صبر و شکر کی فضیلت

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ۝۱۵۳ وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۝۱۵۴ وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ۝۱۵۵ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ۝۱۵۶ اُولٰٓىِٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ ۫ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ۝۱۵۷﴾ (البقرة: 153-157)
اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
’’اے ایمان والو! صبر (ثابت قدمی اور دعا سے قوت پکڑو۔ بے شک اللہ تعالی صبر کرنے والوں (ثابت قدم رہنے والوں) کے ساتھ ہے اور جو خدا کی راہ میں مارے جاتے ہیں ان کو مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم کو خبر نہیں اور ہم تم کو کسی قدر خطرہ بھوک اور جان و مال اور پیداوار کے کچھ نقصان سے آزمائیں گے (یعنی ثابت قدم رہنے والوں کو) خوشخبری سنا دو جن کو جب کوئی مصیبت پیش آئے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ یہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی شاباشیں اور مہربانیاں ہیں اور یہی لوگ ہیں ٹھیک راہ پر چلنے والے ہیں۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے صبر اور صبر کرنے والوں کی فضیلت بیان فرمائی ہے صبر کے لغوی معنی روکنے اور سہارنے کے ہیں یعنی اپنے نفس کو اضطراب اور گھبراہٹ سے روکنا اور اس کو اپنی جگہ پر ثابت رکھنا اور یہی صبر کی معنوی حقیقت بھی ہے یعنی اس کے معنی بے اختیاری کی حالت میں خاموش رہ جانے اور انتقام نہ لے سکنے کی صورت میں مجبور ہو جانے کے نہیں بلکہ پامردی، دل کی مضبوطی، اخلاقی جرأت اور ثبات قدمی کے ہیں۔
قرآن مجید میں صبر کے متعلق بہت سی آیتیں ہیں چند آیتیں لکھی جاتی ہیں ارشاد ہے:
(1) ﴿فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا أَوْ كَفُورًا﴾ (دهر:24)
’’اپنے پروردگار کے فیصلے پر ثابت قدمی سے منتظر رہو اور ان میں سے کسی گنہگار یا کافر کا کہا نہ مانیے‘‘
(2) ﴿فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِيْنَ﴾ (هود: 49)
’’ثابت قدم رہ کر وقت کے منتظر رہے بلاشبہ آخر کامیابی پرہیز گاروں کی ہی ہے۔‘‘
(3) ﴿فَاصْبِرُ حَتَّى يَحْكُمَ اللهُ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ﴾ (يونس: 109)
’’اور ثابت قدم رہ کر وقت کے منتظر رہئے یہاں تک کہ خدا فیصلہ کر دے وہ فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔‘‘
(4) ﴿فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوتِ﴾ (قلم: 48)
’’اپنے رب کے فیصلے کا ثابت قدمی کے ساتھ انتظار کرو اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جاؤ۔‘‘
(5) ﴿فَاصْبِرُ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلُ لَهُمْ﴾ (احقاف:35)
’’آپ بھی اسی طرح پامردی کیجئے جس طرح پختہ ارادہ والے پیغمبروں نے کی ہے اور ان (مخالفوں) کے لئے جلدی نہ کیجئے۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام نبیوں کو صبر کی تلقین کی گئی ہے اور وہ اپنے اسی صبر سے اپنے مقصد تبلیغ میں کامیاب رہے کیونکہ دل کو بڑھانے والی ہمت افزائی کرنے والی خوش آئیند انجام دکھانے والی اور طبیعت کو ڈھارس دینے والی چیز صبر ہے جس دل میں صبر پنہاں نہیں وہ صحیح معنوں میں انسان نہیں ہے آسمان ترقی پر پہنچانے والی چیز یہی صبر تو ہے۔ صبر والوں کے لئے بڑے بڑے درجات ہیں بنی اسرائیل غلام اور محکوم تھے لیکن صبر اور استقلال ہی کی وجہ سے حاکم ہوئے۔ قرآن مجید میں ان کے صبر کے متعلق فرمایا:
﴿ وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ كَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا ؕ وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ۙ۬ بِمَا صَبَرُوْا ؕ وَ دَمَّرْنَا مَا كَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَ قَوْمُهٗ وَ مَا كَانُوْا یَعْرِشُوْنَ۝۱۳۷﴾ (اعراف: 137)
’’اور لوگوں کو جو کمزور سمجھے جاتے تھے اس زمین کی وراثت بخشی جس میں ہم نے برکت نازل کی ہے اور تیرے پروردگار کی اچھی بات بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر و ثبات کے سبب سے پوری ہوئی اور ہم نے فرعون اور اس کی قوم کے کاموں اور تعمیروں کو برباد کر دیا۔‘‘
اس سے ظاہر ہوا کہ بنی اسرائیل جیسی کمزور قوم فرعون جیسی طاقت کے سامنے اس لئے سر بلند ہوئی کہ اس نے صبر اور ثابت قدمی سے کام لیا۔ اور اس کے نتیجے کے طور پر اللہ تعالی نے ان کو شام کی بابرکت زمین کی حکومت عطا فرمائی۔ چنانچہ اس کی تصریح اللہ تعالی نے ایک دوسرے موقع پر فرمائی ہے۔
﴿وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَةً يَّهْدُوْنَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا وَكَانُوْا بِأَيْتِنَا يُوْقِنُوْنَ﴾ (الم سجده:24)
’’اور بنی اسرائیل کے لوگوں میں سے ہم نے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے راہ دکھاتے تھے جب کہ انہوں نے صبر کیا اور ہمارے حکموں پر وہ یقین رکھتے تھے۔‘‘
آیت بالا نے بنی اسرائیل کی پیشوائی کے دو سبب بیان کئے ہیں ایک احکام الہی پر یقین اور دوسرے احکام کی بجا آوری میں صبر اور ثبات قدمی۔ یہی دو باتیں دنیا کی ہر قوم کی ترقی کا سنگ بنیاد میں پہلے اپنے اصول کے صحیح صبح ہونے کا بشدت یقین اور پھر ان اصولوں کی تعمیل میں ہر قسم کی تکلیفوں اور مصیبتوں کو خوشی خوشی جھیل لینا اور صبر کرنے والوں ہی کا کام ہے ہر ایک اس پر پورا نہیں اتر سکتا۔
دنیا میں غم ومسرت اور رنج وراحت جوڑا جوڑا ہیں ان دونوں موقعوں پر انسان کو ضبط نفس اور اپنے آپ پر قابو پانے کی ضرورت ہے یعنی نفس پر اتنا قابو ہو کہ مسرت اور خوشی کے نشہ میں اس میں فخر اور غرور پیدا نہ ہو اور غم و تکلیف میں اداس اور بد دل نہ ہو۔ دل کے ان دونوں عیبوں کا علاج صبر و ثبات اور ضبط نفس ہے۔
اللہ تعالی نے صبر کرنے والوں کے بارے میں فرمایا:
﴿إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ (زمر:10)
’’صبر کرنے والوں کو ان کی مزدوری بے حساب ملے گی۔‘‘
﴿أُولٰئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرَفَةَ بِمَا صَبَرُوْا﴾ (فرقان: 75)
’’ان کو جنت کا بالا خانہ ملے گا صبر کے بدلے میں۔‘‘
﴿ فَوَقٰىهُمُ اللّٰهُ شَرَّ ذٰلِكَ الْیَوْمِ وَ لَقّٰىهُمْ نَضْرَةً وَّ سُرُوْرًاۚ۝۱۱ وَ جَزٰىهُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّةً وَّ حَرِیْرًاۙ۝۱۲﴾ (دهر: 11-12)
’’تو اللہ نے ان کو اس دن کی برائی سے بچا لیا اور ان کو ترو تازگی و شادمانی سے ملایا اور ان کے صبر کرنے (یعنی احکام الہی پر ٹھہرے رہنے) کے سبب باغ اور ریشمی لباس بدلہ میں دیا۔‘‘
فتح و مشکلات کی چابی صبر و استقلال ہے
اسی لئے فرمایا:
﴿واسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوة﴾ (البقرة:153)
’’صبر (یعنی محنت اٹھانے) اور دعا مانگنے سے قوت پکڑو۔‘‘
دنیا میں وہ کونسا انسان ہے جو ہمیشہ خوش و خرم ہی رہا ہو۔ مصیبت تکلیف دکھ درد انسان کے لئے ہی ہے اس کی حالت بھی یکساں نہیں رہتی۔ آج کچھ ہے تو کل کچھ ہے تھوڑی تھوڑی مصیبت پر آپے سے باہر ہو جاتا۔ صبر کے دامن کو ہاتھ سے چھوڑ دینا انسانیت کے خلاف ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَّأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ)[1]
’’یعنی صبر کی توفیق جسے دی جائے سمجھ لو کہ اس سے بہتر اور عمدہ نعمت کسی کو نہیں ملی۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
(الصَّبْرُ نِصْفُ الْإِيْمَانِ)[2]
’’صبر آدھا ایمان ہے۔‘‘
صبر مومن کی شان ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے:
(إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ)[3]
’’مومن کو اگر راحت اور خوشی ہوتی ہے تو وہ شکر خدا کر کے اپنی نیکی بڑھاتا ہے اور اگر اسے کوئی رنج و غم پہنچتا ہے تو وہ اس پر صبر کر کے اپنے درجے بڑھاتا ہے۔“
پس ہر حال میں یہ نفع میں ہی رہتا ہے راحت میں بھی رنج میں بھی، دونوں حالتوں میں خدا کو خوش رکھتا ہے۔ اور اس کی رضا حاصل کرتا اور نیکیوں اور درجات میں بڑھتا رہتا ہے۔
ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ جب کسی مسلمان کا کوئی چھوٹا بچہ مر جاتا ہے تو اس کی روح کو قبض کرنے والے فرشتوں سے جناب باری جل جلالہ فرماتا ہے کہ تم نے میرے ایک بندے کے بچے کی روح قبض کر لی اس کے کلیجے کے ٹکڑے کو اس سے چھین لیا۔ بتلاؤ اس نے کیا کہا؟ فرشتے جواب دیتے ہیں: خدایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الزكاة باب الاستعفاف عن المسألة [2] طبرانی کبير: 104/9 (8544)
[3] مسلم: كتاب الزهد باب المؤمن امره كله خير۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے انا لله وانا اليه راجعون پڑھا اور تیری تعریفوں میں لگا رہا۔ اس کی زبان سے تیری حمد ادا ہوئی اس وقت اللہ عز وجل حکم دیتا ہے:
(اِبْنُوا لِعَبْدِي بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَسَمُّوْهُ بَيْتَ الْحَمْدِ)[1]
’’یعنی میرے اس بندے کے لئے جنت میں ایک محل تعمیر کرو اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔‘‘
پس مبارک ہیں وہ لوگ جو مصیبت میں صبر کریں اور اللہ سے اجر حاصل کریں۔ سرور رسل ﷺ ایک دن اپنے ایک صحابی کو ملول اور رنجیدہ خاطر بیٹھے ہوئے دیکھ کر وجہ دریافت فرماتے ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں کہ میرے کلیجے کا ٹکڑا میری آنکھوں کا نور دل کا سرور ہٹ گیا۔ میرا چھوٹا بچہ جس سے مجھے بہت ہی محبت تھی فوت ہو گیا تو آپ فرماتے ہیں اور کیا ہی پیاری بات فرماتے ہیں:
(أَمَا تُحِبُّ أَنْ تَأْتِي بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ إِلَّا وَجَدْتَّهُ يَنتَظِرُكَ)[2]
’’یعنی کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ تم جنت کے کسی دروازے پر جاؤ اور تمہارا بچہ تمہیں تمہارے انتظار میں کھڑا ہوا ملے۔‘‘
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جن کے تین نابالغ بچے فوت ہو جائیں اور ماں باپ ان پر صبر کریں تو اللہ تعالی انہیں اپنے ان بچوں پر رحمت کرتے ہوئے بہشت بریں میں جگہ دے گا۔ ہم نے کہا: حضور اگر صرف دو ہی مرے ہوں۔ فرمایا: پھر بھی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا اگر آپ لوگ ایک بچے کے فوت ہونے کے بارے میں پوچھتے تو کیا حضور ﷺ کہہ دیتے اگرچہ ایک ہی مرا ہو؟ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میرا یہی خیال ہے۔[3]
آپ ﷺ فرماتے ہیں:
(صِغَارُهُمْ دَعَامِيْصُ الْجَنَّةِ يَلْقٰى أَحَدُهُمْ اَبَاهُ فَيَاخُذُ بِنَاحِيَةِ ثَوْبِهِ فَلَا يُفَارِقُهُ حَتَّى يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ)[4]
’’یہ چھوٹے بچے اپنے باپ کا دامن پکڑ لیں گے اور جب تک انہیں جنت میں نہ پہنچاؤ میں ان کا دامن نہ چھوڑیں گے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: كتاب الجنائز باب فضل المصيبة اذا احتسب: 140/2.
[2] مسند احمد:35/5، 436/3
[3] مسند احمد: 241/5
[4]مسلم: كتاب البر والصلة و الأدب، باب فضل من يموت له ولد …. 331/2.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔