رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ﴿ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ﴾ [الاعراف: 157]
آج کے خطبہ میں سورہ الاعراف کی اس جامع آیت کی روشنی میں نبی مکرم رسول معظم جناب محمد رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ اور سوانح مبارکہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ اس آیت مبارکہ کا مضمون تین حصوں میں منقسم ہوتا ہے:
1۔ شان مصطفی
2۔ مقصد بعثت مصطفی
3۔ دنیا و آخرت میں کامیابی کا راز صرف اتباع مصطفی
پہلی بات شان مصطفی:
اللہ رب العزت نے اس آیت مبارکہ میں آپ کو النبی الامی کہا ہے جس کا معنی یہ ہے وہ نبی جس نے کسی شخص سے لکھنا پڑھنا اور علم نہیں سیکھا۔ اور یہ آپ کی نبوت کی صداقت کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ نے کسی سے کچھ نہیں سیکھا۔ پھر ایسی کتاب اور تعلیم پیش فرمائی کہ آج تک دنیا کی کوئی طاقت اس کا توڑ اور مقابلہ نہیں کر سکی۔ اس سے ثابت ہوا کہ آپ نے جو کچھ سیکھا رب ارض و سماء سے سیکھا۔
اللہ رب العزت سورة العنكبوت آیت نمبر 48 میں فرماتے ہیں: ﴿وَمَا كُنتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَبٍ وَّ لَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَّا تَابَ الْمُبْطِلُوْنَ﴾ [العنكبوت: 48]
’’اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے نہ تھے اور نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے کہ یہ باطل پرست لوگ شک و شبہ میں پڑتے۔‘‘
اور سورة الشوری آیت نمبر 52 میں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَ كَذٰلِكَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ؕ مَا كُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْكِتٰبُ وَ لَا الْاِیْمَانُ وَ لٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِیْ بِهٖ مَنْ نَّشَآءُ مِنْ عِبَادِنَا ؕ وَ اِنَّكَ لَتَهْدِیْۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ [الشوری:52]
’’(جس طرح ہم نے پہلے پیغمبروں کی طرف وحی کی) اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے امر سے روح (قرآن وسنت) کی وحی کی ہے ورنہ آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان (کی تفصیلات) کیا ہیں، لیکن (ہم نے یہ وحی کی اور) ہم نے اسے (یعنی وحی کو) نور بنا دیا جس کے ذریعے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں اور یقینًا آپ صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔‘‘
اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ آپ کی ساری تعلیم و تربیت رب کائنات نے کی اسی لیے آپ کی ابتدائی عمر مبارک میں ہی تربیت دینے والے سارے رشتے اُٹھ گئے۔ باپ دنیا میں آنے سے پہلے وفات پا گیا ابھی عمر عزیز کی چھ بہاریں گزاری تھیں والدہ محترمہ بھی داغ مفارقت دے گئیں۔ ابھی آٹھ برس گزارے تھے دادا جان بھی دنیا سے چلے گئے:
﴿اَلَمْ يَجِدُكَ يَتِيمًا فَاوَى﴾ [الضحى:6]
سماری تعلیم و تربیت کا انتظام و اہتمام خود عرش والے نے کیا۔ اس لیے آپ کو النبی الامی کہا گیا ہے کہ جس کی تربیت اس کے باپ دادا یا ماں اور دنیا کے کسی استاد اور معلم نے نہیں کی بلکہ خود عرش والے نے کی۔ یہی وجہ ہے جب جبریل امین پہلی وحی لے کر آئے۔ کہا: (اِقْرَاْ یا مُحَمَّد) اے محمدﷺ! پڑھیں ایسا محسوس ہوتا ہے وحی تحریری شکل میں تھی آپ نے جواب دیا: (ما انا بقاری) میں کیسے پڑھوں میں نے پڑھنا نہیں سیکھا۔ جبریل علیہ السلام نے اپنی آغوش میں لیا پھر کہا: (اقرَاْ يَا محمد) اے محمدﷺ! پڑھیں۔ آپ پھر وہی جواب دیتے ہیں: ’’ما انا بقاری‘‘ میں کیسے پڑھوں میں نے پڑھنا نہیں سیکھا۔ تین دفعہ ایسے ہی کہا تیسری بار آغوش میں لینے کے بعد کہا:
﴿ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ۝۱ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ۝۲ اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُۙ۝۳ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ۝۴ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ۝۵﴾ [العلق: 1 تا 5]
جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کو پڑھنے کے لیے کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ ٹیکنے کی ضرورت نہیں آپ کی تعلیم و تربیت کا انتظام خود رب کائنات نے کر دیا ہے۔
یہ ہے ”النبی الامی‘‘ اللہ تعالی نے تربیت کی۔ (اس لیے آپ قبل از نبوت بھی معاشرے کی ساری اعتقادی و اخلاقی آلائشوں سے پاکیزہ اور مبرا تھے) آپ ﷺ کی شان بیان کرتے ہوئے دوسری بات اس آیت میں اللہ رب العزت نے یہ فرمائی:
﴿الَّذِي يَجِدُوْنَهُ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّورَاةِ وَالْإِنْجِيْلِ﴾ [الأعراف:157]
’’کہ آپ ﷺ کے تذکرے اور چر چے تورات اور انجیل میں کیے گئے۔”‘‘
الله رب العزت سورة الصف آیت نمبر 6 میں فرماتے ہیں:
﴿وَ اِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ ؕ﴾ [الصف:6]
’’اور جب مریم کے بیٹے عیسی نے کہا اے (میری قوم) بنی اسرائیل! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے کی کتاب تو رات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں جن کا نام نامی اسم گرامی احمد ہے۔‘‘
غور فرمائے! احضرت عیسی علیہ السلام اپنی بعثت کا ایک بڑا مقصد ہی یہ بتلا رہے ہیں کہ میں اپنے بعد آنے والے ایک عظیم رسول کی بشارت سنانے آیا ہوں جس کا نام مبارک احمد ہو گا۔
آج یہود و نصاری جو مرضی کہیں، قرآن گواہی دیتا ہے کہ آپ کی صفات تورات وانجیل میں درج ہیں:
﴿ اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ ؕ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنْهُمْ لَیَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَؔ﴾ [البقرۃ:146]
’’جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ تو اسے ایسا پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بچوں کو پہچانتے ہیں ان کی ایک جماعت حق کو پہچان کر پھر چھپاتی ہے۔‘‘
معلوم ہوا رسول اللہ ﷺ کی نشانیاں پوری صراحت کے ساتھ تورات و انجیل میں مذکور ہیں۔
بلکہ آپﷺ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کی صفات بھی تورات و انجیل میں مذکور ہیں۔
سورة الفتح کی آخری آیت مبارکہ میں خالق کا ئنات مالک ارض و سماء اعلان فرماتے ہیں:
﴿ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ؕ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا ؗ سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ؕ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ۛۖۚ وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ﴾ [الفتح: 29]
’’محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے ان کی یہی مثال تورات اور انجیل میں ہ۔‘‘
صحیح البخاری میں حدیث ہے:
حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ بن یسار بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے ملاقات کی تو میں نے عرض کیا کہ آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کے اس وصف کے بارے میں بتائیں جس کا ذکر تورات میں ہے۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ضرور بتاؤں گا۔ اللہ کی قسم! تورات میں آپ کی بعض صفات وہ ہیں جو قرآن پاک میں (مذکور) ہیں۔ (اللہ رب العزت نے ان کا ذکر یوں فرمایا ہے) ’’اے نبی کی بلا شبہ ہم نے آپ کو (اہل ایمان پر) گواہ (جنت کی) خوشخبری دینے والا (اور گناہ گاروں کو عذاب الہی سے) ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
نیز آپ نے ﷺ ناخواندہ لوگوں کی جائے پناہ ہیں۔ آپ ﷺ میرے بندے اور رسول ہیں۔ میں نے آپ کا نام ” متوکل رکھا ہے۔ آپ ﷺ بدخلق نہیں نہ ہی سخت مزاج ہیں نہ ہی بازاروں میں شور و شغب کرنے والے ہیں اور نہ ہی آپ ﷺ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں بلکہ معاف کر دیتے ہیں اور (دعائے) مغفرت کرتے ہیں اور اللہ رب العزت آپ کو اس وقت تک فوت نہیں کریں گے جب تک کہ آپ ﷺ کے سبب گمراہ قوم کو راہ راست پر نہ لے آئیں گے۔ اس طرح کہ وہ لوگ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا اقرار کریں گے اور اللہ تعالیٰ اس (کلمہ توحید) کی وجہ سے ان کی اندھی آنکھیں کھول دے گا ان کے بہرے کانوں کو قابل سماعت بنادے گا اور ان کے بے حس دلوں کو حکمت عطاء کرے گا۔[صحیح البخاري، كتاب البيوع باب كراهية السحب في السوق، رقم: 2125.]
اور آج تورات و انجیل میں تحریف و تبدیلی کے باوجود آپ کی صفات موجود ہیں کتاب مقدس بائیبل اٹھائیے اس کی ورق گردانی کیجئے آج بھی اس میں رسول اللہ ﷺ کا تذکرہ موجود ہے۔
دوسری بات آپﷺ کی بعثت کے مقاصد کیا ہیں؟:
(1) ﴿يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ﴾ [الأعراف:157)
ہر نیک عمل کی دعوت و تربیت دینا: آپﷺ کو اس لیے مبعوث کیا گیا کہ ہر نیک عمل اُمت کو بتلا دیں۔ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد – عبادت ہو یا معاشرت۔ عقیدہ ہویا عمل اخلاق و کردار ہو یا معاملات زندگی کے ہر پہلو اور شعبے میں ہر نیکی آپ ﷺ نے بتلائی۔ اس لیے وہ نیکی نیکی ہی نہیں جس پر پیغمبر ﷺ کی مہبر نہ ہو۔ کیونکہ آپ ﷺ نے اپنے قول عمل اور تقریر سے ہر قسم کی نیکی واضح فرمادی اور دین کی تکمیل کا اعلان فرما دیا اور اس میں رد و بدل اور اضافے کا دروازہ بند کرنے کے لیے خصوصی ہدایات جاری فرمائیں۔ تفصیل کے لیے کتب حدیث میں کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ کا مطالعہ فرمائیں۔ بیسیوں احادیث مل جائیں گی۔
اور اسی طرح ہر برائی سے خبردار کرنا آپ کی بعثت کا بنیادی مقصد تھا اس لیے آپﷺ نے ہر برائی سے خبردار کیا، خواہ وہ دین میں بدعات و خرافات کی برائی ہو آپ ﷺ نے اس کے متعلق پوری تنبیہ فرمائی ارشاد فرمایا:
(مَن أحدث في أمرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدُّ) [صحيح البخاري، كتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود (2997) و مسلم (1718)]
’’جس نے ہمارے اس دین میں وہ چیز داخل کی جو اس میں سے نہیں پس وہ مردود ہے۔‘‘
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
(وَشَرُّ الْأَمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ) [سنن النسائي، كتاب صلاة العيدين، باب كيف الخطبة (1578) ومسلم (867)]
’’بد ترین کام وہ ہیں جو دین میں تھے ایجاد کیے جائیں اور ہر نیا کام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
اور آپﷺ نے فرمایا:
’’دین میں اضافہ کرنے والوں کو میرے حوض سے روک دیا جائے گا۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الرقاق، باب في الحوض (6576)]
خواہ وہ حقوق میں ظلم و زیادتی کی برائی ہو آپﷺ نے ظلم کی تمام شکلوں سے منع فرمایا: وہ قتل و غارت ہو یا دھوکا و ملاوٹ وہ یتیموں کی حق تلفی ہو یا عورتوں کے حقوق کا غصب، وہ چوری وڈا کہ ہو یا راہزنی و دہشت گردی وہ امانت میں خیانت ہو یا رعایا پر ظلم، آپﷺ نے فرمایا:
(اتَّقُوا الظُّلُمَ)
’’لوگو! ظلم سے بچ جاؤ۔‘‘
(فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ) [بخاري في الأدب المفرد (483) صحيح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم (2578) و احمد (323/3)]
’’کیونکہ ظلم قیامت کے دن ظلمتوں اور اندھیروں میں بدل جائے گا۔‘‘
بہر حال آپ ﷺ نے لوگوں کو ہر قسم کی نیکی و بھلائی سے بھی آگاہ کیا اور ہر قسم کی برائی و گناہ سے بھی خبردار کیا۔
لیکن آج لوگوں نے یہ مقصد قبول نہ کیا۔ نیکیاں اپنی طرف سے گھر لیں اور کئی سنتوں اور صالح عملوں کو اپنی طرف سے برائی اور گناہ شہر الیا۔ جبکہ آپ کی بعثت کا مقصد ہر نیکی سے آشنا کرنا اور ہر برائی سے خبر دار کرتا تھا۔ آج اپنی مرضیاں کرنے والے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ (معاذ اللہ) آپ نے دین مکمل نہیں کیا (آج اذان میں اضافہ دعاؤں میں اضافہ درود میں اضافہ) وردوظائف میں اضافہ، نماز، روزہ میں اضافہ، حج و عمرہ میں اضافہ، آج اپنی طرف سے نیکیاں گھڑ گھڑ کے عبادات کے انبار لگا دیئے جس کا مطلب یہ لکلتا ہے کہ (معاذ اللہ) رسول اللہ ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد پورا نہیں کیا۔ یہ لوگ بعد میں پورا کر رہے ہیں اگر غور کیا جائے تو پیغمبر ﷺ پر بہتان اور الزام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدعات و خرافات کو گمراہی و ضلالت اور عمل مردود کہا گیا ہے۔
(2) ﴿وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْعَمَالِكَ﴾ [الأعراف: 157)
یہ بعثت نبوی کا دوسرا مقصد ہے کہ لوگوں کو بتلائے کہ یہ چیزیں ستھری، پاک اور صاف ہیں۔ اس لیے یہ حلال ہیں۔ اور یہ چیزیں گندی اور پلید ہیں یہ حرام ہیں۔ اس لیے حلال و حرام کا اختیار کسی کے پاس نہیں۔ جو پیغمبر نے اللہ کی وحی کے ذریعے حلال ٹھہرایا وہ حلال اور جو حرام ٹھہرایا وہ حرام۔ وحی کے بغیر حلال و حرام کا اختیار تو پیغمبر کے پاس بھی نہیں۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ جب آپ ﷺ نے شہد کو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیا تھا تو اللہ رب العزت نے سورۃ التحریم کی ابتدائی آیات مبارکہ نازل فرمائیں:
﴿یٰايُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللهُ لَكَ﴾ [التحريم: 1]
’’اے نبی! آپ وہ چیز کیوں حرام ٹھہرا رہے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال قرار دی ہے؟۔‘‘
معلوم ہوا پیغمبر کی بعثت کا مقصد وحی کے ذریعے پاکیزہ چیزوں کی حلت اور گندی چیزوں کی حرمت کا اعلان کرتا ہے۔ آج بہت سارے مسلمان بعثت نبوی کے اس عظیم مقصد کو بھلائے ہوئے اور حلال و حرام میں امتیاز ختم کر بیٹھے ہیں۔ آج سود جوا رشوت اور دھوکا وفراڈ کی گندی کمائیاں لوگوں نے حلال اور جائز سمجھ لیں۔ حالانکہ پیغمبر کی بعثت کا ایک مقصد ہی لوگوں کو حلال و حرام چلاتا ہے کہ ستھری چیزیں جن کے حصول کا ذریعہ بھی حلال اور ستھرا ہو وہ حلال ہیں اور گندی چیزیں یا گندے ذرائع سے حاصل کی جانے والی چیز میں حرام ہیں۔
بہر حال مسلمانوں کی ایک تعداد (حلال و حرام کی پابندیوں کو ملحوظ رکھتی ہے) اور ایک بڑی تعداد محوظ نہیں رکھتی۔ لیکن کافر جو ہمارے پیغمبر پر ایمان نہیں رکھتے۔ وہ سارے کے سارے گندی ترین چیزیں (مردار، خون، خنزیر، کتا، بلی، حشرات الارض کیڑے مکوڑے اور چوہے تک) کھا جاتے ہیں جبکہ پیغمبر ﷺ کی بعثت کا ایک بڑا مقصد لوگوں کو کھانے پینے میں حلال اور پاک چیزیں کھانے کی تربیت دینا تھا۔ آپ کو تو گندی چیز اور بد بودار چیز سے سخت نفرت تھی۔ آپ تو بدبو کی وجہ سے حلال چیز کچا لہسن اور پیاز تک کھانا گوارا نہیں کرتے تھے لیکن آج آپ کا کلمہ پڑھنے والے کئی لوگ بدبودار حرام چیزیں (شراب تمباکو وغیرہ) تک کھائی جاتے ہیں جبکہ آپﷺ کی تعلیم کتنی روشن تھی، ستھری اور پاکیزہ تھی۔
بخاری و مسلم کی روایت ہے: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامِ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَهَاتٌ لا يَعْلَمُهَا كَثيرٌ من الناس) [صحیح البخاري، كتاب الإيمان، باب فضل من استبرأ لدينه (52) ومسلم (1599) والترمذی (1205) و ابن ماجه (3984)]
’’حلال (چیزیں) واضح ہیں اور حرام (چیزیں) واضح ہیں اور ان دونوں کے درمیان کچھ (چیزیں) مشتبہ ہیں جن سے اکثر لوگ ناواقف ہیں پس جو شخص شبہات سے دور رہا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت کو محفوظ کر لیا اور جو شخص شبہات میں واقع ہوا (اس کی مثال) اس چرواہے کی ہے جو محفوظ چراگاہ کے قریب (ریوڑ) چراتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے جانور اس چراگاہ میں چرنے لگیں؟‘‘
مطلب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے صریح اور خالص حلال کھانے کی ترغیب دی اور حرام کے ساتھ ساتھ مشکوک اور مشتبہ چیزوں سے پر ہیز کرنے کی تاکید فرمائی اور خبردار کیا کہ مشتبہ اور مشکوک چیزوں میں واقع ہونا حرام اور گندی چیزوں میں واقع ہونے کا ذریعہ ہے کیونکہ جب آدمی صغیرہ و مشتبہ امور کا عادی ہو جاتا ہے تو رفتہ رفتہ حرام اور کبیرہ گناہوں پر بھی دلیر اور جرات مند ہو جاتا ہے۔
آپﷺ کی بعثت کا تیسرا مقصد:
(3) ﴿وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ﴾ [الأعراف:157]
لوگوں کی گردنوں سے بوجھ اور طوق اتارنا:
رسوم و رواج کا خاتمہ کرنا: خوشی کی رسمیں، غمی کی رسمیں، شادی و بیاہ کی رسمیں پیدائش اور موت کی رسمیں۔ جو گرونوں کا طوق بنی ہوئی ہیں۔ پیغمبر ان رسموں کو ختم کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا، لیکن آج لوگوں نے بعثت نبوی کا یہ مقصد نظر انداز کر دیا۔ خوشی بھی مہنگی، غمی بھی مہنگی۔ پیدائش بھی مصیبت، موت بھی مصیبت، کھیکھن ہی کھیکھن۔ لوگ ان رسموں کی وجہ سے گداگر اور بھکاری بن گئے لوگ ان رسموں کی وجہ سے سود خور اور جوارے بن گئے۔ ان رسموں میں جہاں ایک طرف مال کا ضیاء اور فضول خرچی ہے وہاں دوسری طرف کافروں کی زبر دست مشابہت ہے۔ ان رسموں میں جہاں ایک طرف ہوجھ اور تکلف ہے وہاں دوسری طرف بے حیائی وفحاشی ہے۔ ایک طرف شیطان کی اتباع اور پیروی ہے اور دوسری طرف اللہ کی ناراضگی اور پیغمبر کی مخالفت ہے۔
حنا:
یہ رسم تو ایک طرح کی کھلی بے غیرتی اور دیوثیت ہے جس میں مال کی بربادی کے ساتھ ساتھ بے پردگی و بے حیائی کا شرمناک مظاہرہ ہے اور آتش پرستوں کی مشابہت ہے جس میں عورتیں نیم برہنہ ہو کر نکلتی ہیں اور راستے کے دونوں طرف بے حیاء لوگ زہریلی نظریں جمائے ہوتے ہیں اور مزید برآں یہ سب کچھ مووی کے ذریعے محفوظ کیا جاتا ہے۔
بارات:
یہ ہندؤں کی نقل میں ایک ایسی گندی اور غلیظ رسم ہے جو بے شمار برائیوں پر مشتمل ہے اسراف و تبذیز بے حیائی و بے پردگی تاریخ اور گانا آتش بازی ہلڑ بازی بھنگڑاوڈانس، سہراوسربالا، اسلام کا مذاق اڑانے والے بھانڈ، میراثیوں پر نوٹوں کی بارش، باپ کے سامنے بیٹیوں کا ناچنا اور باپ کو مبارکباد دینا کہ آپ کی بیٹی بڑا اچھا ناچ لیتی ہے۔ لڑکی والوں پر کھانے کا بوجھ اور پھر یہ سب کچھ کیمرے کی آنکھ کے ذریعے محفوظ کیا جاتا ہے۔
قل، ساتواں، چالیسواں:
جس طرح خوشی کی رسمیں عروج پر ہیں اسی طرح مرنے کی رسمیں بھی عروج پر ہیں، تین دن دیگیں کھڑکتی ہیں، تیسرے دن ’’قل‘‘ کے نام خصوصی اکٹھ ہوتا ہے پھر ساتویں دن اکٹھے پھر دسویں دن اجتماع، پھر چالیسویں دن اکٹھے پھر سال کے بعد برسی اور عرس ایسے محسوس ہوتا ہے مرنے والے کی دعوت ولیمہ ہو رہی ہے۔ حالانکہ یہ ساری رسمیں پیغمبر اسلام نے ختم کی تھیں، سنن ابن ماجہ اٹھاؤ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کہتے ہیں: ہم عہد نبوی میں نماز جنازہ کے بعد میت کے گھر کسی قسم کے اکٹھ کو نوحہ و ماتم شمار کرتے تھے۔[ابن ماجه، الجنائز، باب ما جاء في النهي عن الاجتماع إلى أهل الميت (1612)صحيح عند الالباني.]
اور یادرکھیے! نوحہ و ماتم خطرناک گناہ ہے لیکن آج یہ ساری رسمیں عروج پر ہیں۔
تیسری بات:
اس آیت مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے حوالے سے تیسری بات یہ ہے کہ دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران زندگی اور فوز و فلاح سعادت و نجات سکھ اور سکون اللہ کی رحمت کا حصول جنت کا داخلہ صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو قبول کرنے میں ہے۔
غور کیجئے! ایک آیت میں دوبار فرمایا، شروع میں:
﴿الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ﴾ [الاعراف: 157]
اور آخر میں فرمایا:
﴿فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤ ۙ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠۝۱۵۷﴾ (الاعراف: 157]
اور اللہ رب العزت سورة الاحزاب آیت نمبر 21 میں فرماتے ہیں:
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا﴾ [الأحزاب: 21]
’’یقینا تمہارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالی کو یاد کرتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے اللہ ہمیں بعثت نبوی کے مقاصد ملحوظ رکھتے ہوئے رسول اللهﷺ کی عمدہ سیرت اور بے مثال تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق بخشے۔ (آمین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔