سردیوں کا موسم اور شریعت کی رخصتیں
﴿إنَّ الحَمْدَ لِلہِ نَحمَدُہُ وَنَسْتَعِينُہُ، مَن يَہْدِہِ اللہُ فلا مُضِلَّ لہ، وَمَن يُضْلِلْ فلا ہَادِيَ لہ، وَأَشْہَدُ أَنْ لا إلَہَ إلَّا اللہُ وَحْدَہُ لا شَرِيکَ لہ، وَأنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسولُہُ، يَا أَ يُّہَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ، يَا أَ يُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِي خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَارِجَالاً  کَثِيرًا وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللہَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللہَ کَانَ عَلَيْکُمْ رَقِيبًا،        يَا أَ يُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُولُوا قَوْلا سَدِيدًا، يُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَيَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَن يُطِعْ اللہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا، أما بعدُ فإنَّ خيرَ الحديثِ کتابُ اللہِ وخيرَ الہديِ ھديُ محمدٍ ﷺ وشرَّ الأمورِ محدثاتُھا وکلَّ بدعۃٍ ضلالۃٌ وکلُّ ضلالۃٍ في النارِ.﴾
٭  شریعت انسان کے لیے آسانیاں چاہتی ہے تنگیاں نہیں۔
سورۃ البقرۃ آیت نمبر 195 میں ہے:
اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ، بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ.
﴿وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُحسِنِينَ.﴾
اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور سلوک و احسان کرو اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
 سورۃ البقرۃ آیت نمبر 286 میں ہے:
﴿لَا يُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا.﴾
اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔
سورۃ التغابن آیت نمبر  16 میں ہے:
﴿فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعتُمْ.﴾
 جتنی تم میں طاقت ہے اتنا اللہ سے ڈرتے رہو۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 3260 میں ہے:
﴿اشْتَکَتِ النَّارُ إلی رَبِّہَا فَقالَتْ: رَبِّ أکَلَ بَعضِي بَعضًا، فأذِنَ لَہَا بنَفَسَيْنِ: نَفَسٍ في الشِّتَاءِ ونَفَسٍ في الصَّيْفِ،  فأشَدُّ ما تَجِدُونَ مِنَ الحَرِّ، وأَشَدُّ ماتَجِدُونَ مِنَ الزَّمْہَرِيرِ.﴾
رسول اللہe  نے فرمایا :’’ جہنم نے اپنے رب کے حضور میں شکایت کی اور کہا کہ میرے رب! میرے ہی بعض حصے نے بعض کو کھا لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانسوں کی اجازت دی، ایک سانس سردی میں اور ایک گرمی میں۔ تم انتہائی گرمی اور انتہائی سردی جو ان موسموں میں دیکھتے ہو، اس کا یہی سبب ہے۔‘‘
٭   جوابوں اور موزوں پر مسح کی رخصت۔
سنن ابو داود حدیث نمبر 146۔ صححہ الا ٔلبانی میں ہے:
﴿الراوي: ثوبان مولی رسول اللہ ﷺ. بعثَ رسولُ اللہِ ﷺ سريَّۃً فأصابَہُمُ البَردُ فلمَّا قدِموا علَی رسولِ اللہِ ﷺ أمرَہُم أن يمسَحوا علَی العَصائبِ والتَّساخينِ.﴾
’’حضرت ثوبانt کہتے ہیں کہ رسول اللہe نے ایک ( جہادی ) مہم بھیجی تو ان لوگوں کو سردی نے آ لیا۔ جب یہ لوگ رسول اللہe کے پاس آئے تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی پگڑیوں اور پاؤں کو گرم رکھنے والی چیزوں پر مسح کر لیا کریں۔‘‘
٭   وضاحت: ساخن گرم چیز کو کہتے ہیں۔ سخانۃ ہیٹر کو کہتے ہیں۔
تو پاؤں کو گرم کرنے کے لیے پہنی جانے والی ہر چیز تساخین میں شامل ہے۔ جیسے موزے جرابیں اور کوئی لفافہ وغیرہ۔
سنن ابو داود حدیث نمبر  159  میں ہے:
﴿أنَّ رسولَ اللهِ ﷺ توضأ ومسح علی الجوربين والنعلين﴾
’’حضرت مغیرہ بن شعبہt  سے مروی ہے کہ رسول اللہe نے ( ایک بار) وضو کیا تو اپنے جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا ۔‘‘
جرابوں پر مسح صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے۔ صحابہ کرامy سے بھی ثابت ہے کسی صحابی نے اختلاف نہیں۔ امام ابو دائودa لکھتے ہیں: جرابوں پر مسح علی بن ابی طالب، ابن مسعود، براء بن عازب انس بن مالک، ابو امامہ، سہل بن سعد، عمر بن حریث تمام ان صحابہ سے ثابت ہے اور عمر بن الخطاب اور ابن عباس] سے بھی جرابوں پر مسح کرنا مروی ہے۔
امام ابو حنیفہa پہلے جرابوں پر مسح کے قائل نہیں تھے۔ آخری وقت میں قائل ہو گئے تھے۔ ترمذی میں بھی ہے اور فقہ حنفی کی بہت سی کتب میں بھی ہے کہ امام ابوحنیفa نے اپنی وفات سے تین دن یا سات دن پہلے جرابوں پر مسح کر لیا اور اپنی بیمار پرسی کرنے والوں سے کہا کہ جس کام سے میں منع کرتا تھا اب وہ میں نے کر لیا ہے۔
٭   سردی اور ٹھنڈے پانی کی وجہ سے غسل کی رخصت۔
ایک حدیث جو کہ حدیث کی مختلف کتابوں میں موجود ہے۔ امام ابوداود نے باب قائم کیا۔باب إذا خاف الجنب البرد أيتيمم؟ کہ جس پر غسل واجب ہو اور وہ سردی سے ڈرتا ہو کیا وہ تیمم کر لے۔
حدیث نمبر 334۔ صحیح میں ہے:
     اور یہ حدیث إرواء الغليل میں بھی ہے۔ إرواء الغليل ج 1 صفحہ 181۔ حدیث 154۔ صحیح۔
﴿الراوي: عمرو بن العاص. أنہُ قال لمَّا بَعَثَہُ رسولُ اللہِ ﷺ عامَ ذاتِ السلاسلِ قال احتلمتُ في ليلۃٍ باردۃٍ شديدۃِ البردِ فأشفقتُ إن اغتسلتُ أن أَہْلَکَ. فتيمَّمتُ ثم صلَّيتُ بأصحابي صلاۃَ الصبحِ قال فلمَّا قَدِمْنَا علی رسولِ اللہِ ﷺ ذکرتُ ذلکَ لہُ فقال يا عمرُو صلَّيتَ بأصحابِکَ وأنتَ جُنُبٌ قال قلتُ نعم يا رسولَ اللہِ ﷺ وذکرتُ قولَ اللہِ عزَّ وجلَّ {وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ إِنَّ اللہَ کَانَ بِکُمْ رَحِيما. فتيمَّمتُ ثم صلَّيتُ فضحکَ رسولُ اللہِ ﷺ ولم يَقُلْ شيئًا.﴾
’’حضرت عمرو بن العاصt سے روایت کرتے ہیں کہ غزوہ ذات سلاسل میں مجھے ایک ٹھنڈی رات احتلام ہو گیا، مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا تو ہلاک ہو جاؤں گا، چنانچہ میں نے تیمم کر لیا اور اپنے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھائی۔ انہوں نے یہ واقعہ رسول اللہe کی خدمت میں ذکر کیا تو آپ نے پوچھا:’’ اے عمرو ! کیا تو نے جنبی ہوتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی جماعت کرائی تھی ؟‘‘ میں نے بتایا کہ کس وجہ سے میں نے غسل نہیں کیا تھا اور میں نے یہ بھی کہا کہ میں نے اللہ کا فرمان سنا ہے: ﴿وَلَا تَقْتُلُوا………﴾ ’’ اپنے آپ کو قتل نہ کرو، اللہ تم پر بہت ہی مہربان ہے۔‘‘ تو رسول اللہe ہنس پڑے اور کچھ نہ کہا۔
٭  سرد ترین رات اور ٹھنڈی ہوائوں میں باجماعت نماز سے رخصت۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 632 میں ہے:
﴿أَذَّنَ ابنُ عُمَرَ في لَيْلَۃٍ بارِدَۃٍ بضَجنانَ، ثُمَّ قالَ: صَلُّوا   في رِحالِکُمْ، فأخْبَرَنا أنَّ رَسولَ اللہِﷺ کانَ يَأْمُرُ مُؤَذِّنًا يُؤَذِّنُ، ثُمَّ يقولُ علَی إثْرِہِ: ألا صَلُّوا في الرِّحالِ في اللَّيْلَۃِ البارِدَۃِ، أوِ المَطِيرَۃِ في السَّفَرِ.﴾
(امام نافع تابعی بیان کرتےہیں)’’عبداللہ بن عمرw نے ایک سرد رات میں مقام ضجنان پر اذان دی پھر فرمایا :ألا صلوا في الرحال. کہ لوگو! اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔اور ہمیں آپ نے بتلایا کہ نبی کریمe مؤذن سے اذان کے لیے فرماتے اور یہ بھی فرماتے کہ مؤذن اذان کے بعد کہہ دے کہ لوگو! اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔ یہ حکم سفر کی حالت میں یا سردی یا برسات کی راتوں میں تھا۔ امام ابو داود نے باب کا عنوان قائم کیا ہے کہ باب التخلف عن الجماعۃ في الليلۃ الباردۃ.  کہ سرد اور ٹھنڈی رات میں باجماعت نماز سے پیچھے رہنے کی رخصت کا باب۔ اس میں یہی حدیث بیان کی ۔
 حدیث نمبر 1061میں ہے:
نوٹ: اس حدیث میں سفر کا ذکر ہے جبکہ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں عام حالت میں سفر کے بغیر کا ذکر ہے وہ آگے آ رہی ہے۔ امام بخاری نے باب قائم کیا ہے ۔
﴿ باب الرخصۃ في المطر والعلۃ ان يصلي في رحلہ.﴾
کہ بارش یا کسی اور سبب کی بنا پر گھر میں نماز پڑھنے کا باب۔ حدیث نمبر 666
﴿عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَذَّنَ بِالصَّلَاۃِ فِي لَيْلَۃٍ ذَاتِ بَرْدٍ وَرِيحٍ، ثُمّ قَالَ: أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ، ثُمَّ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللہِﷺَ: کَانَ يَأْمُرُ الْمُؤَذِّنَ إِذَا کَانَتْ لَيْلَـۃٌ ذَاتُ بَرْدٍ وَمَطَرٍ يَقُولُ أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ.﴾
’’عبداللہ بن عمرw نے ایک ٹھنڈی اور برسات کی رات میں اذان دی، پھر یوں پکار کر کہہ دیا۔ألا صلوا في الرحال‏ کہ لوگو! اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو۔ پھر فرمایا کہ نبی کریمe سردی و بارش کی راتوں میں مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اعلان کر دے کہ لوگو اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو۔‘‘
نوٹ: شیخ محمد بن صالح العثیمینa نے فرمایا کہ عام سردی جس میں گرم کپڑوں کا اہتمام کر لیا جاتا ہے ایسی صورت میں مسجد میں جا کر نماز پڑھنی چاہئے لیکن اگر سردی شدید ہو اور سرد ہوائیں چل رہی ہوں تو رخصت پر عمل کر کے گھر میں نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
٭   رخصت کے باوجودباجماعت نماز کا اجر اور فضیلت۔
الترغيب والترہيب قال الألباني. صحيح لغيرہ
﴿قال ابنُ مسعودٍ: إنَّ اللہَ ليضحَکَ إلی رجُلَينِ: رجلٌ قامَ في ليلۃٍ بارِدَۃٍ مِن فِراشِہِ ولِحافِہِ ودِثارِہِ فتوضَّأَ، ثمَّ قامَ إلی الصَّلاۃِ، فيقولُ اللہُ عزَّوجلَّ لملائکتِہِ:ماحمل عبدي ہذا علی ماصنَعَ؟ فيقولون: ربَّنا! رجاءَ ما عِندَکَ، وشفقَۃً مِمَّا عندَکَ. فيقولُ: فإنِّي قد أعطيتُہُ ما رجا، وأمَّنتُہُ مِمَّا يخافُ.﴾
’’حضرت عبداللہ بن مسعودt نے کہا اللہ تعالیٰ دو لوگوں پر خوش ہو مسکراتا ہے۔ ایک بندہ وہ جو سرد رات میں اپنے بستر سے اٹھتا ہے لحاف رضائی اور اہل و عیال کو چھوڑتا ہے۔ اور وضو کر کے نماز پڑھنے گھڑا ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے بندے نے یہ سارا کچھ کیوں کیا؟فرشتے کہتے ہیں اے اللہ تیری جنت کے حصول کے لیے اور جہنم کی آگ سے ڈرتے ہوئے ۔تو اللہ کہتا ہے میں نے اسے جنت دے دی اور جہنم کی آگ سے بچا دیا۔‘‘
٭   سردی کی وجہ سے چادر یا مفلر سے منہ چھپا لینا منع ہے۔
صحیح الجامع 6883۔ صححہ الالبانی میں ہے، سنن ابو داود حدیث نمبر 643  میں ہے:
﴿نہی عن السَّدلِ في الصلاۃ، و أن يُغطِّيَ الرجلُ فاہ.﴾
نبی کریمe نے نماز میں سدل سے منع کیا اور منہ کو ڈھانپنے سے منع کیا۔
٭   سردی میں اپنے ارد گرد بڑی چادر اس طرح لپیٹنے کی ممانعت ہے جس میں انسان کے ہاتھ بھی باہر نہ نکل سکیں ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر  5822 میں ہے:
﴿الراوي: أبو سعيد الخدري. أنَّ النبيَّﷺ: نَہَی عَنِ اشْتِمَالِ الصَّمَّاءِ.﴾
نبی کریمe نے اپنے ارد گرد کپڑا لپیٹنے سے منع کیا۔
٭   ہمت اور کوشش کر کے جنت کے حصول کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔
ترمذی 2560۔ قال الشيخ الالبانی: حسن صحیح میں ہے:
﴿لمَّا خلقَ اللہُ الجنَّۃَ والنَّارَ أرسلَ جبريلَ إلی الجنَّۃِ، فقالَ: انظُر إلَيہا وإلی ما أعدَدتُ لأَہْلِہا فيہا،……. فرجعَ إليہِ، قالَ: فَوعزَّتِکَ لا يَسمعُ بِہا أحدٌ إلَّا دخلَہا.﴾
رسول اللہe نے فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ جنت اور جہنم کو پیدا کر چکا تو جبرائیل کو جنت کی طرف بھیجا اور کہا: جنت اور اس میں جنتیوں کے لیے جو کچھ ہم نے تیار کر رکھا ہے، اسے جا کر دیکھو‘‘،…پھر جبرائیل اللہ کے پاس واپس گئے اور عرض کیا: تیری عزت کی قسم! جو بھی اس کے بارے میں سن لے اس میں ضرور داخل ہو گا۔
﴿فأمرَ بِہا فحُفَّت بالمَکارِہِ، فقالَ: ارجِع إليہا فانظُر إليہا وإلی ما أعددتُ لأَہْلِہا فيہا، قالَ: فَرجعَ إليہا فإذا ہيَ حُفَّت بالمَکارِہِ، فَرجعَ إليہِ فقالَ: وعزَّتِکَ لقد خِفتُ أن لا يَدخلَہا أحدٌ.﴾
’’پھر اللہ نے حکم دیا تو وہ ناپسندیدہ اور تکلیف دہ چیزوں سے گھیر دی گئی، اور اللہ نے کہا: اس کی طرف دوبارہ جاؤ اور اس میں جنتیوں کے لیے ہم نے جو تیار کیا ہے اسے دیکھو۔ ‘‘آپe نے فرمایا: ’’جبرائیلu  جنت کی طرف دوبارہ گئے تو وہ ناپسندیدہ اور تکلیف دہ چیزوں سے گھری ہوئی تھی چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاس لوٹ کر آئے اور عرض کیا: مجھے اندیشہ ہے کہ اس میں کوئی داخل ہی نہیں ہو گا۔‘‘
﴿قالَ: اذہَب إلی النَّارِ فانظُر إليہا وإلی ما أعدَدتُ لأَہْلِہا فيہا، فإذا ہيَ يرکبُ بَعضُہا بعضًا، فرجعَ إليہِ فقالَ: وعزَّتِکَ لا يسمَعُ بِہا أحدٌ فيدخُلَہا﴾
’’اللہ تعالیٰ نے کہا: جہنم کی طرف جاؤ اور جہنم کو اور جو کچھ جہنمیوں کے لیے میں نے تیار کیا ہے اسے جا کر دیکھو،  ( انہوں نے دیکھا کہ ) اس کا ایک حصہ دوسرے پر چڑھ رہا ہے، وہ اللہ کے پاس آئے اور عرض کیا: تیری عزت کی قسم! اس کے بارے میں جو بھی سن لے اس میں داخل نہیں ہو گا۔‘‘
﴿فأمرَ بِہا فحُفَّت بالشَّہواتِ، فقالَ: ارجِع إليہا، فرجَعَ إليہا، فقالَ: وعزَّتِکَ لقد خَشيتُ أن لا ينجوَ منہا أحدٌ إلَّا دخلَہا.﴾
’’پھر اللہ نے حکم دیا تو وہ شہوات سے گھیر دی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے کہا: اس کی طرف دوبارہ جاؤ،  وہ اس کی طرف دوبارہ گئے اور ( واپس آ کر ) عرض کیا: تیری عزت کی قسم! مجھے ڈر ہے کہ اس سے کوئی نجات نہیں پائے گا بلکہ اس میں داخل ہو گا۔‘‘
٭  سخت ترین سردی میں حضرت حذیفہ ابن الیمانt  کا امتحان اور انعام۔
صحیح مسلم 1788 / 4640 میں ہے:
﴿لَقَدْ رَأَيْتُنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ لَيْلَۃَ الْأَحْزَابِ، وَأَخَذَتْنَا رِيحٌ شَدِيدَۃٌ وَقُرٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: أَلَا رَجُلٌ يَأْتِينِي بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَہُ اللہُ مَعِي يَوْمَ الْقِيَامَۃِ؟ فَسَکَتْنَا فَلَمْ يُجِبْہُ مِنَّا أَحَدٌ، ثُمَّ قَالَ:أَلَا رَجُلٌ يَأْتِينَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَہُ اللہُ مَعِي يَوْمَ الْقِيَامَۃِ؟ فَسَکَتْنَا فَلَمْ يُجِبْہُ مِنَّا أَحَدٌ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا رَجُلٌ يَأْتِينَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَہُ اللہُ مَعِي يَوْمَ الْقِيَامَۃِ؟، فَسَکَتْنَا فَلَمْ يُجِبْہُ مِنَّا أَحَدٌ، فَقَالَ:قُمْ يَا حُذَيْفَۃُ، فَأْتِنَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ، فَلَمْ أَجِدْ بُدًّا إِذْ دَعَانِي بِاسْمِي أَنْ أَقُومَ، قَالَ: اذْہَبْ فَأْتِنِي بِخَبَرِ الْقَوْمِ، وَلَا تَذْعَرْہُمْ عَلَيَّ، فَلَمَّا وَلَّيْتُ مِنْ عِنْدِہِ جَعَلْتُ کَأَ نَّمَا أَمْشِي فِي حَمَّامٍ.﴾
حضرت حذیفہt بیان کرتے ہیں کہ میں نے غزوہ احزاب کی رات ہم سب کو دیکھا کہ رسول اللہe کے ساتھ تھے، ہمیں تیز ہوا اور سردی نے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ رسول اللہe نے فرمایا:’’کیا کوئی ایسا مرد ہے جو مجھے (اس) قوم (کے اندر) کی خبر لا دے ؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو میرے ساتھ رکھے !‘‘ ہم خاموش رہے اور ہم میں سے کسی نے آپ کو کوئی جواب نہ دیا۔ آپe نے پھر فرمایا:’’کوئی شخص ہے جو میرے پاس ان لوگوں کی خبر لے آئے ؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو میرے ساتھ رکھے !‘‘ ہم خاموش رہے اور ہم میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ آپe نے پھر فرمایا:’’ہے کوئی شخص جو ان لوگوں کی خبر لا دے ؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو میری رفاقت عطا فرمائے !‘‘ ہم خاموش رہے، ہم میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا، پھر آپ نے فرمایا:’’حذیفہ ! کھڑے ہو جاؤ اور تم مجھے ان لوگوں کی خبر لا کے دو۔‘‘ جب آپ نے میرا نام لے کر بلایا تو میں نے اٹھنے کے سوا کوئی چارہ نہ پایا۔ آپe نے فرمایا:’’جاؤ ان لوگوں کی خبریں مجھے لا دو اور انہیں میرے خلاف بھڑکا نہ دینا۔‘‘ (کوئی ایسی بات یا حرکت نہ کرنا کہ تم پکڑے جاؤ، اور وہ میرے خلاف بھڑک اٹھیں) جب میں آپ کے پاس سے گیا تو میری حالت یہ ہو گئی جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں، (پسینے میں نہایا ہوا تھا۔)
﴿حَتَّی أَ تَيْتُہُمْ، فَرَأَيْتُ أَبَاسُفْيَانَ يَصْلِي ظَہْرَہُ بِالنَّارِ، فَوَضَعْتُ سَہْمًا فِي کَبِدِ الْقَوْسِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْمِيَہُ، فَذَکَرْتُ قَوْلَ رَسُولِ اللہِ ﷺ: وَلَا تَذْعَرْہُمْ عَلَيَّ، وَلَوْ رَمَيْتُہُ لَأَصَبْتُہُ،  فَرَجَعْتُ وَأَنَا أَمْشِي فِي مِثْلِ الْحَمَّامِ، فَلَمَّا أَتَيْتُہُ فَأَخْبَرْتُہُ بِخَبَرِ الْقَوْمِ، وَفَرَغْتُ قُرِرْتُ، فَأَ لْبَسَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ فَضْلِ عَبَاءَۃٍ کَانَتْ عَلَيْہِ يُصَلِّي فِيہَا، فَلَمْ أَزَلْ نَائِمًا حَتَّی أَصْبَحْتُ، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ قَالَ: قُمْ يَا نَوْمَانُ.﴾
’’یہاں تک کہ میں ان کے پاس پہنچا، میں نے دیکھا کہ ابوسفیان اپنی پشت آگ سے سینک رہا ہے، میں نے تیر کو کمان کی وسط میں رکھا اور اس کو نشانہ بنا دینا چاہا، پھر مجھے رسول اللہe کا یہ فرمان یاد آ گیا کہ ’’انہیں میرے خلاف بھڑکا نہ دینا‘‘ (کہ جنگ اور تیز ہو جائے) اگر میں اس وقت تیر چلا دیتا تو وہ نشانہ بن جاتا۔ میں لوٹا تو (مجھے ایسے لگ رہا تھا) جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں، پھر جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کو ان لوگوں کی (ساری) خبر بتائی اور میں فارغ ہوا تو مجھے ٹھنڈ لگنے لگی۔ رسول اللہe نے مجھے (اپنی اس) عبا کا بچا ہوا حصہ اوڑھا دیا جو آپ (کے جسم اطہر) پر تھی، آپ اس میں نماز پڑھ رہے تھے۔ میں (اس کو اوڑھ کر) صبح تک سوتا رہا، جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا:’’اے خوب سونے والے ! اٹھ جائو۔‘‘
٭  وضو اور غسل سے متعلق شریعت کی عمومی رخصتیں۔
سنن ابو داود 338۔ صححہ الا ٔلبانی میں ہے:
﴿الراوي: أبو سعيد الخدري خرجَ رجلانِ في سفَرٍ، فحضرتِ الصَّلاۃُ وليسَ معَہُما ماءٌ، فتيمَّما صَعيدًا طيِّبًا فصلَّيا، ثمَّ وجدا الماءَ في الوقتِ، فأعادَ أحدُہُما الصَّلاۃَ والوضوءَ ولم يُعدِ الآخرُ، ثمَّ أتيا رسولَ اللَّہِ ﷺ فذَکَرا ذلِکَ لَہُ فقالَ للَّذي لم يُعِد: أصبتَ السُّنَّۃَ، وأجزَأتکَ صلاتُکَ. وقالَ للَّذي توضَّأَ وأعادَ: لَکَ الأجرُ مرَّتينِ.﴾
حضرت ابوسعید خدریt سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ دو آدمی سفر پر نکلے اور نماز کا وقت ہو گیا۔ ان کے پاس پانی نہیں تھا۔ انھوں نے پاک مٹی سے تیمم کر کے نماز پڑھ لی، مگر ابھی نماز کا وقت باقی تھا کہ پانی مل گیا تو ان میں سے ایک نے وضو کر کے نماز دہرا لی اور دوسرے نے نہ دہرائی۔ پھر وہ دونوں رسول اللہe کی خدمت میں آئے اور آپ کو اپنا واقعہ بتایا، تو آپ نے اس سے، جس نے نماز نہیں دہرائی تھی، فرمایا:’’تم نے سنت پر عمل کیا اور تمہارے لیے تمہاری نماز کافی ہو گئی۔‘‘ اور جس نے وضو کر کے نماز دہرائی تھی، اسے فرمایا: تمہارے لیے دہرا اجر ہے۔
٭  حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابو موسی الاشعریw کا جنبی کے غسل سے متعلق مکالمہ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 347  میں ہے:
﴿الراوي: عمار بن ياسر. کُنْتُ جَالِسًا مع عبدِ اللَّہِ وأَبِي مُوسَی الأشْعَرِيِّ، فَقالَ لہ أبو مُوسَی: لو أنَّ رَجُلًا أجنَبَ فَلَمْ يَجِدِ المَاءَ شَہْرًا، أما کانَ يَتَيَمَّمُ ويُصَلِّي، فَکيفَ تَصْنَعُونَ بہذِہ الآيَۃِ في سُورَۃِ المَائِدَۃِ: {فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا} [المائدۃ:6] فَقالَ عبدُ اللَّہِ: لو رُخِّصَ لہمْ في ہذا لَأَوْشَکُوا إذَا بَرَدَ عليہمُ المَاءُ أنْ يَتَيَمَّمُوا الصَّعِيدَ. قُلتُ: وإنَّما کَرِہْتُمْ ہذا لِذَا؟ قالَ: نَعَمْ، فَقالَ أبو مُوسَی: ألَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ عَمَّارٍ لِعُمَرَ: بَعَثَنِي رَسولُ اللَّہِ ﷺ في حَاجَۃٍ، فأجْنَبْتُ فَلَمْ أجِدِ المَاءَ، فَتَمَرَّغْتُ في الصَّعِيدِ کما تَمَرَّغُ الدَّابَّۃُ، فَذَکَرْتُ ذلکَ للنبيِّ ﷺ، فَقالَ: إنَّما کانَ يَکْفِيکَ أنْ تَصْنَعَ ہَکَذَا، فَضَرَبَ بکَفِّہِ ضَرْبَۃً علَی الأرْضِ، ثُمَّ نَفَضَہَا، ثُمَّ مَسَحَ بہِما ظَہْرَ کَفِّہِ بشِمَالِہِ أوْ ظَہْرَ شِمَالِہِ بکَفِّہِ، ثُمَّ مَسَحَ بہِما وجہَہُ.﴾
’’حضرت عمار بن یاسرt نے بیان کیا کہ اگر ایک شخص کو غسل کی حاجت ہو اور مہینہ بھر پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کر کے نماز نہ پڑھے؟ شقیق کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعودtما نے جواب دیا کہ وہ تیمم نہ کرے اگرچہ وہ ایک مہینہ تک پانی نہ پائے (اور نماز موقوف رکھے) ابوموسیٰt نے اس پر کہا کہ پھر سورۃ المائدہ کی اس آیت کا کیا مطلب ہو گا ؟اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کر لو۔ “ عبداللہ بن مسعودw  بولے کہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو جلد ہی یہ حال ہو جائے گا کہ جب ان کو پانی ٹھنڈا معلوم ہو گا تو وہ مٹی سے تیمم ہی کر لیں گے۔ اعمش نے کہا میں نے شقیق سے کہا تو تم نے جنبی کے لیے تیمم اس لیے برا جانا۔ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر ابوموسیٰ اشعریt نے فرمایا کہ کیا آپ کو عمار کا عمر بن خطابt کے سامنے یہ قول معلوم نہیں کہ مجھے رسول اللہ e نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا۔ سفر میں مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی، لیکن پانی نہ ملا۔ اس لیے میں مٹی میں جانور کی طرح لوٹ پوٹ لیا۔ پھر میں نے رسول اللہ e سے اس کا ذکر کیا۔ تو آپ e نے فرمایا کہ تمہارے لیے صرف اتنا کرنا کافی تھا۔ اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر ایک مرتبہ مارا پھر ان کو جھاڑ کر بائیں ہاتھ سے داہنے کی پشت کو مل لیا یا بائیں ہاتھ کا داہنے ہاتھ سے مسح کیا۔ پھر دونوں ہاتھوں سے چہرے کا مسح کیا۔ ‘‘
٭٭٭
٭  سخت ترین سردی میں حضرت حذیفہ ابن الیمانt  کا امتحان اور انعام۔
صحیح مسلم  1788 / 4640  میں ہے
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
﴿لَقَدْ رَأَيْتُنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ لَيْلَۃَ الْأَحْزَابِ، وَأَخَذَتْنَا رِيحٌ شَدِيدَۃٌ وَقُرٌّ،
میں نے غزوہ احزاب کی رات ہم سب کو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، ہمیں تیز ہوا اور سردی نے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا
فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: أَلَا رَجُلٌ يَأْتِينِي بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَہُ اللہُ مَعِي يَوْمَ الْقِيَامَۃِ؟» فَسَکَتْنَا فَلَمْ يُجِبْہُ مِنَّا أَحَدٌ،
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’کیا کوئی ایسا مرد ہے جو مجھے (اس) قوم (کے اندر) کی خبر لا دے ؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو میرے ساتھ رکھے !‘‘ ہم خاموش رہے اور ہم میں سے کسی نے آپ کو کوئی جواب نہ دیا ۔
ثُمَّ قَالَ:أَلَا رَجُلٌ يَأْتِينَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَہُ اللہُ مَعِي يَوْمَ الْقِيَامَۃِ؟ فَسَکَتْنَا فَلَمْ يُجِبْہُ مِنَّا أَحَدٌ،
آپ ﷺ نے پھر فرمایا :’’کوئی شخص ہے جو میرے پاس ان لوگوں کی خبر لے آئے ؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو میرے ساتھ رکھے !‘‘ ہم خاموش رہے اور ہم میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا ۔
ثُمَّ قَالَ: أَلَا رَجُلٌ يَأْتِينَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَہُ اللہُ مَعِي يَوْمَ الْقِيَامَۃِ؟، فَسَکَتْنَا فَلَمْ يُجِبْہُ مِنَّا أَحَدٌ،
آپ ﷺ نے پھر فرمایا :’’ہے کوئی شخص جو ان لوگوں کی خبر لا دے ؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو میری رفاقت عطا فرمائے !‘‘ ہم خاموش رہے، ہم میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا،
فَقَالَ:قُمْ يَا حُذَيْفَۃُ، فَأْتِنَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ»، فَلَمْ أَجِدْ بُدًّا إِذْ دَعَانِي بِاسْمِي أَنْ أَقُومَ، قَالَ: اذْہَبْ فَأْتِنِي بِخَبَرِ الْقَوْمِ، وَلَا تَذْعَرْہُمْ عَلَيَّ، فَلَمَّا وَلَّيْتُ مِنْ عِنْدِہِ جَعَلْتُ کَأَ نَّمَا أَمْشِي فِي حَمَّامٍ.﴾
پھر آپ نے فرمایا :’’حذیفہ ! کھڑے ہو جاؤ اور تم مجھے ان لوگوں کی خبر لا کے دو ۔‘‘ جب آپ نے میرا نام لے کر بلایا تو میں نے اٹھنے کے سوا کوئی چارہ نہ پایا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’جاؤ ان لوگوں کی خبریں مجھے لا دو اور انہیں میرے خلاف بھڑکا نہ دینا ۔‘‘ (کوئی ایسی بات یا حرکت نہ کرنا کہ تم پکڑے جاؤ، اور وہ میرے خلاف بھڑک اٹھیں) جب میں آپ کے پاس سے گیا تو میری حالت یہ ہو گئی جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں، (پسینے میں نہایا ہوا تھا۔)
﴿حَتَّی أَتَيْتُہُمْ، فَرَأَيْتُ أَبَا سُفْيَانَ يَصْلِي ظَہْرَہُ بِالنَّارِ، فَوَضَعْتُ سَہْمًا فِي کَبِدِ الْقَوْسِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْمِيَہُ، فَذَکَرْتُ قَوْلَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: «وَلَا تَذْعَرْہُمْ عَلَيَّ»، وَلَوْ رَمَيْتُہُ لَأَصَبْتُہُ،
یہاں تک کہ میں ان کے پاس پہنچا، میں نے دیکھا کہ ابوسفیان اپنی پشت آگ سے سینک رہا ہے، میں نے تیر کو کمان کی وسط میں رکھا اور اس کو نشانہ بنا دینا چاہا، پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان یاد آ گیا کہ ’’انہیں میرے خلاف بھڑکا نہ دینا‘‘ (کہ جنگ اور تیز ہو جائے) اگر میں اس وقت تیر چلا دیتا تو وہ نشانہ بن جاتا ۔
 فَرَجَعْتُ وَأَنَا أَمْشِي فِي مِثْلِ الْحَمَّامِ، فَلَمَّا أَتَيْتُہُ فَأَخْبَرْتُہُ بِخَبَرِ الْقَوْمِ، وَفَرَغْتُ قُرِرْتُ،
میں لوٹا تو (مجھے ایسے لگ رہا تھا) جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں، پھر جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کو ان لوگوں کی (ساری) خبر بتائی اور میں فارغ ہوا تو مجھے ٹھنڈ لگنے لگی۔
فَأَلْبَسَنِي رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ مِنْ فَضْلِ عَبَاءَۃٍ کَانَتْ عَلَيْہِ يُصَلِّي فِيہَا، فَلَمْ أَزَلْ نَائِمًا حَتَّی أَصْبَحْتُ، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ قَالَ: «قُمْ يَا نَوْمَانُ
  رسول اللہ ﷺ نے مجھے (اپنی اس) عبا کا بچا ہوا حصہ اوڑھا دیا جو آپ (کے جسم اطہر) پر تھی، آپ اس میں نماز پڑھ رہے تھے ۔ میں (اس کو اوڑھ کر) صبح تک سوتا رہا، جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا :’’اے خوب سونے والے ! اٹھ جاو ۔‘‘
٭  وضو اور غسل سے متعلق شریعت کی عمومی رخصتیں
ابو داود 338 ۔ صححہ الألباني
الراوي: أبو سعيد الخدري خرجَ رجلانِ في سفَرٍ، فحضرتِ الصَّلاۃُ وليسَ معَہُما ماءٌ، فتيمَّما صَعيدًا طيِّبًا فصلَّيا،  ثمَّ وجدا الماءَ في الوقتِ، فأعادَ أحدُہُما الصَّلاۃَ والوضوءَ ولم يُعدِ الآخرُ، ثمَّ أتيا رسولَ اللَّہِ صلَّی اللَّہُ علَيہِ وسلَّمَ فذَکَرا ذلِکَ لَہُ فقالَ للَّذي لم يُعِد: أصبتَ السُّنَّۃَ، وأجزَأتکَ صلاتُکَ. وقالَ للَّذي توضَّأَ وأعادَ: لَکَ الأجرُ مرَّتينِ .
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ دو آدمی سفر پر نکلے اور نماز کا وقت ہو گیا ۔ ان کے پاس پانی نہیں تھا ۔ انھوں نے پاک مٹی سے تیمم کر کے نماز پڑھ لی، مگر ابھی نماز کا وقت باقی تھا کہ پانی مل گیا  تو ان میں سے ایک نے وضو کر کے نماز دہرا لی اور دوسرے نے نہ دہرائی ۔ پھر وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور آپ کو اپنا واقعہ بتایا، تو آپ نے اس سے، جس نے نماز نہیں دہرائی تھی، فرمایا :’’تم نے سنت پر عمل کیا اور تمہارے لیے تمہاری نماز کافی ہو گئی ۔‘‘ اور جس نے وضو کر کے نماز دہرائی تھی، اسے فرمایا : تمہارے لیے دہرا اجر ہے ۔
٭  حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ کا جنبی کے غسل سے متعلق مکالمہ
بخاری 347
الراوي : عمار بن ياسر. کُنْتُ جَالِسًا مع عبدِ اللَّہِ وأَبِي مُوسَی الأشْعَرِيِّ، فَقالَ لہ أبو مُوسَی: لو أنَّ رَجُلًا أجنَبَ فَلَمْ يَجِدِ المَاءَ شَہْرًا، أما کانَ يَتَيَمَّمُ ويُصَلِّي، فَکيفَ تَصْنَعُونَ بہذِہ الآيَۃِ في سُورَۃِ المَائِدَۃِ: {فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا} [المائدۃ: 6]  فَقالَ عبدُ اللَّہِ: لو رُخِّصَ لہمْ في ہذا لَأَوْشَکُوا إذَا بَرَدَ عليہمُ المَاءُ أنْ يَتَيَمَّمُوا الصَّعِيدَ.  قُلتُ: وإنَّما کَرِہْتُمْ ہذا لِذَا؟ قالَ: نَعَمْ، فَقالَ أبو مُوسَی: ألَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ عَمَّارٍ لِعُمَرَ: بَعَثَنِي رَسولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عليہ وسلَّمَ في حَاجَۃٍ، فأجْنَبْتُ فَلَمْ أجِدِ المَاءَ، فَتَمَرَّغْتُ في الصَّعِيدِ کما تَمَرَّغُ الدَّابَّۃُ، فَذَکَرْتُ ذلکَ للنبيِّ صَلَّی اللہُ عليہ وسلَّمَ، فَقالَ: إنَّما کانَ يَکْفِيکَ أنْ تَصْنَعَ ہَکَذَا، فَضَرَبَ بکَفِّہِ ضَرْبَۃً علَی الأرْضِ، ثُمَّ نَفَضَہَا، ثُمَّ مَسَحَ بہِما ظَہْرَ کَفِّہِ بشِمَالِہِ أوْ ظَہْرَ شِمَالِہِ بکَفِّہِ، ثُمَّ مَسَحَ بہِما وجہَہُ .
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اگر ایک شخص کو غسل کی حاجت ہو اور مہینہ بھر پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کر کے نماز نہ پڑھے؟ شقیق کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ وہ تیمم نہ کرے اگرچہ وہ ایک مہینہ تک پانی نہ پائے  (اور نماز موقوف رکھے)  ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ پھر سورۃ المائدہ کی اس آیت کا کیا مطلب ہو گا ؟اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کر لو۔“ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بولے کہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو جلد ہی یہ حال ہو جائے گا کہ جب ان کو پانی ٹھنڈا معلوم ہو گا تو وہ مٹی سے تیمم ہی کر لیں گے۔ اعمش نے کہا میں نے شقیق سے کہا تو تم نے جنبی کے لیے تیمم اس لیے برا جانا۔ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا آپ کو عمار کا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ قول معلوم نہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا۔ سفر میں مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی، لیکن پانی نہ ملا۔ اس لیے میں مٹی میں جانور کی طرح لوٹ پوٹ لیا۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لیے صرف اتنا کرنا کافی تھا۔ اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر ایک مرتبہ مارا پھر ان کو جھاڑ کر بائیں ہاتھ سے داہنے کی پشت کو مل لیا یا بائیں ہاتھ کا داہنے ہاتھ سے مسح کیا۔ پھر دونوں ہاتھوں سے چہرے کا مسح کیا۔