صفوں کی درستگی

عَن جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَلَا تُصَفُّونَ كَمَا تُصَفُّ المَلائِكَةُ عِندَ رَبِّهَا عَزَّوَجَلَّ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ: وَكَيفَ تُصَفُّ المَلائِكَةُ عِندَ رَبِّهَا ؟ قَالَ : يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأَوَّلَ وَ يَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ. (أخرجه مسلم)
(صحیح مسلم: کتاب الصلاة، باب الأمر بالسكون في الصلاة والنهي عن الإشارة باليد)
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم لوگ اس طرح صف بندی کرو جس طرح بارگاہ الٰہی میں فرشتے صف بستہ رہتے ہیں۔ ہم لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیسے فرشتے بارگاہ الہی میں صف بندی کرتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ لوگ سب سے پہلے اگلی صف پوری کرتے ہیں اور صف میں مل کر کھڑے ہوتے ہیں۔
وَعَن أَبِي مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ اللهُ يَمْسَحُ مَنَاكِبَنَا فِي الصَّلاةِ وَيَقُولُ: اِسْتَوُوا وَلَا تَخْتَلِفُوا فَتَختَلِفَ قُلُوبُكُم، وَلِيَلِنِي مِنكُم أُولُو الأَحلَامِ وَالنُّهٰى، ثمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُم ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ (أخرجه مسلم)
(صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب تسوية الصفوف وإقامتها فضل الأول فالأول منها والازدحام.)
ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز کے لئے رسول اللہ ﷺ کے مونڈھوں پر ہاتھ پھیرتے اور فرماتے برابر کھے۔ ہو اور آگے پیچھے نہ رہو ورنہ تمہارے دلوں میں پھوٹ پڑ جائے گی۔ نیز میرے قریب وہ کھڑے ہوں جو سمجھدار اور عقلمند ہوں اور پھر جوان سے قریب ہوں اور پھر وہ جوان سے قریب ہوں عقل اور سمجھ میں۔
وَعَن أَنَسٍ رَضِي اللَّهُ عَنهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: سَؤُوا صُفُوفَكُمْ فَإِنْ تَسْوِيَةَ الصَّفَ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ. (متفق عليه)
(صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب إقامة الصف من تمام الصلاة، صحيح مسلم، كتاب الصلاة، باب تسوية الصفوف وإقامتها فضل الأول فالأول منها والازدحام.)
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ اپنی صفیں برابر رکھا کرو کیونکہ صف کی برابری سے نماز کی تکمیل ہوتی ہے۔
وَعَن سِمَاك بنِ حَرْبٍ قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ مِن بَشِيرٍ رَضِي اللَّهُ عنه يقولُ: كَانَ رَسُولُ الله ﷺ يُسَوِّى صُفُوفَنَا حَتَّى كَأَنَّمَا يُسَوِّى بِهَا القَدَاحَ حَتّٰى رَآنَا قَدْ عَقَلْنَا عَنْهُ، ثُمَّ خَرَجَ يَوْمًا فَقَامَ حَتَّى كَادَ يُكَبِّرُ فَرَأَى رَجُلاً بَادِيًا صَدْرهُ مِنَ الصَّفِّ، فَقَالَ: عِبَادَ الله لَتُسَوُّونَ صُفُوقَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفُنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوْهِكُم . (اخرجه مسلم)
(التخريج صحیح مسلم، کتاب الصلاة باب تسوية الصفوف وإقامتها فضل الأولى فالأول منها والازدحام)
سماک بن حرب نے کہا کہ میں نے نعمان بشیر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری صفیں برابر کیا کرتے تھے تھی کہ ایسا معلوم ہوتا کہ آپ ان سے تیر کی لکڑی برابر فرما رہے ہیں یہاں تک کہ آپ نے دیکھا ہم نے یہ بات آپ ﷺ سے سیکھ لی پھر ایک روز آپ نماز کے لئے نکلے اور کھڑے ہوئے۔ آپ تکبیر تحریمہ کہنے ہی والے تھے کہ اتنے میں آپ نے ایک آدمی کو دیکھا جس کا سینہ صف سے نکلا ہوا تھا تو آپ نے فرمایا: اے اللہ کے بندو! تم لوگ ضرور بالضرور اپنی صفیں برابر کر لو ورنہ اللہ تعالی تمہارے چہروں میں مخالفت ڈال دے گا۔
وَعَن أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ فَإِنِّي أُرَاكُم مِنْ وَرَاءِ ظَهرِى، وَكَانَ أَحَدُنَا يُلْزِقُ مَنْكَبْهٌ بِمَنْكَبِ صَاحِبِهِ وِقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ، (أخرجه البخاري).
(صحيح بخاري: كتاب الأذان، باب إزاق المنكب بالمكب وقدم بالقدم في الصف)
انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: صفیں برابر کر لو۔ میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں اور ہم میں سے ہر شخص اپنا مونڈھا اپنے ساتھی کے مونڈھے سے اور اپنا قدم اس کے قدم سے ملا دیتا تھا۔
تشریح:
حدیث میں صف بندی کی بہت زیادہ اہمیت آئی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان جب نماز کے لئے کھڑا ہو تو اپنے کندھوں کو کندھوں سے اور قدموں کو قدموں سے ملائے اور ایک دوسرے کے بیچ میں جگہ نہ چھوڑے بلکہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا ہو۔ آج مسجدوں میں دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے مل کر نہیں کھڑے ہوتے ہیں اور نہ ہی کندھا ملاتے ہیں بلکہ اگر کوئی شخص ان سے اپنا قدم ملانا چاہتا ہے تو وہ اپنے قدموں کو سمیٹتے ہوئے چلے جاتے ہیں جبکہ اس مسئلے میں نبی کریمﷺ کے عمل کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ نمازیوں کے سینوں اور کندھوں کو اپنے ہاتھ سے برابر کرتے تاکہ صرف درست رہے۔ صحابہ کرام صفوں میں خوب مل کر کھڑے ہوتے تھے یہاں تک کہ کوئی خلا باقی رہتا اور نہ کوئی ٹیڑھا پن ظاہر ہوتا ۔
امام کو چاہئے کہ تکبیر تحریمہ سے قبل نمازیوں کو آپس میں مل کر کھڑے ہونے کی تاکید کرے اور صفوں کو خود درست کرائے اس لئے امام ایسا ہونا چاہئے جو صاحب علم، باعمل اور باوقار بھی ہو کہ دینی امور میں اپنے سے چھوٹوں اور بڑوں کی بالفعل اصلاح کر سکے، نوعمر، علم و عمل میں کوتاہ اماموں کے لئے صفوں کی درستگی باعموم مشکل ہوتی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں صفوں کی درستگی کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ صف کی درستگی رسول اکرم ﷺ کے حکم کے بموجب واجب ہے۔
٭ صفوں میں ٹیڑھا پن رحمت الہی سے دوری کا سبب ہے۔
٭ صف کی عدم درستگی نمازیوں کے قلوب میں اختلاف کا ذریعہ ہے۔
٭ صف کی درستگی نماز کی صحبت کی علامت ہے۔
٭٭٭٭