور پریشانی کے باعث، اور دوسرے کسی ایسی تکلیف، مصیبت، پریشانی اور آزمائش کے سبب جو ماضی میں آچکی ہو۔
مستقبل میں کسی متوقع خطرے سے پہنچنے والی پریشانی کے لیے عربی میں الہم کا لفظ جاتا ہے، اور ماضی میں کسی آئی ہوئی مصیبت پر رنجیدہ اور غمگین ہونے کو غم کہا جاتا ہے۔
یوں تو دنیا میں بے شمار غم میں ماضی کے حوالے سے بھی اور مستقبل کے اعتبار سے بھی، لیکن ہم اس وقت اس غم کے حوالے سے بات کرنا چاہیں گے جو مستقبل کے لحاظ سے ہے اور جسے الہم کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے مستقبل میں کسی چیز کی فکر اور پریشانی۔
کس کس چیز کے مستقبل کی انسان کو فکر ہو سکتی ہے،یقینًا بے شمار چیزیں ہیں، چند مشہور چیزیں جن کے لیے انسان بہت فکر مند ہوتا ہے، وہ ہیں: مال و دولت کا حصول ، شادی کی خواہش، اولاد کی طلب، کسی عہدہ و منصب کا ارمان ، اور اسی طرح اور بے شمار چیزیں ہیں جیسے گاڑیاں ، کوٹھیاں کاروبار، نوکر چاکر، زرعی زمینیں وغیرہ۔
یہاں غم سے مراد کسی چیز کی دل میں سرسری سی خواہش پیدا ہوتا نہیں ہے، بلکہ مستقبل کا غم وہ ہوتا ہے جس کی فکر انسان دل کو لگا لیتا ہے، جس کا غم دل میں ایسا بسا لیتا ہے کہ پھر انسان کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا اور دیگر تمام مصروفیات اسی قسم کے گرد گھومتی ہیں، اسی تناظر میں ہوتی ہیں۔ ہم اگر اپنے اپنے بارے میں جانا چاہیں کہ ہم کس کس غم میں مبتلا ہیں اور ہمارا نمبر ون تم کون سا ہے، تو ہمیں اپنے آپ کو جاننے میں مددمل سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ اپنے آپ کو نہیں جانتے، وہ اپنی ظاہری وضع قطع سے ایک دھوکے میں ہیں، یا انہوں نے جان بوجھ کر اپنے آپ کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔
تو ہم اگر جاننا چاہیں کہ ہماری اصلی شخصیت کیا ہے، ہمارا اندر کا انسان کیسا ہے، کن اوصاف کا حامل ہے تو ہمیں ایمانداری سے، نہایت سچائی کے ساتھ اس بات کا اقرار و اعتراف کرنا ہوگا کہ ہمارا نمبر ون مسئلہ کون سا ہے، اور ہم نے دل میں کون ساغم پال رکھا ہے
جو سر فہرست ہے۔ یہ جاننا کیوں ضروری ہے کہ ہم نے دل میں جو بے شمار قم بسا رکھے ہیں ان میں سے پہلے نمبر کا غم کون سا ہے ؟
اس لیے کہ غموں کی ترتیب وار فہرست میں سے جو تم پہلے نمبر پر ہوتا ہے اس کے مطابق انسان زندگی گزارتا ہے، اور اس کو باقی تمام غموں پر ترجیح دیتا ہے، اس کے لیے سنجیدہ اور مخلصانہ کوششیں کرتا ہے۔ وہ غم تمام غموں پر غالب ہوتا ہے، وہ مقصد حاصل ہوا تو گویا سب کچھ حاصل ہو گیا، ایسا غم اور مقصد کہ جس پر تمام غموں کو قربان کیا جا سکے، مگر اس پر کوئی کمپرومائز نہ ہو، وہی انسان کی اصلی شخصیت ہوتا ہے۔ تو ہمیں کون ساغم کھائے جا رہا ہے، ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ یہ سوال ہماری سمت اور جہت متعین کرے گا اور ہماری شخصیت اور اصلیت کو عیاں کرے گا۔
تو آیئے جانتے ہیں کہ کیسے؟
حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ جَعَلَ الْهُمُوْمَ هَمَّا وَاحِدًا، هَمَّ آخِرَتِهِ، كَفَاهُ اللهُ هَمَّ دُنْيَاهُ))
’’جس نے تمام غموں کو ایک تم میں سمو دیا، اپنی آخرت کے غم میں، اللہ تعالی اسے دنیا کے غموں میں کفایت کر دیتا ہے۔‘‘
یعنی اسے دنیا کے غموں میں فکر مند، غمگین اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں رہتی اللہ تعالیٰ خود ہی اس کے غموں کا مداوا کر دیتا ہے۔
((وَمَنْ تَشَعَّبَتْ بِهِ الْهُمُومُ فِي أَحْوَالِ الدُّنْيَا لَمْ يُبَالِ اللهُ فِي أَي أَوْدِيَتِهَا هَلَكَ))
’’اور دنیا کے احوال میں جس کے غم بکھرے پڑے ہوں، یعنی بہت کی خواہشات کے غم جس نے اپنے دل میں بسا رکھے ہوں ۔‘‘
((لم يُبالِ اللهُ فِي أَيِّ أَوْدِيَتِهَا هَلَكَ)) (ابن ماجة:257)
’’تو اللہ تعالی اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ وہ ان میں سے کسی وادی میں ہلاک ہوتا ہے۔‘‘
اب اس حدیث کی روشنی میں سوال واضح ہو گیا ہوگا ، اور ہمیں یہ معلوم کرنے میں آسانی ہوگئی ہوگی کہ ہم نے اپنے دل و دماغ پر کون سا غم سوار کر رکھا ہے۔ لیکن شاید اس سے کسی کو کوئی ذہنی الجھاؤ بھی پیدا ہو گیا ہو، کوئی آدمی یوں سوچنے لگے کہ اس کا مطلب ہے کہ دنیا کے تمام کام چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ جائیں اور آخرت کی فکر میں گوشہ نشینی اور رہبانیت اختیار کر لیں ؟یقینًا نہیں! اسلام اس بات کا مطالبہ کرتا ہے اور نہ اجازت دیتا ہے بلکہ اسلام تو حج کے دنوں میں بھی کاروبار دنیوی سے نہیں روکتا۔ قرآن کہتا ہے۔
﴿لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلاً مِنْ رَّبِّكُمْ ﴾ (البقرة:198)
’’ اور حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔‘‘
حضرت ابوامامہ التیمی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
((قالَ كُنتُ رَجُلًا أُكْرِي فِي هَذَا الْوَجْهِ، وَكَانَ نَاسٌ يَقُولُونَ لِي إِنَّهُ لَيْسَ لَكَ حَجٌّ))
’’کہ میں سفر میں کرائے کی سواریاں چلایا کرتا تھا تو بعض لوگوں نے مجھ سے کہا: تیرا حج نہیں ہے۔‘‘
((فَلَقِيْتُ ابْنَ عُمَرَ فَقُلْتُ يَا أَبَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ إِنِّي رَجُلٌ أُكْرِى فِي هَذَا الْوَجْهِ، وَإِنَّ نَاسًا يَقُولُونَ لِي إِنَّهُ لَيْسَ لَكَ حَجٌّ))
’’میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے ملا، میں نے پوچھا اے ابو عبد الرحمن! میں کرائے پر سواریاں چلاتا ہوں تو بعض لوگ کہتے ہیں تیرا حج نہیں ہے۔‘‘
((فَقَالَ ابْن عُمر اَلَيْسَ تُحْرِمُ وَتُلَبِّى وَتَطُوْفُ بِالْبَيْتِ وَتُفِيْضُ مِنْ عَرَفَاتٍ وَ تَرْمِي الْجِمَار؟))
’’تو ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: کیا تم نے احرام نہیں باندھا، تلبیہ نہیں پڑھتے؟ بیت اللہ کا طواف نہیں کرتے ہو؟ عرفات سے نہیں لوٹتے ہو؟ اور جمعرات کو کنکریاں نہیں مارتے ہو؟‘‘
قریش مکہ جب حج کرتے تو عرفات تک نہیں جاتے تھے بلکہ مزدلفہ سے ہی واپس لوٹ آتے تھے، کیونکہ منی اور مزدلفہ تو حدود حرم میں داخل ہیں مگر عرفات حرم سے باہر ہے اس لیے وہ عرفات نہیں جاتے تھے مگر اسلام میں وقوف عرفہ حج کا بنیادی رکن ہے جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا: (الحج عرفة ) عرفہ حج ہے، لہٰذا جس نے وقوف عرفہ نہ کیا اس کا حج نہیں ہے۔
تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نےاس شخص سے فرمایا: کیا تو یہ سارے اعمال ادا نہیں کرتا ؟
((قَالَ: قُلْتُ: بَلٰى))
’’کہا: ہاں کیوں نہیں ۔‘‘
((قَالَ: فَإِنَّ لَكَ حَجًّا))
’’فرمایا: پھر تیرا حج صحیح ہے۔‘‘
اور پھر فرمایا:
((جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَسَأَلَهُ عَنْ مِثْلِ مَا سَأَلْتَنِي عَنْهُ))
’’ایک آدمی نبیﷺ کے پاس آیا اور اس نے بھی وہی سوال کیا تھا جو تم نے کیا ہے۔‘‘
((فَسَكَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَلَمْ يُحِبُهُ حَتَّى نَزَلَتْ هَذِهِ الآية)) (ابوداود:1733 ، البيهقی، ج:4، ص:333 ، رقم:8440)

’’تو رسول اللہ ﷺ خاموش رہے اور اس کو جواب نہ دیا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘
﴿لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّنْ رَبِّكُمْ﴾ (البقرة:198)
’’کہ حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرو، یعنی تجارت کرو تو کوئی حرج نہیں ۔‘‘
تو اسلام ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ لوگ دنیا سے کنارہ کش ہو کر آخرت کی فکر میں لگ جائیں، بلکہ صرف یہ چاہتا ہے کہ ترجیح فکر آخرت کو حاصل ہو، زندگی کا اولین اور سب سے اہم مسئلہ آخرت کا مسئلہ ہو اور جب فکر آخرت انسان کا سب سے اہم مسئلہ ہوگا تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انسان کی روزہ مرہ زندگی کا نقشہ کیا ہوگا۔ پھر وہ نیند پر نماز کو قربان نہیں کرے گا، کاروبار کو دین پر ترجیح نہیں دے گا، پھر وہ لاٹو ، بیئر اور سود کے لیے دین کو نہیں بیچے گا۔ پھر وہ بے دین لوگوں کے ساتھ دوستی کا دم نہیں بھرے گا، اور دین بے زار عورت کے ساتھ شادی نہیں کرے گا، وہ اپنی بے دین اولاد اور بے دین بہن بھائیوں کے لیے اپنی تجوریوں کے منہ نہیں کھولے گا۔ اس کا دین کے ساتھ تعلق اسے حق اور باطل میں، اچھے اور برے میں تفریق کرنے پر مجبور کر دے گا، پھر فیصلے صرف دین کی بنیاد پر ہوں گے اور جیسا کہ حدیث میں ہے کہ:
کچھ فرشتے آپ سے ان کے پاس آئے، آپ سورہے تھے، وہ آپس میں باتیں کرنے گئے، کسی نے کہا کہ آپ سو رہے ہیں، کسی نے کہا کہ آپ کی آنکھیں سو رہی ہیں اور دل جاگ رہا ہے۔
اور ایک دوسری حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا:
((تَنَامُ عَيْنِي وَلَا يَنَامُ قَلْبِي)) (بخاری:3569)
’’میری آنکھیں ہوتی ہیں اور دل نہیں سوتا ۔‘‘
اور یہ آپ ﷺ کی خصوصیت ہے، چنانچہ آپ ﷺ کے نیند سے بیدار ہونے پر وضو ضروری نہیں تھا۔
تو فرشتوں نے جو باتیں کیں، ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ((وَمُحَمَّدٌ فَرَّقَ بين النَّاسِ)) (بخاری:7281)

’’اور محمدﷺ نے لوگوں میں تفریق پیدا کر دی ہے۔‘‘
یعنی مومن اور کافر میں حق اور باطل میں۔ اب سب ایک ہی نہیں ہیں، بلکہ یا آدمی دین دار ہے یا نہیں ہے۔ سب ٹھیک ہے والا دھوکہ آدمی کو اس وقت لگتا ہے جب وہ سب کام بے دینی کے کرتا ہے ایک دو نمازیں پڑھ لیتا ہے تو اسے یوں لگتا ہے کہ وہ دین دار ہے، مگر ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جب تک دین اس کی ترجیح نہیں ہوگا وہ چاہے منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں کو نصیحتیں کرتا پھرے، دین دار نہیں ہو سکتا۔
دین جن کی ترجیح ہوتی ہے، ان کا معاملہ ہی کچھ اور ہوتا ہے، ان کی زندگی عجیب ہوتی ہے، ان کی سوچ اور فکر صرف نماز روزے تک محدود نہیں ہوتی، بلکہ غلبۂ دین تک پھیلی ہوتی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ چند دیگر صحابہ کے ساتھ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے، فرمایا: (تَمَنَّوا)
’’کوئی خواہش کرو۔‘‘
((فَقَالَ أَحَدُهُمْ: أَتَمَنَّى لَوْ أَنَّ هَذِهِ الدَّارَ مَمْلُونَةٌ ذَهَبًا أَنْفِقُهُ فِي سَبِيْلِ الله))
’’ان میں سے ایک شخص نے کہا: میری خواہش ہے کہ اگر یہ گھر سونے سے بھرا ہوا ہو تو میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دوں۔‘‘
((ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: تَمَنَّوْا .))
’’پھر عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: (کوئی اور ) خواہش کرو۔‘‘
((فَقَالَ رَجُلٌ آخَرَ: أَتْمَنَّى لَوْ أَنَّهَا مَمْلُونَةٌ لُؤْلُؤًا وزَبَرْجداً وَجَوهَرًا أُنْفِقُهُ فِي سَبِيلِ اللهِ وَاَتَصَدَّقَ بِهِ))
تو ایک دوسرے شخص نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ اگر یہ گھر ہیرے جواہرات، موتی اور زمرد سے بھرا ہوا ہو تو میں اسے اللہ کی راہ میں صدقہ خیرات کر دوں ۔‘‘
((ثُمَّ قَالَ تَمَنَّوْا))
’’پھر فرمایا: خواہش کرو۔‘‘
((فَقَالُوا: مَا نَدْرِي مَا تَقُولُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ!))
’’انہوں نے کہا: اے امیر المؤمنین ! ہم نہیں جانتے ہم کیا کہیں ؟‘‘
((فَقَالَ عُمرُ وَلٰكِنِّي أَتَمَنّٰى رِجَالاً مِثْلَ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجِرَّاحِ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَسَالِمُ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ،
فاسْتَعْمِلُهُمْ فِي طَاعَةِ اللهِ)) (التاريخ الأوسط للبخاري، ج:1، ص:54 ، رقم:201)
’’امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ’’لیکن میری خواہش ہے کہ ابو عبیدہ بن جراح ، معاذ بن جبل ابو حذیفہ کے غلام سالم جیسے لوگ ہوں اللہ کی اطاعت میں ان سے کام لوں ۔‘‘
غلبۂ دین کی فکر فہم دین اور نسبت دین کو ظاہر کرتی ہے، آج تبلیغ اسلام اور غلبہ دین سے جس قدر ہم بے فکر، بے تعلق اور بے پروا ہیں، اگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم بھی ہمارے جیسی سوچ اور طرز زندگی رکھتے ہوتے تو اسلام ہم تک بھی نہ پہنچ پاتا۔
غلبۂ دین کے لیے انہوں نے کیا کوششیں کیں اور کیا قربانیاں دیں تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں۔
((قالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ تَعْلَمُونَ أَوَّلَ زُمْرَةٍ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي؟))
’’رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جانتے ہو میری امت کی کون سی جماعت سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگی؟‘‘
((قَالُوا اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ))
’’صحابہ نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔‘‘
((فَقَالَ: فَقَرَاء الْمُهَاجِرين‘‘
’’تو فرمایا: ہجرت کرنے والے فقراء‘‘
((يأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَى بَابِ الْجَنَّةِ يَسْتَفْتِحُونَ‘‘
’’روز قیامت وہ جنت کے طرف آئیں گے اور درواز و کھٹکھٹا ئیں گے۔‘‘
((فَيَقُولُ لَهُمُ الْخَزَنَةُ، أَوَ قَدْ حُوسِبْتُمْ))
’’انھیں دربان کہیں گے اور کیا تمھارا حساب ہو چکا ؟‘‘
((فَيَقُولُونَ: بِأَيِّ شَيْءٍ نُحَاسَبُ، وَإِنَّمَا كَانَتْ أَسْيَافْنَا عَلٰى عَوَاتِقِنَا فِي سَبِيلِ اللهِ حَتَّى مِتْنَا عَلٰى ذَلِكَ))
’’تو وہ کہیں گے ہم سے کسی چیز کا حساب لیا جائے گا جبکہ ہماری تلواریں زندگی بھر ہمارے کندھوں پر رہیں حتی کہ ہمیں اس حال پر موت آئی۔‘‘
((قَالَ: فَتَفْتَحُ لَهُمْ))
’’فرمایا: پس ان کے لیے دروازہ کھول دیا جائے گا ۔‘‘
((فَيَقِيلُونَ فِيهَا أَرْبَعِيْنَ عَامًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَهَا النَّاسُ))(شعب الإيمان للبيهقي، ج:1، ص:120، رقم:3955)
’’تو وہ لوگوں کے داخل ہونے سے چالیس سال پہلے اس میں آرام کر رہے ہوں گے۔‘‘
آج ہم میں ان کے نقش قدم پر کوئی چلنے والا نظر نہیں آتا، مسلم ممالک میں فری میسنری کے جگہ جگہ دفاتر اور روٹری کلب بنے ہوئے ہیں جن میں بے حیائی پھیلائی جاتی ہے اور دین سے بے زار کیا جاتا ہے۔ مشنریز نے لوگوں کو گمراہ کرنے کا ایک جال پھیلا رکھا ہے اور ہم حرام دولت سمیٹنے میں صبح وشام مصروف عمل ہیں۔ فکر آخرت کو اپنی زندگی کا سب سے اہم اور اولین مسئلہ قرار دینے کےیقینًا دنیوی اور اخروی فوائد ہیں اور پس پشت ڈالنے کے شدید نقصانات ہیں۔
جیسا کہ حدیث میں ہے:
((مَنْ كَانَتِ الآخرة هَمُّه جَعَلَ اللهُ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ وَجَمَعَ لَهُ شَمْلَهُ وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِي رَاغِمَةٌ))
’’جس کی فکر اور غم آخرت ہو اللہ تعالی اس کے دل میں غنا ر کھ دیتا ہے، اس کا شیراز ہ مجتمع کر دیتا ہے اور دنیا مجبور و بے بس ہو کر ذلیل و رسوا ہو کر اس کے پاس آتی ہے۔‘‘
((وَمَنْ كَانَتِ الدُّنْيَا هَمَّهُ جَعَلَ اللهُ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَفَرَّقَ عَلَيْهِ شَمْلَهُ، ولم يأْتِهِ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مَا قُدِّرَ لَهُ)) (ترمذی:2465)

’’اور جس کی سوچ اور غم کا محور سراسر دنیا ہو تو اللہ تعالی اس کی فقیری کو اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھ دیتا ہے اور اس کا شیرازہ منتشر کر دیتا ہے اور اسے دنیا بھی فقط اتنی ہی ملتی ہے جتنی اس کے مقدر میں ہوتی ہے۔‘‘
اور جب کوئی انسان آخرت کی فکر اور آخرت کا غم دل میں بسا لیتا ہے تو پھر اس کی دنیا بھی آسان ہو جاتی ہے، اور آخرت بھی آسان ہو جاتی ہے اور اس کے بہت سے حوالہ جات میں سے ایک حدیث ملاحظہ فرمائیے ، حدیث قدسی ہے ، اللہ تعالی فرماتے ہیں: ((فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرُهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدُهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا ، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَاُعِيذَنَّهُ وَ مَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِى عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ يَكْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ)) (بخاری:6502)
’’اللہ تعالی فرماتا ہے: جب میں اپنے بندے سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا كان بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہسنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں اسے دیتا ہوں، اگر وہ مجھ سے پنا ہ طلب کرے تو میں اس کو پناہ دیتا ہوں میں کسی چیز میں تردد نہیں کرتا جس کو میں کرنے والا ہوتا ہوں جو مجھے کسی مومن کی جان نکالتے وقت ہوتا ہے وہ موت کو نا پسند کرتا ہے اور میں اس کی تکلیف کو نا پسند کرتا ہوں ۔‘‘
مطلب یہ کہ اس کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا ، لینا دینا سننا بولنا، سب کچھ اللہ تعالی کی توفیق سے اس کے لیے ہوتا ہے اور اسی کے احکامات کے مطابق ہوتا ہے۔
……………………….