رزق حلال ہی آخر کیوں ؟
اہم عناصرِ خطبہ :
01. رزق دینے والا صرف اللہ تعالی ہے
02. تمام خزانوں کی چابیاں صرف اللہ تعالی کے پاس ہیں
03. رزق کے حصول کیلئے جدو جہد اور محنت کرنے کا حکم
04. رزق حلال ہی آخر کیوں ؟
05. حرام کمائی ایک سنگین جرم
06. حرام کمائی کی مختلف صورتیں
07. حرام خوری کے اسباب
پہلا خطبہ
معزز سامعین ! آج کے خطبۂ جمعہ کا موضوع ہے ’’ رزق حلال ہی آخر کیوں ؟ ‘‘
اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے کچھ اہم نکات کا بیان کرنا ضروری ہے ۔
سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ ہمیں بحیثیت مسلمان اس بات پر یقین ہونا چاہئے کہ اللہ تعالی ہی ’’رزاق ‘‘ یعنی رزق دینے والا ہے ۔اس کے علاوہ کسی کے پاس اِس کا اختیار نہیں کہ وہ کسی کو رزق دے ۔
ارشاد باری تعالی ہے : ﴿مَآ اُرِیْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ٭ اِِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ ﴾ [ الذاریات : ۵۷ ۔۵۸]
’’ میں ان سے رزق نہیں چاہتا اور نہ ہی یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں ۔ اللہ تعالی تو خود ہی رزاق ہے۔ بڑی قوت والا اور زبردست ہے ۔ ‘‘
نیز اس کا فرمان ہے : ﴿ وَمَا مِن دَآبَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ إِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا ﴾ [ ہود : ۶]
’’ زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔ ‘‘
رزق کے فیصلے آسمان سے ہوتے ہیں ۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿وَفِیْ السَّمَائِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوعَدُونَ ﴾ [ الذایات : ۲۲]
’’ آسمان میں تمھارا رزق ہے اور وہ بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے ۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ ثُمَّ رَزَقَکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ہَلْ مِن شُرَکَائِکُم مَّن یَفْعَلُ مِن ذَلِکُم مِّن شَیْْئٍ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ ﴾ [ الروم : ۴۰]
’’ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا ، پھر تمھیں رزق دیا ، پھر تمھیں مارے گا اور پھر تمھیں زندہ کرے گا۔ تو کیا تمھارے شرکاء میں سے کوئی ایک شریک ایسا ہے جو ان کاموں میں سے کوئی کام کرتا ہو ؟ وہ پاک ہے اور ان کے شرک سے بلند وبالا ہے ۔‘‘
ان تمام آیات کریمہ سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی ہی رزاق ہے اور رزق دینے کے تمام اختیارات اسی کے پاس ہیں ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تمام خزانوں کی چابیاں صرف اللہ تعالی کے پاس ہیں ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿وَإِن مِّن شَیْْئٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُہُ وَمَا نُنَزِّلُہُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ ﴾ [ الحجر : ۲۱]
’’ کوئی بھی ایسی چیز نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں ۔ اور اسے ہم ایک معلوم مقدار کے مطابق ہی نازل کرتے ہیں ۔‘‘
لہذا رزق صرف اللہ تعالی ہی سے طلب کرنا چاہئے اور اس کا سوال اس کے سوا کسی سے نہیں کرنا چاہئے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا تھا :
﴿إِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُونَ لَکُمْ رِزْقاً فَابْتَغُوا عِندَ اللّٰہِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوہُ وَاشْکُرُوا لَہُ إِلَیْْہِ تُرْجَعُونَ ﴾ [العنکبوت : ۱۷]
’’ اور جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو وہ تمھیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے ۔ لہذا تم اللہ ہی سے رزق مانگو ، اسی کی عبادت کرو اور اس کا شکر ادا کرو ۔ تم اسی کی طرف ہی لوٹائے جاؤ گے ۔‘‘
جن کولوگ اللہ تعالی کے علاوہ پکارتے ہیں ان کے نام انھوں نے چاہے جو بھی رکھ چھوڑے ہوں مثلا داتا ، غریب نواز ، دستگیر وغیرہ تو ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ لہذا اللہ کو چھوڑ کر کسی سے رزق نہیں مانگنا چاہئے۔
رزق کے حصول کیلئے جدو جہد اور محنت کرنے کا حکم
اللہ تعالی نے دن کو کمانے کیلئے اور رات کو آرام کرنے کیلئے بنایا ۔ اس کا فرمان ہے :
﴿وَّجَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا ٭ وَّجَعَلْنَا النَّہَارَ مَعَاشًا ﴾ [النبأ:۱۱۔۱۲]
’’ اورہم نے رات کو پردہ پوش بنایا اور دن کو معاش کا وقت بنایا ۔ ‘‘
اسی طرح اللہ تعالی نے فرمایا :
﴿ وَ مِنْ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ وَ النَّھَارَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ﴾ [القصص 28: 73]
’’ اور اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمھارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم ( رات میں ) سکون حاصل کرو اور ( دن میں ) اس کا رزق تلاش کرو ۔ اور شاید تم شکر گذار بن جاؤ۔ ‘‘
اسی لئے اللہ تعالی نے انسان کو حصولِ رزق کیلئے جدو جہد اور محنت کرنے کا حکم دیا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿ ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِہَا وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖ وَاِِلَیْہِ النُّشُوْرُ﴾ [الملک: 15 ]
’’ وہی تو ہے جس نے زمین کو تمھارے تابع کر رکھا ہے ۔ لہذا تم اس کے اطراف میں چلو پھرو اور اللہ کا رزق کھاؤ۔ اوراسی کی طرف تمھیں زندہ ہو کر جانا ہے ۔ ‘‘
اسی طرح اس کا فرما ن ہے : ﴿ فَاِِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ﴾ [الجمعۃ: 10]
’’ پھر جب نماز ادا ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کے رزق کو تلاش کرو ۔ اور اللہ تعالی کا ذکر کثرت سے کیا کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ ۔ ‘‘
ان دونوں آیات کریمہ میں اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ جس زمین کو اس نے تمھارے لئے مسخر کر دیا ہے تم اس میں چلو پھرو اور اللہ تعالی کے رزق کو تلاش کرو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ رزق کی تلاش کیلئے انسان کو گھر سے باہر نکلنا چاہئے اور اس کے حصول کیلئے جد وجہد اور محنت کرنی چاہئے ۔ اور اپنے ہاتھوں سے کما کر وہ خود بھی کھائے اور اپنے زیر کفالت افراد کو بھی کھلائے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( مَا أَکَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَیْرًا مِّنْ أَن یَّأْکُلَ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ ، وَإِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ دَاؤُدَ کَانَ یَأْکُلُ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ ) [ البخاری : البیوع باب کسب الرجل وعملہ بیدہ : ۲۰۷۲ ]
’’ کسی شخص نے کبھی اُس کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا جو وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتا ہو ۔ اور اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام ( باوجود بادشاہ ہونے کے ) اپنے ہاتھ کی کمائی سے ہی کھایا کرتے تھے ۔ ‘‘
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( إِنَّ أَطْیَبَ مَا أَکَلْتُمْ مِّنْ کَسْبِکُمْ ) [ تر مذی : ۱۳۵۸، ابن ماجہ : ۲۲۹۰۔ وصححہ الألبانی ]
’’ تمھارے کھانے کو سب سے اچھی چیز وہ ہے جسے تم خود کماؤ۔ ‘‘
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود محنت کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
( لَأن یَّحْتَطِبَ أَحَدُکُمْ حُزْمَۃً عَلٰی ظَہْرِہِ خَیْرٌ مِّنْ أَن یَّسْأَلَ أَحَدًا فَیُعْطِیَہُ أَوْ یَمْنَعَہُ ) [ البخاری : البیوع باب کسب الرجل وعملہ بیدہ : ۲۰۷۴ ]
’’ تم میں سے کوئی شخص اپنی پیٹھ پر لکڑیوں کا گٹھا اٹھالائے تو یہ اس کیلئے بہتر ہے اِس سے کہ وہ کسی سے مانگے تو وہ اسے کچھ دے یا نہ دے ۔ ‘‘
رزق حلال ہی آخر کیوں ؟
کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ جب اللہ تعالی نے کمائی کیلئے جد وجہد اور محنت کرنے کا حکم دیا ہے تو پھر انسان آزاد ہے ۔ جو چاہے کمائے اور جیسے چاہے رزق حاصل کرے !
مگر ایسا سوچنا درست نہیں کیونکہ انسان آزاد نہیں بلکہ وہ اس بات کا پابند ہے کہ حلال کمائے اور جائز طریقوں سے رزق کے حصول کیلئے محنت کرے ۔ حرام کمانا اور حصول رزق کیلئے ناجائز وسائل اختیار کرنا قطعا درست نہیں ہے ۔
چنانچہ اللہ تعالی تمام لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :﴿ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِیْ الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا وَّ لاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ﴾ [البقرۃ : 168]
’’ ا ے لوگو ! تم زمین میں سے صرف وہ چیزیں کھاؤ جو حلال اور پاک ہوں ۔ اور شیطان کے نقش قدم پہ نہ چلو کیونکہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے ۔ ‘‘
اور خاص طور پر مومنوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا : ﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَ اشْکُرُوْا لِلّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ ﴾ [البقرۃ: 172]
’’ اے ایمان والو ! اگر تم اللہ ہی کی عبادت کرنے والے ہو تو ہم نے تمھیں جوپاکیزہ چیزیں دی ہیں انہی میں سے کھاؤ اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے رہو ۔ ‘‘
ان دونوں آیات اور ان جیسی دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم صرف وہی چیزیں کھا پی سکتے ہیں جو ہمارے لئے حلال اور پاکیزہ ہوں ۔ اور حلال چیزیں وہی ہو سکتی ہیں جنھیں ہم نے جائز وسائل سے کمایا ہو ۔ ناجائز وسائل کے ذریعے کمائی ہوئی چیزیں حلال نہیں بلکہ حرام ہوتی ہیں ۔ اسی طرح ناپاک چیزیں بھی حرام ہی ہوتی ہیں ۔ وہ حلال نہیں ہو
سکتیں ۔ لہذا صرف اور صرف پاکیزہ چیزوں کے حصول کیلئے ہی جد وجہد کرنی چاہئے اور وہ بھی جائز وسیلوں کے ساتھ ۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ آخر رزقِ حلال ہی کیوں ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالی نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے اس لئے ہماری پوری جد وجہد رزق حلال کیلئے ہی ہونی چاہئے ۔ دوسرا اس لئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا :
( لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یُبَالِی الْمَرْئُ بِمَا أَخَذَ الْمَالَ ، أَمِنْ حَلَالٍ أَمْ مِّنْ حَرَامٍ) [ البخاری : ۲۰۵۹ ، ۲۰۸۳]
’’ لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ جب آدمی کو کوئی پروا نہ ہوگی کہ اس نے مال کیسے حاصل کیا ، حلال طریقے سے یا حرام طریقے سے ! ‘‘
اور ہم سمجھتے ہیں کہ جس زمانے کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی تھی اب وہی زمانہ ہے کہ جس میں بہت سارے لوگوں کو مطلقا اس کی پروا نہیں کہ مال کہاں سے اور کیسے آ رہا ہے ؟ حلال وحرام کی تمیز کئے بغیر بس یہی خواہش ہے کہ مال زیادہ سے زیادہ جمع ہو ۔ جہاں سے ہو اور جیسے ہو ۔ لہذا یہ انتہائی ضروری ہے کہ لوگوں کو اس سلسلے میں متنبہ کیا جائے ۔
تیسرا اس لئے کہ قیامت کے روز ہر انسان سے مال کے متعلق دو سوالات ہونے والے ہیں ۔ مال کہاں سے کمایا تھا اوراسے کہاں خرچ کیا تھا ؟
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(لَا تَزُوْلُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبّہٖ حَتّٰی یُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ : عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَ أَفْنَاہُ ، وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَ أَبْلاہُ ، وَ مَالِہٖ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہُ وَفِیْمَ أَنْفَقَہُ ، وَ مَاذَا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ ) [ ترمذی : ۲۴۱۶ ۔ وصححہ الألبانی ]
’’ قیامت کے دن پانچ چیزوں کے بارے میں سوالات سے پہلے کسی بندے کے قدم اپنے رب کے پاس سے ہل نہیں سکیں گے : عمر کے بارے میں کہ اس نے اسے کس چیز میں گذارا ؟ جوانی کے بارے میں کہ اس نے اسے کس چیز میں گنوایا ؟ مال کے بارے میں کہ اس نے اسے کہاں سے کمایا اور کہاں پر خرچ کیا ؟ اور علم کے بارے میں کہ اس نے اس پر کتنا عمل کیا ؟ ۔ ‘‘
چوتھا اس لئے کہ حرام کمانے والے انسان کی دعائیں ہی قبول نہیں کی جاتیں ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( یَا أَیُّہَا النَّاسُ، إِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ وَلاَ یَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا) [مسلم: ۱۰۱۴ ]
’’ اے لوگو ! اللہ تعالی پاک ہے اور صرف پاک چیز کو قبول کرتا ہے ۔ ‘‘
پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرکے پراگندہ اور غبار آلود حالت میں آسمان کی طرف ہاتھوں کو بلند کرکے دعا کرتا ہے: اے میرے رب ، اے میرے رب ! حالانکہ اس کا کھانا ، اس کا پینا اور اس کا لباس حرام کمائی سے ہوتا ہے اور اس کے جسم کی پرورش حرام رزق سے ہوئی ہوتی ہے تو ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے ! ‘‘
حرام کمائی ایک سنگین جرم
حرام طریقوں سے مال کمانا بہت بڑا گناہ ہے اوراللہ تعالی نے اس سے منع فرمایا ہے ۔
اللہ رب العزت کافرمان ہے : ﴿ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ﴾ [ النساء : ۲۹]
’’ اے ایمان والو ! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ ، ہاں تمھاری آپس کی رضامندی سے خریدو فروخت ہو (تو ٹھیک ہے ) ‘‘
اسی طرح اس کا فرمان ہے : ﴿ وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ [ البقرۃ : ۱۸۸]
’’ اور ایک دوسرے کا مال نا حق طریقے سے نہ کھایا کرو ۔ اور نہ ہی حاکموں کو رشوت دے کر کسی کا کچھ مال ظلم وستم سے اپنا کر لیا کرو حالانکہ تم جانتے ہو ۔‘‘
ان دونوں آیات میں ( بِالْبَاطِلِ) یعنی ناجائز طریقے سے مال کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ اور اس میں ہر ناجائز اور ناحق طریقہ شامل ہے مثلا چوری کرنا ، کسی کا مال غصب کرنا ، خرید وفروخت میں دھوکہ اور فریب کرنا، ڈاکہ زنی کرنا، سودی لین دین کرنا ، امانت میں خیانت کرنا ، جوے بازی کرنا اور حرام چیزوں کی تجارت کرنا وغیرہ۔
اور دوسری آیت میں خاص طور پر حاکموں کو رشوت دے کر کسی کا مال ناجائز طور پر کھانے سے منع کیا گیا ہے جبکہ اس دور میں یہ چیز عام ہے ۔ چنانچہ تھانوں میں پولیس کو رشوت دے کر جھوٹے کیس درج کروا لئے جاتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کو پریشان کیا جاتا بلکہ ان پر ظلم کیا جاتا ہے۔ اور گواہوں ، وکیلوں اور ججوں کو رشوت دے کر فیصلہ اپنے حق میں کرو ا لیا جاتا ہے ۔ یہ سب کچھ کسی شریف آدمی کا مال ہتھیانے یا اس کی جائیداد پر ناجائز قبضہ کرنے کیلئے ہی کیا جاتا ہے ۔ فإلی اللہ المشتکی ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ ۔
حرام کمائی کی مختلف صورتیں
01. چوری کرنا
کسی کے مال کی چوری کرنا حرام ہے ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے چورکیلئے بہت سخت سزا مقرر فرمائی ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوا أَیْْدِیَہُمَا جَزَائً بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ﴾ [ المائدۃ : ۳۸ ]
’’ اور چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو ۔ یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا ۔ اورعذاب ہے اللہ کی طرف سے ۔ اور اللہ تعالی سب پر غالب اور حکمت والا ہے ۔‘‘
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ جو ہاتھ نا جائز طور پر کسی کے مال کی طرف بڑھتا اور اس پر قبضہ جما لیتا ہے اس ہاتھ کو باقی رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ۔ اسے اس آدمی کے جسم سے کاٹ کر الگ کرنا ضروری ہے جو اس قسم کی جسارت کرتا اور دوسروں کے مال کی حرمت کو پامال کرتا ہے ۔
بعض لوگ مسافروں کی جیبیں کاٹ لیتے ہیں ۔ یا خفیہ طور پر ہاتھ کی صفائی کے ساتھ ان کی جیبوں سے نقدی رقم نکال لیتے ہیں ۔ یا کوئی نشہ آور چیز کھلا پلا کر ان کی تمام قیمتی اشیاء اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں ۔ یہ سب چوری ہی کی شکلیں ہیں ۔
بعض لوگ دوسروں کی معمولی قسم کی چیزوں کو بلا اجازت اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں اور اسے چوری تصور نہیں کرتے ۔ حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( لَعَنَ اللّٰہُ السَّارِقَ ، یَسْرِقُ الْبَیْضَۃَ فَتُقْطَعُ یَدُہُ، وَیَسْرِقُ الْحَبْلَ فَتُقْطَعُ یَدُہُ ) [ البخاری : ۶۷۸۳ ، مسلم : ۱۶۸۷ ]
’’ چور پر اللہ کی لعنت ہو جو ایک انڈے کی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے ۔ اور ایک رسی کی چوری کرتا ہے تو اپنا (دوسرا ) ہاتھ بھی کٹوا بیٹھتا ہے ۔ ‘‘
02. ڈاکہ زنی
بعض لوگ دن دہاڑے دیواریں پھلانگ کر گھروں میں داخل ہوجاتے ہیں ۔ اور اسلحہ کی نوک پر گھروالوں کو لوٹ لیتے ہیں ۔ اوربعض لوگ مسافروں اور راہگیروں کو لوٹ لیتے ہیں ۔ اسی کو ڈاکہ زنی کہتے ہیں ۔ اور جو ڈاکو اس طرح
لوٹ مار کرتے اور لوگوں کی جانوں اور ان کے مالوں کی حرمت کو پامال کرتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ انھیں قتل کردیا جائے ۔ کیونکہ وہ لوگوں کے جان ومال کیلئے خطرہ بنتے ہیں توخود انہی کو قتل کرنا ضروری ہو جاتا ہے تاکہ ان کے شر سے لوگ محفوظ رہ سکیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿إِنَّمَا جَزَائُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُونَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَیَسْعَوْنَ فِیْ الْاَرْضِ فَسَادًا أَن یُقَتَّلُوْا أَوْ یُصَلَّبُوْا أَوْ تُقَطَّعَ أَیْْدِیْہِمْ وَأَرْجُلُہُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ یُنفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذَلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِیْ الدُّنْیَا وَلَہُمْ فِیْ الآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ﴾ [ المائدۃ : ۳۳]
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے اور زمین میں فساد بپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی سزا یہی ہو سکتی ہے کہ انھیں اذیت دے کر قتل کیا جائے ، یا سولی پر لٹکایا جائے ، یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دئیے جائیں ، یا انھیں جلا وطن کردیا جائے ۔ان کیلئے یہ ذلت دنیا میں ہے اور آخرت میں انھیں بہت بڑا عذاب ہو گا ۔ ‘‘
03. جوا کھیلنا
بعض لوگ جوا کھیل کر پیسے کماتے ہیں ۔ مثلا کسی کلب وغیرہ میں بیٹھ کر تاش یا کوئی اور گیم کھیلتے ہیں اور اس پر جوا لگاتے ہیں ۔ یا راتوں رات کروڑ پتی بننے کی خواہش لئے کسی بڑی لاٹری میں حصہ لیتے ہیں اور زندگی بھر کی پونجی اس میں جھونک دیتے ہیں ۔ پھر لاٹری ان میں سے کسی ایک کے نام نکلتی ہے اور باقی سب لوگ منہ تکتے رہ جاتے ہیں ۔ تو اس طرح آمدنی کے جتنے ذرائع ہیں وہ سب حرام ہیں ۔ جوے کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ﴾ [ المائدۃ : ۹۰ ]
’’ اے ایمان والو ! بات یہی ہے کہ شراب اور جو ا اور وہ پتھر جن پر بتوں کے نام سے جانور ذبح کئے جاتے ہیں اور فال نکالنے کے تیر ( یہ سب ) نا پاک ہیں اور شیطان کے کام ہیں ۔ لہذا تم ان سے بچو تاکہ کامیابی حاصل کر سکو ۔‘‘
( المیسر) سے مراد ہر وہ کام ہے جس میں مختلف لوگ ایک جیسی رقم لگا کر شریک ہوں ۔ لیکن بعد میں بعض کو ملے اور بعض کو نہ ملے ۔ یا بعض کو کم ملے اور بعض کو زیادہ ۔
مثلا انعامی بانڈز ، سیونگ سرٹیفکیٹ ، ریفل ٹکٹ اور خریدی ہوئی اشیاء میں سے انعامی کوپن نکالنا وغیرہ ۔ اسی طرح
اس میں انشورنس کی مختلف صورتیں بھی شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ کئی لوگ پیسوں کے عوض کچھ نمبر خرید لیتے ہیں ، پھر ان میں قرعہ اندازی ہوتی ہے اور بعض نمبروں کیلئے انعامات نکالے جاتے ہیں ۔ تو یہ بھی جوا ہے ۔
04. سودی لین دین
سودی لین دین کے ذریعے کمانا بھی حرام ہے ۔
اللہ تعالی نے ایمان والوں کو مخاطب کرکے سودی لین دین کو قطعی طور پر چھوڑ دینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو یہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہو گا ۔
فرمایا : ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْن ٭ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ﴾ [البقرۃ : ۲۷۸۔۲۷۹]
’’ اے ایمان والو ! اللہ تعالی سے ڈرو اور اگر تم سچے مومن ہو توجو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو ۔ پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ تعالی اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کیلئے تیار ہو جاؤ ۔ ہاں اگر توبہ کر لو تو تمھارا اصل مال تمھارا ہی ہے ۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے ۔ ‘‘
سامعین کرام ! اگر آپ میں سے کوئی شخص سودی لین دین کرنے میں ملوث ہے تووہ فورا اس سے سچی توبہ کرے اوراسے چھوڑ دے ۔ نہ آپ خودکسی شخص سے اور نہ ہی کسی بنک سے سود پر قرضہ لیں ۔ نہ اپنی ضروریات کیلئے اور نہ ہی تجارتی مقاصد کیلئے ۔ اور نہ ہی کسی کو سود پر قرضہ دیں ۔ اور نہ ہی کسی بنک میں فکس منافع پر رقم جمع کرائیں کیونکہ یہ بھی سود ہی کی ایک شکل ہے ۔
جاہلیت کے دورمیں جب ایک مالدار شخص کسی غریب کو قرضہ دیتا تو سود کے ساتھ دیتا ۔ پھر جب وہ مقررہ مدت میں قرضہ واپس نہ کرتا تو قرض خواہ سود کی مقدار میں اضافہ کرتے ہوئے مدت بڑھا دیتا ۔ پھر کرتے کرتے سود اصل قرضہ سے زیادہ ہو جاتا ۔ یہ بد ترین ظلم تھا جسے اسلام نے قطعی طورپر حرام کردیا۔
اللہ تعالی نے فرمایا : ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ [ آل عمران : ۱۳۰ ]
’’ اے ایمان والو ! تم بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو سکو ۔‘‘
سود کتنا بڑا گناہ ہے ! اس کا اندازہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے کر سکتے ہیں :
( اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حَوْبًا ، أَیْسَرُہُمَا أَنْ یَّنْکِحَ الرَّجُلُ أُمَّہُ ) [ ابن ماجہ : ۲۲۷۴۔ وصححہ الألبانی]
’’ سود میں ستر گناہ ہیں اور اس کا سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے کوئی آدمی اپنی ماں سے نکاح کر لے۔ ‘‘
اور دوسری روایت میں ہے : ( اَلرِّبَا اِثْنَانِ وَسَبْعُوْنَ بَابًا أَدْنَاہَا مِثْلُ إِتْیَانِ الرَّجُلِ أُمَّہُ ۔۔) [ الطبرانی عن البراء رضی اللہ عنہ ۔ صحیح الجامع للألبانی : ۳۵۳۷ ]
’’ سود کے بہتر دروازے ہیں اور اس کا سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن حنظلۃ الراہب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( دِرْہَمُ رِبًا یَأْکُلُہُ الرَّجُلُ وَہُوَ یَعْلَمُ أَشَدُّ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ سِتَّۃٍ وَّثَلاَثِیْنَ زَنْیَۃً ) [ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ۱۰۳۳ ]
’’ جانتے ہوئے سود کا ایک درہم کھانا اللہ کے نزدیک چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ برا ہے ۔‘‘
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ( لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم آکِلَ الرِّبَا ، وَمُوْکِلَہُ ، وَکَاتِبَہُ ، وَشَاہِدَیْہِ ، وَقَالَ : ہُمْ سَوَائٌ ) [ مسلم : ۱۵۹۸ ]
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی سود کھانے والے پر ، سود کھلانے والے پر ، اس کے لکھنے والے پر ، اس کے گواہوں پر ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ سب گناہ میں برابر ہیں ۔
محترم سامعین !
اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہو کہ سود سے مال بڑھتا اور اس میں اضافہ ہوتاہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے ۔ کیونکہ اللہ رب العزت کا فرما ن ہے : ﴿وَ مَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًالِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ وَ مَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُوْن﴾ [ الروم : ۳۹ ]
’’ اور تم لوگ جو سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہو جائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا ۔ اور تم لوگ جو زکاۃ دیتے ہو اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے تو ایسے ہی لوگ اسے کئی گنا بڑھانے والے ہیں ۔‘‘
بلکہ اللہ تعالی نے واضح طور پر فرمایا کہ وہ سودی معیشت کو برباد کردیتا ہے : ﴿یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ ﴾ [ البقرۃ : ۲۷۶ ]
’’ اللہ سود کو مٹاتا اور صدقوں کو بڑھاتا ہے ۔‘‘
ان دونوں آیات سے ثابت ہوا کہ سود سے مال میں اضافہ نہیں ہوتابلکہ کمی واقع ہوتی ہے ۔ ہاں جو چیز مال میں بڑھوتری کا سبب بنتی ہے وہ ہے صدقہ وزکاۃ ۔
اور جو لوگ سودی لین دین کرکے ہمیشہ اپنا روپیہ پیسہ بڑھانے کے چکر میں رہتے ہیں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اپنے سامنے رکھنا چاہئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( مَا أَحَدٌ أَکْثَرَ مِنَ الرِّبَا إِلَّا کَانَ عَاقِبَۃُ أَمْرِہٖ إِلٰی قِلَّۃٍ ) [ ابن ماجہ : ۲۲۷۹۔ وصححہ الألبانی ]
’’ کوئی شخص چاہے کتنا سودلے لے اس کا انجام آخر کار قلت اور خسارہ ہی ہو گا ۔‘‘
اللہ تعالی نے سودی لین دین کرنے والے شخص کو سخت ترین وعید سنائی ہے ۔ اس کا فرمان ہے :
﴿ اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا فَمَنْ جَآئَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ وَ اَمْرُہٗٓ اِلَی اللّٰہِ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ﴾ [البقرۃ: 275]
’’ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ ایسے ہی کھڑے ہونگے جیسے ایک شخص کو شیطان نے چھو کر خبطی بنا دیاہو ۔ یہ اس لئے کہ وہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالی نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام کردیا ہے ۔ لہذا جس شخص کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی اور وہ ( سودی لین دین سے ) باز آگیا تو ا س کیلئے ہے جو گذر گیا ۔ اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ۔ اور جو شخص دوبارہ ( سود کی طرف ) لوٹا تو ایسے لوگ جہنمی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ ‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے بیان فرمایا ہے کہ سود خوری کرنے والا شخص قیامت کے روز پاگل اور دیوانہ کھڑا کیا جائے گا ۔ اور اگر کوئی سود خور قرآن وحدیث کے ذریعے سود کی حرمت معلوم کرنے کے بعد بھی سودی لین دین کو جاری رکھے تو وہ جہنم میں داخل ہو گا۔
05. جھوٹی قسم اٹھا کر کسی کے مال پر قبضہ کرنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( مَنْ حَلَفَ عَلیٰ یَمِیْنٍ فَاجِرَۃٍ لِیَقْتَطِعَ بِہَا مَالَ امْرِیئٍ مُسْلِمٍ لَقِیَ اللّٰہَ وَہُوَ عَلَیْہِ غَضْبَان ) [ متفق علیہ ]
’’ جو آدمی جھوٹی قسم اٹھائے تاکہ اس کے ذریعے کسی مسلمان کے مال پر قبضہ کر لے تو وہ اللہ تعالی کو اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر ناراض ہو گا ۔‘‘
06. ماپ تول میں کمی کرنا
بعض لوگ ماپ تول میں کمی کرکے پیسہ کماتے ہیں اور یہ حرام ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ ٭ الَّذِیْنَ اِِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ ٭ وَاِِذَا کَالُوْہُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ ﴾ [المطففین:۱۔۳]
’’ ہلاکت وبربادی ہے ماپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے ۔ جو جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب انھیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں ۔ ‘‘
یعنی دوہرا معیار اپنا رکھا ہے کہ جب لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب کوئی چیزدیتے ہیں تو ماپ تول میں ڈنڈی مارتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کیلئے تباہی وبربادی ہے ! والعیاذ باللہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(وَلَمْ یَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ إِلَّا أُخِذُوْا بِالسِّنِیْنَ وَشِدَّۃِ الْمَؤنَۃِ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَیْہِمْ) [ ابن ماجۃ : ۴۰۱۹ ۔ وصححہ الألبانی ]
’’ جوقوم ماپ تول میں کمی کرتی ہے اسے قحط سالی ، مہنگائی اور بادشاہ کے ظلم میں جکڑ لیا جاتا ہے ۔ ‘‘
07. کاروبار میں دھوکہ کرنا
بعض لوگ اپنے کاروبار میں دھوکہ ، فراڈ اور ملاوٹ وغیرہ کرکے پیسہ کماتے ہیں اور یہ حرام ہے ۔
ایک مرتبہ رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گذرغلہ کے ایک ڈھیر سے ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اندر ہاتھ ڈالا توآپ کی انگلیوں کو نمی سی محسوس ہوئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ! غلہ بیچنے والے ! یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا : اللہ کے رسول ! اسے بارش نے تر کردیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( أَفَلَا جَعَلْتَہُ فَوْقَ الطَّعَامِ کَیْ یَرَاہُ النَّاسُ ! مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّی ) [ مسلم : ۱۰۲]
’’ اسے تم نے اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگ اسے دیکھ لیتے ! جو شخص دھوکہ کرے اس کامجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ کاروبار میں دھوکہ ، فراڈ اور ملاوٹ کرنا حرام ہے ۔
08. رشوت لینا
بعض لوگ کسی کا کوئی کام کرکے یا کروا کے اس کے بدلے میں رشوت لیتے ہیں ۔ اور اب تونوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اس میں بالکل ہی شرم محسوس نہیں کی جاتی ۔ بلکہ پوری بے شرمی کے ساتھ اس کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ پہلے’مک مکا ‘ ہوتا ہے اور پھر اس کام کیلئے کوئی پیش رفت ہوتی ہے ۔ رشوت ایک ایسا ناسور بن چکاہے کہ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی بغیر رشوت کے نہیں ہوتا ۔ اس لعنت کی وجہ سے حق والوں کو ان کے حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے اور جو اس کے مستحق نہیں ہوتے انھیں نواز دیا جاتا ہے ۔
جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( لَعَنَ اللّٰہُ الرَّاشِیَ وَالْمُرْتَشِیَ وَالرَّائِشَ بَیْنَہُمَا ) [ أبو داؤد : ۳۵۸۰ وأحمد : ۲۲۴۵۲واللفظ لہ ]
’’ اللہ تعالی کی لعنت ہوتی ہے رشوت دینے والے پر ،لینے والے پر اور اس پر بھی جو ان دونوں کے درمیان معاملہ طے کرواتا ہے ۔ ‘‘
ہاں اگر کسی صاحبِ حق کو اس کا حق رشوت دئیے بغیر نہ مل رہا ہو تو اپنا حق لینے یا اپنے اوپر ظلم ہونے سے بچنے کیلئے وہ رشوت دے سکتا ہے ۔ اس صورت میں دینے والے کو گناہ نہیں ہو گا بلکہ لینے والے اور معاملہ طے کرانے والے کو ہی ہو گا ۔ [ عون المعبود ج ۹ ص ۳۵۹ ]
09. حرام اشیاء کا کاروبار کرنا
اشیائے محرمہ کا کاروبار کرنا حرام ہے ۔ اور جو شخص شریعت میں حرام کردہ چیزوں کے ساتھ تجارت اور کاروبار کرتا ہو اس کی اس کاروبار کے ذریعے ہونے والے آمدنی بھی حرام ہی ہوگی ۔
مثلا سگریٹ ، تمباکو ، شراب اور تمام نشہ آور اشیاء کا کاروبار حرام ہے ۔ اسی طرح موسیقی اور گانوں پر مشتمل کیسٹوں یا سی ڈیز کا کاروبار ۔ اسی طرح فلمی کیسٹوں اور سی ڈیز کا لین دین کرنا ۔ اسی طرح حرام جانوروں کی خرید وفروخت بھی حرام ہے اور ان کے ذریعے ہونے والی آمدنی بھی ۔ اس کے علاوہ کسی ناجائز کام کے ذریعے کمانا بھی نا جائز ہے ۔ مثلا بدکاری ، کہانت اور داڑھی مونڈ کرکمائی کرنا درست نہیں ہے ۔
حضرت ابو مسعود الأنصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت ، زانیہ کی آمدنی اور نجومی کی کمائی سے منع فرمایا ۔ [ البخاری : ۲۲۳۷، مسلم : ۱۵۶۷]
اور جب حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا کتے اور بِلّے کی قیمت وصول کرنا جائز ہے ؟ تو انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے ۔
ہاں البتہ شکاری کتا اس سے مستثنی ہے ۔ [ ترمذی : ۱۲۸۱۔ قال الألبانی : حسن ]
10. ۔یتیموں کا مال کھانا
بعض لوگ یتیموں کے سرپرست ہوتے ہیں ۔ اور یتیموں کو جو مال ان کے والد کی وراثت سے ملتا ہے ، یا حکومت ِ وقت یا کسی فلاحی تنظیم کی طرف سے ان کا ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جاتا ہے یا کوئی مالدار آدمی ان کے اخراجات کیلئے پیسے دیتا ہے تو ان کے سرپرست ان کا مال نا جائز طور پر خود ہڑپ کر لیتے ہیں ۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے اور اپنے پیٹ
میں جہنم کی آگ بھرنے کے مترادف ہے ۔ والعیاذ باللہ
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا ﴾ [النساء: 10]
’’وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں وہ در حقیقت اپنے پیٹوں میں آگ بھر تے ہیں اور وہ عنقریب جہنم کی آگ میں داخل ہونگے ۔ ‘‘
اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس فعل کو ان سات گناہوں میں شمار کیا ہے جو انسان کیلئے نہایت ہی مہلک ہیں ۔
11. خیانت کرنا
بعض لوگ اُس مال میں خیانت کرکے پیسہ کماتے ہیں جو ان کے پاس بطور امانت رکھا ہوتا ہے ۔ اور یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں :
﴿ وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ ھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ﴾ [العمران3: 16 ]
’’ اور جوشخص خیانت کرتا ہے وہ قیامت کے روز خیانت کردہ چیز سمیت حاضر ہو گا ۔ پھر ہر شخص کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ ‘‘
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( أَیُّمَا رَجُلٍ اِسْتَعْمَلْنَاہُ عَلٰی عَمَلٍ فَکَتَمَنَا مِخْیَطًا فَمَا فَوْقَہُ کَانَ غَلُوْلًا یَأْتِی بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) [ مسلم : 187]
’’ جس آدمی کو ہم کوئی ذمہ داری سونپیں ، پھر وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بڑی چیز کو چھپا لے تو یہ خیانت ہوگی اور وہ اس چیز سمیت قیامت کے روز حاضر ہو گا ۔ ‘‘
ویسے بھی خیانت کرنا منافق کی نشانی ہے ۔ یہ ایک سچے مومن کو زیب نہیں دیتا کہ وہ امانت میں خیانت کرے ۔
یاد رہے کہ خیانت صرف مال میں ہی نہیں بلکہ اس میں کچھ اور چیزیں بھی شامل ہیں ۔ مثلا زوجین کا ایک دوسرے کے رازوں کو ظاہر کرنا ۔ یا کسی بھی شخص کے رازوں سے پردہ اٹھانا ۔ اپنے آفس یا کمپنی کی اشیاء کو بغیر اجازت کے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرنا ۔ اپنے منصب سے نا جائز فائدہ اٹھانا ۔ یہ سب خیانت ہی کی صورتیں ہیں جن سے بچنا ضروری ہے ۔
12. قرض لے کر واپس نہ لوٹانا
بعض لوگ قرض لے کر اسے یا تو بالکل ہی واپس نہیں لوٹاتے یا پھر بغیر کسی عذر کے ٹال مٹول کرتے اور قرض
خواہوں کو خواہ مخواہ پریشان کرتے رہتے ہیں ۔ بلکہ کئی لوگ تو قرض لیتے ہی اس نیت سے ہیں کہ وہ اسے واپس نہیں لوٹائیں گے اور ہڑپ کر جائیں گے ۔ تو یہ بھی حرام کمائی کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( أَیُّمَا رَجُلٍ یَدِیْنُ دَیْنًا وَہُوَ مُجْمِعٌ أَن لَّا یُوْفِیَہُ إِیَّاہُ ، لَقِیَ اللّٰہَ سَارِقًا ) [ ابن ماجۃ : ۲۴۱۰ ۔ قال الألبانی : حسن صحیح ]
’’ جو شخص اس عزم کے ساتھ قرض لے کہ وہ اسے واپس نہیں لوٹائے گا تو وہ اللہ تعالی سے اس حالت میں ملے گا کہ وہ چور ہو گا ۔ ‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ یُرِیْدُ أَدَائَ ہَا أَدَّی اللّٰہُ عَنْہُ ، وَمَنْ أَخَذَ یُرِیْدُ إِتْلَافَہَا أَتْلَفَہُ اللّٰہُ ) [ البخاری :۲۳۸۷ ]
’’ جو شخص لوگوں سے اِس ارادے کے ساتھ مال لے کہ وہ انھیں واپس ادا کردے گا تو اللہ تعالی اس کی طرف سے اسے ادا کردے گا ۔ اور جو آدمی ان کے مالوں کو اس ارادے کے ساتھ لے کہ وہ انھیں ہڑپ کرلے گا تو اللہ تعالی اس ( کے مال ) کو برباد کردے گا ۔ ‘‘
یعنی اگر وہ ادا کرنے کی نیت سے قرض لے گا تو اللہ تعالی اس کیلئے آسانی کردے گا اور وہ قرض واپس کرنے کے قابل ہو جائے گا ۔ اور اگر وہ قرض کی ادائیگی سے پہلے فوت ہو جائے گا تو اللہ تعالی قیامت کے روز اس کے قرض خواہوں کو اپنی طرف سے راضی کرے گا ۔ اور اگر کوئی شخص شروع سے ہی بد نیت ہو اور اس کا ارادہ ہی یہ ہو کہ وہ قرض لے کر ہڑپ کر لے گا تو اللہ تعالی اموال کو برباد کرکے اسے آخرت میں سزا دے گا ۔
قرض کا معاملہ اتنا سنگین ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا قُتِلَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ أُحْیِیَ ، ثُمَّ قُتِلَ ثُمَّ أُحْیِیَ، ثُمَّ قُتِلَ وَعَلَیْہِ دَیْنٌ مَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یُقْضٰی عَنْہُ دَیْنُہُ ) [ النسائی : ۴۶۸۴۔ وحسنہ الألبانی]
’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر ایک آدمی اللہ کے راستے میں شہید ہو جائے ، پھر اسے زندہ کیا جائے اور وہ دوبارہ شہید ہو جائے ۔ پھر اسے زندہ کیا جائے اور وہ سہ بارہ شہید ہو جائے ۔ اور اس پر قرضہ ہو تو وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا یہاں تک کہ اس کا قرضہ اس کی طرف سے ادا کردیا جائے ۔ ‘‘
اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی کی میت کو لایا گیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھائیں۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( لَعَلَّ عَلٰی صَاحِبِکُمْ دَیْنًا ؟ ) ’’ شاید تمھارے اس ساتھی پر قرض ہے؟‘‘ تو لوگوں نے کہا : جی ہاں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے ہٹ گئے اور فرمایا : ( صَلُّوْا عَلٰی صَاحِبِکُمْ ) ’’ تم خود ہی اس کی نماز جنازہ پڑھ لو ۔ ‘‘ اس پر ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اس کا قرض میرے ذمہ ہے ، میں اس کی طرف سے ادا کردونگا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھیں یہ وعدہ پورا کرنا ہو گا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی ۔ اور اس پر صرف اٹھارہ یا انیس درہم قرض تھا ۔ [ النسائی : ۴۶۸۴۔ وحسنہ الألبانی]
یہ اور اس طرح کی دیگر کئی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرض کا معاملہ انتہائی سنگین ہے ۔ ایک ایسا آدمی جو اللہ کے راستے میں تین بار شہید ہو جائے اور اس پر قرض بھی ہو تو وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی طرف سے اس کا قرض ادا نہ کردیا جائے ! تو عام آدمی کا کیا حال ہو گا ! لہذا قرض دار کو چاہئے کہ وہ پہلے تو جب قرض لے تو ادا کرنے کی نیت سے لے ۔ دوسرا یہ کہ پہلی فرصت میں اسے واپس لوٹائے کیونکہ موت کا کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ کس لمحہ آ جائے اور کہاں آ جائے اور کس حالت میں آ جائے ! بلکہ قرض کی واپسی کیلئے مقروض کو ہمیشہ فکرمند رہنا چاہئے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( لَوْ أَنَّ لِی مِثْلَ أُحُدٍ ذَہَبًا مَا یَسُرُّنِی أَن لَّا یَمُرَّ عَلَیَّ ثَلَاثٌ وَعِنْدِیْ مِنْہُ شَیْیئٌ ، إِلَّا شَیْیئٌ أَرْصُدُہُ لِدَیْنٍ ) [ البخاری : ۲۳۸۹]
’’ اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے یہ اچھا نہیں لگے گا کہ تین روز گذر جائیں اور اس دوران اس کا کچھ حصہ میرے پاس باقی رہ جائے ۔ہاں میں اس میں سے صرف اتنا سونا رکھ سکتا ہوں جس سے میں کسی کا قرض ادا کرسکوں ۔ ‘‘
سامعین کرام ! یہ تھے حرام کمائی کے بعض اہم اسباب و وسائل جنھیں ہم نے قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کیا ہے ۔ ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں بس رزق حلال ہی نصیب فرمائے اور حرام سے محفوظ رکھے ۔
دوسرا خطبہ
اللہ تعالی نے ہمیں حلال کھانے کا حکم دیا ہے ۔ اور ہمارا دین ہمیں حرام کمائی سے منع کرتا ہے ۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے لوگوں کا مطمح نظر صرف مال کا حصول ہے ، خواہ حلال اور جائز طریقوں سے حاصل ہو یا حرام اور نا جائز طریقوں سے حاصل ہو ۔ آج حلال وحرام کی تمیز بہت کم رہ گئی ہے ۔ اس کے کئی اسباب ہیں :
پہلا سبب : خوفِ الہی نہیں رہا ! جی ہاں ، اللہ تعالی کا خوف اور اس کے عذاب کا ڈر بہت کم لوگوں میں رہ گیا ہے ۔
زیادہ تر لوگ اللہ تعالی سے بے خوف نظر آتے ہیں ۔ ورنہ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا تو حرام کمائی کے جتنے طریقے ہم نے ذکر کئے ہیں ان میں سے کوئی بھی نہ ہوتا ۔
٭ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا توماپ تول میں کمی نہ ہوتی !
٭ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا تو سود کی حرمت معلوم ہونے کے باوجود سودی لین دین کو جاری نہ رکھا جاتا !
٭ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا تو لین دین کے معاملات میں دھوکہ ، فراڈ اور ملاوٹ وغیرہ نہ ہوتی !
٭ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا تو پوری بے شرمی کے ساتھ ہر معاملے میں رشوت نہ لی جاتی !
٭ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا تو خیانت نہ کی جاتی !
٭ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا تو چوری ، ڈاکہ زنی اور جوے بازی کو ترک کردیا جاتا !
٭ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا تو خرید وفروخت کے معاملات میں جھوٹی قسمیں نہ کھائی جاتیں !
٭ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا تو حرام اشیاء کا کاروبار نہ کیا جاتا !
٭ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا تو یتیموں کا مال نہ کھایا جاتا !
لیکن کیا کہئے کہ آج مسلمانوں کے دلوں سے خوفِ باری تعالی جاتا رہا ۔ جس کے نتیجے میں حرام خوری کو آج سرے سے عیب ہی نہیں سمجھا جاتا ۔ بلکہ دھڑلے کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ دنیا کر رہی ہے تو ہم کیوں نہ کریں !
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے دلوں میں اللہ تعالی کا خوف پیدا کریں ۔ اور حرام ذرائع آمدنی کو کلی طور پر چھوڑ دیں ۔
دوسرا سبب : راتوں رات مالدار بننے کی خواہش !
حرام کمائی کے مختلف وسائل اس لئے اختیار کئے جاتے ہیں کہ بہت سارے لوگ راتوں رات مالدار بننا چاہتے ہیں اور حصولِ رزق میں تاخیر کو برداشت نہیں کرتے۔ حالانکہ رزق کی تقسیم اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے ۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں : ﴿نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَّعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا ﴾ [ الزخرف : ۳۲]
’’ ہم نے ہی ان کی روزی کو دنیاوی زندگی میں ان کے درمیان تقسیم کردیا ہے اور ہم نے ہی ان میں سے بعض کو بعض پر کئی درجے فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لے سکیں ۔ ‘‘
رزق کے فیصلے اللہ تعالی کی طرف سے ہوتے ہیں ۔ وہ جسے چاہے زیادہ دے اور جسے چاہے کم دے ۔ اللہ تعالی کا
فرمان ہے : ﴿ اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ یَقْدِرُ لَہٗ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ﴾ [العنکبوت: 62 ]
’’ اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جسے چاہے فراخ روزی دیتا ہے اور جسے چاہے تنگ ۔ یقینا اللہ تعالی ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے ۔ ‘‘
لہذا اگر کسی انسان کو رزق محدود مقدار میں مل رہا ہو تو وہ اللہ تعالی کے فیصلے پر راضی ہو جائے اور قناعت اختیار کرے ۔ یہ نہیں کہ وہ نا جائز طریقوں سے حصول ِ رزق کیلئے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
( إِنَّ جِبْرِیْلَ أَلْقٰی فِی رَوْعِی أَنَّ أَحَدًا مِّنْکُمْ لَن یَّخْرُجَ مِنَ الدُّنْیَا حَتّٰی یَسْتَکْمِلَ رِزْقَہُ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَأَجْمِلُوْا فِی الطَّلَبِ ، فَإِنِ اسْتَبْطَأَ أَحَدٌ مِّنْکُمْ رِزْقَہُ فَلَا یَطْلُبْہُ بِمَعْصِیَۃِ اللّٰہِ فَإِنَّ اللّٰہَ لَا یُنَالُ فَضْلُہُ بِمَعْصِیَتِہِ ) [ السلسلۃ الصحیحۃ للألبانی : ۲۶۰۷]
’’ بے شک جبریل علیہ السلام نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اس دنیا سے نہیں جائے گا جب تک وہ اپنا رزق مکمل طور پر حاصل نہ کرلے ۔لہذا تم اللہ تعالی سے ڈرتے رہو اور رزق کی طلب میں خوبصورتی پیدا کرو ۔ ( یعنی صرف حلال طریقوں سے اسے طلب کرو ۔ ) اگر تم میں سے کوئی شخص یہ محسوس کرے کہ اس کے رزق میں تاخیر ہو رہی ہے تو وہ اسے اللہ تعالی کی نافرمانی کے ذریعے طلب نہ کرے کیونکہ اللہ تعالی کا فضل اس کی نافرمانی کرکے حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ ‘‘
اسی حدیث کی ایک اور روایت کے آخر میں یہ الفاظ ہیں : ( خُذُوْا مَا حَلَّ وَدَعُوْا مَا حَرَّمَ ) [ ابن ماجۃ : ۲۱۴۴۔ صححہ الألبانی ]
’’ تم وہ چیز لو جو حلال ہو اور اس کو چھوڑ دو جو حرام ہو ۔ ‘‘
تیسرا سبب : حرام خوری کی سنگینی اور خطرناکی سے ناواقفیت
بہت سارے لوگ جو حرام کمائی کے مختلف ذرائع اختیار کرتے ہیں وہ اس سے نا واقف ہوتے ہیں کہ یہ کس قدر خطرناک اور سنگین جرم ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( إِنَّہُ لَا یَرْبُو لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ إِلَّا کَانَتِ النَّارُ أَوْلٰی بِہِ ) [ ترمذی : ۶۱۴ ۔ وقال الألبانی : صحیح]
’’ وہ گوشت جس کی پرورش حرام غذا سے ہو وہ جہنم کی آگ کے زیادہ لائق ہے ۔ ‘‘
سلف صالحین اس سلسلے میں کس قدر محتاط ہوتے تھے اس کا اندازہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے کیا جا سکتا ہے جن کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ان کا ایک غلام ایک دن کھانے کی کوئی چیز لے کر آیا تو انھوں نے اس میں سے کچھ کھا لیا ۔ پھر غلام نے کہا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ جو کچھ آپ نے کھایا ہے یہ کہاں سے آیا ہے ؟ انھوں نے پوچھا : کہاں سے آیا
ہے ؟ اس نے کہا : میں نے جاہلیت کے دور میں ایک آدمی کیلئے کہانت کی تھی ۔ میں کہانت جانتا تو نہ تھا البتہ میں اسے دھوکہ دینے میں کامیاب ہو گیا ۔ آج اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے یہی کھانا مجھے دیا جس سے آپ نے بھی کھایا ہے ! چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اپنے منہ میں داخل کیا اور کوشش کرکے جو کچھ ان کے پیٹ میں تھا اسے قے کر ڈالا ۔ [ البخاری : ۳۸۴۲ ]
ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اسی طرح محتاط ہو جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم محتاط تھے ۔
چوتھا سبب : طمع اور لالچ
جی ہاں ، طمع اور لالچ انسان کو اندھا کردیتی ہے ۔ پھر وہ کچھ نہیں دیکھتا کہ حلال کما رہا ہے یا حرام ! حالانکہ یہ لالچ کتنی بری بلا ہے اس کا اندازہ اس حدیث سے کیا جا سکتاہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِی غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَہَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْئِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِیْنِہِ ) [ ترمذی : ۲۳۷۶ ۔ قال الألبانی : صحیح ]
’’ ایسے دو بھوکے بھیڑیے جنھیں بکریوں میں چھوڑ دیا جائے وہ ان میں اتنی خرابی نہیں کرتے جتنی خرابی مال اور جاہ ومنصب پر بندے کی لالچ کی وجہ سے اس کے دین میں ہوتی ہے ۔ ‘‘
مطلب یہ ہے کہ اگر دو بھوکے بھیڑیوں کو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے کہ وہ جو چاہیں اور جیسے چاہیں کریں تو وہ اس ریوڑ میں جتنی تباہی وبربادی پھیلائیں گے وہ اُس تباہی وبربادی سے زیادہ نہیں ہوتی جو کسی انسان کے دین میں اس وقت واقع ہوتی ہے جب وہ مال اور جاہ ومنصب کی لالچ میں مبتلا ہوتا ہے ۔ یعنی اِس بندے کی دینی تباہی زیادہ ہوتی ہے اُس پہلی تباہی سے ۔ واللہ المستعان
اللہ تعالی ہمیں ایسی لالچ سے محفوظ رکھے ۔ اور ہمیں رزقِ حلال پر قناعت نصیب کرے ۔