صحابہ کرام کی اہل بیت سے محبت
( رضی اللہ عنہم اجمعین )
اہل بیت سے اللہ تعالٰی کی محبت
اہل بیت سے رسول اللہ کی محبت
اہل بیت سے صحابہ کرام کی محبت
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ ؕ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡۖ (الفتح – آیت 29)
محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں،
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي (ترمذی، سندہ حسن)
تم میرے اہل بیت سے محبت کرو
اھل بیت اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم میں انتہائی اخوت اور محبت کے روابط تھے ۔بہت بڑے ظالم ھیں وہ لوگ جو ان مقدس ہستیوں کو ایک دوسرے کا حریف ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرتے ھیں ۔”
حقیقت بھی یہ ہے کہ وہ لوگ آپس میں دشمن اور مخالف کیسے ہو سکتے ہیں کہ جن کے دلوں میں محبت اللہ تعالٰی کی طرف سے پیدا کی گئی ہے
فرمایا
’’ ھُوَ الَّذِیْ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ وَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الاَرْضِ جَمِیْعًا مَا اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَلٰکِنَّ ﷲَ اَلَّفَ بَیْنَھُمْ إنَّہٗ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ‘‘ (الانفال :۶۲)
”وہی اللہ جس نے اپنی نصرت اور مومنوں کے ذریعے تیری مدد فرمائی اور ان کے دلوں کو جوڑ دیا۔ اگر تو زمین میں جو کچھ ہے وہ سارے کا سارا خرچ کر ڈالتا تو بھی ان کے دلوں کو نہ جوڑ سکتا تھا، لیکن اللہ نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا،بیشک وہ غالب حکمت والا ہے۔’
لہذا ہمیں ان کے خلاف نفرت یا ان کے درمیان بغض و عداوت تلاش کرنے کی بجائے ان کے لیے دعائے خیر کرنا چاہیے اور ان کے متعلق اپنے دل صاف رکھنے چاہئیں
فرمایا
’’ وَالَّذِیْنَ جَاؤُوْا مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالِایْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا إنَّکَ رَؤوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘ (الحشر:۱۰)
’’وہ لوگ جو ان کے بعد آئے وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں بخش اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ایمان قبول کرنے میں ہم سے سبقت لے گئے اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے متعلق کینہ و کدورت پیدا نہ کر جو ایمان لے آئے۔ اے ہمارے ربّ! توبخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
الله تعالٰی کی اہل بیت سے محبت
اللہ تعالٰی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات کو مومنین کی مائیں قرار دے کر قیامت تک کے لیے عزت و تکریم سے نواز دیا
فرمایا
اَلنَّبِىُّ اَوۡلٰى بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ وَاَزۡوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمۡ ؕ (الأحزاب – آیت 6)
یہ نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھنے والا ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں
یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات بھی آپ کے اہل بیت میں ہی شامل ہیں جیسا کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا
يَا زَيْدُ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ؟ قَالَ: نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ (مسلم 6225)
اے زید! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون سے ہیں ، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت نہیں ہیں؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں
اللہ تعالٰی نے اہل بیت میں سے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت میں قرآن کی آیات نازل کیں
فرمایا
وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ (النور : 16)
اور کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو کہا ہمارا حق نہیں ہے کہ ہم اس کے ساتھ کلام کریں، تو پاک ہے، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔
يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (النور : 17)
اللہ تمھیں نصیحت کرتا ہے اس سے کہ دوبارہ کبھی ایسا کام کرو، اگر تم مومن ہو۔
اللہ تعالٰی اہل بیت کو گناہوں اور گندگی سے پاک صاف کرنا چاہتے ہیں
فرمایا
اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُذۡهِبَ عَنۡكُمُ الرِّجۡسَ اَهۡلَ الۡبَيۡتِ وَيُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِيۡرًا (الأحزاب – آیت 33)
اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اے گھر والو ! اور تمہیں پاک کر دے، خوب پاک کرنا۔
اللہ تعالٰی نے خاندان نبوت کو پوری دنیا کے انسانوں میں سے چن لیا ہے
صحیح مسلم میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
” إنَّﷲَ اصْطَفیٰ کَنَانَۃَ مِنْ وُلْدِ إِسْمَاعِیْلَ وَاصْطَفٰی قُرَیْشًا مِّنْ کَنَانَۃَ وَاصْطَفٰی مِنْ قُرَیْشٍ بَنِیْ ہَاشِمٍ وَاصْطَفَانِيْ مِنْ بَنِيْ ہَاشِمٍ ” ( رقم:۲۲۷۶)
’’بے شک اللہ نے اسماعیل کی اولاد سے کنانہ کو چن لیا اورکنانہ سے قریش کوچن لیا اور قریش سے اولادہاشم کو چن لیا اورمجھے اولاد ہاشم سے چن لیا
اللہ تعالٰی اہل بیت کے رکن علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی لڑائی کے دن فرمایا
"لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يُفْتَحُ عَلَى يَدَيْهِ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ (بخاری 3009)
”کل میں ایسے شخص کے ہاتھ میں اسلامی جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اسلامی فتح حاصل ہو گی ‘ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور جس سے اللہ اور اس کا رسول بھی محبت رکھتے ہیں۔“
رات بھر سب صحابہ کے ذہن میں یہی خیال رہا کہ دیکھئیےکسے جھنڈا ملتا ہے۔ جب صبح ہوئی تو ہر شخص امیدوار تھا ‘ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ”علی کہاں ہیں؟“ عرض کیا گیا کہ ان کی آنکھوں میں درد ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مبارک تھوک ان کی آنکھوں میں لگا دیا۔ اور اس سے انہیں صحت ہو گئی ‘ کسی قسم کی بھی تکلیف باقی نہ رہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کو جھنڈا عطا فرمایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اہل بیت سے محبت
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو اہل بیت کا خاص خیال رکھنے کی تلقین کی
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
أَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: «وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي» (مسلم 6225)
اے لوگو میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ۔ پہلی تو اللہ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت ہے اور نور ہے ۔ تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو ۔ غرض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی ۔ پھر فرمایا کہ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں ۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں ، تین بار فرمایا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل بیت سے محبت کرنے کا حکم دیا
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَحِبُّوا اللَّهَ لِمَا يَغْذُوكُمْ مِنْ نِعَمِهِ، وَأَحِبُّونِي بِحُبِّ اللَّهِ، وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي. (ترمذی 3789)
”اللہ سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمتیں کھلا رہا ہے، اور محبت کرو مجھ سے اللہ کی خاطر، اور میرے اہل بیت سے میری خاطر“۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل بیت سے بغض رکھنے والوں کو جہنم کی وعید سنائی ہے
ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه! لَا يُبْغِضُنَا أَهَلَ الْبَيْتِ أَحَدٌ إِلَّا أَدْخَلَه اللهُ النَّار (السلسلۃ الصحیحۃ 3611، صحیح ابن حبان وسندہ حسن)
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو کوئی اہل بیت سے بغض رکھے گا اللہ تعالیٰ اسے آگ میں داخل کرے گا ۔
دوسری روایت میں ہے
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
لو ان رجلا بین الرکن والمقام فصلی وصام ثم لقی اللہ و ھو مبغض لاہل بیت محمد دخل النار
اگر کوئی شخص حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان نماز پڑھتا ہو روزہ رکھتا ہو لیکن مرتے وقت دل میں اہل بیت سے بغض ہوا، تو جہنم میں جائے گا
المستدرک للحاکم وسندہ حسن
نبی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پسند نہیں کرتے تھے کہ اہل بیت کی شکایات لگا کر انہیں پریشان کیا جائے
عن ابی سعید الخدري رضی اللہ عنہ قال شکی علیَ بنَ ابی طالب رضی اللہ عنہ الناسُ الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فقام فينا خطیبا فسمعتہ یقول( ایھا الناس !لا تشكوا علیا فوالله انہ لاخشن فی ذات اللہ و فی سبیل اللہ ) (مسند احمد، والحاكم وسندہ حسن)
لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کوئی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا( علی کی شکایت نہ کرو وہ اللہ کی ذات کے معاملے میں اور اللہ کی راہ میں بہت سخت ہیں
اور دوسری روایت میں ہے
فَأَقْبَلَ إِلَيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْغَضَبُ يُعْرَفُ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ : ” مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ ؟ مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ ؟ مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ ؟ إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ، وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی طرف متوجہ ہوئے اور غصے سے کہا کہ تم علی سے کیا چاہتے ہو، تم علی سے کیا چاہتے ہو، تم علی سے کیا چاہتے ہو بے شک علی مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں اور وہ ہر مومن کے ولی ہیں
ترمذی
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل بیت کے رکن علی رضی اللہ عنہ سے محبت کو ایمان اور نفرت کو نفاق کی نشانی قرار دیا
علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ لَا يُحِبُّكَ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يَبْغَضُكَ إِلَّا مُنَافِقٌ (ترمذی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے فرمایا اے علی تجھ سے محبت وہی کرے گا جو مومن ہے اور تجھ سے بغض وہی رکھے گا جو منافق ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ آذَى عَلِيًّا فَقَدْ آذَانِي . (السلسلۃ الصحیحۃ 3577، والحاكم ولہ شاہد عند ابن حبان)
جس نے علی رضی اللہ عنہ کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی
عن أم سلمۃ رضی اللہ عنہا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي (مسند احمد)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس نے علی رضی اللہ عنہ کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل بیت میں سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کو اپنی ناراضگی قرار دیا
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي (بخاری)
فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا
ایک روایت میں ہے
وہ چیز مجھے تکلیف دیتی ہے جس سے فاطمہ کو تکلیف پہنچتی ہے (بخاری و مسلم)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہم سے محبت کرنے کا حکم دیا اور ان سے بغض رکھنے سے منع کیا
فرمایا
جس نے ان دونوں سے محبت کی گویا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض کیا گویا اس نے مجھ سے بغض کیا (مسند احمد وسندہ حسن لذاته)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے
اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ وأحب من يحبه (بخاری)
کہ اے اللہ مجھے( حسن )سے محبت ہے تو بھی اس سے محبت کر اور جو اس سے محبت کرے اس سے محبت کر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا (ترمذی، مسند احمد، حسن لذاته)
کہ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں اللہ تعالٰی اس شخص سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی اہل بیت سے محبت
اہل بیت سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی محبت
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا
ارقبوا محمدا صلى الله عليه وسلم في أهل بيته
کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رضا مندی آپ کے اہل بیت کی محبت میں تلاش کرو (بخاری 3751)
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ لوگوں کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ اہل بیت کی حفاظت کرو اور ان سے برا سلوک نہ کرو (فتح الباری)
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے پیار سے حسن رضی اللہ عنہ کو اٹھا رکھا تھا اور کہہ رہے تھے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے مشابہ ہیں (بخاری 375)
عمر،عثمان اور اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین
كان العباس بن عبدالمطلب إذا مر بعمر أو بعثمان وهما راكبان نزلا حتى يجاوزهما إجلالاً لرسول ﷲ ﷺ
حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ سوار ہوتے اور جناب عباس بن عبدالمطلبؓ ان کے پاس سے گزرتے تو رسول اللّٰہ ﷺ کی نسبت کا احترام کرتے ہوئے یہ سواری سے اتر آتے، یہاں تک کہ عباس آگے چلے جاتے (سير أعلام النبلاء ( ٨٩/٢)
كان عمر بن الخطاب يحب ابن عبَّاس حبًّا شديدًا، ويلاعبه أحيانًا، فكانا يتغاطسان في الماء وهما محرِمَين أيهما يبقى في الماء أطول
وكان الفارق بينهما 38 سنة تقريبا! المحلى لابن حزم ٢٧٩/٧
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو عمر رضی اللہ عنہ سے تمام صحابہ کرام سے بڑھ کر محبت تھی
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَال سَمِعْتُ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَكَانَ مِنْ أَحَبِّهِمْ إِلَيَّ (ترمذی ،بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الْفَجْرِ183)
*{ یہ چادر عمرؓ نے دی ہے تو علی کیوں نہ پہنے؟
رضی اللہ تعالٰی عنہما
تابعی ابو سفر الهمداني رحمه الله بیان کرتے ہیں:
سيدنا علي بن أبي طالب رضي الله عنه ایک چادر بہت اوڑھا کرتے تھے. آپ سے کہا گیا: "امیر المؤمنین! کیا وجہ ہے کہ آپ یہ چادر بہت ذیادہ اوڑھتے ہیں؟”
سيدنا علي رضي الله عنه نے فرمایا :
"إنه كسانيه خليلي وصفيي وصديقي وخاصتي عمر بن الخطاب، إن عمر ناصح الله فنصحه الله.”
"یہ تو میرے جگری یار، میرے چنیدہ، میرے دوست اور میرے خاص ساتھی عمر بن خطاب رضي الله عنه نے پہنائی تھی. بے شک عمر اللہ کیلیے خالص ہو گئے تو اللہ نے بھی عمر کے ساتھ بھلائی کا معاملہ رکھا!”
اور پھر امیر المؤمنین رو دییے!
(مصنف ابن أبي شيبة: ٣١٩٩٧، الإخوان لابن أبي الدنيا: ٢٤٨، الشريعة للآجري: ١٨١٥، إسناده حسن)
عثمان اور على رضى الله عنهما کی سگے بھائیوں کی طرح باہم یاری دوستی
ابو سعيد خدرى رضى الله عنہ بيان كرتے ہیں کہ میں نے عثمان و على رضى الله عنہما كو داخل ہوتے ہوئے ديكها . ايک صاحب دوسرے کا ہاتھ تهامے ہوئے تهے جيسے كہ ایک ہى ماں اور باپ کے بيٹے ہوں
(السنة للخلال / حسن)
حضرت على رضى الله عنہ خليفہ عثمان رضى الله عنہ کى اطاعت كرنے والے تهے۔ فرمايا
” اگر عثمان مجهے صرار (عراق اور مدينہ کے مابين كنواں ہے) کى طرف بهى بهيج ديں تو ان كى بات سن كر اطاعت كروں گا
(مصنف ابن ابي شيبة / صحيح)
خادم رسول انس رضی اللہ عنہ کا اہل بیت سے اظہار یکجہتی
فرماتے ہیں
روافض کا دعویٰ ہے کہ عثمان اور علی کی محبت ایک مومن کے دل میں جمع نہیں ہو سکتی، یہ انکا جھوٹ ہے الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل میں دونوں کی محبت جمع کر دی ہے (الشریعہ 1226،1227 سندہ صحیح)
_أنس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حسن سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مشابہ کوئی نہ تھا
المستدرک للحاكم وسندہ صحيح
ام المؤمنين ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی اہل بیت سے محبت کا اظہار
شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے موقع پر انہوں نے اپنے جذبات کا یوں اظہار کیا
فرمایا
سمعت الجن تنوح علی الحسين رضی اللہ عنہ
میں نے جنوں کو سنا وہ حسین رضی اللہ عنہ پر رو رہے تھے (المعجم الکبیر للطبرانی إسناده حسن)
شہر بن حوشب کہتے ہیں
سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ جَائَ نَعْیُ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ، لَعَنَتْ أَہْلَ الْعِرَاقِ، فَقَالَتْ: قَتَلُوہُ قَتَلَہُمُ اللّٰہُ، غَرُّوہُ وَذَلُّوہُ، قَتَلَہُمُ اللّٰہُ (مسند احمد 12424، اسنادہ حسن)
شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ جب سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر آئی تو میں نے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو سنا کہ انہوں نے اہل عراق پر لعنت کی اور کہا: انہوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا ہے، اللہ ان لوگوں کو قتل کرے، اللہ تعالیٰ ان پر لعنت کرے، انہوں نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا اور بے وفائی کی
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ حسین رضی اللہ عنہ کی مدح سرائی کرتے ہیں
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کعبے کے سائے تلے بیٹھے ہوئے تھے کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو آتے دیکھا تو فرمایا
ھذا احب اہل الأرض الی اہل السماء الیوم
یہ شخص آج آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب ہے
تاریخ دمشق، وسندہ حسن
جابر رضی اللہ عنہ کی زبانی حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق تعریفی کلمات
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے حسین رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر فرمایا جو جنتی نوجوانوں کے سردار کو دیکھنا چاہے وہ انہیں دیکھ لے
فضائل صحابہ للإمام أحمد بن حنبل و سندہ صحيح
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حسن رضی اللہ عنہ سے والہانہ محبت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حسن رضی اللہ عنہ سے ملے تو انہیں کہا کہ آپ اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھائیں تاکہ میں وہاں آپ کو بوسہ دوں جہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا تھا تو انہوں نے اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھایا تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کو ناف پر بوسہ دیا (المستدرک للحاكم، إسناده صحیح)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلین پر غصہ
عَنِ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، قَالَ: كُنْتُ شَاهِدًا لِابْنِ عُمَرَ، وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ دَمِ الْبَعُوضِ، فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ فَقَالَ: مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، قَالَ: انْظُرُوا إِلَى هَذَا يَسْأَلُنِي عَنْ دم البعوض وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "”هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا””. (بخاری 5994)
میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں موجود تھا ان سے ایک شخص نے ( حالت احرام میں ) مچھر کے مارنے کے متعلق پوچھا ( کہ اس کا کیا کفارہ ہو گا ) ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دریافت فرمایا کہ تم کہاں کے ہو؟ اس نے بتایا کہ عراق کا، فرمایا کہ اس شخص کو دیکھو، ( مچھر کی جان لینے کے تاوان کا مسئلہ پوچھتا ہے ) حالانکہ اس کے ملک والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسہ کو ( بےتکلف قتل کر ڈالا ) میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ یہ دونوں ( حسن اور حسین رضی اللہ عنہما ) دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حسنین کریمین رضی اللہ عنہم سے محبت
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَمُصُّ لِسَانَہُ، أَوْ قَالَ: شَفَتَہُ یَعْنِی الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِ، وَإِنَّہُ لَنْ یُعَذَّبَ لِسَانٌ أَوْ شَفَتَانِ مَصَّہُمَا رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۶۹۷۳)
میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی زبان کو یا ہونٹ کو چوس رہے تھے اور جس زبان یا ہونٹوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چوما ہو، اسے عذاب نہیں ہوگا۔
معاویہ رضی اللہ عنہ کے علی رضی اللہ عنہ کے متعلق تاثرات
فقال( معاوية ) :
لا والله إني لأعلم أنه أفضل مني وأحق بالأمر مني ،*
معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم علی مجھ سے افضل ہیں
سير أعلام النبلاء 140/3 وقال المحقق شعيب الأرنؤوط ورفقاؤه: رجاله ثقات
حسنين كريمين اور امير معاويہ رضى الله عنہم کے تحائف
امام جعفر صادق رحمہ اللہ اپنے والد محمد بن علي بن حسين بن على بن ابى طالب رضى الله عنهم سے بيان كرتے ہیں کہ حسن اور حسين رضى الله عنہما معاويہ رضى الله عنہ کے تحائف قبول كرتے تهے۔
(مصنف ابن أبي شيبة ، الشريعة للآجرى/ شيخ عصام موسى هادى نے اسے صحيح كہا )
ابراہیم نخعی( تابعی )کہتے ہیں
کہ اگر بالفرض میں ان لوگوں میں ہوتا جنہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اور میرا جرم معاف بھی کر دیا جاتا اور میں جنت میں چلا جاتا تب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا سامنا کرنے سے شرم محسوس کرتا (المعجم الکبیر للطبرانی، سندہ حس)