رسول اللہ ﷺ کا خواب

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیؕ۝۳
اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیۙ۝۴﴾ [النجم: 3-4]
انبیاء کرام کو اللہ رب العزت نے جو اعزازات بخشے ہیں ان میں ایک اعزاز یہ ہے کہ پیغمبروں کا خواب بھی اللہ کی وحی ہوا کرتا ہے۔ قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد رسول اللہﷺ کے خواب مذکور ہیں اور ان خوابوں کا برحق ہونا بھی مذکور ہے۔
اللہ تعالی سورہ یوسف میں فرماتے ہیں:
﴿اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ۝۴﴾ [يوسف: 4]
’’جب (حضرت) یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے ذکر کیا کہ ابا جان میں نے گیارہ ستاروں کو اور سورج چاند کو (خواب میں) دیکھا کہ وہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔‘‘
اور سورہ الصّٰفّٰت میں اللہ فرماتے ہیں:
﴿فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی ؕ قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ؗ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ۝۱۰۲﴾ [الصفت: 102]
’’پھر جب وہ (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرئے تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میرے پیارے بیٹے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے بیٹے نے جواب دیا کہ ابا جان! جو حکم ہوا ہے اسے بجالا یے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گئے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ سورۃ الفتح میں فرماتے ہیں:
﴿لَقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْیَا بِالْحَقِّ﴾ [الفتح: 27]
’’یقینًا اللہ تعالی نے اپنے رسول کو خواب سچا دکھایا۔‘‘
ان آیات مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے خواب بچے اور برحق ہوتے ہیں)۔
تو آج کے خطبہ میں امام الانبیاء سید الرسل خاتم النبیین جناب محمد رسول الله ﷺ کا ایک مفصل خواب بیان کرنا چاہتا ہوں جو خود رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کو سنایا۔ پہلا مقام کتاب الجنائز کے اخیر میں ہے۔ اور دوسرا مقام کتاب التعبیر میں ہے۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ
معمول مبارک تھا کہ جب نماز فجر سے فارغ ہوتے تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو مخاطب کر کے پوچھتے کیا گزشتہ رات تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟ اگر کوئی خواب سناتا تو آپ ﷺ اللہ کے حکم سے اس کی تعبیر فرماتے۔
ایک دن حسب معمول آپﷺ نے سوال کیا اس دن کسی نے کوئی خواب نہ سنایا تو آپﷺ نے فرمایا:
’’آج رات میں نے خواب دیکھا ہے کہ میرے پاس دو شخص آئے انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے ارض مقدس کی جانب لے گئے وہاں ایک شخص بیٹھا ہوا تھا اور ایک کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں لوہے کی کنڈی تھی وہ اس کو اس شخص کی ایک باچھ میں داخل کرتا اور اس کی گدی تک اس کو چیرتا تھا۔ پھر اس کی دوسری باچھ کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا۔ اس دوران اس کی پہلی یاچھ درست ہو جاتی تو وہ دوبارہ اسے کنڈی کے ساتھ چیرتا۔ میں نے دریافت کیا یہ کیا ہے؟ ان دونوں نے کہا: ابھی آپ (ﷺ) آگے چلیں۔ ہم آگے چلے یہاں تک کہ ایک شخص کے پاس پہنچے جو اپنی گدی کے بل لیٹا ہوا تھا اور ایک دوسرا آدمی اس کے سر پر پتھر لے کر کھڑا تھا اور اس کے ساتھ اس کے سرکو کچل رہا تھا جب وہ اسے پتھر مارتا تو پھر لڑھک جاتا۔ وہ پتھر اٹھانے کے لیے اس کی جانب چلتا اس تک پہنچتا نہیں تھا کہ اس کا سر درست ہو جاتا اور وہ پہلے جیسا ہو جاتا۔ وہ پھر اس کی جانب جاتا اور اس کو پتھر مارتا۔ میں نے دریافت کیا یہ کیا ہے؟ ان دونوں نے مجھ سے کہا ابھی آپ (ﷺ) آگے چلیں۔ ہم پھر آگے چلے ہم ایک گڑھے کے پاس پہنچے جو تنور کے مشابہ تھا۔ اس کے اوپر کا حصہ اور نچلا حصہ کھلا تھا اس کے نیچے آگ بھڑک رہی تھی جب آگ بلند ہوتی تو اس میں موجود لوگ بھی بلندی کی جانب آتے قریب تھا کہ اس سے باہر نکل جائیں اور جب آگ نیچے جاتی تو لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس میں ننگے مرد اور تنگی عورتیں تھیں۔ میں نے دریافت کیا یہ کیا ہے؟ ان دونوں نے کہا آپ (ﷺ) چلیں۔ چنانچہ ہم چلے یہاں تک کہ ہم ایک خون کی نہر پر پہنچے اس میں ایک شخص نہر کے درمیان کھڑا تھا اور ایک شخص نہر کے کنارے پر تھا اس کے آگے پتھر تھے نہر میں موجود شخص جب نہر سے نکلنے کا ارادہ کرتا تو کنارے والا شخص اس کے منہ پر پتھر مارتا اور اسے واپس لوٹا دیا وہ جب بھی باہر نکلنا چاہتا تو وہ اس کے منہ پر پتھر مارتا تو وہ وہیں لوٹ جاتا جہاں پہلے تھا۔ میں نے دریافت کیا یہ کیا معاملہ ہے؟ ان دونوں نے کہا: ابھی آپﷺ آگے چلیں۔ چنانچہ ہم آگے چلے یہاں تک کہ ہم ایک سرسبز و شاداب باغ کے قریب پہنچ گئے جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا اور درخت کی جڑ کے قریب ایک بزرگ شخص اور کچھ بچےتھے اور وہاں ایک شخص درخت کے قریب تھا اس کے سامنے آگ تھی جس کو وہ جلا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: انہوں نے مجھے اس درخت پر چڑھایا اور درخت کے درمیان ایک مکان میں لے گئے میں نے اس سے بہتر مکان کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس میں بوڑھے جوان عورتیں اور بچے تھے پھر انہوں نے مجھے وہاں سے نکالا اور ایک دوسرے درخت پر لے گئے وہاں بھی وہ مجھے ایک مکان میں لے گئے جو پہلے مکان سے بھی زیادہ خوبصورت اور بہتر تھا۔ اس میں بوڑھے اور جوان لوگ تھے آپﷺ فرماتے ہیں۔ میں نے ان سے دریافت کیا۔ آج رات تم نے مجھے سیر کرائی ہے مجھے یہ تو بتاؤ کہ میں نے کیا دیکھا ہے۔
انہوں نے جواب دیا ضرور بتلائیں گے! وہ شخص جس کو آپ نے دیکھا کہ اس کی باچھیں چیری جارہی ہیں وہ جھوٹا انسان تھا، جھوٹی باتیں کرتا تھا اور اس سے جھوٹی باتیں لے کر اطراف واکناف میں پہنچائی جاتی تھیں (اسے جھوٹ کی یہ سزادی جا رہی ہے) اور قیامت تک اس کے ساتھ یہی معاملہ ہوتا رہے گا۔ اور جس شخص کو آپﷺ نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا ہے تو یہ وہ شخص تھا جس کو اللہ نے قرآن پاک کا علم عطا کیا لیکن وہ رات بھر سویا رہا اور دن بھر اس کے مطابق عمل نہ کیا (دوسری روایت میں ہے اس نے فرض نماز بھی نہ پڑھی) اس کے ساتھ قیامت تک یہی کچھ ہوتا رہے گا۔ اور جن لوگوں کو آپ ﷺ نے تنور میں دیکھا ہے وہ زانی ہیں۔ اور جس شخص کو آپ ﷺ نے نہر میں دیکھا وہ سود خور ہے اور وہ بزرگ شخص جس کو آپﷺ نے درخت کے تنے کے پاس دیکھا وہ ابراہیم خلیل ہیں اور ان کے گرد جو بچے تھے وہ لوگوں کے بچے ہیں اور جو شخص آگ جلا رہا تھا وہ دوزخ کا دربان فرشتہ ہے۔ اور پہلا مکان جس میں آپﷺ داخل ہوئے تھے وہ عام مومنوں کی رہائش گاہ ہے اور یہ دوسرا مکان شہداء کی رہائش گاہ ہے۔ میں جبرائیل ہوں اور یہ میکائیل ہیں۔
پھر ان دونوں نے کہا: آپﷺ سر اٹھائیں میں نے سر اٹھایا تو میرے سر پر بادل جیسی کوئی چیز تھی۔ اور ایک روایت میں ہے کہ سفید بادل کی طرح تھی انہوں نے بتایا کہ وہ آپ کی رہائش گاہ ہے (اور آپﷺ کا محل ہے) میں نے کہا: مجھے چھوڑ دیں تاکہ میں اپنی رہائش گاہ میں داخل ہو جاؤں؟ انہوں نے کہا ابھی آپ کی عمر باقی ہے ختم نہیں ہوئی جب ﷺ کی عمر ختم ہو جائے گی تو آپ اپنی رہائش گاہ میں داخل ہو سکیں گئے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الجنائز، باب، رقم: 1389 و كتاب التعبير، رقم: 7047]
اس لمبی حدیث میں بنیادی طور پر کل سات باتیں سمجھائی گئی ہیں۔ چار باتیں چار گناہوں کی خطرنا کی پر مشتمل ہیں اور 2 باتیں دو چیزوں ایمان اور شہادت کی فضیلت پر مشتمل ہیں۔ اور ایک بات رسول اللہﷺ کی عظمت و رفعت اور بلندی شان پردلالت کرتی ہے۔ اب ان گناہوں کی قدرے تفصیل آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔
پہلا گناہ جھوٹ بولنا:
اس حدیث میں جس جھوٹ کی خطرناک سزا بیان کی گئی ہے وہ ناولوں افسانوں فلموں ڈراموں اور لطیفوں والا جھوٹ ہے۔ کیونکہ آپﷺ کو بتلایا گیا کہ جس کی باچھیں چیری جارہی ہیں یہ وہ شخص ہے جو جھوٹ بولتا تھا اور اس کا جھوٹ دور دراز تک مشہور ہو جاتا تھا۔ تو یہ جھوٹی کہانیاں ناول افسانے اور ڈرامے ہیں وہ جھوٹ ہے جو دور دراز تک پھیل جاتا ہے اور اس کی تائید دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت بہز بن حکیم اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(وَيْلٌ لِّمَنْ يُّحَدِّثُ فَيَكْذِبُ لِيُضْحِكَ بِهِ القَوْمَ، وَيْلٌ لَّهُ، وَيْلٌ لَّهُ) [سنن أبي داود، كتاب الأدب، باب التشديد في الكذب (4990) (2315) و احمد (302/5)]

’’وہ شخص تباہ برباد ہو گیا جو لوگوں کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولتا ہے۔ اس کے لیے دوزخ ہے اس کے لیے دوزخ ہے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ ایک شخص ایک بات صرف اس لیے کہتا ہے تاکہ لوگوں کو اس سے ہنسائے وہ شخص اس بات کی وجہ سے آسمان اور زمین کے درمیان کی مسافت سے زیادہ گہرے مقام میں گرایا جائے گا اور بلاشبہ آدمی اپنے پاؤں کے پھسلنے سے اتنا نہیں کرتا جتنا اپنی زبان کی لغزش کی وجہ سے گرتا ہے۔‘‘[شعب الإيمان 213/4، رقم: 4832]
لیکن آج یہ خطرناک جھوٹ ہماری تفریح بن چکا ہے۔ ہر وقت ناول، افسانے، فلمیں، ڈرامے، لطیفے شگوفے – اللہ کی پناہ جھوٹ ہی جھوٹ جھوٹ ہی جھوٹ بڑے مزے سے ہم جھوٹ لکھتے بھی ہیں، جھوٹ پڑھتے بھی ہیں، جھوٹ دیکھتے بھی ہیں اور اپنی زبانوں سے یہ جھوٹ لوگوں کو سناتے بھی ہیں آج خطرناک جھوٹ ہمارے دلوں کا قرار بن چکا ہمارا اوڑھنا بچھونا بن چکا۔ ہمارا پسندیدہ مشغلہ بن چکا۔ جبکہ اس جھوٹ کا انجام کس قدر خطر ناک اور بڑا ہے۔
دوسرا گناه، قرآن پر عمل نہ کرنا:
آج خاندانوں اور برادریوں میں یہ رجحان تو ہے کہ بچے کو حافظ اور قاری بنائیں لیکن اس کی تربیت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ بچہ قرآن کا حافظ تو بن جاتا ہے لیکن سارا دن گیمیں کھیلتا اور بدعملیوں میں مصروف رہتا ہے۔ بدعمل قاری اور حافظ کی یہ سزا بیان کی گئی ہے کہ اسے قبر میں قیامت تک سر کچلنے کا عذاب دیا جائے گا۔ آج ہماری برادریوں میں کتنے حافظ وقاری ہیں کہ ماں قاری قاری کرتی ہے باپ قاری قاری پکارتا ہے لیکن بیچارہ حافظ رات کو تہجد تو کجا فرض نماز بھی نہیں پڑھتا۔ اس لیے دوستو اور بزرگو! لمحہ فکریہ ہے۔ حافظ اور قاری ضرور بناؤ لیکن بدعمل نہیں باعمل بناؤ۔ ایسا حافظ نہ بناؤ کہ سینے میں قرآن ہے اور چہرے پر داڑھی نہیں۔ سینے میں قرآن ہے اور زبان گندی ہے۔ سینے میں قرآن ہے اور دل گندہ ہے۔
تیسرا گناه بدکاری:
یہ ایک ایسا خطرناک جرم ہے کہ اگر یہ جرم دنیا میں ثابت ہو جائے تو غیر شادی شدہ کو سو کوڑے مارنے اور ایک سال جلا وطن کرنے کی سزا ہے اور شادی شدہ کو زمین میں نصب کر کے پتھر مار مار کر ہلاک کرنے کا حکم ہے۔ اور اس کی برزخی سزا اس قدر خطرناک ہے کہ ایسے لوگوں کو جہنم نما تنور میں ننگا کر کے ڈالا جائے گا۔
قرآن کریم میں اس گناہ کے دروازے بند کیے گئے ہیں یہ پردے کا حکم یہ نظر کی حفاظت کا مسئلہ یہ مردو زن کی آوارگی اور اختلاط پر پابندی اور عورت کے لیے تنہا سفر پر ممانعت یہ سب کچھ بدکاری کے راستے اور دروازے بند کرنے کے لیے ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا﴾
’’زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔‘‘
یعنی زنا کی طرف لے جانے والے ذرائع سے بھی پرہیز کرو۔
﴿إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا﴾ [الإسراء:32]
’’کیونکہ زنا کھلی بدعملی اور بے حیائی ہے۔‘‘
اس لیے کہ زنا سے دین خراب ہوتا ہے عزت خراب ہوتی ہے معاشرہ خراب ہوتا ہے اس لیے یہ کھلی بے حیائی اور بدترین گناہ ہے۔
لیکن آج ٹی وی، وی سی آر نے مسلم معاشرے کے اندر بے پردگی اور فحاشی و عریانی کا طوفان برپا کر دیا جس کے نتیجے میں بدکاری بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ رسموں رواجوں کی وجہ سے شادیاں مشکل اور مہنگی ہو گئی ہیں اور بدکاری سستی ہوگئی ہے اور بے پردگی نظر کی آوارگی اور مردو زن کے آزادانہ اختلاط کی وجہ سے بدکاری آسان ہوگئی ہے۔
چوتھا گناہ، سود کھانا:
یہ اس قدر خطرناک گناہ ہے کہ کسی جرم کے متعلق قرآن وسنت میں اتنی سخت وعید نہیں جو اس جرم کے متعلق ہے۔ اسے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ کہا گیا ہے۔ اسے پاگل پن اور حماقت کہا گیا ہے۔ اسے جائز قرار دینے والے کو کافر کہا گیا ہے۔ پھر کتب حدیث میں بھی اس مسئلہ کی وضاحت ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود کی تحریر لکھنے والے اور سود کے دو گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا: وہ تمام (گناہ میں) برابر ہیں۔[صحیح مسلم، كتاب البيوع، باب لعن أكل الربا وموكله (4093)]
حضرت عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’سود کا ایک درہم جس کو کوئی شخص جانتے ہوئے کھاتا ہے تو یہ چھتیس بار زنا کے فعل سے بھی سخت برا ہے۔‘‘[احمد 225/5 رقم: 22303، دار قطنی، کتاب البيوع 16/3، رقم: 2819]
غور فرمائیے! سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سود لکھنے والے، (منشی، کلرک، بینک منیجر) اور گواہ سب کو ملعون قرار دیا گیا ہے اور سب کو گناہ میں برابر ٹھہرایا گیا ہے اور سود کے ایک درہم کو چھتیس بار کی بدکاری سے بھی بدترین گناہ قرار دیا گیا ہے۔
اور تیسری حدیث میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’سود کے (گناہ کے) ستر درجے ہیں سب سے معمولی درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی والدہ سے نکاح کرے۔‘‘[مستدرك حاكم، كتاب البيوع، باب أن أربي الربا عرض الرجل المسلم (37/2) وصحيح الجامع الصغير (3533)]
لیکن آج ہمارے معاشرے میں سود کی چند ایسی شکلیں بھی رائج ہیں جو بالکل عیاشی اور اسراف پر مبنی ہیں۔ مثلاً نئے اور پرانے نوٹوں کا متبادل اسی طرح نوٹوں والے ہار خریدنا۔ یہ کام عید یا شادی کے موقع پر محض شوق کے طور پر کیا جاتا ہے حالانکہ یہ خطرناک سود ہے۔ اور مہلک گناہ ہے۔
اس کے بعد اس حدیث میں مؤمنوں اور شہیدوں کی کوٹھیاں آپﷺ کو دکھلائی گئیں۔ حقیقت ہے مومن بننا دنیاوی و اخروی کامیابی کی بنیاد ہے۔
﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ [المؤمنون:1]
’’مؤمن فلاح پاگئے۔‘‘
﴿وَاَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِيْنَ﴾ [آل عمران: 139]
’’تم ہی اعلیٰ ہو اگر تم مؤمن ہو۔‘‘
غور فرمائیے! مؤمن کی کامیابی و کامرانی کا اعلان قرآن کریم میں کیا جا رہا ہے یہ ایمان کی شان و عظمت ہے۔ پھر اگر ساتھ شہادت مل جائے تو نور علی نور ہے کہ شہداء کی جنت عام مؤمنوں کی جنت سے اعلیٰ ہوگی۔ شہید کا زخم تازہ ہو گا رنگت لہو کی ہوگی اور خوشبو کستوری کی ہوگی۔ یہ وہ شان وشوکت ہے جو شہید کو میدان محشر میں حاصل ہوگی۔[سنن ابی داؤد، کتاب الجهاد، باب فيمن سال الله الشهادة، رقم:2541]

پھر حدیث کے آخر میں امام الانبیاء سید الرسل جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی شان اور عظمت کا تذکرہ ہے کہ آپ کا محل بے مثال اور اس قدر عالیشان ہے کہ اس کی بلندی تا حد نگاہ ہے اور اس کی خوبصورتی بیان سے باہر ہے اور وہ بادلوں کی طرح سفید ہے۔ یوں تو اس مفصل حدیث سے اور بھی بہت سارے بے شمار اعتقادی و عملی اسباق حاصل ہوتے ہیں جو پھر کبھی بیان کردوں گا۔
اللہ تعالی اس حدیث میں ذکر کردہ خطرناک گناہوں سے محفوظ فرمائے اور جنت میں بلند درجات کا ذریعہ بننے والے اعمال صالحہ اور ایمان و توحید کی توفیق بخشے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔