روزمره پیش آمدہ مسائل کا حل

﴿ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۝۱۶۲

لَا شَرِیْكَ لَهٗ ۚ وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۝﴾ (الانعام:162)

’’کہو! میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں، اس کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والوں میں ہوں ۔ ‘‘

گذشتہ  خطبہ جمعۃ المبارک میں بات ہو رہی تھی کہ زندگی کے بارے میں لوگوں کی غالب اکثریت بڑے دھوکے میں ہے، کچھ تو اس کی کشش اور رنگینی میں کھو کر مقصد زیست بھلا بیٹھے ہیں، اور اب وہ اسے عیش دمستی میں گزارنا چاہتے ہیں، کوئی اس میں بڑے بڑے کام کر کے دکھانا چاہتا ہے تاکہ دنیا میں اس کا نام رہے اور تاریخ اس کو یاد رکھے اور کچھ زندگی یوں گزار دیتے ہیں کہ بس زندہ رہنے کے لیے جو کچھ ان سے بن پڑے، جو تگ و دو اور محنت و مشقت وہ کر سکتے ہوں کرتے چلے جاتے ہیں، اس سے زیادہ ان کے نزدیک زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا، جبکہ حقیقت میں زندگی گزارنا اصل کام، بہت بڑا کام اور بہت بڑا امتحان ہے۔ مگر زندگی گزارنے کا مطلب زندہ رہنے کے لیے کھانے پینے، کام کرنے اور بودو باش اختیار کرنے کے لیے سعی و جہد کرنا نہیں، بلکہ زندگی گزارنا اپنے وسیع تر معنوں میں مراد ہے۔ اور وہ یہ کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ ایک ضابطے، اصل اور قاعدے کے مطابق ہو، وہ زندگی صاف ستھری، پر امن، پاکیزہ اور  وشگوار ہو، جسے قرآن پاک حیات طیبہ کے نام سے موسوم کرتا ہے، اور ایسی زندگی اپنے آپ کو قرآن وسنت کے مطابق ڈھال دینے سے حاصل ہوتی ہے۔

مگر گزشتہ خطبہ جمعہ میں جو باتیں عرض کی گئیں اور آج جن باتوں کا تذکرہ مقصود ہے وہ زندگی گزارنے کے اک مخصوص پہلو سے متعلق ہیں اور وہ یہ کہ زندگی میں پیش آنے والی پریشانیوں، مصیبتوں اور دشواریوں سے خوش اسلوبی کے ساتھ نبرد آزما ہوتا اور مسائل کا حل خوشگوار مناسب اور موزوں طریقے اور ڈھنگ سے چاہنا۔ اور شریعت کے مقرر کردہ اصول و ضوابط نیز سلیقے اور آداب التیار کرنا تا کہ خوشگوار، پر سکون، پر امن اور پاکیزہ زندگی گزاری جاسکے۔

اس سے پہلے کہ ہم زندگی میں پیش آنے والے چیدہ چیدہ مسائل کا ذکر کریں اور ان کا حل جاننے کی کوشش کریں، اس حقیقت کو ایک بار پھر ذہن نشین کر لیں کہ یہ دنیا پریشانیوں کا گھر ہے اور ان سے کسی کو مفر نہیں، ہر شخص کو زندگی میں بے شمار پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نوعیت مختلف ہو سکتی ہے، بلکہ کچھ پریشانیاں تو ایسی ہیں کہ شعوری عمر کو پہنچنے والے ہر شخص کو ان سے لا محالہ گزرنا پڑتا ہے جیسا کہ کسی قریبی عزیز رشتہ دار کی موت کی مصیبت اور پریشانی، یا دور کے رشتہ دار کی ، یا دوست یا پڑوسی کی موت کی تکلیف ۔ قرآن پاک نے کسی کی وفات سے پہنچنے والی تکلیف کو مصیبت کہا ہے:

﴿وفَأَصَابَتْكُمْ مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ﴾ (المائدة:106)

’’پھر تمھیں موت کی مصیبت پیش آ جائے ۔‘‘

اور وہ مصیبت فوت ہونے والے کے لیے نہیں بلکہ اس کے لواحقین کے لیے۔ اس کے دوست واحباب اور چاہنے والوں کے لیے ہوتی ہے کہ فوت ہونے والے کی جدائی کا غم ان پر مصیبت کا پہاڑ بن کر گرتا ہے، ہاں موت فوت ہونے والے ایسے اشخاص کے لیے بھی مصیبت ہوتی ہے جنہوں نے زندگی خواہشات کی پیروی اور بے راہ روی میں گزاری ہو، مگر راد راست پر چلنے والے شخص کے لیے وہ موت مصیبت نہیں بلکہ راحت کا ساماں ہوتی ہے۔

تو کلی طور پر مصیبتوں سے بچنا اس دنیا میں کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے، ہم جو بات اس گفتگو میں جاننا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ مصیبتوں کا سامنا کیسے کرنا ہے، مصیبت پڑنے پر آدمی کا طرز عمل کیا ہونا چاہیے۔ ابھی ہوئی ڈور کو سلجھایا کیسے جائے ،سرا کیسے ڈھونڈا جائے۔ کیونکہ اکثر لوگوں کے ساتھ ایسے ہوتا ہے کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے یا جب کوئی اذیت پہنچتی ہے تو ان کا ذہن ما ؤوف ہو جاتا ہے، دماغ کام چھوڑ دیتا ہے، عموماً لوگوں کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں ، حواس باختہ ہو جاتے ہیں، ہوش اڑ جاتے ہیں لہٰذا قوت فیصلہ متاثر ہو جاتی ہے۔

تو ایسی صورت میں سب سے پہلے ضرورت ہوتی ہے اپنے ہوش و حواس درست رکھنے کی، دل جمعی پیدا کرنے کی، پر سکون رہنے کی اور خاطر جمع رکھنے کی، کیونکہ اگر ہوش و حواس قائم نہ ر ہیں تو آدمی کو مسائل سے نمٹنے کی کوئی مثبت ترکیب نہیں سوجھتی، بلکہ وہ جذبات کے دوش پر سوار ہوتا ہے۔

تو خیر تمہید کو سمیٹتے ہوئے اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔

کسی بھی مصیبت، تکلیف اور پریشانی کے آنے پر سب سے پہلا کام جو کسی بھی مسلمان کو کرنا ہوتا ہے، وہ ہے: ﴿إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ﴾  کہنا۔ اور یہ شرعی حکم ہے.

اللہ فرماتے ہیں:

﴿ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ۝﴾ (البقرة:155)

’’اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیں۔‘‘

﴿ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ۝﴾(البقرة:156)

’’جو خوف وخطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے کھانے کی آزمائش پر صبر کرتے ہیں اور کسی بھی مصیبت کے آنے پر ﴿اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ﴾ کہتے ہیں ۔ جس کا معنی ہے کہ ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔

یہ الفاظ چند حروف پر مشتمل محض ایک جملہ ہی نہیں کہ زبان سے ادا کر دیا جائے اور ہیں۔ بلکہ حقیقت میں اک عقیدے کا اقرار اور اظہار ہے۔ اور عقیدے کا تعلق دل سے ہوتا ہے، یعنی دل میں کسی چیز پر پختہ یقین اور ایمان ہونے کا نام عقیدہ ہے کہ دل میں کسی بات کے اقرار واعتراف اور ایمان کی گرہ  باندھ لی جائے، اور دل میں اس عقیدے کے ساتھ ساتھ زبان سے بھی ان الفاظ کے ساتھ اس کا اظہار کیا جائے ۔ تو اس عقیدے کے اقرار و اظہار سے انسان کو دلی سکون اور طمانیت حاصل ہوتی ہے، اللہ تعالی کی عنایتیں اور رحمتیں حاصل ہوتی ہیں۔ جیسا کہ فرمایا:

﴿ اُولٰٓىِٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ ۫ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ۝﴾ (البقرة:157)

’’ان پر ان کے رب کی طرف سے عنایتیں اور نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔‘‘

آپ جانتے ہیں کہ کسی مصیبت اور نقصان کے وقت آدمی کو کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے تسلی اور تشفی کی، چنانچہ کسی کی وفات پر پسماندگان سے تعزیت کی جاتی ہے جو کہ اسے تسلی اور شفی دینا ہوتا ہے، وہ جو شدت غم سے نڈھال ہو رہے ہوتے ہیں ان کو پرسا دینا ہوتا ہے، ان کا حوصلہ بڑھانا اور ہمت بندھانا ہوتا ہے۔

اور انسان جو کسی انسان کو پر سا  دے رہا ہوتا ہے تسلی اور تشفی دے رہا ہوتا ہے تو وہ محض ہمدردی اور خیر خواہی کے چند الفاظ سے اس کو تسلی دے رہا ہوتا ہے، حقیقی تسلی اور شفی اور طمانینت تو اللہ تعالی کی طرف سے دی جاتی ہے کہ وہ اس پر اپنی عنایتیں اور رحمتیں نازل فرماتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ بندہ دل کی گہرائیوں سے اس عقیدے کا اقرار کرے اور زبان سے ان الفاظ کے ساتھ اس کا اظہار کرے کہ:

﴿وَإِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ﴾

’’یقینًا  ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔‘‘

اور احادیث میں بھی اس حقیقی تسلی اور تشفی کی نوید سنائی گئی ہے۔

حدیث میں ہے، ام المومنین ، ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں۔

سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: ((مَا مِنْ مُسْلِمٍ تُصِيبَهُ مُصِيبَةٌ فَيَقُولُ مَا أَمَرَهُ اللَهُ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللّٰهُمَّ أَجْرْنِي، فِي مصِيبَتِي وَاخْلِفُ لِي ، خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَخْلَفَ اللهُ لَهُ خَيْرًا مِّنْهَا))

’’کہ میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس کسی مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ  وہ  الفاظ کہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے اور وہ ہیں: انا لله وانا الیه راجعون، اور ساتھ یہ دعا کے اللهم أجرني في مصيبتي وأخلف لي خيرا منها، "اے اللہ ! مجھے میری اس مصیبت کا اجر اور ثواب دے اور مجھے اس کا نعم البدل عطا فرما ۔ تو اللہ تعالی اس کو اس کا نعم البدل عطا فرماتے ہیں ۔

((قالت: فَلَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَةَ قُلْتُ: أَي الْمُسْلِمِينَ خَيْرٌ مِنْ أَبِي سلَمَةَ أَوَّلُ بَيْتٍ هَاجَرَ إِلَى رَسُولِ اللهِ ثُمَّ إِنِّي قُلْتُهَا فاخْلَفَ اللهُ لِي رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَتْ: فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَىَّ حَاطِبَ بْنَ أَبِي بَلْتَعَةَ يَخْطُبُنِي له قلْتُ: إِنَّ لِي بِنتًا وَأَنَا غَيُورٌ))

’’فرماتی ہیں: جب ابو سلمہ فوت ہوئے تو میں نے کہا: ابوسلمہ سے بہتر کون ہوگا ؟ اس لیے کہ ان کا پہلا گھر تھا جس نے رسول اللہ سے علم کی طرف ہجرت کی، پھر میں نے یہ دعا پڑھی تو اللہ تعالی نے میرے لیے اس کے بدلے میں رسول اللہﷺ کو شوہر بنا دیا، پھر رسول اللہ سے ہم نے حاطب بن ابی بلتعہ کو پیغام نکاح دے کر بھیجا، میں نے کہا: میری ایک بیٹی ہے اور مجھ میں غیرت ہے۔‘‘

یہاں غیرت سے مراد اک شریف اور وفا شعار بیوی کی فطری خوبی اور صفت ہے کہ وہ ایک ایسے خاوند کے بعد جو اس کی نظروں میں سب سے اچھا انسان ہو کہ اس کا کوئی ثانی نہ ہو، اور اس کے گزرے ہوئے دنوں کی اچھی یادیں اسے افسردہ کر جاتی ہوں تو وہ دوسری شادی کرنے کو اس سے بے وفائی سمجھتی ہیں۔ اور وہ غیرت ضرورت سے زیادہ ہو اس کے بس کی بات نہ ہو۔

فَقَالَ: ((أَمَّا ابْنَتَهَا فَنَدْعُوا اللهَ أَنْ يُغْنِيَهَا عَنْهَا))

’’تو آپ ﷺ نے فرمایا: جہاں تک اس کی بیٹی کا تعلق ہے تو ہم دعا کریں گے کہ اللہ تعالی اسے اس کی ذمہ داری سے بے فکر کر دے۔‘‘

((وَادْعُو اللهَ أَنْ يَّذْهَبَ بِالْغَيْرَةِ)) (مسلم:918)

’’اور میں اللہ تعالی سے دعا کروں گا کہ اللہ تعالی اس کی یہ غیرت ختم کر دے۔‘‘

تو مصیبت کے وقت ﴿ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ ﴾ کہنا اور ساتھ یہ دعا پڑھنا آدمی کو سکون و اطمینان قلب دلاتا ہے اور حقیقی تسلی اور شقی کا موجب بنتا ہے۔

اور یہ کلمہ صرف کسی کی وفات کے موقع پر ہی نہیں بولا جاتا جیسا کہ عموماً تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ کوئی فوت ہو جائے تو اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَکہا جائے، بلکہ کسی بھی تکلیف اور مصیبت کے وقت کہنا چاہیے۔ کیونکہ مصیبت کا لفظ ہر قسم کی تکلیف، اذیت اور پریشانی کے لیے بولا جاتا ہے۔

جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے جوتے کا تسمہ نوٹ گیا تو انہوں نے  اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ راجعون کہا۔

((انقَطَعَ شِسْعَ نَعْلِ عُمَرَ بنِ الخَطَّابِ رضی الله تعالي عنه فَاسْتَرْجَعَ))

’’حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ گیا تو انہوں نے کہا: اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ

((وَقَالَ: كُلُّ مَا سَاءَ كَ مُصِيبَةٌ)) (طبقات ابن سعد، ج: 1، ص 174)

’’اور فرمایا: جو چیز تم پر ناگوار گزرے اور تکلیف کا باعث ہو وہ مصیبت ہے۔‘‘

مگر افسوس کہ آج ہم نے اپنے مسائل کے حل کے لیے، اپنی پریشانیوں اور مصیبتوں کے حل کے لیے اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے کو نظر انداز کر رکھا ہے، اور اس کے بجائے مکمل مادی اسباب پر انحصار کر رکھا ہے، حالانکہ حدیث میں ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: ليَسْأَلَ أَحَدُكُمْ رَبَّهُ حَاجَتَهُ كُلَّهَا، حَتّٰى شِسْعَ نَعْلِهِ إِذَا انْقَطَعَ)) (تاریخ دمشق، ج :43، ص:532)

’’اپنی تمام حاجتیں اور ضرورتیں اللہ تعالی سے مانگو حتی کہ اگر کسی کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اس سے مانگو۔‘‘

 مگر ہم نے غیر اللہ سے تعلق تو مضبوط کر رکھا ہے اور اللہ تعالی سے تعلقات خراب کر رکھتے ہیں، غیر اللہ پر بڑا بھروسہ ہے کہ وہ ہماری مدد کریں گے مگر معاذ اللہ، اللہ پر توکل، اعتماد اور بھروسہ نہیں ہے۔

 آج ہمارے غیر اللہ کے ساتھ تعلقات اُس سے چنداں مختلف نظر نہیں آتے، جو شاعر ابو فراس الحمدانی نے اپنے کزن سیف الدولہ جو کہ طلب کا حاکم تھا کے بارے میں کہے تھے۔ حالانکہ وہ صرف اللہ تعالی کے لیے ہو سکتے ہیں وہ اشعار نہایت خوبصورت اور سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہیں اگر مخاطب اللہ تعالی ہو۔

شاعر کہتا ہے۔

فلَيْتَكَ تَحْلُوْ وَالْحَيَاةُ مَرِيرَةٌ

 ولَيْتَكَ تَرْضَى وَالْأَنَامُ غِضَابٌ

’’ اے کاش تو علاوت بھرا ہو اور زندگی چاہے کر دی ہو۔ اور اے کاش تو راضی ہو جائے، دنیا چاہے ساری ناراض رہے۔‘‘

وَلَيْتَ الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَكَ عَامِرٌ

 وَبَيْنِي وَبَيْنَ الْعَالَمِينَ خَرَابٌ

’’اور اے کاش میرے اور تیرے درمیان بنی رہے اور میرے اور کائنات کے درمیان چاہے بگڑی ہوئی ہو۔‘‘

إِذَا صَحَّ مِنْكَ الْوُدُّ فَالْكُلِّ هَيِّنٌ

 وَكُلُّ الَّذِي فَوْقَ التَّرَابِ تُرَابُ( ابوفراس الحمدانی)

’’اگر تمہاری محبت حاصل ہو جائے تو باقی سب کیا ہے اور اس مٹی پر جو کچھ ہے سب مٹی ہے۔‘‘

اب اندازہ کریں جو تعلق اللہ تعالی کے ساتھ ہونا چاہیے، جو امیدیں اس سے وابستہ ہونی چاہئیں، وہ ہم نے غیروں سے کر رکھی ہیں، پھر اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕکہنے کی توفیق کیسے ہو؟ پھر دل کی گہرائیوں سے اس عقیدے کا اظہار کیسے ہو؟

اس عقیدے سے انسان کی دنیا اور اس کے دین پریقینًا   گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، مگر ہمیں اس کی ضرورت اور اہمیت کا علم ہی نہیں ہے۔

یہ عقیدہ ہماری زندگیوں میں کہاں تک موجود ہے، اس کی ایک جھلک ملاحظہ کریں، اگر چہ زیادہ تر لوگ تو ایسے نہیں ہوں گے، کم از کم الفاظ کی حد تک تو ایک رسمی سا تعلق ضرور ہوگا، مگر کچھ ایسے بھی ہو سکتے ہیں یقین نہیں آتا۔

ایک بار میں نے دیکھا دو نوجوان آپس میں باتیں کر رہے تھے، ایک کہنے لگا: تم فلاں شخص کو جانتے ہو، کہا: ہاں۔

کہنے لگا: وہ فوت ہو گیا ہے۔ تو دوسرا شخص کہنے لگا: اوہ…. Sh

اور پھر اوہ کے بعد وہ غلاظت بھرا لفظ بولا جو یہاں کے معاشرے میں بولا جاتا ہے۔ کیا۔ اور وہ یقینًا   معاشرے کا واحد شخص نہیں ہوگا جس کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ہوں۔

دنیا کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل، پریشانیوں اور مصیبتوں کا حل مادی اسباب کے ذریعے بھی ہے، اور شرعی اسباب کے ذریعے بھی، جہاں مادی اسباب درکار ہوتے ہیں، وہاں مادی اسباب ضرور اختیار کرنے چاہئیں، مگر شرعی اسباب وہاں بھی ضروری ہیں، وہاں بھی یہ دعا زبان پر ضروری ہونی چاہیے کہ

((اَللّٰهُم رَحْمَتَكَ أَرْجُو، فَلَا تَكِلْنِي إِلٰى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ وأَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ)) (ابوداؤد، رقم:5090)

’’اے اللہ! مجھے پلک جھپکنے کے برابر بھی میرے نفس کے حوالے نہ کرنا اور میرے تمام معاملات خود ہی سنوار دینا کہ تیرے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔‘‘

قرآن وحدیث بھرے پڑے ہیں، یہ بتانے کے لیے کہ مصیبتیں اور پریشانیاں کیوں آتی ہیں، اور انہیں کیسے دور کیا جا سکتا ہے اور شدید ترغیب دی گئی ہے کہ مصیبتوں اور پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے ہے اللہ تعالی کی طرف رجوع کریں۔

﴿ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰهُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ۝﴾(الانعام:42)

’’ہم نے آپ سے پہلے بہت سی قوموں کی طرف رسول بھیجے اور ان قوموں کو مصائب و آلام میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ گڑ گڑا ئیں ۔ ‘‘

﴿ فَلَوْ لَاۤ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَ لٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾(الانعام:43)

’’پس جب ہماری طرف سے ان پر سختی آئی تو وہ کیوں نہ گڑ گڑائے ؟ مگر ان کے دل تو سخت ہو گئے اور شیطان نے ان کے طرز عمل کو ان کے لیے مزین کر دیا کہ تم جو کچھ کر رہے ہو بہت اچھا اور سب ٹھیک ہے ۔ ‘‘

آج ہم مسائل کے حل کے لیے شرعی اسباب کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کرتے کہ ہمیں اپنی دولت پر مان ہے، کہ پیسے سے سب کام ہو جاتے ہیں، ہمیں اپنی واقفیت پر کسی وزیر مشیر کی دوستی پر بڑا بھروسہ ہے کہ کوئی کام پھنس گیا تو سفارش کروالیں گے ہمیں کسی کرنل جنرل کی جان پہچان پر بڑا ناز ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے کسی پریشانی کی ضرورت نہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے حضور ایک سجدہ ان تمام اسباب پر بھاری ہے۔

…………….