سال کا پہلا خطبہ

الحمد لله الذي جعل في اختلاف الليل والنهار عبراً، ﴿جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ ؕ﴾ أحمده سبحانه وأشكره على نواله وأفضاله، وأشهد أن لا إله إلا الله الإله الحق المبين، ﴿هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ ۚ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۝۳﴾ (سورہ حدید:3) وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، الذي اصطفاه الله على العالمين، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه
ہر قسم کی حمد و ثنا اللہ کے لئے ہے جس نے لیل و نہار کی گردش کو باعث عبرت بنایا سورج کو روشن اور چاند کو منور کیا اور چاند کی منزلیں مقرر فرمائیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور کاموں کا حساب معلوم کرو میں اللہ سبحانہ کی تعریف و توصیف اور اس کی بے پایاں نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اللہ معبود بر حق کے سوا کوئی معبود نہیں وہ سب سے اول اور سب سے آخر اور اپنی قدرت سے سب پر ظاہر اور اپنی ذات سے پوشیدہ ہے اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے اور اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں۔ الہی! تو اپنے بندے و رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کی آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کے بے پایاں انعام واکرام پر اس کا شکر ادا کرو اور یہ جان رکھو کہ شب و روز کی گردش اور ماہ و سال کا آنا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ وقت اپنی رفتار کے ساتھ گذر رہا ہے آج دن ختم ہو ا کل مہینہ پورا ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے سال بیت گیا اسی طرح حالات بدلتے جا رہے ہیں اور وقت تیزی کے ساتھ گذرتا جا رہا ہے مگر ہم ہیں کہ غفلت کی نیند سو رہے ہیں، طرح طرح کی دنیاوی آرزؤوں نے ہمیں گھیر رکھا ہے، ہم خواہشات نفس میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ہمارا نفس گناہوں میں لت پت ہے اور ہماری پوری کوشش اور تنگ دو حصول دنیا تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، آخر کب تک ہم اس غفلت و بے ہوشی میں پڑے رہیں گے؟ عمر عزیز کو کب تک لہو و لعب میں ضائع کرتے رہیں گے؟ ہمارا ضمیر کب بیدار ہو گا؟ ہماری آنکھیں کب کھلیں گی؟ اور کب وہ وقت آئے گا جب ہم اللہ کے سامنے حاضر ہونے اور زندگی کے ایک ایک لمحہ اور ایک ایک عمل کا حساب دینے کی فکر کریں گے؟
قرآن کریم نے آیات و مواعظ کے ذریعہ ہمیں متنبہ کر دیا ہے حادثات زمانہ بھی ہمیں مسلسل خبردار کرتے رہتے ہیں، مگر افسوس کہ ہماری آنکھیں نہیں کھلتیں اور ہم زندگی کے اصل مقصد سے دور بہت دور غفلت میں پڑے ہوئے ہیں:
﴿اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ۝۱ مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ وَ هُمْ یَلْعَبُوْنَۙ۝۲ لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ ؕ﴾ (الانبياء: 1 تا 3)
لوگوں کا حساب (اعمال کا وقت) قریب آ پہنچا ہے اور وہ غفلت میں پڑے اس سے منہ پھیر رہے ہیں ان کے پاس کوئی نئی نصیحت ان کے پروردگار کی طرف سے نہیں آتی مگر وہ اسے کھیلتے ہوئے سنتے ہیں ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
اللہ کے بندو! ہم نے ایک سال کو رخصت کر دیا ہے اس کے شب و روز ایک ایک کر کے آتے اور گذرتے چلے گئے لیکن ذرا سوچو کیا اس پورے سال کا ایک ادنی سا وقت بھی دوبارہ حاصل ہو سکتا ہے؟ کیا کسی مافات کی اصلاح یا تلافی ممکن ہے؟ ہرگز نہیں اس کی کوئی صورت نہیں سوائے اس کے کہ ہم سے جو کچھ چوک ہو گئی ہے اس پر نادم ہوں۔ سچے دل سے توبہ کریں اور حیات مستعار کے جو بھی لمحات باقی بچے ہیں ان میں اللہ تعالی کی اطاعت و بندگی میں کوئی کمی نہ آنے دیں۔
آج سے ہمارا نیا سال شروع ہو رہا ہے۔ لہٰذا اپنے عزم وارادہ میں اللہ کے تقویٰ کا جذبہ پیدا کرو کہ تقوی ہی ذریعہ نجات اور ابدی سعادت کا ضامن ہے کتاب و سنت کی اتباع و پیروی کا عزم مصمم کرو کہ ان کی پیروی ہی میں دنیاو آخرت کی کامیابی مضمر ہے۔ دینی بھائیو! آج سے جو مہینہ ہم پر سایہ تمکن ہے یہ ایک بابرکت مہینہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس مہینہ میں اور خاص کر اس کی دسویں تاریخ یعنی یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے کی
ترغیب دیتے تھے ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ کہتے ہیں:
(ما علمتُ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صام يوما يطلب فضله على الأيام إلا هٰذا اليوم، يعنى يوم عاشوراء، ولا شهرا إلا هٰذا الشهر، يعنى رمضان[صحیح مسلم کتاب الصیام باب صوم یوم عاشوراء (1132)]
میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی دن کا روزہ رکھ کر دیگر ایام پر اس کی فضیلت تلاش کی ہو سوائے یوم عاشوراء کے اور نہ ہی کوئی مہینہ ایسا ہے جسے سال کے دیگر مہینوں پر فضیلت دی ہو سوائے ماہ رمضان کے۔
بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(هذا يوم عاشوراء، ولم يكتب عليكم صيامه، و أنا صائم، فمن شاء فليصم ومن شاء فليفطر)[صحیح بخاری کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء (2003) و صحیح مسلم، کتاب الصیام ” باب صوم یوم با شوراء (1139)]
یعنی آج عاشوراء کا دن ہے اس کا روزہ تم پر فرض نہیں لیکن میں روزہ سے ہوں، پس جو شخص چاہے روزور کھے اور جو چاہے نہ رکھے۔
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
(صوم عاشوراء يكفر سنة ماضية) [مسند امام احمد: 292/5،292(22593، 22598)]
عاشوراء کے دن کا روزہ رکھنے سے گذشتہ ایک سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہود کی مخالفت میں یوم عاشوراء کے ساتھ ہی اس سے ایک روز پہلے یا بعد یعنی محرم کی نو یا گیارہ تاریخ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے [مسند امام احمد: 241/1 (2154)]
اس مہینہ میں فضائل اعمال میں سے سوائے روزہ کے اور کوئی بھی عمل ثابت نہیں اس ماہ سے متعلق بعض مخصوص قسم کے اوراد و وظائف یا نماز وغیرہ کی فضیلت کی جو روایتیں بیان کی جاتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کا کوئی ثبوت نہیں، اسی طرح اہل و عیال پر بکثرت خرچ کرنے اور انہیں آرام سے رکھنے کی فضیلت کی جو باتیں لوگوں کے درمیان مشہور ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شریعت میں ان کا کوئی وجود نہیں نیز شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس سلسلہ میں کوئی بھی روایت صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ہیں بات کی ہے۔
عبادات کی مشروعیت کا دارو مدار شریعت کے حکم پر ہے اس لئے مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی شریعت کی اتباع کرے کیونکہ آپ ہی شارع اور اللہ تعالیٰ کے پیغامبر ہیں۔ بہت سے جاہل اور کم سمجھ لوگ اس بابرکت مہینہ کو عید اور خوشیوں کا مہینہ تصور کرتے ہیں اور بعض فرقے اسے رنج و غم اور ماتم و سینہ کوبی کے ایام دیتے ہیں حالانکہ ان میں سے دو کے دونوں فرقے سنت نبوی سے دور اور اسلاف کرام کے راستہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔
بندگان الہی! لہٰذا اپنے رب سے ڈرو* اپنے دلوں کے اندر سنت نبوی کی اتباع کا جذبہ اور سلف صالحین کی پیروی کا عزم پیدا کرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی ہمارے لئے اسوہ و نمونہ ہے، فرمان باری ہے:
﴿ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ احْذَرُوْا ۚ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ۝۹۲﴾ (المائدة: 92)
اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ڈرتے رہو اگر منہ پھیرو گے تو جان رکھو کہ ہمارے پیغمبر کے ذمہ تو صرف پیغام کا کھول کر پہنچا دینا ہے۔
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيمق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔