رضائے الہی کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے علم (شرعی) کا حصول باعث عذاب ہے

368۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغٰى بِهِ وَجْهُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلَّا لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِّنَ الدُّنْيَا لَمْ يَجِدُ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَعْنِي: رِيحَهَا)) (أخرجه أحمد: 8457، وأبو داود: 3664 وابن ماجه: 252)

’’جس شخص نے اللہ کی رضا مندی والا علم اس غرض سے حاصل کیا کہ اس کے ذریعے سے دنیا حاصل کرے تو ایسا شخص قیامت کے دن جنت کی خوشبو، یعنی اس کی ہوا نہیں پاسکے گا۔“

369۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُجَارِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ أَوْ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ أَوْ يَصْرِفَ بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ أَدْخَلَهُ الله النَّارَ)) (أَخْرَجَهُ الترمذي: 2654)

’’جس شخص نے علماء سے مقابلہ کرنے یا بے وقوفوں سے جھگڑنے یا لوگوں کی توجہ اپنی طرف کرنے کے لیے علم حاصل کیا، اللہ تعالی اسے آگ میں داخل کرے گا۔“

توضیح و فوائد:  علم سے مراد قرآن و سنت کا علم ہے۔ اس – کے حصول کا مقصد صرف اللہ کی رضا ہوتا چاہیے۔ اس کے ذریعے سے ہمیشہ اللہ کی خوشنودی ہی تلاش کرنی چاہیے۔ دیگر فوائد مال و دولت یا شہرت وغیرہ اللہ تعالی عطا کر دے تو اس کا فضل ہے لیکن اگر کوئی دنیا کمانے یا شہرت حاصل کرنے کے لیے دینی علوم سیکھتا ہے تو اس کے لیے یہ علم فائدے کے بجائے وبال جان بن جائے گا۔

370۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ اللہ نے فرمایا:

((إِنَّ اللهَ يُبْغِضُ الْبَلِيغَ مِنَ الرِّجَالِ الَّذِي يَتَخَلَّلُ بِلِسَانِهِ كَمَا تَتَخَلَّلُ الْبَقَرَةُ)) (أخرجه أبو داود:  5005، والترمذي: 2853)

’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ ایسے بلیغ آدمی سے بغض رکھتا ہے جو اپنی زبان کو ایسے بل دیتا (موڑتا) ہے جیسے (چارہ کھاتے وقت)  گائے اپنی زبان کو بل دیتی ہے۔‘‘

371۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ  سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَىَّ وَأَقْرَبِكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَاسِنَكُمْ أَخْلَاقًا، وَإِنَّ أَبْغَضَكُمْ إِلَىَّ وَأَبْعَدَكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الثَّرْثَارُونَ وَالْمُتَشَدِّقُونَ وَالْمُتَفَيْهِقُونَ)) (أَخْرَجَهُ الترمذي: 2018)

’’تم میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن میرا قرب پانے والے وہ لوگ ہوں گے جن کا اخلاق سب سے زیادہ اچھا ہو گا اور تم میں سے مجھے (دنیا میں) سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جو زبان دراز منہ پھٹ، فضول باتیں کرنے والے اور متکبر ہوں گے۔ ‘‘

توضیح و فوائد:  جانوروں میں سے گائے چارہ کھانے کے لیے زبان لمبی کر کے ادھر ادھر گھما کر چارہ منہ میں ڈالتی ہے، یہی حال تکلف سے گفتگو کرنے والے آدمی کا ہے جو اپنی فصاحت و بلاغت کا سکہ بٹھانے کے لیے بھاری بھر کم جملے بولتا ہے اور چرب زبانی سے تکبر کرتے ہوئے لوگوں پر اپنا رعب ڈالنا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد اللہ کی رضا نہیں بلکہ لوگوں کو اپنی لفاظی کا گرویدہ بنانا ہوتا ہے، ایسے شخص سے اللہ تعالی شدید نفرت کرتا ہے، البتہ اگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے فصاحت و بلاغت کی خوبی عطا کی ہے اور وہ بغیر تکلف کے فصیح و بلیغ گفتگو کرتا ہے تو یہ مذموم نہیں ہے، نیز ان احادیث کا توحید سے تعلق اس طرح ہے کہ اگر اس فصاحت و بلاغت سے مقصود لوگوں کو متاثر کرنا اور شہرت طلب کرنا ہو تو یہ ریا کاری کے زمرے میں آتا ہے جو شرک اصغر ہے۔

……………..