صبر اور نماز

اہم عناصر :
❄ صبر کر کے مدد طلب کرو ❄ نماز پڑھ کر مدد طلب کرو
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ [البقرۃ: 153]
ذی وقار سامعین!
قران مجید اللہ تعالٰی کی ایک عظیم کتاب ہے اور آخری نبی جناب محمد رسول اللہ ﷺ کا ایک عظیم اور عالمگیر معجزہ ہے۔قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا چاہئے کیونکہ اس کا حرف حرف ہدایت اور روشنی ہے ،جس پر عمل کر کے اپنی زندگیاں سنواری جا سکتی ہیں۔
ہر بندے کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ مجھے اللہ تعالٰی کی مدد اور نصرت حاصل ہو، عام حالات میں بھی اور خصوصًا مشکل حالات میں۔آج کے خطبہ جمعہ میں ہم سورہ بقرہ کی ایک عظیم آیت کو سمجھیں گے ، جس میں اللہ رب العزت نے مدد حاصل کرنے کے دو طریقے بیان کیے ہیں، وہ ہیں صبر اور نماز۔
1۔ صبر کر کے مدد طلب کرو
اللہ تعالی فرماتے ہیں؛
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ [البقرۃ: 153]
ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے مدد حاصل کرنے کا اور مدد طلب کرنے کا پہلا طریقہ یہ بیان کیا ہے کہ اے ایمان والو صبر کر کے اللہ تعالی سے مدد طلب کرو.
صبر کا مطلب و مفہوم:
عربی زبان میں ’’ صبر ‘‘ کا معنی ہے: روکنا اور بند کرنا۔
’’صبر ‘‘ کے اسی لغوی معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض اہل علم نے اس کی تعریف یوں کی ہے :
(حَبْسُ النَّفْسِ عَنِ الْجَزَعِ وَالتَّسَخُّطِ،وَحَبْسُ اللِّسَانِ عَنِ الشَّکْوَی،وَحَبْسُ الْجَوَارِحِ عَنِ التَّشْوِیْشِ )
یعنی ’’ اپنے آپ کو گھبراہٹ اور ناگواری سے روکنا ، زبان پر حرفِ شکایت نہ لانا اور باقی اعضائے جسم کو الجھن اور پریشانی میں مبتلا ہونے سے بچانا ۔‘‘
گویا ’’ صبر ‘‘ سے مراد ہے ؛
برداشت کرنا ، زبان پر حرفِ شکایت نہ لانااورگھبراہٹ ، بے چینی اور مایوسی کا اظہار نہ کرنا۔

صبر قرآن کی روشنی میں:
صبر ایک عظیم عمل ہے اور قران مجید میں کئی ایک مقامات پر اللہ رب العزت نے صبر کا ذکر کیا ہے.
❄ وَالۡعَصۡرِ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِىۡ خُسۡرٍ اِلَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۙ وَتَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ
ترجمہ: زمانے کی قسم! کہ بے شک ہر انسان یقیناً گھاٹے میں ہے۔سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔
❄ وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ. الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ. أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ. [البقرۃ: 155]
ترجمہ: اور یقیناً ہم تمھیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔ وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔
❄ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللّٰه لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر کرو اور مقابلے میں جمے رہو اور مورچوں میں ڈٹے رہو اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔‘‘ [آل عمران: 200]
صبر احادیث کی روشنی میں:
❄ عَنْ صُهَيْبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ [مسلم: 7500]
ترجمہ : حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”مومن کا معاملہ عجیب ہے۔اس کا ہرمعاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہے۔اور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کومیسر نہیں۔اسے خوشی اور خوشحالی ملے توشکر کرتا ہے۔اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو(اللہ کی رضا کے لیے) صبر کر تا ہے ،یہ(ابھی) اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے ۔”
❄ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو قبر پر کھڑی رو رہی تھی آپ ﷺ نے فرمایا ’’اے اللہ کی بندی…! اللہ سے ڈر جا اور صبر کر۔‘‘ وہ کہنے لگی، اللہ کے بندے میں برباد ہوگئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ سے ڈر جا اور صبر کر۔‘‘ کہنے لگی، اللہ کے بندے اگر تجھے وہ مصیبت پہنچی ہے تو تو مجھے معذور قرار دیتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ کی بندی اللہ سے ڈر اور صبر کر، کہنے لگی، تو نے بول دیا ہے اب میرے پاس سے چلے جاؤ، آپ ﷺ وہاں سے چلے گئے تو ایک شخص اس کے پاس آیا اور کہا تجھے معلوم ہے ابھی جو تیرے پاس سے گیا وہ کون تھا…؟ اس نے کہا نہیں، اس شخص نے کہا وہ اللہ کے رسول ﷺ تھے۔ وہ حواس باختہ ہوگئی اور اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے اور اسی حالت میں جلدی جلدی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا، میں صبر کرتی ہوں، میں صبر کرتی ہوں، تو نبی ﷺنے فرمایا : ’’صبر پہلے صدمے کے وقت ہوتا ہے، صبر پہلے صدمے کے وقت ہوتا ہے۔‘‘ [بخاری: 1283]
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِنِسْوَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ لَا يَمُوتُ لِإِحْدَاكُنَّ ثَلَاثَةٌ مِنْ الْوَلَدِ فَتَحْتَسِبَهُ إِلَّا دَخَلَتْ الْجَنَّةَ فَقَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ أَوْ اثْنَيْنِ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَوْ اثْنَانِ [مسلم: 6698]
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کی عورتوں سے فرمایا: "تم میں سے جس عورت کے بھی تین بچے فوت ہو جائیں اور وہ (صبر کرتے ہوئے ) ثواب اللہ سے طلب کرے تو وہ ضرور جنت میں داخل ہو گی۔” ان میں سے ایک عورت نے کہا: یا دو (بچے فوت ہو جائیں) اللہ کے رسول ﷺ! تو آپ ﷺ نے فرمایا: "یا دو بچے (فوت ہو جائیں)”
❄ أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ اشْتَكَى ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ قَالَ فَمَاتَ وَأَبُو طَلْحَةَ خَارِجٌ فَلَمَّا رَأَتْ امْرَأَتُهُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ هَيَّأَتْ شَيْئًا وَنَحَّتْهُ فِي جَانِبِ الْبَيْتِ فَلَمَّا جَاءَ أَبُو طَلْحَةَ قَالَ كَيْفَ الْغُلَامُ قَالَتْ قَدْ هَدَأَتْ نَفْسُهُ وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدْ اسْتَرَاحَ وَظَنَّ أَبُو طَلْحَةَ أَنَّهَا صَادِقَةٌ قَالَ فَبَاتَ فَلَمَّا أَصْبَحَ اغْتَسَلَ فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ أَعْلَمَتْهُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ فَصَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَخْبَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا كَانَ مِنْهُمَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُبَارِكَ لَكُمَا فِي لَيْلَتِكُمَا قَالَ سُفْيَانُ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَرَأَيْتُ لَهُمَا تِسْعَةَ أَوْلَادٍ كُلُّهُمْ قَدْ قَرَأَ الْقُرْآنَ [بخاری: 1301]
ترجمہ: اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا‘ کہ انہوں نے انس بن مالک سے سنا‘ آپ نے بتلایا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بچہ بیمار ہوگیا انہوں نے کہا کہ اس کا انتقال بھی ہوگیا۔ اس وقت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ گھر میں موجود نہ تھے۔ ان کی بیوی ( ام سلیم ) نے جب دیکھا کہ بچے کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے کچھ کھانا تیار کیا اور بچے کو گھر کے ایک کونے میں لٹا دیا۔ جب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو انہوں نے پوچھا کہ بچے کی طبیعت کیسی ہے؟ ام سلیم نے کہا کہ اسے آرام مل گیا ہے اور میرا خیال ہے کہ اب وہ آرام ہی کررہا ہوگا۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ وہ صحیح کہہ رہی ہیں۔ ( اب بچہ اچھا ہے ) پھر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ام سلیم کے پاس رات گزاری اور جب صبح ہوئی تو غسل کیا لیکن جب باہر جانے کا ارادہ کیا تو بیوی ( ام سلیم ) نے اطلاع دی کہ بچے کا انتقال ہوچکا ہے۔ پھر انہوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ سے ام سلیم کا حال بیان کیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شاید اللہ تعالیٰ تم دونوں کو اس رات میں برکت عطا فرمائے گا۔ سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ انصار کے ایک شخص نے بتایا کہ میں نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی انہیں بیوی سے نو بیٹے دیکھے جو سب کے سب قرآن کے عالم تھے۔
❄ عَن عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ: أَلاَ أُرِيكَ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: هَذِهِ المَرْأَةُ السَّوْدَاءُ، أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنِّي أُصْرَعُ، وَإِنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللَّهَ لِي، قَالَ: «إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَكِ الجَنَّةُ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَكِ» فَقَالَتْ: أَصْبِرُ، فَقَالَتْ: إِنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ لاَ أَتَكَشَّفَ، فَدَعَا لَهَا [بخاری: 5652]
ترجمہ: عطاءبن ابی رباح نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ، تمہیں میں ایک جنتی عورت کو نہ دکھا دوں ؟ میں نے عرض کیا کہ ضرور دکھائیں ، کہا کہ ایک سیاہ عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہا کہ مجھے مرگی آتی ہے اور اس کی وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے ۔ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کر دیجئے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر تو چاہے تو صبر کر تجھے جنت ملے گی اور اگر چاہے تو میں تیرے لیے اللہ سے اس مرض سے نجات کی دعا کردوں۔ اس نے عرض کیا کہ میں صبر کروں گی پھر اس نے عرض کیا کہ مرگی کے وقت میرا ستر کھل جاتا ہے ۔ آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا کردیں کہ ستر نہ کھلا کرے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔
❄ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَرْسَلَتْ ابْنَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ إِنَّ ابْنًا لِي قُبِضَ فَأْتِنَا فَأَرْسَلَ يُقْرِئُ السَّلَامَ وَيَقُولُ إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى وَكُلٌّ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَيَأْتِيَنَّهَا فَقَامَ وَمَعَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَمَعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَرِجَالٌ فَرُفِعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبِيُّ وَنَفْسُهُ تَتَقَعْقَعُ قَالَ حَسِبْتُهُ أَنَّهُ قَالَ كَأَنَّهَا شَنٌّ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ فَقَالَ سَعْدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذَا فَقَالَ هَذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ [بخاری: 1284]
ترجمہ: سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی ایک صاحبزادی (حضرت زینب رضی اللہ عنہ ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع کرائی کہ میرا ایک لڑکا مرنے کے قریب ہے‘ اس لیے آپ ﷺ تشریف لائیں۔ آپ ﷺ نے انہیں سلام کہلوایا اور کہلوایا کہ اللہ تعالیٰ ہی کا سارا مال ہے‘ جو لے لیا وہ اسی کا تھا اور جو اس نے دیا وہ بھی اسی کا تھا اور ہر چیز اس کی بارگاہ سے وقت مقررہ پر ہی واقع ہوتی ہے۔ اس لیے صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھو۔ پھر حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے قسم دے کر اپنے یہاں بلوا بھیجا۔ اب رسول اللہ ﷺ جانے کے لیے اٹھے۔ آپ ﷺ کے ساتھ سعد بن عبادہ‘ معاذ بن جبل‘ ابی بن کعب‘ زیدبن ثابت اور بہت سے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ بچے کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے کیا گیا۔ جس کی جان کنی کا عالم تھا۔ ابو عثمان نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جیسے پُرانا مشکیزہ ہوتا ہے ( اور پانی کے ٹکرانے کی اندر سے آواز ہوتی ہے۔ اسی طرح جان کنی کے وقت بچہ کے حلق سے آواز آرہی تھی ) یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ سعد رضی اللہ عنہ بول اٹھے کہ یا رسول اللہ! یہ رونا کیسا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو اللہ کی رحمت ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ( نیک ) بندوں کے دلوں میں رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے ان رحم دل بندوں پر رحم فرماتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔
2. نماز پڑھ کر مدد طلب کرو
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ [البقرۃ: 153]
ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے مدد حاصل کرنے کا اور مدد طلب کرنے کا دوسرا طریقہ یہ بیان کیا ہے کہ اے ایمان والو نماز پڑھ کر اللہ تعالی سے مدد طلب کرو۔
سیدہ سارہ علیہا السلام کا نماز پڑھ کر مدد طلب کرنا:
سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ابراہیم علیہ السلام نے سارہ علیہا السلام کے ساتھ ( نمرود کے ملک سے ) ہجرت کی تو ایک ایسے شہر میں پہنچے جہاں ایک بادشاہ رہتا تھا یا ( یہ فرمایا کہ ) ایک ظالم بادشاہ رہتا تھا۔ اس سے ابراہیم علیہ السلام کے متعلق کسی نے کہہ دیا کہ وہ ایک نہایت ہی خوبصورت عورت لے کر یہاں آئے ہیں۔ بادشاہ نے آپ علیہ السلام سے پچھوا بھیجا کہ ابراہیم ! یہ عورت جو تمہارے ساتھ ہے تمہاری کیا ہوتی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہے۔ پھر جب ابراہیم علیہ السلام سارہ علیہا السلام کے یہاں آئے تو ان سے کہا کہ میری بات نہ جھٹلانا، میں تمہیں اپنی بہن کہہ آیا ہوں۔ خدا کی قسم ! آج روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ہے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے سارہ علیہا السلام کو بادشاہ کے یہاں بھیجا، یا بادشاہ حضرت سارہ علیہا السلام کے پاس گیا۔ اس وقت حضرت سارہ علیہا السلام وضو کرکے نماز پڑھنے کھڑی ہوگئی تھیں۔ انہوں نے اللہ کے حضور میں یہ دعا کی کہ؛
اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ آمَنْتُ بِكَ وَبِرَسُولِكَ وَأَحْصَنْتُ فَرْجِي إِلَّا عَلَى زَوْجِي فَلَا تُسَلِّطْ عَلَيَّ هَذَا الْكَافِرَ
” اے اللہ ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول ( ابراہیم علیہ السلام ) پر ایمان رکھتی ہوں اور اگر میں نے اپنے شوہر کے سوا اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے، تو تو مجھ پر ایک کافر کو مسلط نہ کر۔ “ اتنے میں بادشاہ تھرایا اور اس کا پاؤں زمین میں دھنس گیا۔ اعرج نے کہا کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ نے بیان کیا، کہ حضرت سارہ علیہا السلام نے اللہ کے حضور میں دعا کی کہ اے اللہ ! اگر یہ مرگیا تو لوگ کہیں گے کہ اسی نے مارا ہے۔ چنانچہ وہ پھر چھوٹ گیا اور حضرت سارہ علیہا السلام کی طرف بڑھا۔ حضرت سارہ علیہا السلام وضو کرکے پھر نماز پڑھنے لگی تھیں اور یہ دعا کرتی جاتی تھیں؛
اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ آمَنْتُ بِكَ وَبِرَسُولِكَ وَأَحْصَنْتُ فَرْجِي إِلَّا عَلَى زَوْجِي فَلَا تُسَلِّطْ عَلَيَّ هَذَا الْكَافِرَ
” اے اللہ ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں اور اپنے شوہر ( حضرت ابراہیم علیہ السلام) کے سوا اور ہر موقع پر میں نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے تو تو مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ کر۔ “
چنانچہ وہ پھر تھرتھرایا، کانپا اور اس کے پاؤس زمین میں دھنس گئے۔ عبدالرحمن نے بیان کیا کہ ابوسلمہ نے بیان کیا ابوہریرہ سے کہ حضرت سارہ علیہا السلام نے پھر وہی دعا کی کہ اے اللہ ! اگر یہ مر گیا تو لوگ کہیں گے کہ اسی نے مارا ہے۔ “ اب دوسری مرتبہ یا تیسری مرتبہ بھی وہ بادشاہ چھوڑ دیا گیا۔ آخر وہ کہنے لگا کہ تم لوگوں نے میرے یہاں ایک شیطان بھیج دیا۔ اسے ابراہیم ( علیہ السلام ) کے پاس لے جاؤ اور انہیں آجر ( حضرت ہاجرہ ) کو بھی دے دو۔ پھر حضرت سارہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ؛
أَشَعَرْتَ أَنَّ اللَّهَ كَبَتَ الْكَافِرَ وَأَخْدَمَ وَلِيدَةً [بخاری: 2217]
” دیکھتے نہیں اللہ نے کافر کو کس طرح ذلیل کیا اور ساتھ میں ایک لڑکی بھی دلوا دی۔”
نماز پڑھنے پہ فرشتوں کا مدد کرنا:
ایک بہت ہی عجیب واقعہ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک خچر پر لوگوں کو دمشق سے زیدانی لے جایاکرتا تھا اور اسی کرایہ پر میری گذر بسر تھی۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے خچر مجھ سے کرایہ پرلیا۔ میں نے اسے سوار کیا اور چلا ایک جگہ جہاں دو راستے تھے جب وہاں پہنچے تو اس نے کہا اس راہ پر چلو۔ میں نے کہا میں اس سے واقف نہیں ہوں۔ سیدھی راہ یہی ہے۔ اس نے کہا نہیں میں پوری طرح واقف ہوں ، یہ بہت نزدیک راستہ ہے ۔ میں اس کے کہنے پر اسی راہ پر چلا تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک لق ودق بیابان میں ہم پہنچ گئے ہیں جہاں کوئی راستہ نظر نہیں آتا ۔ نہایت خطرناک جنگل ہے ہر طرف لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔ میں سہم گیا۔ وہ مجھ سے کہنے لگا ذرا لگام تھام لو مجھے یہاں اترنا ہے میں نے لگام تھام لی وہ اترا اور اپنا تہبند اونچا کر کے کپڑے ٹھیک کر کے چھری نکال کر مجھ پر حملہ کیا۔ میں وہاں سے سرپٹ بھاگا لیکن اس نے میرا تعاقب کیا اور مجھے پکڑ لیا میں اسے قسمیں دینے لگا لیکن اس نے خیال بھی نہ کیا۔ میں نے کہا اچھا یہ خچر اور کل سامان جو میرے پاس ہے تو لے لے اور مجھے چھوڑ دے اس نے کہا یہ تو میرا ہو ہی چکا لیکن میں تجھے زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا میں نے اسے اللہ کا خوف دلایا آخرت کے عذابوں کا ذکر کیا لیکن اس چیز نے بھی اس پر کوئی اثر نہ کیا اور وہ میرے قتل پر تلا رہا۔ اب میں مایوس ہو گیا اور مرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ اور اس سے منت سماجت کی کہ تم مجھے دو رکعت نماز ادا کر لینے دو۔ اس نے کہا اچھا جلدی پڑھ لے۔ میں نے نماز شروع کی لیکن اللہ کی قسم میری زبان سے قرآن کا ایک حرف نہیں نکلتا تھا۔ یونہی ہاتھ باندھے دہشت زدہ کھڑا تھا اور وہ جلدی مچا رہا تھا اسی وقت اتفاق سے یہ آیت میری زبان پر آ گئی؛
اَمَّنْ یٰجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السٰوْۗءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ (النمل:62)
” اللہ ہی ہے جو بیقرار کی بیقراری کے وقت کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے اور بےبسی بےکسی کو سختی اور مصیبت کو دور کر دیتا ہے ۔”
پس اس آیت کا زبان سے جاری ہونا تھا جو میں نے دیکھا کہ بیچوں بیچ جنگل میں سے ایک گھڑ سوار تیزی سے اپنا گھوڑا بھگائے نیزہ تانے ہماری طرف چلا آ رہا ہے اور بغیر کچھ کہے اس ڈاکو کے پیٹ میں اس نے اپنا نیزہ گھونپ دیا جو اس کے جگر کے آرپار ہو گیا اور وہ اسی وقت بےجان ہو کر گر پڑا۔ سوار نے باگ موڑی اور جانا چاہا لیکن میں اس کے قدموں سے لپٹ گیا اور اصرار کے ساتھ کہنے لگا اللہ کے لیے یہ بتاؤ تم کون ہو؟ اس نے کہا میں اس کا بھیجا ہوا ہوں جو مجبوروں، بےکسوں اور بےبسوں کی دعا قبول فرماتا ہے اور مصیبت اور آفت کوٹال دیتا ہے میں نے اللہ کا شکر کیا اور اپنا سامان اور خچر لے کر صحیح سالم واپس لوٹا۔
(تاریخ دمشق:489/19)(تفسیر ابن کثیر: آیت نمبر 62 کے تحت)
نماز اور شیر خوار بچے کی گواہی:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺكَانَ رَجُلٌ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ يُقَالُ لَهُ جُرَيْجٌ يُصَلِّي فَجَاءَتْهُ أُمُّهُ فَدَعَتْهُ فَأَبَى أَنْ يُجِيبَهَا فَقَالَ أُجِيبُهَا أَوْ أُصَلِّي ثُمَّ أَتَتْهُ فَقَالَتْ اللَّهُمَّ لَا تُمِتْهُ حَتَّى تُرِيَهُ وُجُوهَ الْمُومِسَاتِ وَكَانَ جُرَيْجٌ فِي صَوْمَعَتِهِ فَقَالَتْ امْرَأَةٌ لَأَفْتِنَنَّ جُرَيْجًا فَتَعَرَّضَتْ لَهُ فَكَلَّمَتْهُ فَأَبَى فَأَتَتْ رَاعِيًا فَأَمْكَنَتْهُ مِنْ نَفْسِهَا فَوَلَدَتْ غُلَامًا فَقَالَتْ هُوَ مِنْ جُرَيْجٍ فَأَتَوْهُ وَكَسَرُوا صَوْمَعَتَهُ فَأَنْزَلُوهُ وَسَبُّوهُ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى ثُمَّ أَتَى الْغُلَامَ فَقَالَ مَنْ أَبُوكَ يَا غُلَامُ قَالَ الرَّاعِي قَالُوا نَبْنِي صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ قَالَ لَا إِلَّا مِنْ طِينٍ
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، بنی اسرائیل میں ایک صاحب تھے، جن کا نام جریج تھا۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی والدہ آئیں اور انہیں پکارا۔ انہوں نے جواب نہیں دیا۔ سوچتے رہے کہ جواب دوں یا نماز پڑھوں۔ پھر وہ دوبارہ آئیں اور ( غصے میں ) بد دعا کر گئیں، اے اللہ ! اسے موت نہ آئے جب تک کسی بدکار عورت کا منہ نہ دیکھ لے۔ جریج اپنے عبادت خانے میں رہتے تھے۔ ایک عورت نے ( جو جریج کے عبادت خانے کے پا س اپنی مویشی چرایا کرتی تھی اور فاحشہ تھی ) کہا کہ جریج کو فتنہ میں ڈالے بغیر نہ رہوں گی۔ چنانچہ وہ ان کے سامنے آئی اور گفتگو کرنی چاہی، لیکن انہوں نے منہ پھیر لیا۔ پھر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی اور اپنے جسم کو اس کے قابو میں دے دیا۔ آخر لڑکا پیدا ہوا۔ اور اس عورت نے الزام لگایا کہ یہ جریج کا لڑکا ہے۔ قوم کے لوگ جریج کے یہاں آئے اور ا ن کا عبادت خانہ توڑ دیا۔ انہیں باہر نکالا اور گالیاں دیں۔ لیکن جریج نے وضو کیا اور نماز پڑھ کر اس لڑکے کے پاس آئے۔ انہوں نے اس سے پوچھا بچے ! تمہار باپ کون ہے؟ بچہ ( خدا کے حکم سے ) بول پڑا کہ چرواہا! (قوم خوش ہو گئی اور) کہا کہ ہم آپ کے لیے سونے کا عبادت خانہ بنوا دیں۔ جریج نے کہا کہ میرا گھرتو مٹی ہی سے بنے گا۔ [مسلم: 6508]
نماز کے ذریعے نبی مکرم ﷺ کا مدد طلب کرنا:
❄ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺإِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ صَلَّى [ابوداؤد: 1319 حسنہ الالبانی]
ترجمہ : سیدنا حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو جب کوئی غم لاحق ہوتا تو نماز پڑھنے لگتے تھے۔
❄ غزوہ بدر کا موقع مسلمانوں کے لئے بہت سنگین ونازک تھابلکہ یوں کہہ لیں کہ مسلمانوں کی قلیل سی جماعت کےلئے اتنابڑا خطرہ کبھی اسلامی تاریخ میں نہیں آیا اور نہ آسکتا ہے ، ایسے موقع سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ؛
"اللَّهُمَّ أَيْنَ مَا وَعَدْتَنِي ؟ اللَّهُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَلَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا”
"اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا، وہ کہاں ہے، اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا، اس کو پورا کر دے، اے اللہ! اگر تو نے اہل اسلام کی اس جماعت کو ختم کر دیا تو زمین میں کبھی بھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔”
اس پرخطر اور پریشان کن موقع پر بدر کی رات سے متعلق حضرتِ علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت بیان کرتے ہیں؛
ما كان فينا فارسٌ يومَ بدرٍ غيرُ المقدادِ ، ولقد رأيتُنا وما فينا إلا نائمٌ ، إلا رسولُ اللهِ تحت شجرةٍ ، يصلِّي ويبكي ، حتى أصبحَ (صحيح الترغيب:3330)
ترجمہ:بدر کے دن ہم میں صرف حضرتِ مقدار گھڑ سوار تھے اور رسول اللہﷺ کے سوا ہم سب سوگئے۔ آپ ایک درخت کے نیچے صبح تک نماز پڑھتے اور روتے رہے۔
نماز اور سیدنا انس کی کرامت:
خادمِ رسول حضرت انس سے ہر مسلمان اچھی طرح واقف ہے ، بصرہ میں آپ کی زمین تھی اور وہاں عرصہ دراز سے بارش نہیں ہو رہی تھی، جس وجہ سے زمین قحط سالی کا شکار ہو گئی ۔ زمین کے نگران نے آپ کو بتایا تو آپ سن کر کافی فکرمند ہوئے اور بعد میں اپنی زمین سے تھوڑا سا دور جا کر وضو کیا، دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی تو
فَثَارَتْ سَحَابَةٌ وَغَشِيَتْ أَرْضَهُ وَأَمْطَرَتْ
ابھی دعا مکمل ہی ہوئی تھی کہ بادل امنڈ آئے اور جہاں تک آپ کی زمین تھی وہاں وہاں پر اللہ تعالی نے رحمت کی بارش نازل فرمادی اور وہ بارش صرف اور صرف آپ کی زمین تک محدود رہی۔
مورخ اسلام امام ذہبی رحمہ اللہ یہ فرماتے ہیں ؛
هُذِهِ كَرَامَةٌ بَيِّنَةٌ ثَبَتَتْ بِإِسْنَادَيْنِ
یہ واضح کرامت دو سندوں کے ساتھ ثابت ہے۔“
]تاریخ دمشق : 3/85، سیر اعلام النبلاء: 3/401 [
❄❄❄❄❄