رسول اللہ ﷺ کی جانب منسوب جھوٹا خواب

الحمد لله الذي بصر عباده المؤمنين، وأبان لهم سبيل الحق واليقين. وكشف لهم بما وهبهم من العلم والمعرفة الطريق المستقيم، أحمده سبحانه وأشكره على ما أنعم به من بيان النهج القويم، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، الإله الحق المبين، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله الناصح الأمين، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.
تمام تعریف اس اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔ جس نے اپنے مومن بندوں کو بصیرت عطا کی، حق و یقین کا رستہ دکھایا اور علم و معرفت دے کر ان کے لئے صراط مستقیم کو واضح فرمایا۔ میں اس رب کی حمد و ثنا کرتا ہوں اور اس احسان عظیم پر اس کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے سیدھی اور واضح راہ دکھائی اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک و سیم نہیں اور وہی معبود برحق ہے۔ اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ جو امت کے خیر خواہ اور رسالت کے امین ہیں۔ اللہ کا بے شمار درود و سلام جو ہمارے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے تمام آل و اصحاب پر۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ کا تقوی اختیار کرو اس سے ڈرتے رہو اور یہ بات ذہن نشین کر لو کہ رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں ایسی واضح شاہراہ پر چھوڑا ہے۔ جس کی رات بھی دن کی مانند روشن ہے۔ آپ نے خیر و بھلائی کا راستہ واضح فرمادیا ہے۔ تاکہ ہم اس پر چلیں اور ضلالت و گمراہی کی راہ بھی واضح کر دی ہے۔ تاکہ اس سے اجتناب کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ ہی میں اللہ تعالی نے آپ کے ذریعہ دین کی تکمیل فرمادی، نعمتیں مکمل کر دیں اور جہالت کے بعد بصیرت اور ضلالت کے بعد ہدایت کا نور عطا کر دیا۔ لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے۔ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو لازم پکڑیں، آپ کا طریقہ اپنائیں اور دین کے اندر نو ایجاد کاموں سے بچیں کیونکہ دین کے نام پر ایجاد کی جانے والی ہر نئی چیز بدعت ہے۔ اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
برادران اسلام! اللہ کی کتاب ہمارے درمیان ہے۔ اس کے رسول کی سنت بھی ہمارے پاس موجود ہے، ہم قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور رسول خیر الانام صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث پڑھتے ہیں۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات حسرت آیات کے ساتھ ہی وحی کا سلسلہ بند ہو گیا۔ الٰہی قانون سازی پوری ہو گئی اور شریعت اپنے اصول و فروع اور قواعد و مسائل ہر اعتبار سے کامل و مکمل ہو گئی۔ یہی شریعت اسلام ہے۔ جو ہر اعتبار سے کامل اور زندگی کے تمام شعبہ جات کو شامل ہے۔
لہذا جس نے اس شریعت کو جانا اور اسی پر قناعت کی نیز اس عظیم ترین نعمت پر اللہ تعالی کا ثنا خوان و شکر گذار رہا اس نے صراط مستقیم پالیا لیکن اس کے بر خلاف جس شخص نے اس شریعت کی مخالفت کی تو یہ اس بات کی دلیل ہے۔ کہ اس کے عقیدہ میں خرابی، عقل و فہم میں نقص و کوتاہی اور ایمان میں شک و شبہ کی بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِيْ هِيَ أَقوَمُ﴾ (الاسراء:9)
’’یہ قرآن وہ رستہ دکھاتا ہے۔ جو سب سے سیدھا ہے۔‘‘
ایک دوسری جگہ فرمایا:
﴿مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْء﴾ (الانعام: 38﴾
’’ہم نے کتاب کے اندر کسی چیز میں کو تاہی نہیں کی۔‘‘
نیز صحابی رسول حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
(لقد تَرَكَنا محمدﷺ وما يحرك طائر جناحيه في السماء إلا أذكرنا منه علما) [مسند احمد: 153/5 (21419)
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہم سے اس حال میں رخصت ہوئے کہ آسمان میں پر ہلاتے پرندہ کے بارے میں بھی ہمیں علم دے گئے۔‘‘
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد کچھ دجال و کذاب ظاہر ہوئے جس کی پیشگوئی آپ نے اپنی زندگی ہی میں فرما دی تھی۔ ان میں سے کسی نے نبوت کا دعوی کیا کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر جھوٹی حدیثیں گھڑیں اور کسی نے دنیاوی غرض یا لالچ کے لئے لوگوں کو عجیب عجیب باتیں سنا کر شہرت حاصل کرنے کے لئے یا کسی بدعت کی تائید کے لئے نیا اپنے مذہب کی حمایت کے لئے یا ترغیب و ترہیب کے لئے یا کچھ اور اغراض و مقاصد کے لئے حدیثیں گھڑ گھڑ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب غلط طور پر منسوب کیں ہر دور میں اور دنیا کے مختلف گوشوں میں اس طرح کا دجل وکید اور کذب و افترا ہوتا رہا ہے، لیکن ساتھ ہی ان تمام کذب و افترا اور ان کے آثار بد کا قلع قمع کرنے اور لوگوں پر اس کا بطلان واضح کرنے کے لئے اللہ تعالی ہر دور میں علماء راسخین، صحیح وضعیف کو پرکھنے والے اور ماہرین فن پیدا کرتا رہا ہے، جنہوں نے احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(يحمل هذا العلم من كل خلف عُدُوله، ينفون عنه تحريف الغالين، وانتحال المبطلين، وتأويل الجاهلين) [النهاية في غریب الحدیث لابن الاثیر:65/2۔]
’’اس علم دین کے وارث ہر بعد میں آنے والی نسل کے عادل اور ثقہ لوگ ہوں گے جو غلو کرنے والوں کی تحریف باطل پرستوں کی غلط نسبت اور جاہلوں کی بے جا تاویل سے اس علم کی حفاظت کریں گے۔‘‘
چنانچہ یکے بعد دیگرے ایسا ہی ہوتا رہا جب بھی کسی گروہ نے فساد اور گمراہی پھیلائی تو جماعت حق نے اس کا قلع قمع کیا دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اللہ کی راہ میں جہاد کیا باطل کی ملمع سازیوں سے پردہ ہٹاتے ہوئے حق کو نکھارا اور اسے پاک وصاف کیا اور اللہ کا شکر ہے۔ کہ حق کبھی بھی مغلوب نہ ہوا بلکہ ہمیشہ غالب و ظاہر رہا اور باطل کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی:
﴿وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا﴾ (الاسراء:81)
’’اے محمد! کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہو گیا بے شک باطل نابود ہونے والا ہی ہے۔‘‘
اللہ کے بندو! ہمارے دور میں بھی کچھ اسی قسم کے کذب و افترا پر مشتمل ایک ورقہ (پوسٹر) وقتا فوقا تقسیم ہو تا رہتا ہے۔ جو معانی و مطالب کے اعتبار سے بالکل ہی بے تکا ہے۔ فطرت اور عقل سلیم اسے قبول نہیں کرتی اور اسے وہی شخص تسلیم کر سکتا ہے۔ جو علم و بصیرت میں نہایت ہی کمزور اور بودا ہو۔ ایک عقلمند اور صاحب علم اس کو پڑھنے سے پہلے ہی اس کے دجل و فریب کو بھانپ لیتا ہے۔ لیکن بہت سے لوگ جہالت اور علمی بے مائیگی کی وجہ سے اس فتنہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ ورقہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بابت گھڑے گئے چند جھوٹے خوابوں پر مشتمل ہوتا ہے، جس کی عبارت کے اندر خود اختلاف و تضاد پایا جاتا ہے۔ ان خوابوں کی کوئی اصل و بنیاد نہیں ان کے الفاظ جدا جدا اور عبارتیں مختلف ہیں، اس کا بیان کرنے والا مکار کبھی تو کہتا ہے۔ کہ یہ سب عالم خواب کی باتیں ہیں، کبھی کہتا ہے۔ کہ حالت بیداری کی وصیتیں ہیں۔ اس کے لئے وہ خوب خوب قسمیں کھاتا ہے۔ اور جھوٹی قسموں کے ذریعہ اس باطل کی تائید اور اسے صحیح ثابت کرنا چاہتا ہے۔ جیساکہ ابلیس لعین نے دادا آدم علیہ السلام کے ساتھ جھوٹی قسم کھا کر کہا تھا:
﴿وَ قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّیْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَۙ۝۲۱ فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍ ۚ﴾ (الاعراف: 21،22)
’’ابلیس نے ان سے ( دادا آدم اور مائی حوا سے) قسم کھا کر کہا کہ میں تو تمہارا خیر خواہ ہوں چنانچہ اس مردود نے دھوکا دے کر ان کو معصیت کی طرف کھینچ ہی لیا۔‘‘
یہ خواب ایک ایسے شخص کے ہیں۔ جو اپنا نام شیخ احمد بتلاتا ہے۔ اور مسجد نبوی کے خادم ہونے کا دعوی کرتا ہے۔ اور اپنے نفس کی صفائی اور تزکیہ کے لئے اپنی عبادت و ریاضت، تہجد اور تلاوت قرآن کا ذکر کرتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَلَا تُزَكُّوْا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى﴾ (النجم:32)
’’تم اپنے آپ کو پاک و صاف نہ بتاؤ اللہ اس شخص سے خوب واقف ہے۔ جو پرہیز گار ہے۔‘‘
شیخ احمد نے اپنی صفائی اور تزکیہ پیش کرنے کے بعد اس صریح جھوٹ کا ذکر کیا ہے۔ جس کی کتاب اللہ اور سنت رسول تردید کرتی ہیں۔ کہتا ہے۔ کہ غیر ملت اسلام پر چالیس ہزار افراد مر چکے ہیں۔ کبھی کرتا ہے۔ کہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار غیر اسلام پر مر چکے ہیں۔
سوال یہ ہے۔ کہ اس شخص کو یہ باتیں کہاں سے معلوم ہوئیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح کی کوئی بات ارشاد نہیں فرمائی بلکہ قرآن کریم کے اندر اللہ تعالیٰ نے آپ کو یوں خطاب فرمایا ہے:
﴿وقُلْ لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبِ﴾ (الانعام: 50)
’’کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالی کے خزانے ہیں۔ اور نہ میں غیب جانتا ہوں۔‘‘
اسی طرح شیخ احمد کبھی ان خوابوں کو اس انداز سے بیان کرتا ہے۔ کہ قرآن کریم سے بھی افضل بنا دیتا ہے، کبھی کچھ لوگوں کے ہمیشہ ہمیش کیلئے جہنمی ہونے کا فیصلہ سناتا ہے، کبھی کسی کو اللہ کی رحمت سے محروم بتاتا ہے۔ کبھی کچھ اور لوگوں کے کافر ہونے کا فتوی دیتا ہے، کبھی کسی کے فقیر و محتاج ہونے اور کسی کے غنی و مالدار ہونے کا فیصلہ سناتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ سب کوئی عجیب یا نئی بات نہیں اس طرح کے دجال ہمیشہ پیدا ہوتے رہے ہیں۔ البتہ تعجب ان لوگوں پر ہے۔ جو اس جھوٹے وصیت نامہ کو صحیح جانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں، اس کو لکھتے، چھاپتے اور لوگوں کے اندر اسے تقسیم کرتے ہیں۔ اور ایسا ہی شخص کر سکتا ہے۔ جو ان لوگوں کے زمرہ میں سے ہو جن کے بارے میں امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:
(وهمج رعاع أتباع كل ناعق، يميلون مع كل ريح، لم يستضيئوا بنور العلم، ولم يلجؤوا إلى ركن وثيق)
’’یہ نہایت ہی ناکارے اور ذلیل لوگ ہیں، ہر آواز لگانے والے کے پیچھے ہو لیتے ہیں، ہر ہوا کے ساتھ پھر جاتے ہیں۔ علم کی روشنی سے استفادہ نہیں کرتے، کسی مضبوط پناہ گاہ کا سہارا نہیں ڈھونڈتے۔‘‘
پس اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو عقل کے ناخن لو اور ان ناکاروں میں سے نہ ہو جاؤ جو ہر آواز کے پیچھے دوڑنے لگتے ہیں۔ یہ مفروضہ وصیت قرآن و سنت کے منافی اور ضلالت و بطلان پر مشتمل ہے۔ اس لئے امراء و حکام پر ضروری ہے۔ کہ نمایت دانش مندی اور سختی کے ساتھ ان لوگوں پر پابندی لگائیں جو اس جھوٹی وصیت کی نشر و اشاعت کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ رسول ہدایت صلی اللہ علیہ و سلم پر صریح جھوٹ اور بہتان ہے۔ اور ایسے شخص کے بارے میں آپ کا ارشاد ہے:
(مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ متعمدا فليتبوأ مقعده من النار) [صحیح بخاری، کتاب العلم، باب اثم من کذب علی النبی صلی اللہ علیہ و سلم (110) و صحیح مسلم، کتاب الزہد باب التثبت في الحديث (2493)]
’’جس کسی نے جان بوجھ کر مجھ پر کوئی جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔‘‘
نیز اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ﴾ (الانعام: 21)
’’اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہے۔ جس نے اللہ پر جھوٹ افترا کیا یا اس کی آیتوں کو جھٹلایا بیشک ظالم لوگ نجات نہیں پائیں گے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم۔
خطبه ثانیه
الحمد لله حمدا كثيرا كما أمر، وأشكره وقد تأذن بالزيادة لمن شكر. وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يكُن لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله سيد البشر. اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وآله وصحبه.
’’اللہ کے لئے بہت بہت تعریف ہے۔ جیسا کہ اس نے تعریف کرنے کا حکم دیا ہے، میں اس کی شکر گذاری کرتا ہوں کیونکہ اس نے شکر گزاروں کے لئے مزید انعام کا وعدہ فرمایا ہے۔ اور شہادت دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کے سوا کوئی معبود نہیں نہ تو اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے۔ نیز اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول اور سارے انسانوں کے سردار ہیں۔ اے اللہ! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے آل و اصحاب پر بے شمار درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! اپنے رب سے ڈرو اس کی اطاعت کرو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو لازم پکڑو فلاح یاب و کامر السار ہو گئے اور سنت نبوی کے خلاف بعض ہوا پرست یا جاہل دین کے اندر جو بدعتیں ایجاد کرتے ہیں۔ ان کی جانب توجہ نہ دو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر وہ چیز جو ہمارے دین اور دنیا کے لئے بہتر تھی واضح فرمادیا ہے۔ اور ہر وہ چیز جو ہمارے دین اور دنیا کے حق میں مضر تھی اس سے متنبہ کر دیا ہے۔
اسی طرح یہ بھی یاد کرو کہ اپنے اعمال کی جزا و سزا کے لئے کل بروز قیامت اللہ رب العالمین کے حضور کھڑے کئے جاؤ گے، جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ بھی دیکھ لے گا۔
ساتھ ہی رسول ہدایت صلی اللہ علیہ و سلم پر درود و سلام بھیجتے رہو کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا:
﴿اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۝۵6﴾ (الاحزاب: 56)
’’اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ مومنو ا تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔