صحیح اور فاسد تاویل میں فرق

624۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرمﷺ کے حج کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

((وَرَسُولُ اللهِ ﷺ بَيْنَ أَظْهُرِنَا وَعَلَيْهِ يَنْزِلُ الْقُرْآنُ، وَهُوَ يَعْرِفُ تَأْوِيلَهُ، وَمَا عَمِلَ بِهِ مِنْ شَيْءٍ عَمِلْنَا بِهِ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:1218)

’’رسول اللہﷺ ہمارے درمیان  (موجود) تھے۔ آپ پر قرآن نازل ہوتا تھا اور آپ ہی اس کی  (حقیقی) تفسیر جانتے تھے۔ جو آپ ﷺ کام کرتے تھے، ہم بھی اس پر عمل کرتے تھے۔“

توضیح و فوائد:  قرآن کی تاویل کا مطلب اس کے صحیح معنی و مفہوم کو جانتا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے قرآن کے جو معانی عملی شکل کے ذریعے سے بیان فرمائے ہیں یا صحابہ کرام نے آپﷺ سے نقل کیسے ہیں، وہی تاویل صحیح اور معتبر ہے یا پھر صحابہ کرام اور تابعین عظام نے جو مفہوم سمجھا ہے وہ قابل اعتبار ہے۔ اس سے مراد تفسیر ہے۔ تاویل کی دوسری قسم یہ ہے کہ لغت کو سامنے رکھ کر اپنی مرضی سے قرآن کے معنی و مفہوم کا تعین کیا جائے جیسا کہ منکرین حدیث صلاۃ کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ جب ایک رقاصہ ڈانس کرتی ہے تو وہ بھی اپنے طریقے سے نماز پڑھتی ہے، وغیرہ۔ یہ تاویل باطل ہے۔ جس تاویل کی مذمت بیان کی گئی ہے وہ اسی طرح کی تاویلیں ہیں۔

625۔ سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنے رکوع اور سجدوں میں بکثرت یہ دعا پڑھا کرتے تھے:

((سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي)) (أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ: 4968، وَمُسْلِمٌ:484)

’’پاک ہے تیری ذات اے اللہ! اے ہمارے رب! اور تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ اے اللہ!  میری مغفرت فرما دے۔‘‘

اس طرح آپ قرآن کی تاویل کرتے تھے۔

توضیح و فوائد:  ’’قرآن کی تاویل کرتے“ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں سجدے کی حالت میں تسبیح کا حکم یوں ہے:  ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السُّجِدِينَ﴾  (الحجر98: 15))

’’آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہیں اور سجدہ کرنے والوں میں شامل ہو جائیں۔‘‘ آپ اس حکم کی تعمیل مذکورہ دعا کی صورت میں کرتے۔

626۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، پھر دعا فرمائی: ((اللَّهُمَّ فَقِهْهُ فِي الدِّينِ وَعَلِّمْهُ التَّأْوِيلَ)) . (أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ:2397، 2879،  3032، 3102، والطبراني في الكبير:10614)

’’اے اللہ! اسے دین میں فقاہت  ( صحیح فہم ) عطا فرما اور اسے  ( قرآن کی) تاویل و تفسیر سکھا دے۔‘‘

627۔ سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا

ہے:  ((هَلَاكُ أُمَّتِي فِي الْكِتَابِ وَاللَّبَنِ))

’’میری امت کی ہلاکت کتاب اور دودھ کے باعث ہوگی۔“

صحابہ نے کہا:  اللہ کے رسول! کتاب اور دودھ کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:

((يَتَعَلَّمُونَ الْقُرْآنَ فَيَتَأَوَّلُونَهُ عَلٰى غَيْرِ مَا أَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَيُحِبُّونَ اللَّبَنَ فَيَدَعُونَ الْجَمَاعَاتِ وَالْجُمَعَ وَيَبْدُونَ)) (أخرجه أحمد:  17415، وأبو يعلى:1746)

’’وہ  (لوگ) قرآن سیکھیں گے لیکن اس کی تفسیر وہ بیان کریں گے جو اللہ عز وجل نے نازل نہیں فرمائی اور وہ دودھ پسند کریں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ جمعہ و جماعتیں چھوڑ دیں گے اور  (دودھ کے حصول کے لیے جنگل و صحرا کی طرف نکل جایا کریں گے۔‘‘