صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا مثالی ایمان

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَ ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَۙ۝۷﴾ [الحجرات:7]
آج کے خطبہ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم مومن تھے اور ان کا ایمان اللہ رب العزت کے ہاں بالکل درست اور مقبول تھا بلکہ ان کا ایمان مثالی ایمان تھا۔ اور اللہ رب العزت نے ان کے ایمان کو لوگوں کے لیے نمونہ قرار دیا۔ سورة البقرہ آیت نمبر (13) میں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ ؕ اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ﴾ [البقرة:13]
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اور لوگوں (یعنی صحابہ رضوان اللہ علیہم) کی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو جواب دیتے ہیں کہ کیا ہم ایسا ایمان لائیں جیسا بیوقوف لائے ہیں، خبردار ہو جاؤ یقینًا یہ خود بیوقوف ہیں لیکن جانتے نہیں۔‘‘
اور اللہ رب العزت سورۃ البقرہ کی آیت نمبر (137) میں اسی مضمون کو بیان فرماتے ہیں:
﴿ فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا ۚ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍ ۚ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُ ۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ [البقرة:137]
’’اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں، اور اگر منہ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں، اللہ تعالی ان سے عنقریب آپ کی کفایت کرے گا اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘
غور فرمائیے! خالق کائنات نے منافقوں اور یہودیوں کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے ایمان کو معیار نمونہ اور مثال قرار دیا، اور جن منافقوں نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کو برا کہا۔ اللہ رب العزت نے انہیں بے وقوف اور نادان قرار دیا۔ اور اللہ رب العزت نے یہ اعلان فرمایا کہ ایمان صحابہ کرام رضی اللہ تعالی علیہم کی انتہائی محبوب چیز تھی: سورة الحجرات آیت نمبر (7) میں دلیل موجود ہیں:
﴿ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَ ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ﴾ [الحجرات:7]
’’لیکن اللہ تعالی نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنا دیا ہے، یہی لوگ راہ یافتہ ہیں۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ ایمان کی خاطر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے بڑی قربانیاں دیں لیکن ایمان نہ چھوڑا۔ اس کی زبردست مثال حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ ہے: حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ، امیہ بن خلف جمحی کے غلام تھے۔ امیہ ان کی گردن میں رسی ڈال کر لڑکوں کو دے دیتا تھا اور وہ انہیں مکے کے پہاڑوں میں گھماتے پھرتے تھے یہاں تک کہ گردن پر رسی کا نشان پڑ جاتا تھا۔ خود امیہ بھی انہیں باندھ کر ڈنڈے سے مارتا تھا اور چلچلاتی دھوپ میں جبراً بٹھائے رکھتا تھا۔ کھانا پینا بھی نہ دیتا بلکہ بھوکا پیاسا رکھتا تھا اور اس سے کہیں بڑھ کر یہ ظلم کرتا تھا کہ جب دوپہر کی گرمی شباب پر ہوتی تو مکہ کے پتھریلے کنکروں پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھوا دیتا۔ پھر کہتا خدا کی قسم! تو اسی طرح پڑا رہے گا یہاں تک کہ مر جائے، یا محمد کے ساتھ کفر کرے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ اس حالت میں بھی فرماتے: احد احد. ایک الہ ہے، ایک الہ ہے۔ (میں لات ومنات اور عزٰی وہبل کو نہیں مانتا، میں صرف ایک رب کو مانتا ہوں جو عرش عظیم کا رب ہے )۔ [الرحيق المختوم ص 157]
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنه:
بنو مخزوم کے غلام تھے انہوں نے اور ان کے والدین نے اسلام قبول کیا تو ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ مشرکین جن میں ابو جہل پیش پیش تھا سخت دھوپ کے وقت انہیں پتھریلی زمین پر لے جا کر اس کی تپش سے سزا دیتے۔ ایک بار انہیں اسی طرح سزادی جا رہی تھی کہ نبیﷺ کا گزر ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’آل یا سر صبر کرنا۔ تمہارا ٹھکانا جنت ہے۔‘‘ آخر کار یاسر ظلم کی تاب نہ لا کر وفات پاگئے۔[الرحيق المختوم ص 157]
اور سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا جو حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ تھیں، ان کی شرمگاہ میں ابو جہل نے نیزہ مارا، اور وہ دم توڑگئیں۔ یہ اسلام میں پہلی شہیدہ ہیں۔[الرحيق المختوم ص 157]
حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنہ پر سختی کا سلسلہ جاری رہا، انہیں کبھی دھوپ میں تپایا جاتا تو کبھی ان کے سینے پر سرخ پتھر رکھ دیا جاتا اور کبھی پانی میں ڈبویا جاتا۔ ان سے مشرکین کہتے تھے کہ جب تک تم محمد کو گالی نہ دو گے یا لات وعزٰی کے بارے میں کلمہ نہ کہو گے ہم تمہیں چھوڑ نہیں سکتے۔ حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنہ نے مجبورًا ان کی بات مان لی۔ پھر نبیﷺ کے پاس روتے اور معذرت کرتے ہوئے تشریف لائے اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
﴿ مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖۤ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ ) [النحل: 106]
’’جس نے اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کیا، (اس پر اللہ کا غضب اور عذاب عظیم ہے) لیکن جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (اس پر کوئی گرفت نہیں)‘‘ [الرحيق المختوم ص 157]
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ تعالی عنہ
قبیلہ خزاعہ کی ایک عورت ام انمار کے غلام تھے۔ مشرکین انہیں طرح طرح کی سزائیں دیتے تھے۔ ان کے سر کے بال نوچتے تھے اور سختی سے گردن مروڑتے تھے۔ انہیں کئی بار دہکتے انگاروں پر لٹا کر اوپر سے پتھر رکھ دیا کہ وہ اٹھ نہ سکیں۔ لیکن اتنی سخت اذیتوں کے باوجود انہوں نے ایمان نہ چھوڑا۔[الرحيق المختوم ص 158]
حضرت زنیرہ رضی اللہ تعالی عنہا
طبقات ابن سعد میں اس بوڑھی صحابیہ کا تابناک واقعہ درج ہے، یہ بوڑھی عورت مکے کے گھروں میں برتن صاف کر کے گزارا کرتی تھی، سرداران مکہ کو پتہ چلا یہ عورت مسلمان ہوگئی ہے، مکے کے اوباشوں کو بھیجا کہ اسے پکڑ کر لاؤ۔ لایا گیا، پوچھا: اے زنیرہ! تو نے بھی محمد صل اللہ کا کلمہ پڑھ لیاہے؟ کہا ہاں میں بھی کلمہ پڑھ لیا ہے۔ پس ظالموں ن اس کی اتنی پٹائی کی کہ وہ بے ہوش ہو گئی پانی پلا کے ہوش میں لاتے پھر پٹائی کرتے، آخر لوہے کی سلاخیں اس بڑھیا کی آنکھوں میں انتہائی گرم کر کے پھیری گئیں، آنکھیں پکھل گئیں۔ ابو حہل نے لگا: تو کہتی تھی لات منات کچھ نہیں کر سکتے، ہمارے لات منات نے تجھے اندھا کر دیا ہے۔ بوڑھی زنیرہ کے ایمان کے کیا کہنے، تڑپ کے اٹھ بیٹھی، اپنی بے نور نگاہوں کو آسمان کی طرف اٹھایا اور کہا (أَلَا لَا تَضُرُّ اللَّاتُ وَالْعُزَّى) خبردارلات وعزٰی کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
(مَا اَذْهَبَ بَصَرِي إِلَّا الله)
’’میری بینائی تو اللہ کے حکم سے گئی ہے۔‘‘[طبقات ابن سعد]
اور جب اس نے یہ کلمات کہے اللہ نے اس کی آنکھیں ٹھیک کردیں۔ سبحان اللہ!
اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا ایمان انتہائی مضبوط تھا:
1۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ معراج په تبصره: جب ابو جہل نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ اللہ نے مجھے ایک ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور مسجد سے سورۃ انتہی تک سیر کروائی ہے تو ابو جہل بھاگم بھاگ صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا (وہ بزعم خویش یہ سمجھ رہا تھا کہ آج ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس بات کا انکار کر دیں گے) ابو جہل کہنے لگا: ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ بھلا یہ تو بتلاؤ اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ میں رات ہی رات میں مسجد اقصیٰ اور سدرۃ المنتہی تک سیر کر کے آیا ہوں۔ کیا اس کا دعوی سچا ہوگا؟ تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ پوچھتے ہیں بتلاؤ یہ کس نے کہا ہے؟ ابو جہل کہتا ہے یہ بات آپ کے ساتھ محمدﷺ نے کہی ہے۔ تو جناب ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اگر یہ بات محمد ﷺ نے کہی ہے تو پھر یہ اس طرح حق اور سچ ہے جس طرح یہ دن چڑھا ہوا ہے۔
2۔ حضرت خزیمہ بن ثابت کی گواهی:
ایک دفعہ رسول اللهﷺ نے ایک بدوی سے گھوڑا خریدا، اور اسے فرمایا: ”میرے ساتھ میرے گھر آؤ اور قیمت وصول کر لو۔‘‘ وہ آپ کے پیچھے چلنے لگا راستے میں اسے ایک گاہک مل گیا تو یہ آواز دیتا ہے۔ اے محمد یا اگر گھوڑے کا سودا کرنا ہے تو کرو ورنہ میں اس شخص کو گھوڑا بیچنے لگا ہوں تو آپﷺ نے فرمایا:
’’سودا تو ہو چکا ہے، اس لیے آپ رقم وصول کرنے کے لیے میرے پیچھے آ رہے ہیں۔‘‘
لیکن بدوی پھر گیا اور کہنے لگا سودا نہیں ہوا، وہاں بحث و تکرار پر لوگ اکٹھے ہو گئے۔ یہودی کہنے لگا: گواہ لاؤ، حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ جھٹ بولے میں گواہی دیتا ہوں کہ سودا ہو چکا ہے، آخر بدوی رقم لے کر اور گھوڑا دے کر چلا گیا۔ بعد میں رسول اللہﷺ جناب خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا:
’’آپ تو موجود ہی نہیں تھے آپ کو کیسے پتہ چلا کہ سودا ہو چکا ہے؟“
تو خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا کہ جب آپ کی زبانِ اطہر سے سنا کہ سودا ہو چکا ہے تو میں نے آپ پر یقین کرتے ہوئے گواہی دے دی۔ تو رسول اللہﷺ نے اس موقع پر فرمایا: ’’خزیمہ! آج کے بعد جس مسئلے میں دو گواہوں کی ضرورت ہو گی وہاں تجھ اکیلے کی گواہی دو کے برابر بھی جائے گی۔‘‘[سنن أبي داود، كتاب القضاء، باب لذا علم الحاكم صدق شهادة الواحد الخ، رقم: 3607]
3۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا روضۂ خاخ والا واقعہ: فتح مکہ سے کچھ پہلے ایک بدری صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے سرداران قریش کے نام ایک خط لکھا جس میں یہ خبر بھی محمد ﷺ کفار مکہ پر حملے کی تیاریاں کر رہے ہیں، حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ خط ایک عورت کے ذریعے مکے کی طرف روانہ کیا۔ اللہ تعالی نے بذریعہ وحی اپنے پیغمبر کو مطلع کر دیا کہ ایک عورت جاسوسی کا خط لے کر مکے کی طرف جا رہی ہے اور وہ اس وقت روضہ خاخ نامی جگہ پہنچ چکی ہے رسول اللہ صل اللہ نے خط پکڑنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر دو صحابیوں (حضرت مقداد اور حضرت زبیر کو) بھیجا کہ جاؤ روضہ خاخ نامی جگہ پہنچو اور وہاں سے ایک عورت کے پاس سے جاسوسی کا خط بر آمد کر کے لاؤ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ہم نکلے ہمارے گھوڑے ہمیں لے کر دوڑ رہے تھے۔ حتی کہ ہم نے روضہ خاخ نامی جگہ اس عورت کو پا لیا اور اس سے کہا: تیرے پاس جو خط ہے وہ ہمارے حوالے کر دو۔ اس نے انکار کر دیا، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: خط نکال دے ورنہ ہم کپڑے اتار کر خط نکالیں گے (کیونکہ جس نے ہمیں بھیجا ہے اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا) آخر اس عورت نے خط ان کے حوالے کر دیا۔[صحیح البخاري، كتاب المغازی، باب غزوة الفتح (4374) (3983) و مسلم (2494)]
4۔ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے ایمان کی گواهی: بخاری و مسلم کی روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص ایک بیل کو ہانک رہا تھا، اس دوران وہ شخص (چلنے) عاجز آ گیا تو بیل پر سوار ہو گیا۔ بیل نے کہا، ہم سواری کے لیے پیدا نہیں ہوئے ہیں۔ بلکہ ہم تو زمین کی کھیتی باڑی کے لیے پیدا کیے گئے۔‘‘ لوگوں نے (تعجب کرتے ہوئے) کہا، سبحان اللہ! بیل کلام کر رہا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(فانی اؤمن به انا و ابو بكر و عمر)[صحیح البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب، رقم 3471 و مسلم رقم: 6183]
’’اس واقع پرمیں، ابو بکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنہما ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
حالانکہ اس وقت وہ دونوں وہاں موجود نہیں تھے۔ اللہ اکبر! حضرت ابو بکر و عمررضی اللہ تعالی عنہما کا ایمان کس قدر مضبوط تھا کہ رسول اللہ ﷺ ان کی عدم موجودگی میں ان کے ایمان کی گواہی دے رہے ہیں۔
5۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ایمان واقعہ خوارج میں:

جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں خارجیوں کا فتنہ اٹھا۔ حضرت علی رضی اللہ نے ان کے خلاف قتال و جہاد کیا، اور جب ان کا مکمل خاتمہ ہو گیا، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: جاؤ ان کی لاشوں میں اس شخص کو ڈھونڈ کر لاؤ، جس کا قد پست، ایک بازو نامکمل، اور اس نامکمل بازو کے سرے پر عورت کے پستان نما ابھار اور اوپر بات اگے ہوئے، جاؤ اسے تلاش کرو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خارجیوں کی نشانیوں میں ایک نشانی بہ بتلائی تھی کہ ان میں مذکرہ شخص ہو گا۔ لوگ گئے اور ناکام وابس لوٹے۔ وہ شخص نہ ملا، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے پھر بات دہرائی اور کہا وہ ضرور ملے گا، ڈھونڈ کر لاؤ۔ کیونکہ نہ میں جھوٹ کہہ رہا ہوں اور نہ مجھے بتلانے والے (پیغمبرﷺ) نے جھوٹ کہا: لیکن لوگ پھر ناکام لوٹے، حضرت علیہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ساری بات دہرائی اور خود اٹھے لاشوں کو دیکھا ایک جگہ لاشوں کا ڈھیر تھا، کہا: یہ اوپر سے لاشیں اٹھاؤ۔ جب اوپر سے لاشیں اٹھائیں تو نیچے سے اس مذکورہ شخص کی لاش نکل آئی، پست قد، بازونامکمل، اور بازو کا سرا عورت کے پستان جیسا اور اوپر بال اگے ہوئے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھتے ہی کہا: اللہ اکبر! ضدق اللہ و رسولہ اللہ نے بھی سچ کہا اور اس کے رسول نے بھی سچ کہا۔[صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ، باب التمریض عی قتل الخوارج رقم: 2467]
غور فرمائیے! صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بات پر کتنا مضبوط ایمان تھا۔
یہی وجہ ہے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی جتنی بھی قسمیں بنتی ہیں سب کا جنتی ہونا قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے۔ اگر انصار و مہاجرین کی تقسیم دیکھو تو قرآن اعلان کر رہا ہے۔
سوره توبہ آیت نمبر (100) میں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ (التوبة: 100)
’’اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں۔ اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘
اور اگر فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے والے اور بعد میں ایمان لانے والے دیکھے جائیں تو دونوں کا جنتی ہونا قرآن سے ثابت ہے۔
اگرچہ پہلے ایمان لانے والے افضل ہیں، اللہ رب العزت سورۃ الحدید آیت نمبر (10) میں فرماتے ہیں:
﴿لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ ؕ اُولٰٓىِٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْا ؕ وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰی ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾ [الحديد: 10]
’’تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ دوسروں کے) برابر نہیں، بلکہ یہ ان سے بہت بڑے درجے کے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیا ہاں بھلائی (جنت) کا وعدہ تو اللہ تعالی کا ان سب سے ہے۔ جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبر دار ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی دو قسمیں بیان فرمائیں ایک وہ جو فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے اور دوسرے وہ جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے۔ اور پہلے ایمان لانے والوں کو اللہ تعالی نے افضل قرار دیا، لیکن ساتھ یہ وضاحت فرما دی کہ دونوں قسم کے صحابہ رضی اللہ تعال یعنہ کو جنت دینے کا اللہ نے وعدہ فرمایا ہے۔
لیکن آج وہ لوگ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے ایمان کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں جن بیچاروں کو ایمان کی الف باء کا بھی پتہ نہیں جو نہ اللہ کی شان و عظمت کو جانتے ہیں نہ رسول اللہﷺ کے مقام و مرتبہ کو پہچانتے ہیں جو حقیقت میں یہودی سازش کا نتیجہ ہیں۔
در اصل صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے ایمان کو مشکوک قرار دے کر یہ لوگ سارے دین کو مشکوک بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم وہ اولین لوگ ہیں جنہوں نے دین سیکھا اور آگے پہنچایا۔ اور اس سلسلے میں انہوں نے بڑی قربانیاں دیں۔
حقیقت بات ہے جب تک قرآن وسنت باقی ہے تب تک صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ایمان کی گواہی اور انہیں رضی اللہ تعالی عنہم کی شکل میں ملنے والا انعام بھی باقی رہے گا۔ مخالفت کرنے والے اپنی عاقبت برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں پائیں گے۔ اللہ تعالی ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی سچی محبت عطاء فرمائے۔

بسم الله الرحمن الرحيم
صحابه کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور قرآن و سنت کی پیروی
إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
گزشتہ خطبہ جمعہ میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے ایمان کا مضبوط اور مثالی ہونا بیان کیا گیا تھا اور آج کے خطبہ جمعہ میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی یہ عظیم الشان خوبی اور خصلت بیان کی جائے گی کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم قرآن وسنت کی اتباع و پیروی میں کس قدر پیش پیش اور مستعد تھے۔ اور وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت میں معمولی سی بھی تاخیر اور ٹال مٹول گوارا نہیں کرتے تھے۔ وہ قرآن کریم کی ان آیات مبارکہ کا پورا مصداق تھے۔
اللہ رب العزت سورة النور آیت نمبر (51) میں ارشاد فرماتے ہیں:
﴿ اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَی اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۵۱﴾ [النور:51]
’’ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لیے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کر دے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا۔ یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔‘‘
اور سورۃ البقرہ آیت نمبر (285) میں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ ؕ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىِٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ ۫ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ ۫ وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ؗۗ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ﴾ [البقرة:285]
’’رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالی کی جانب سے اتری اور مؤمن بھی ایمان لائے، یہ سب اللہ تعالی اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے، اور انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب! اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔‘‘
ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی جو خصلت بیان فرمائی ہے وہ صحابه کرام رضی اللہ تعالی عنہم میں بدرجہ اتم موجود تھی، اور وہ واقعہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بات کو سنتے ہی عمل کرتے تھے۔
کتب حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے بے شمار واقعات مذکور ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اطاعت و اتباع میں بہت آگے تھے۔ ان کی کیفیت آج کے کھوکھلے مسلمانوں والی نہیں تھی جو بار بار آیت اور حدیث سننے کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوتے اور بارہا دعوت و اصلاح کی کوشش کے باوجود یہی کہتے ہیں۔ دیکھیں گے سوچیں گے، غور کریں گے۔ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی کیفیت اس کے برعکس سمعنا واطعنا والی تھی کہ سنا اور فورا عمل کر لیا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ایمان افروز واقعہ:
جب ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پر منافقوں نے بہتان لگایا چند سادہ لوح مسلمان بھی باتوں میں آگئے اور ان کی زبانوں سے بھی بھولے پن میں کچھ باتیں ہو گئیں۔ جن میں ایک حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے قریبی رشتہ دار حضرت مسطح رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔ یہ فقیر مہاجرین صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم میں سے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ انہیں خرچہ دیا کرتے تھے جب یہ بہتان میں ملوث ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کا خرچہ بند کر دیا (یہ ایک فطری رد عمل تھا] آخر باپ کے لیے بیٹی کی عزت کا مسئلہ کوئی چھوٹا مسئلہ نہیں ہوتا۔ تو اللہ رب العزت نے آیت نازل فرمائی:
ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ وَ لَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ اَنْ یُّؤْتُوْۤا اُولِی الْقُرْبٰی وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ۪ۖ وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْا ؕ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ [النور: 22]
’’تم میں جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں وہ اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھا ئیں، بلکہ معاف کر دیں اور درگزر کریں۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالی تمہارے قصور معاف فرما دے؟ اللہ بہت معاف فرمانے والا مہربان ہے۔‘‘
تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے آیت سنتے ہی کہا کہ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے معاف فرمائے اور فورا مسطح میں ان کا خرچہ بحال کر دیا۔[تفسير ابن كثير (644/3)]سبحان اللہ! یہ ہے اطاعت۔ یہ ہے فرمانبرداری، یہ ہے ایمان کا تقاضا یہ ہے سمعنا واطعنا….
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے چند ایمان افروز واقعات:
1۔ جب کسی کی بے جا تنقید کی وجہ سے غصہ میں آئے تھے:
ایک دفعہ ایک شخص نے آپ کی خلافت پر بے جا تنقید شروع کر دی، آپ غصے میں آ گئے قریب تھا کہ کوئی سزا نافذ کر دیتے، پاس بیٹھے ہوئے حربن قیس نے فورًا آیت پڑھی:
﴿ خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ﴾ [الأعراف: 199]
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کیا فرماتے ہیں: ادھر حر کی زبان پر آیت مکمل ہوئی المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا، پھر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ تبصرہ فرماتے ہیں: کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اللہ کی کتاب پر فورًا عمل کرنے والے تھے۔ [صحيح البخاري، كتاب التفسير، باب: ﴿خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ﴾ رقم: 4642]
2۔ جب حق مهر پر پابندی لگانی که کونی (500) درہم سے زیادہ حق مهر نه دے:
ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، خطبہ میں اعلان فرمایا: کوئی شخص اپنی بیوی کو 500 درہم سے زیادہ حق مہر نہ دے، نماز جمعہ کے بعد ایک بوڑھی عورت اٹھ کھڑی ہوئی اور اس نے قرآن کی یہ آیت پڑھی:
﴿ وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا﴾ [النساء:20]
اور اس سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ قرآن تو بہت بڑا خزانہ حق مہر میں دینے کی گنجائش دے رہا ہے، آپ کیسے پابندی لگا رہے ہیں، تو امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے آیت سنتے ہی کہا:
(أَخْطَأَ عُمَرُ وَأَصَابَتِ الْمَرْأَةُ) [یہ روایت ضعیف ومنکر ہے۔ ارواء الغليل للالبانی (1927) تحت الحديث (347/6)]
’’عمررضی اللہ تعالی عنہ کو غلطی لگ گئی اور اس عورت نے درست کہا، لہٰذا جاؤ (حسب استطاعت) جتنا مرضی حق مہر دو کوئی پابندی نہیں۔‘‘
صحیح البخاری میں ہے، رسول اللہﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا: ’’خبردار! اللہ تم کو اپنے باپ دادا کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے تم میں سے جو تم کھائے اللہ کی کھائے ورنہ خاموش رہے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں اس کے بعد نہ کبھی خود غیر اللہ کی قسم کھائی اور نہ ہی کسی کی حکایۃً بیان کی۔[صحيح البخاري، كتاب الأيمان والنذور، باب لا تحلفوا بآبائكم، رقم: 6647]
اللہ اکبر! یہ ہے اطاعت و فرمانبرداری، یہ ہے سمعنا واطعنا کا عملی نقشہ یہ ہے حقیقی مومنانہ کردار
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کا ایمان افروز واقعہ:
صحیح البخاری میں ہے، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ دوران حج مزدلفہ میں ذوالحجہ کی رات بسر کی اور صبح روشنی ہونے تک وہاں ٹھہرے رہے۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اگر امیر المومنین اس وقت چل دیں تو سنت کے مطابق ہو۔ عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں میں نہیں جانتا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا قول پہلے واقع ہوا یا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا مزدلفہ سے کوچ کرنا۔[صحيح البخاري، كتاب الحج، باب متى يصلى الفجر بجمع، رقم: 1683]
غور کیجئے! آج قَالَ اللهُ و قَالَ الرَّسُولُ کا مذاق اڑانے والے، بدطینت لوگ ان پاکباز شخصیات کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں جن کی اطاعت الہی اور اتباع سنت کی گواہیاں اللہ کی کتاب اور پیغمبر کی حدیث میں موجود ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بن ابی طالب کا ایمان افروز واقعہ:
صحیح البخاری کی روایت ہے، ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے ریشمی حلہ دیا انہوں نے پہن لیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے چہرے پر غصے کے آثار ہیں تو انہوں نے فورًا اسے کاٹ کر گھر کی عورتوں میں تقسیم کر دیا۔[صحيح البخاري، كتاب الهبة، باب هدية ما يكره لبسها، رقم: 2614.]
سبحان اللہ! آج حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف کھوکھلی نسبتیں کرنے والے ذرا غور تو کریں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کتنے متبع سنت اور پابند شریعت تھے اور کھوکھلی نسبتیں کرنے والے کس قدر مخالف شریعت اور تارک سنت ہیں۔
حضرت معقل بن یار رضی اللہ تعالی عنہ کا زبردست ایمان افروز واقعه:
جب حضرت معقل بن بسیار رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی ہمشیرہ کا نکاح کسی آدمی سے کیا چند ہی دنوں بعد ان کے بہنوئی نے ان کی ہمشیرہ کو طلاق دے دی تھی اور رجوع بھی نہ کیا۔ عدت گزر گئی جب دوسری جگہوں سے رشتے آنے لگے تو اس طلاق دینے والے نے بھی دوبارہ نئے نکاح کا پیغام بھیج دیا تو حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں نے تجھے عزت دیتے ہوئے اپنی ہمشیرہ کا رشتہ دیا تھا۔ لیکن تو نے کوئی قدر نہیں کی اور تھوڑی دیر بعد ہی طلاق دے دی پھر عدت میں رجوع بھی نہ کیا۔ اب تو نئے نکاح کا پیغام بھیج رہا ہے۔ اللہ کی قسم! اب میں اپنی ہمشیرہ کا نکاح تجھ سے نہیں کراؤں گا۔ تو اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:
﴿وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ یَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ؕ ذٰلِكَ یُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ؕ ذٰلِكُمْ اَزْكٰی لَكُمْ وَ اَطْهَرُ ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ [البقرة: 232]
’’اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ آپس میں دستور کے مطابق رضا مند ہوں۔ یہ نصیحت انہیں کی جاتی ہے جنہیں تم میں سے اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر یقین وایمان ہو، اس میں تمہاری بہترین صفائی اور پاکیزگی ہے، اللہ تعالی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘
تو حضرت معقل بن بسیار رضی اللہ تعالی عنہ نے فورًا اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا اور اسی طلاق دینے والے شخص سے اپنی ہمشیرہ کا نیا نکاح کر دیا۔[صحيح البخاري، التفسير سورة البقرة، باب ﴿و اذا طلقتم النساء﴾ (4529)]
اتباع شریعت کا انوکھا جذبہ:
اللہ رب العزت سورة النور آیت نمبر 27 ،28 میں فرماتے ہیں:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤی اَهْلِهَا ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۲۷ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْهَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّٰی یُؤْذَنَ لَكُمْ ۚ وَ اِنْ قِیْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰی لَكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ﴾ [النور: 27 – 28]
’’اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو، یہی تمہارے لیے سراسر بہتر ہے تا کہ تم نصیحت حاصل کرو۔ اگر وہاں تمہیں کوئی بھی نہ مل سکے، پھر اجازت ملے بغیر اندر نہ جاؤ، اور اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو تم لوٹ ہی جاؤ، یہی بات تمہارے لیے پاکیزہ ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالی خوب جانتا ہے۔‘‘
کتب تفسیر میں لکھا ہے کہ بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ خواہش رہی کہ کاش ہم کسی کے گھر پر جائیں تو ہمیں واپس جانے کو کہا جائے اور ہم پلٹ آئیں تاکہ اس آیت پر عمل ہو جائے۔
ماشاء اللہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ تو آیتوں پر عمل کا موقع ڈھونڈتے اور ہم ملا ہوا آیت موقع بھی ضائع کر دیتے ہیں۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ کا شوخ زرد چادروں کو جلانے والا واقعہ:
ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ کو دو زرد چادریں اوڑھے ہوئے دیکھا تو غصے میں فرمایا: (أُمُّكَ أَمَرَتْكَ بِهِمَا؟)
’’کیا تیری ماں نے یہ چادریں اوڑھنے کا حکم دیا ہے؟۔‘‘
جناب عبداللہ بن عمرورضی اللہ تعالی عنہ نے فوراً عرض کیا: میں انہیں ابھی دھو ڈالتا ہوں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
(بَلْ أَحْرِقْهُمَا)
’’بلکہ انہیں جلا دو۔‘‘
یہ کافروں کا لباس ہے تو حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ چادریں جلا ڈالیں۔[صحيح مسلم، كتاب اللباس باب النهي عن لبس الرجل الثوب المعصفر، رقم: 5436]
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا مسجد کے دروازے پر ہی بیٹھ جانے کا واقعہ:
جمعہ کا دن ہے، امام الانبیاء خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے منبر پر جلوہ افزا ہیں، کچھ لوگوں کو کھڑے دیکھ کر فرمایا: (اِجْلِسُوا) ’’بیٹھ جاؤ۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ ابھی مسجد کے دروازے پر تھے، وہیں بیٹھ گئے، پھر رسول اللہﷺ نے انہیں اندر بلایا تب اندر داخل ہوئے۔[سنن ابی داود، كتاب الصلاة، باب الامام تعليم الرجل في خطبته (1091)]
لیکن آج لوگ بیس بار آیت یا حدیث سن کر عمل نہیں کرتے۔
ایک صحابی کا سونے کی انگوٹھی پہننے کا واقعہ:
رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص جہنم کے انگارے کا قصد کرتا ہے اور اسے انگلی پہ پہن لیتا ہے پھر آپ نے ہاتھ بڑھا کر انگوٹھی اتاری اور زمین پہ پھینک دی۔ جب آپ تشریف لے گئے کسی نے اس شخص سے کہا یہ انگوٹھی اٹھا لو اور بیچ کر فائدہ اٹھا لو، اس نے جواب دیا جس انگوٹھی کو میرے نبیﷺ نے غصے کی حالت میں دیکھا اور پھینکا، میں اٹھاؤں گا میرے لیے اس میں کوئی خیر نہیں۔[صحيح البخاري، كتاب الاعتصام، باب الاقتداء بأفعال النبي (7298)]
حدیبیہ کے موقع پر جب قریش کی طرف سے عروہ بن مسعود آیا مذاکرات کے لیے تو اس نے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کو دیکھا کہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ آپ کا تھوک بھی زمین پر نہیں گرنے دیتے بلکہ آگے ہاتھ پھیلا دیتے جس کے ہاتھ پر گرتا وہ اسے چہرہ پر مل لیتا۔ وضو کے پانی پر لڑتے۔ جب آپ بات کرتے تو آوازیں پست رکھتے اور تعظیم اتنی زیادہ کہ زیادہ دیر تک آپ کی طرف دیکھتے بھی نہیں۔ اور آپ کے حکم پر فوری عمل کرتے ہیں۔[صحيح بخاري الشروط، باب الشروط في الجهاد.. الخ (2731)]
واپسی پر عروہ کا تبصرہ:
عروہ ثقفی جب مذاکرات کر کے قریش کے پاس واپس جاتا ہے تو کہتا ہے: میں نے قیصر کا دربار دیکھا، میں نے کسری کی سلطنت دیکھی اور میں نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کا دربار دیکھا، لیکن میں نے کسی بادشاہ کے دربار میں ایسی تعظیم نہیں دیکھی جو صحابہ کے دل میں محمدﷺ کی تعظیم ہے، آپ لعاب پھینکتے ہیں وہ زمین پر نہیں گرتا۔ وہ اصحاب
محمد مل ہی کے ہاتھوں پہ گرتا ہے اور وہ اسے اپنے چہروں پر ملتے ہیں، آپ وضوء کرتے ہیں تو وضو کے قطرات حاصل کرنے کے لیے آپ کے صحابہ ٹی کام بے تاب و بے قرار ہو جاتے ہیں، آپ جب بات کرتے ہیں تو اصحاب کی آواز میں دب جاتی ہیں، اور وہ آپ کے احترام میں آپ کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھتے، اور جب آپ کی زبان سے کوئی حکم جاری ہوتا ہے وہ فی الفور آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ یہ ہے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے ایک سردار عروہ ثقفی رضی اللہ تعالی عنہ کا تبصرہ جو صحیح البخاری میں موجود ہے۔[صحیح البخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجھاد (2731) (2732)]
جس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کس قدر اطاعت گزار اور فرمانبردار تھے، اللہ تعالی ہمیں بھی قرآن وسنت کا متبع اور مطیع بنائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔