سفر کی نماز

اللہ تعالی کا ارشاد ہے ﴿ وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا ؕ ﴾ (سوره نساء، آیت: 101)
ترجمہ: جب تم سفر میں جارہے ہو تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کا فرتمہیں ستائیں گے۔
عَنْ يَعْلى بن أُمَيَّةَ قَالَ: قُلْتُ لِعُمَرَ بنِ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وليس عليْكُمْ جُنَاحٌ أن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَقَدْ أمِنَ النَّاسِ فَقَالَ: عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ الله له عن ذلك، فقال: صدقة تصدق اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ، فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ.
(أخرجه مسلم).
(صحیح مسلم: کتاب صلاة المسافرين و قصرها، باب صلاة المسافرين وقصرها)
یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا ؕ ﴾ (سورة النساء، آیت 101) کہ (حالت سفر میں) نماز کے قصر کرنے میں کوئی حرج نہیں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے۔ اور اب تو لوگ امن وامان میں ہیں (یعنی اب قصر کی کیا ضرورت ہے؟) تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے بھی یہی تعجب ہوا تھا جیسا کہ تم کو تعجب ہوا ہے تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ اللہ نے تم کو صدقہ دیا ہے تو اس کا صدقہ قبول کرو (یعنی بغیر خوف کے بھی سفر میں قصر کرو)۔
وَعَنْ عَائِشَةَ زوج النبي ملة أنهَا قَالَتْ: فَرِضَتِ الصَّلاةَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ فِي الحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَأُقِرَّتْ صَلاةُ السَّفَرِ وَزِيدَ فِي صَلَاةِ الحَضَرِ. (متفق عليه)
(صحيح بخاري: كتاب الصلاة، باب كيف فرضت الصلاة في الإسراء، صحيح مسلم: كتاب صلاة المسافرين و قصرها باب صلاة المسافرين وقصرها.)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ کہتی ہیں سفر و حضر میں نماز دو دو رکعت فرض کی گئی تھی لیکن پھر سفر کی نماز ویسی ہی رہی اور حضر کی نماز بڑھا دی گئی۔
وَعَنْ ابْنِ عَبَاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: فَرَضَ اللَّهُ الصَّلَاةَ عَلَى لسَانِ لَيكُمْ فِي الْحَضَرِ أَرْبَعًا وَفِي السَّفَرِ رَكْعَتَينِ وَفِي الخَوْفِ رَكعَةً (أخرجه مسلم).
(صحیح مسلم: کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب صلاة المسافرين وقصرها)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اللہ تعالی نے تمہارے نبی ﷺ کی زبانی حضر میں چار رکعت فرض کی ہے اور سفر میں دو اور خوف میں ایک رکعت۔
وَعَنْ أَنَسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللهُ، صَلَّى الظُّهْرَ بِالمَدِينَةِ أَرْبَعًا وَصَلَّى العَصْرَ بِذِي الحُلَيْفَةِ رَكعَتَينِ. (متفق عليه).
(صحيح بخاري: كتاب الحج، باب من بات بذي الحليفة حتى أصبح، صحيح مسلم: كتاب صلاة المسافرين وقصرها باب صلاة المسافرين وقصرها)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ میں ظہر کی نماز چار رکعت پڑھی اور ذو الحلیفہ میں عصر کی نماز دو رکعت پڑھی۔
تشریح:
اللہ تعالی نے سفر میں امت محمد یا پر بہت آسانی فرمائی ہے یعنی ہر چار رکعت والی نماز (ظہر، عصر اور عشاء) کو قصر کر کے دو دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا ہے اور سنت مؤکدہ کی چھوٹ دے دی ہے البتہ وتر کی نمازاور فجر کی سنت آپ ﷺ نے کبھی بھی چاہے سفر میں ہوں یا حضر میں انہیں نہیں چھوڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سفر کی رخصتوں پر عمل کرنے کی توفیق دے۔
فوائد:
٭ سفر میں نماز قصر کرنا مشروع ہے۔ سفر میں نماز قصر کر کے پڑھنا مکمل پڑھنے سے افضل ہے۔
٭ سفر میں سنت کا نہ پڑھنا افضل ہے البتہ وتر اور فجر کی سنت کا اہتمام ضروری ہے۔
٭٭٭٭