رحمت الہی سے مایوسی کفر ہے

ارشاد باری تعالی ہے ﴿قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوْا عَلٰى أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيْعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيْمُ﴾ (سورہ زمر آیت:53)۔
ترجمہ (میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالی سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وہ بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے۔
عَنْ بُرَيدَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ مَاعِز بن مَالِكِ الأَسْلَمِي رَضِيَ اللَّهُ عنهُ إِلَى رَسُولَ اللهِ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَ زَنَيْتُ، وَإِنِّي أُرِيْدَ أَن تُطِّهرَنِي، فردَّهُ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَاهُ فَقَالَ: يَا رسول الله، إلى قَدْ زَنَيتُ، فَرَدَّهُ الثَّانِيَةَ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ: أَتعْلَمُونَ بِعَقْلِهِ بَأْساً ؟ تُنْكِرُوْنَ مِنْهُ شيئًا ؟ فَقَالُوا: مَا نَعْلَمُهُ إِلَّا وَفِي العقل مِنْ صَالِحِينَا فِيمَا نَرَى، فَأَتَاهُ الثَّالِثَةَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ أَيْضًا، فَسَأَلَ عَنْهُ فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُ لا بَأْسَ بِهِ وَلا بِعَقْلِهِ، فَلَمَّا كَانَ الرَّابِعَةَ، حَفَرَ لَهُ حُفْرَةً ثُمَّ أَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ قَالَ: فَجَاءَتِ الْغَامِدِيَّةُ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ زَنِيتُ فَطَهِّرْنِي وَإِنَّهُ رَدَّهَا، فَلَمَّا كَانَ الغَدُ قالت: يا رَسُولَ اللهِ لِمَ تَرُدُّنِي؟ لَعَلَّكَ اِنْ تَرُدُّنِي كَمَا رَدَدْتَ مَاعِزاً، فَوَاللَّهِ إِنِّى لَحُبْلٰى قَالَ: إِمَّا لَا، فَاذْهَبِي حَتَّى تَلِدِيْ، قال: فَلَمَّا وَلَدَتْ أتتْهُ بالصَّبِيِّ فِي خِرْقَةٍ، فَقَالَتْ: هَذَا قَدْ وَلَدته. قَالَ: اذْهَبِى فَارْضِعِيهِ حَتَّى تَفْطِمِيهِ، فَلَمَّا فَطَمَتُهُ أَتتْهُ بِالصَّبِيِّ فِي يَدِهِ كِسْرَةُ خُبْزٍ، فَقَالَتْ: هَذَا يَا نَبِيِّ اللَّهِ قَدْ فَطَمْتُهُ، وَقَدْ أَكَلَ الطَّعَامَ، فَدَفَعَ الصَّبِيَّ إِلَى رجُلٍ مِنَ المُسْلِمِينَ ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَحُفِرَ لَهَا إِلَى صَدْرِهَا، وَ أَمَرَ النَّاسَ فَرَجَمُوهَا، فَيُقِبِلُ خَالِدُ بنُ الوَلِيدِ بِحَجَرٍ فَرَمَى رَأْسَهَا فَتَنَضَّحَ الدمُ عَلَى وَجْهِ خَالِدٍ، فَسَبَّهَا، فَسَمِعَ النبِىُّ ﷺسَبَّهُ إِيَّاهَا، فَقَالَ: مَهْلاً يَا خَالِدُ فَوَالذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا صَاحِبٌ مَكْسٍ لَغْفِرَ لَهُ، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَصَلَّى عَلَيْهَا وَدُفنت (اخرجه مسلم).
(صحیح مسلم: كتاب الحدود، باب من اعترف على نفسه بالزني)
برید و رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ عنہ رسول کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور زنا کیا ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھ کو پاک کریں۔ آپ نے ان کو لوٹا دیا، جب دوسرا دن ہوا تو وہ پھر آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ میں نے زنا کیا ہے آپ نے ان کو پھر لوٹا دیا۔ اس کے بعد ان کی قوم کے پاس کسی کو بھیجا اور دریافت کرایا کہ کیا ان کی عقل میں کچھ فتور ہے؟ اور کیا تم نے ان کے اندر کوئی خراب بات دیکھی ہے؟ انہوں نے کہا ان کی عقل تو اچھی ہے، جہاں تک ہم سمجھتے ہیں وہ ہمارے اچھے لوگوں میں سے ہیں پھر تیسری بار ماعز رضی اللہ عنہ آئے، آپ نے ان کی قوم کے پاس پھر بھیجا اور یہی دریافت کرایا تو انہوں نے کہا ان کو کوئی بیماری نہیں نہ ان کی عقل میں کچھ فتور ہے۔ جب چوتھی بار وہ آئے (اور انہوں نے یہی کہا میں نے زنا کیا ہے مجھ کو پاک کیجئے۔ حالانکہ توبہ سے بھی پاکی ہو سکتی تھی۔ مگر ماعز رضی اللہ عنہ کو شک ہوا شاید توبہ قبول نہ ہو) تو آپ نے ایک گڑھا ان کے لئے کھدوایا پھر رجم کا حکم دیا اور وہ رجم کئے گئے۔ اس کے بعد قبيلہ غامد کی عورت آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ! میں نے زنا کیا ہے مجھ کو پاک کیجئے آپ نے اس کو لوٹا دیا، جب دوسرا دن ہوا تو اس نے کہا یارسول اللہ! آپ مجھے کیوں لوٹاتے ہیں؟ شاید آپ ماعز کی طرح مجھے بھی لوٹا رہے ہیں، اللہ تعالی کی قسم! میں تو حاملہ ہوں (اب زنا میں کیا شک ہے) آپ نے فرمایا، اچھا اگر تو نہیں لوٹتی اور توبہ کر کے پاک ہونا نہیں چاہتی بلکہ دنیا کی سزا ہی چاہتی ہے، تو جا جننے کے بعد آنا، جب اس نے بچہ کو جن دیا تو اسے ایک کپڑے میں لپیٹ کر لائی اور کہا یہ رہا بچہ جس کو میں نے جن دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جا اس کو دودھ پلا جب اس کا دودھ چھوٹ جائے تو آتا، جب اس کا دودھ چھوٹ گیا تو وہ بچے کو لے کر آئی اس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا۔ اور عرض کرنے لگی اے اللہ کے رسول! میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا، اور یہ کھانا کھانے لگا ہے آپ ﷺ نے وہ بچہ ایک مسلمان کو پرورش کے لئے دے دیا اور گدھا کھودنے کا حکم دیا چنانچہ اس کے سینے کے برابر گڑھا کھودا گیا اور لوگوں کو اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک پتھر لے کر آئے اور اس کے سر پر مارا تو خون اڑ کر خالد کے منہ پر آ گرا، خالد رضی اللہ عنہ نے اس کو برا کہا اللہ کے رسول ﷺ نے سن لیا تو آپ نے فرمایا: اے خالد! ٹھہرو۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ناجائز محصول لینے والا ایسی تو یہ کرے تو اس کا گناہ بھی بخش دیا جائے، پھر جناز و کا حکم دیا اور آپ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی اور وہ دفن کر دی گئی۔
تشریح:
ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ عنہ ایک مشہور صحابی ہیں شیطان نے انہیں بہکایا اور ان سے زنا سرزد ہو گیا انہوں نے دنیا کی سزا کو آخرت کی سزا پر ترجیح دی اور رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر زنا کا اقرار کیا اور ایسا ہی معاملہ قبیلہ غامدیہ کی ایک عورت کا تھا جس نے دنیا کی سزا کو اپنا نا بہتر سمجھا اسی لئے رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور زنا کا اقرار کیا۔ انہیں فورا رجم کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ رسول اکرم ﷺ نے انہیں کئی بار لوٹایا تا کہ ان کے معاملہ کی تحقیق ہو جائے اس لئے آپ ﷺ نے ان کے قبیلے کے افراد سے بھی تحقیق کروائی کہ کہیں ان کے عقل میں کسی طرح کا فتور تو نہیں جس کی وجہ سے اس طرح کی بات کر رہے ہیں لیکن جب بات واضح ہوگئی تو آپ ﷺ نے رجم کا حکم دیا۔ کسی بھی صاحب ایمان کے لئے مناسب نہیں ہے کہ ان کے متعلق کوئی بری بات کہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے ان کی توبہ کے متعلق فرمایا کہ اگر کوئی ناجائز محصول لینے والا جو کہ گناہ کبیرہ اور حرام ہے تو یہ کرلے تو بخش دیا جائے گا اور اگر اسے اہل مدینہ کے ستر آدمیوں میں تقسیم کر دیں تو انہیں بھی کافی ہو جائے۔
فوائد:
٭ صحابہ کرام کے زنا کا اقرار ان کے اعلیٰ درجہ کے ایمان اور سچے دل سے توبہ کرنے کی
دلیل ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے اور توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہے۔
٭ شکوک و شبہات کے ازالہ کے بعد رجم کا حکم دینا چاہئے۔
٭ رجم کئے گئے شخص کو برا بھلا کہنا منع ہے۔
٭ عورت اگر زنا سے حاملہ ہو تو وضع حمل تک بلکہ بچے کے کھانا کھانے کے لائق ہو جانے تک اس کی حمد کو مؤخر کر دینا چاہئے۔
٭٭٭٭