صبر کی اہمیت و فضیلت
ارشاد ربانی ہے ﴿اِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُوْنَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ) (سورہ زمر: آیت: 10)
ترجمہ: صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا بے شمار اجر دیا جاتا ہے۔
نیز ارشاد فرمایا: ﴿وَبَشِّرِ الصَّابِرِيْنَ﴾ (سوره بقره: آیت155)
ترجمہ: اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ امْرَأَةَ أَنتُ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ: إِنِّي أُصْرَعُ وَإِنِّى أَتكَشَّفُ، فَادْعُ اللهَ تَعَالَى لِي، قَالَ: إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ ولكِ الجَنَّةَ وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللهَ تَعَالَى أَنْ يُعَافِيَكِ ؟ فَقَالَتْ: أَصْبِرُ فَقَالَتْ إِلَى الْكَشْفُ فَادْعُ اللَّهَ إِلَّا الكَشْفِ، فَدَعَا لَهَا . (متفق عليه).
(صحیح بخاری: کتاب المرضى، باب فضل من يصرع من الريح، صحيح مسلم: كتاب البر والصلة والآداب، باب ثواب المؤمن فيما به من مرض أو حزن أو نحو ذلك حتى …..)
ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت آپ ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہا کہ مجھے مرگی آتی ہے اور اس کی وجہ سے میر استر کھل جاتا ہے۔ میرے لئے اللہ تعالی سے دعا کر دیجئے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تو چاہے تو صبر کر تجھے جنت ملے گی اور اگر چاہے تو میں تیرے لئے اللہ سے اس مرض سے نجات کی دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا کہ میں صبر کروں گی پھر اس نے عرض کیا کہ مرگی کے وقت میرا ستر کھل جاتا ہے۔ آپ اللہ تعالی سے اس کی دعا کر دیں کہ ستر نہ کھلا کرے۔ آپ ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔
وَعَنْ صُهِيبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنْ أمْرَهُ كُلَّهُ لَهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَلِكَ لأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ : إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضُرَّاءُ صَبَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ (اخرجه مسلم)
(صحيح مسلم: كتاب الزهد والرقائق، باب المؤمن أمره كله خير)
حبیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن کا معاملہ عجیب ہے، اس کے ہر کام میں اس کے لئے بھلائی ہے اور یہ چیز مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ اگر اسے خوش حالی نصیب ہو، اس پر اللہ کا شکر کرتا ہے، تو یہ شکر کرنا بھی اس کے لئے بہتر ہے (یعنی اس میں اجر ہے) اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، تو یہ صبر کرنا بھی اس کے لئے بہتر ہے (کہ صبر بھی بجائے خود نیک عمل اور باعث اجر اور کفارہ سیئات ہے)۔ ہے)۔
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : إِنَّ المُسْلِمَ إِذَا كَانَ يُخَالِطُ النَّاسَ وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُم خَيْرٌ مِنَ الْمُسْلِمِ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُم. (أخرجه الترمذي).
(سنن ترمذي: أبواب صفة القيامة والرقائق والورع، عن رسول اللهﷺ، باب في فضل المخالطة مع الصبر على أذى الناس، وصححه الألباني في صحيح سنن ابن ماجه (4032)
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ مسلمان جو لوگوں کے ساتھ آپس میں مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے دی گئی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے تو وہ بہتر ہے اس سے جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر نہیں رہتا ہے اور نہ ان کی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے۔
تشریح:
اسلام میں صبر کا مقام بہت ہی بلند ہے چنانچہ اللہ تعالی نے بیشمار مقامات پر صبر
کرنے والوں کی تعریف کی ہے اور اپنی معیت کا ذکر فرمایا ہے۔ لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وه قضاء و قدر پر ایمان لائیں اور مصائب و پریشانی پر صبر کریں اور اللہ کے راستے میں پیش آمدہ مصائب پر صبر کا مظاہرہ کریں، لا علاج بیماری میں صبر کریں، اولاد نہ ہونے پر مبر د شکر سے کام لیں، فقر وفاقہ پر قسمت کو نہ کو ئیں۔ اگر یہ ساری صفتیں انسان کے اندر پائی جائیں گی تو ایسے بندوں کو اللہ تعالی کافی اجر و ثواب عطا فرمائے گا اور اپنی معیت عطا فرمائے گا۔ اللہ تعالی ہمیں ہر طرح کی پریشانیوں اور مصیبتوں پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ اسلام میں صبر کا مقام بہت بلند ہے۔ مبر جنت میں جانے کا سبب ہے۔
٭ صبر کرنے والوں کو اللہ تعالی کی معیت حاصل ہے۔
٭٭٭٭