روزوں کا مقصد اور اپنا محاسبہ

(خطبہ عید الفطر)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزہ رکھنا لکھ دیا گیا ہے، جیسے ان لوگوں پر لکھا گیا جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم بچ جائو۔
البقرة : 183

قابلِ احترام بھائیو اور بہنو !
اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں اپنی زندگیوں میں ایک مرتبہ پھر رمضان المبارک کی سعادتیں سمیٹنے کا موقع دیا، کیا سوہانہ منظر اور عجیب ایمانی کیفیت ہوتی ہے، نیکی اور تقویٰ کا سماں بندھ جاتا ہے، ایمانی تازگی ہوتی ہے، صدقہ و خیرات، تعاون باہمی، ایثار اور ہمدردی کا ماحول بنتا ہے، ہر مسجد میں نماز تراویح کے اندر تلاوتِ قرآن پاک کا روح پرور ماحول بنتا ہے، اور پھر آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کی تلاش اور معتکفین کے خیموں سے مساجد کی بڑھتی ہوئی رونقیں روحانی تربیت میں خوب کردار ادا کرتی ہیں، کتنے لوگ ہیں کہ طاق راتوں کے دروس اور اعتکاف کے دس دنوں کی تنہائی سے ان کی زندگیوں میں تبدیلی آ جاتی ہے اور پھر ایسے بدلتے ہیں کہ قابلِ رشک بن جاتے ہیں، دعا ہے کہ اللہ تعالی ہماری زندگیوں میں بار بار یہ موقعے نصیب فرمائے
بھائیو!
آپ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے روزے بھی رکھے اور دیگر عبادات تلاوت، نوافل،تراویح ،صدقہ و خیرات وغیرہ کا بھی اہتمام کیا سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ شرفِ قبولیت عطا فرماۓ

میرے عزیز بھائیو !
ہمیں اس پہلو سے سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے کہ رمضان المبارک کی آمد کا کیا مقصد تھا اور پھر اس کے مطابق اپنا اپنا محاسبہ کریں کہ ہم نے وہ مقصد کس حد تک حاصل کرلیا ہے
اللہ تعالیٰ نے روزوں کی فرضیت بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے :
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
تاکہ تم تقوے والے، پرہیز گار، فرمانبردار، گناہوں سے بچنے والے، اور نیکیوں میں بڑھنے والے بن جاؤ

بھائیو !
یہ ہے اللہ تعالیٰ کا روزے رکھوانے کا مقصد
روزہ متقی بناتا ہے کچھ پابندیاں لگا کر، ایک پروسس سے گزار کر، بھوک اور پیاس کی شدت سے گزار کر

اب ہم دیکھیں اور فکر کریں کہ ہم اس مقصد کو حاصل کر پائے ہیں یا نہیں
مثال کے طور پر روزے کی حالت میں دن کے وقت بھوک اور پیاس کی شدت، اور کھانے اور پینے کے دستیاب ہونے کے باوجود، جبکہ کوئی دیکھ بھی نہیں رہا ہوتا تھا، ہم نہ کھاتے تھے نہ پیتے تھے کھانے اور پینے سے رکے رہنے کے پیچھے صرف ایک ہی احساس کار فرما ہوتا تھا کہ اللہ دیکھ رہا ہے
تو میرے بھائیو !
ہمیں اس احساس کو آگے لے کر چلنا ہے اور روزہ یہی چاہتا ہے
ہمیں خیانت کرنے، دو نمبری اور ملاوٹ کرنے، کسی کو دھوکہ دینے، جھوٹ بولنے، گاہک کے ساتھ غلط ڈیل کرنے، کسی کے حق پر ڈاکہ ڈالنے، چوری، چغلی اور غیبت کرنے سے پہلے بھی یہی احساس پیدا کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے
اور ہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ جو اللہ تعالیٰ روزے کی حالت میں دن کے وقت دیکھتا ہے وہ رات کو بھی دیکھتا ہے اور جو رمضان میں دیکھتا ہے وہ شوال، ذی القعدہ، ذی الحج اور محرم، سفر میں بھی دیکھتا ہے، وہ چوبیس گھنٹے اور بارہ مہینے دیکھتا ہے، ہم اس سے چھپ نہیں سکتے، ہم اس سے اوجھل نہیں ہو سکتے، وہ باریک بین ہے اس کی ایک صفت ہے "اللطیف” جس کا معنی ہے بہت باریک باریک دیکھنے والا جی ہاں وہ اتنا باریک بین ہے کہ آنکھوں کے خفیہ اشارے بھی دیکھتا ہے يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ اور دلوں میں چھپے منصوبے بھی دیکھتا ہے وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ
یہ اسی کی صفت ہے
يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو اور اللہ سینوں والی بات کو خوب جاننے والا ہے۔
التغابن : 4

تو میرے بھائیو اور بہنو !
اگر ہمیں یہ بات سمجھ آ جائے اور ہمارے اندر ہروقت یہ احساس پیدا ہو جائے کہ ہمارا رب ہمیں دیکھ رہا ہے تو قسم اللہ کی ہم روزے رکھنے، بھوکے اور پیاسے رہنے میں کامیاب ہو گئے
بس اب ہر بھائی اور ہر بہن سوچ لے کہ وہ اس مقصد میں کس حد تک کامیاب ہے
زندگی میں یہ اصول بنا لیں
کبھی بھی اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھیں، آپ جیسے بھی اور جہاں کہیں بھی چھپے ہوئے ہوں ہمیشہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہوتا ہے اور آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے
اللہ تعالیٰ نے سورہ حدید میں خود اپنے متعلق فرمایا ہے :
وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور وہ تمھارے ساتھ ہے، جہاں بھی تم ہو اور اللہ اسے جو تم کرتے ہو، خوب دیکھنے والا ہے۔
الحدید : 4

بھائیو !
جب انسان تنہائی میں گناہ کرتا ہے تو اس وقت اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَى
تو کیا اس نے یہ نہ جانا کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔
العلق : 14

میرے عزیز بھائیو
اسی طرح روزہ احساسِ انسانیت پیدا کرتا ہے بھوک اور پیاس سے گزار کر بھوکوں اور پیاسوں، دکھی انسانیت اور مظلوم مسلمانوں کی مدد اور خیر خواہی کا جذبہ پیدا کرتا ہے
روزہ پیغام دیتا ہے کہ ایک بھوک میں مبتلا انسان کی تکلیف کیسی کربناک ہوتی ہے
اٹھارہ ہجری کی بات ہے امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ حکومت میں قحط پڑ گیا، فاقے آ گئے، لوگوں بھوکوں مرنے لگے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ رعایا کی حالت زار دیکھ کر بے حد پریشان ہو گئے، بھوکوں کے احساس کو زندہ رکھنے اور ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے امیرالمومنین نے خود بھی کھانا پینا چھوڑ دیا
فرمانے لگے :
لا آكله حتى يأكله الناس
طبقات ابن سعد:3؍313
”جب تک لوگوں کو کھانے کےلیے نہیں ملتا میں بھی نہیں کھاؤں گا۔”

زید بن اسلم اپنے والد کے حوالے سے کہتے ہیں :
"لم يأكل عمربن الخطاب سمنا ولا سمينا حتى أحيا الناس”
طبقات ابن سعد:3؍313
”یعنی عمر بن خطاب نے نہ تو گھی کھایا، نہ گوشت یہاں تک کہ بارش ہوئی۔”

ایک دفعہ آپ کی زوجہ محترمہ نے گھی والا کھانا پیش کیا تو آپ نے فرمایا :
ما أنا بذائقه حتى يحيا الناس
مناقب عمر :ص 72
”جب تک لوگ بارانِ رحمت سے فیض یاب نہیں ہوتے، میں اسے چکھنے والا نہیں۔”

حتی کہ بھوکے رہ رہ کر بے حد کمزور ہو گئے اتنے کمزور ہو گئے کہ اسامہ بن زید بن اسلم اپنے دادا اسلم کے حوالے سے روایت کرتے ہیں :
"كنا نقول لو لم يرفع الله المحل عام الرمادة لظننا أن عمر يموت همًّا بأمر المسلمين”
طبقات ابن سعد:3؍315
”یعنی رمادہ کے سال ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ نے یہ قحط ختم نہ کیا تو حضرت عمر یقیناً مسلمانوں کے غم میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔”

امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"فأسود لونُ عمر رضي الله عنه وتَغيَّر جسمه”
البدایہ والنہایہ:7؍103
”حضرت عمر کا رنگ سیاہ پڑ گیا اور جسم کمزور ہونے لگا۔”

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جان بوجھ کر بھوکے رہنے کے پیچھے یہی وجہ تھی کہ اگر میں نے پیٹ بھر کر کھا لیا تو مجھے بھوکوں کا احساس نہیں رہے گا

میرے عزیز بھائیو اور بہنو !
اس وقت غزہ کے مسلمانوں کی دلخراش خبریں ہم تک پہنچ رہی ہیں ایسی دلسوز وڈیوز ہیں کہ دیکھی نہیں جاتیں، ہمت جواب دے جاتی ہے، وہاں بھوک اور پیاس ہے، لوگ کھانے کے ایک ایک لقمے اور پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں ایسے حالات میں روزے کی بھوک سے فلسطینی بھائیوں کی بھوک کا احساس پیدا ہونا چاہیے، بس یہی روزے کا مقصد ہے

میرے بھائیو !
میں آپ کو صحیح مسلم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سناتا ہوں آپ نے فرمایا :
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ابن آدم سے کہیں گے :
يَا ابْنَ آدَمَ، اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي.
اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانہ مانگا تھا تو تو نے مجھے کھانا نہیں دیا
يَا ابْنَ آدَمَ، اسْتَسْقَيْتُكَ فَلَمْ تَسْقِنِي.
اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا تو تو نے مجھے پانی نہیں دیا
تو بندہ آگے سے کہے گا :
اے اللہ میں تجھے کیسے کھلاتا، پلاتا جبکہ تو تو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے
تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے :
میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا اور پانی مانگا تھا اگر تو اسے کھلاتا پلاتا تو تو یہ چیز میرے پاس پاتا
صحیح مسلم : 2569

بھائیو !
اللہ کی قسم اس بات سے شدید ڈر لگتا ہے کہ اگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے صرف یہ پوچھ لیا کہ اے پاکستانی ! میرا فلسطینی، غزوی بندہ بھوکا تھا بتا تونے اس کے لیے کیا کیا ہے تو قسم اللہ کی ہماری نیکیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں

فلسطین میں بھوک کیسے ناچ رہی ہے، یوں تو ہزاروں واقعات ہیں، منظر کشی کے لیے ایک واقعہ بیان کرتا ہوں ایک چھوٹا بچہ ہاتھ میں شاپر پکڑے جا رہا تھا تو کسی نے پوچھا کہ بچے کیا لے کر جا رہے ہو؟ اس بچے نے کہا : روٹیاں لے کر جا رہا ہوں، جب شاپر کھول کر دیکھا گیا تو اندر سے روٹیوں کی بجائے گھاس نکلی اس نے پوچھا کہ بچے یہ تو گھاس ہے اور تو کہتا تھا کہ روٹیاں لے کر جا رہا ہوں تو اس غزوی بچے نے کہا : انکل! کتنے دن گزر گئے ہیں ہم گھاس کھا کھا کر گزارا کر رہے ہیں جب ہم کھاتے ہی گھاس ہیں تو پھر اسے ہی روٹیاں کہنا ہے ہمیں کیا معلوم کہ روٹی کیا ہوتی ہے

واللہ بھائیو !
یہ ہمارے لیے آزمائش ہے، ڈر لگتا ہے کہیں قیامت کے دن یہ بچے ہمارا گریبان نہ پکڑ لیں، معاملہ بہت مشکل ہو جائے گا، جان چھڑانا مشکل ہو جائے گی

تو میرے عزیز بھائیو اور بہنو !
اپنے اندر بھوکوں کا احساس پیدا کرو، اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کرو، ان کے لیے دعائیں کرو، رو رو کر دعائیں کرو ان کے دشمنوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرو، اسرائیلی اور امریکی پروڈکٹس کا بائیکاٹ کرو
واللہ
بہت دل دکھتا ہے کہ اتنا ظلم دیکھنے کے باوجود بھی یہودی مصنوعات کی سرعام خرید و فروخت ہو رہی ہے آج عید کا دن ہے کتنے مسلمان ہیں جو وہی کوکا کولا، پیپسی، مرنڈا، فانٹا اور سپرائٹ کا استعمال کر رہے ہیں
سچی بات ہے بھائیو یہ ہماری بے حسی ہے یہ ہماری بے ضمیری ہے ایسے لگتا ہے جیسے ہم ایک مردہ جسم ہیں کہ حالات کی نزاکت کا ہمارے مزاج پر کوئی اثر نہیں ہورہا
اللہ تعالیٰ تعالیٰ ہمیں ہوش میں آنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے