رسولوں کی بعثت کا مقصد ہی توحید ہے

سید نا محمود بن لبید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

 ((أَنَا رَسُولُ اللهِ. بَعَثَنِي إِلَى الْعِبَادِ، أَدْعُوهُمْ إِلٰى أَنْ يَّعْبُدُوا اللهَ لَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا))(أخرجه احمد:23619)

 ’’میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام انسانوں کو یہ دعوت دینے کے لیے مبعوث فرمایا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ ‘‘

سیدنا معاویہ بن حیده رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی:

 میں نے آپ کے پاس نہ آنے کی کثرت سے قسمیں کھا رکھی تھیں، اس کے باوجود میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا! (بتائیے) آپ کیا لے کر آئے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: (الإسلام)) ’’اسلام‘‘ اس نے عرض کی:  اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ((أَنْ يُّسْلِمَ قَلْبُكَ لِلهِ، وَأَنْ تُوَجِّهَ وَجْهَكَ إِلَى اللهِ، وَتُصَلَّى الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ وَتَؤَدِّي الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةً)) (أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ:  20022)

’’اسلام یہ ہے کہ تیرا دل اللہ تعالیٰ کا مطیع اور فرماں بردار ہو جائے اور تو اپنا چہرہ بھی اللہ کی طرف موڑ لے، یعنی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے، اس کے ساتھ ساتھ فرض نمازیں پڑھے اور فرض زکاة ادا کرے۔‘‘

توضیح و فوائد:  باب کی پہلی حدیث میں دخول اسلام کے بنیادی اقرار توحید کا ذکر اور شرک کی نفی بیان کی گئی ہے اور اس حدیث میں اس کی عملی مشق کی چند صورتیں بیان ہوئی ہیں جو توحید کا لازمی نتیجہ ہیں۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا: ((إِنِّي أَرْسِلْتُ بِحَنِيفِيَّةٍ سَمْحَةٍ)) (أخرجه أحمد:24855)

’’مجھے (توحید پر مبنی) یکسوئی والا، نرمی والا اور میانہ روی والا دین دے کر بھیجا گیا ہے۔ ‘‘

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺنے فرمایا:

((وَ بُعِثْتُ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ بِالسَّيْفِ حَتّٰى يُعْبَدَ اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَجُعِلَ رِزْقِ تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِي، وَجُعِلَ الذُّلُّ وَالصَّغَارُ عَلٰى مَنْ خَالَفَ أَمْرِي، وَمَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ)) (أخرجه أحمد:5867، وفي إسناده عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان، اختلفت فيه أقوال المجرحين والمعدلين، فمنهم من قوّی أمره، ومنهم من ضعفه، وصححه الألباني في صحيح الجامع:2831)

’’مجھے قیامت تک کے لیے تلوار دے کر بھیجا گیا ہے حتی کہ اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کی جائے اور میرا رزق میرے نیزے کے نیچے رکھ دیا گیا ہے۔ جو شخص میرے حکم کی مخالفت کرے، ذلت و رسوائی اس کا مقدر بنا دی گئی ہے۔ اور جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے، اس کا شمار اسی قوم سے ہو گا۔ “

توضیح و فوائد:  گزشتہ حدیث میں نرمی اور میانہ روی کو اسلام کا امتیاز قرار دیا گیا جبکہ اس حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’مجھے تلوار دے کر مبعوث کیا گیا ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ کا فرض، محبت، نرمی اور نوازش کے ساتھ ادا کرتا ہے، تاہم توحید کی راہ میں اگر کوئی  رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے اور وہ اس نور ہدایت کو بجھانے پر بضد ہو تو اس کے خلاف تلوار کا استعمال بھی جائز ہوگا۔ اس حدیث میں یہ بھی اشارہ ہے کہ رکاوٹیں ڈالنے والے لوگ قیامت تک موجود رہیں گے، اہل ایمان کو بھی توحید کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے پوری طرح تیار رہنا ہوگا۔ یاد رہے کہ جہاد کافروں کو مارنے کا نام نہیں بلکہ اللہ کے دین کو پھیلانے کی بھر پور کوشش کا نام ہے۔ قتال صرف ان دشمنوں کے خلاف ہے جو اسلام کی راہ میں رکاوٹ ڈالیں۔ مشابہت کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان کافروں کے مذہبی شعار کو اپنائے گا تو اس کا حشر بھی انھی کے ساتھ ہوگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کافروں کی مشابہت اختیار کرنے والے کو کافر سمجھ کر مارنا شروع کر دیا جائے۔ یاد رہے کہ کافر مسلمانوں کی مشابہت سے مسلمان شمار نہیں ہوگا۔

10۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

((أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ فِي الْأُولَى وَالْآخِرَةِ))

’’میں دنیا اور آخرت میں سب لوگوں کی نسبت سیدنا عیسی ابن مریم  علیمہا السلام کے زیادہ قریب ہوں۔ ‘‘

صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کس طرح؟ آپ ﷺنے فرمایا: ((اَلْأَنْبِيَاءُ إِخْوَةٌ مِّنْ عَلَّاتٍ، وَأُمَّهَاتُهُمْ شَتّٰى وَدِينَهُمْ وَاحِدٌ، فَلَيْسَ بَيْنَنَا نَبِيٌّ)) (أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ:3443، ومُسْلِمٌ: 2365/145)

’’تمام انبیاء علاتی بھائی ہیں، ان کی مائیں الگ الگ ہیں، ان کا دین ایک ہے اور ہمارے درمیان کوئی اور نبی نہیں ہے (نبوت سے نبوت جڑی ہوئی ہے)۔ ‘‘

توضیح و فوائد: تمام انبیاء کی بعثت کا اصل مقصد ہی توحید الہی کی دعوت دینا تھا۔ انبیائے کرام مختلف قوموں میں آئے، جدا گانہ علاقوں میں آئے مختلف زمانوں میں آئے۔ ان کی بولیاں جدا جدا تھیں لیکن ان کا پیغام مشترک تھا۔ یہ تمام جلیل القدر حضرات توحید ہی کی دعوت دینے پر مامور تھے۔ ان سب کا دین اور اصول ایمان بھی ایک ہی تھا، تاہم عبادت الہی کے طریقے مختلف تھے۔

11۔سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ قرآن کریم (کی سورہ احزاب) میں ہے:

﴿یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ۝﴾ ’’اے نبی! بے شک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

پھر فرمایا:تورات میں بھی (چند الفاظ کے اضافوں کے ساتھ)  یہی فرمایا گیا ہے:

((يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا قَالَ فِي التَّوْرَاةِ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَحِرْزًا لِلْأُمِّيِّينَ أَنْتَ عَبْدِي وَرَسُولِي سَمَّيْتُكَ الْمُتَوَكِّلَ لَيْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيظٍ وَلَا سَخَّابٍ بِالْأَسْوَاقِ وَلَا يَدْفَعُ السَّيِّئَةَ بِالسَّيِّئَةِ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَصْفَحُ وَلَنْ يَقْبِضَهُ اللَّهُ حَتَّى يُقِيمَ بِهِ الْمِلَّةَ الْعَوْجَاءَ بِأَنْ يَقُولُوا لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ فَيَفْتَحَ بِهَا أَعْيُنًا عُمْيًا وَآذَانًا صُمًّا وَقُلُوبًا غُلْفًا)) (أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ:4838)

’’اے نبی! ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، بشارت دینے والا، ڈرانے والا اور ان پڑھ قوم (عربوں) کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ آپ میرے بندے اور میرے رسول ہیں۔ میں نے آپ کا نام متوکل (بھروسا کرنے والا) رکھا ہے۔ نہ آپ بری عادت والے ہیں، نہ بے رحم، نہ بازار میں شور مچانے والے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں، بلکہ معافی اور درگزر سے کام لیتے ہیں۔ اللہ تعالی ان کی روح اس وقت تک قبض نہیں کرے گا جب تک وہ آپﷺ کے ذریعے سے بھٹکی ہوئی ملت کو راہ راست پر نہ لے آئے، یعنی یہ لوگ لا الہ الا الہ کا اقرار نہ کرلیں اور وہ اس کلمۂ توحید کے ذریعے سے اندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور پردے میں پڑے ہوئے دلوں کو نہ کھول دے۔ ‘‘

12۔سیدنا جبیر بن مطعم رضی  اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ لِي أَسْمَاءً أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَنَا أَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِيَ الْكُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي وَأَنَا الْعَاقِبُ)) (أخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ:3532، ومُسْلِمٌ:2354)

’’بلاشبہ میرے کئی نام ہیں:میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں۔ میری وجہ سے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائے گا۔ میں حاشر ہوں، سب لوگ میرے قدموں کے نشانات) پر جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب ہوں جس کے بعد کوئی (نبی) نہیں آئے گا۔‘‘

 توضیح وفوائد: مذکورہ دونوں احادیث میں نبی ﷺکے چند صفاتی نام مذکور ہیں اور ان میں ہر قسم کی رزیل صفات کی نفی کر کے ان سے آپﷺ کی ذات بابرکات کو مبرا اور ماورا قرار دیا گیا ہے۔ پاک و ہند میں طبع شدہ قرآن مجید کے اکثر نسخوں میں جلد کی ایک طرف اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام (اسمائے حسنی) اور دوسری طرف نبی اکرمﷺ کے ننانوے نام درج ہیں، حالانکہ ان اسمائے حسنیٰ کی حقیقت یہ ہے کہ وہ سارے کے سارے نام کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، بلکہ بعض نام ضعیف احادیث میں مذکور ہیں۔ شیخ ابن عثیمین رحمۃاللہ علیہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں اسمائے حسنی جمع  کیے ہیں جو ان سے مختلف بھی ہیں اور ان کی تعداد بھی ننانوے سے زیادہ ہے اور جہاں تک نبی ﷺ کے ننانوے ناموں کا تعلق ہے تو وہ بھی چند ایک صحیح احادیث سے ثابت ہیں، لہٰذا ہمیں انھی اسمائے مبارک پر اکتفا کرنا چاہیے جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ ان اسمائے گرامی میں سے کچھ درج بالا احادیث میں مذکور ہیں۔