شان صدیق رضی اللہ عنہ

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ﴿ ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ۚ﴾ (التوبة: 40)
آج کے خطبہ میں اس عظیم شخصیت کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جسے پیغمبر اسلام کے بعد ساری اُمت سے افضل ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جسے قبل از بعثت بھی محمد عربیﷺ کی دوستی کا شرف حاصل ہے، جسے 23 سالہ پورے دور نبوت میں نبی الرحمۃ کی مصاحبت کا تمغہ حاصل ہے، جسے تمام غزوات میں نبی التوبہ کی ہمرکابی کا فخر حاصل ہے، جسے قرآن کریم کے ذریعے صحابیّت کی سند حاصل ہے، جسے وفات کے بعد بھی مسجد نبوی کے ساتھ حجرہ رسول میں روضہ پیغمبر کا ساتھ حاصل ہے جسے وفات رسول ﷺ جیسے غمناک والمناک موقع پر امت کو سنبھالا دینے اور اختلاف سے بچانے کا مقام حاصل ہے، جسے انكار زکوۃ، انکار ختم نبوت اور ارتداد جیسے خطرناک فتنوں کا سر کچلنے کی سعادت حاصل ہے، جسے السابقون الاولون، عشرہ مبشرہ اور خلفاء راشدین میں برسرفہرست (پہلے نمبر پر) ہونے کا مرتبہ حاصل ہے اور جسے مقام صدیقیت میں سب سے اونچا درجہ حاصل ہے۔ اس عظیم شخصیت کی معروف و مشہور کنیت ابو بکر اسم گرامی عبداللہ اور لقب صدیق اکبر ہے۔
آئیے! اس عظیم شخصیت کی شان و منقبت ناطق وحی، صاحب قرآن، شافع محشر، جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سنئے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں آپﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ مجھ پر رفاقت اور مال خرچ کرنے کے لحاظ سے تمام لوگوں سے زیادہ احسانات ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ہیں‘‘۔ اور اگر میں نے کسی کو خلیل بنانا ہوتا تو میں ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیل بناتا البتہ (اس کے ساتھ) اسلامی اخوت اور مودت ہے، مسجد میں ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کی کھڑکی کے علاوہ (کوئی) کھٹر کی باقی نہ رہنے دی جائے۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ اگر میں نے اپنے پروردگار کے علاوہ کسی کو خلیل بنانا ہوتا تو ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کو خلیل بناتا‘‘[صحيح البخاري، كتاب المناقب، باب قول النبي لو كنت متخذا خليلا.. (3658)]
اس حدیث میں صدیق اکبر کی شان و عظمت کے ساتھ ساتھ آپ کی خلافت بلا فصل کا ثبوت بھی ہے۔
صحیحین کی روایت ہے، حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس نے آپ ﷺ سے (اپنے) کسی معاملے میں گفتگو کی۔ آپ ﷺ نے اس سے کہا کہ وہ پھر آپ ﷺ کے پاس آئے۔ اس نے دریافت کیا، اے اللہ کے رسول ﷺ اگر میں آؤں اور آپ ﷺ کو نہ پاؤں؟ گویا کہ وہ آپ کی وفات مراد لیتی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اگر تو مجھے نہ پائے تو ابو بکررضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آنا۔ (اس لیے کہ وہ میرے بعد خلیفہ ہوں گے )‘‘ [صحيح البخاري، كتاب فضائل الصحابة رضی اللہ عنہم، باب قول النبي ﷺ لوكنت متخذا خليلا (3659]
صحیح مسلم میں ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مرض الموت میں مجھے فرمایا کہ: ’’میرے لیے اپنے والد ابوبکر اور اپنے بھائی عبد الرحمن رضی اللہ تعالی عنہما کو بلاؤ تاکہ میں تحریر لکھوا دوں، اس لیے کہ مجھے ڈر ہے کہ کوئی آرزو کرنے والا آرزو کرے گا اور کہنے والا کہے گا کہ میں (خلافت کا مستحق) ہوں جب کہ اللہ تعالیٰ اور ایمان دار لوگ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ (سبھی کا) انکار کرتے ہیں۔‘‘[صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابہ رضی اللہ تعالی عنہم باب من فضائل أبي بكر الصديق رضی اللہ تعالی عنہ. رقم: 6181]
ان دو حدیثوں میں بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی شان و منقبت کے ساتھ ساتھ ان کی خلافت بلا فصل کا انتہائی واضح اور بین ثبوت ہے۔
بخاری و مسلم کی روایت ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص ایک بیل کو ہانک رہا تھا، اس دوران وہ شخص (چلنے سے) عاجز آ گیا تو بیل پر سوار ہو گیا۔ بیل نے کہا: ہم سواری کے لیے پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ ہم تو زمین کی کھیتی باڑی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ لوگوں نے (تعجب کرتے ہوئے) کہا، سبحان اللہ! بیل کلام کر رہا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس (واقعہ) پر میں، ابو بکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنہما ایمان رکھتے ہیں (حالانکہ وہ دونوں وہاں موجود نہیں تھے)۔‘‘ [صحيح البخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، باب، رقم: 3471 و مسلم (6183)]
نیز فرمایا:
’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص اپنی بکریوں میں تھا۔ اچانک ان میں سے ایک بکری پر بھیٹریا حملہ آور ہو گیا اور بکری کو اٹھا لیا۔ بکری کے مالک نے اسے اس سے چھڑا لیا۔ بھیڑیے نے اس سے کہا کہ درندوں کے روز (یعنی جب فتنہ برپا ہوگا) جب کہ میرے علاوہ انہیں کوئی چرانے والا نہیں ہوگا، (ان کو مجھ سے کون چھٹروائے گا۔)
لوگوں نے تعجب سے کہا، سبحان اللہ بھیٹریا کلام کر رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس واقعہ پر بھی میرا، ابوبکر اور عمررضی اللہ تعالی عنہما کا ایمان ہے، حالانکہ اس وقت وہ دونوں وہاں نہیں تھے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، باب، رقم: 3471 و مسلم رقم: 6183]
غور فرمائیے! اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی عدم موجودگی میں ان کے مضبوط ایمان کی گواہی دے رہے ہیں۔ جس کے ایمان کی گواہی امام الانبیاء نے دے دی، ساری دنیا مل کر اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
اور متفق علیہ روایت ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں کچھ لوگوں میں کھڑا تھا، انہوں نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے اللہ تعالی سے دعا کی جب (وفات کے بعد) ان کا جنازہ چارپائی پر رکھا گیا تھا۔ اچانک میرے پیچھے ایک شخص نے اپنی کہنی میرے کندھے پر رکھی اور (عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے دعائیہ کلمات) کہنے لگا کہ اللہ تعالی تجھ پر رحم کرے، بے شک میں امید رکھتا تھا کہ اللہ تعالی آپ کو آپ کے دونوں رفقاء کے ساتھ جمع کرے گا، اس لیے کہ میں رسول اللہﷺ سے بارہا سنا کرتا تھا۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ میں، ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنہما (فلاں جگہ) تھے، میں نے، ابو بکر نے اور عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے (فلاں کام) کیا، میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنہما چلے، میں، ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنہما داخل ہوئے، میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنہما نکلے (ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ) میں نے مڑ کر دیکھا تو یہ باتیں علی رضی اللہ تعالی عنہ بن ابی طالب فرما رہے تھے۔
سبحان اللہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی کس طرح صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی خوبیوں کے معترف تھے، آج لوگ تاریخ کی بعض بے سند روایات کی بناء پر جو مرضی کہتے پھریں یہ حدیث ان کی زبانوں کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
صدیق اکبررضی اللہ تعالی عنہ کو یہ مقام، مرتبہ کیوں ملا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے محمد رسول اللہ ﷺ کو نمونہ بنا کر مبعوث فرمایا:
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الأحزاب:21)
اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت سب لوگوں سے بڑھ کر اس نمونے کے مطابق اور موافق تھی۔ آپ سب سے بڑھ کر عادات و خصائل میں رسول اللہﷺ کے مشابہ تھے۔
چند مثالیں:
1۔بهادری و شجاعت: مکہ معظمہ میں دوران تبلیغ رسول اللہﷺ کو سخت آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک دن عقبہ بن ابی معیط نے بحالت نماز آپﷺ کا گلا گھونٹنا حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھ لیا۔ فوراً آئے اور اس کو ہٹایا، پھر فرمایا: کیا تم ایسے شخص کو قتل کرتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے معجزے بھی لے کر آیا ہے۔[صحيح البخاري، كتاب فضائل الصحابة، من باب قول النبيﷺ لو كنت متخذا خلیلا.. (3678)]
2۔ سخاوت: حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ ہم صدقہ کریں۔ اس دوران میرے پاس کچھ مال آ گیا۔ میں نے (دل میں) خیال کیا کہ اگر کسی روز میں ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے (صدقہ کرنے میں) سبقت لے سکوں تو آج کے دن ان سے آگے رہوں گا۔ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا کہ میں اپنا آدھا مال لے آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے (مجھ سے) دریافت کیا کہ ’’آپ نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟“ (عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں) میں نے جواب دیا کہ اسی قدر (یعنی آدھا مال چھوڑ آیا ہوں اور آدھا مال آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا ہوں) اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اپنا تمام مال لے آئے۔ آپﷺ نے (ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے دریافت کیا، اے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ آپ نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ انہوں نے جواب دیا، میں نے اپنے گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول (کی رضا) کو چھوڑا ہے (عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں) میں نے (دل میں) خیال کیا کہ میں کبھی بھی ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ سے سبقت نہیں لے جا سکتا۔[سنن ابی داود، كتاب الزكوة، باب في الرخصة في ذلك، رقم: 1678]
3۔ پرسوز قراءت: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے گھر کے اندر ایک مسجد بنائی۔ اس میں نماز پڑھنے لگے، اور (بلند آواز سے) قرآن مجید کی تلاوت کرنے لگے۔ مشرکین کی عورتوں اور بچوں کو ان کی قراءت بہت اچھی معلوم ہوتی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ان کا ہجوم ہو جاتا وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھتے رہتے (اور ان کی قراءت سنتے رہتے تھے) حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ بہت رونے والے آدمی تھے۔ جب قرآن مجید پڑھتے تو انہیں اپنی آنکھوں پر قابو نہ رہتا تھا۔
4۔ ابن دغنہ کے بیان کردہ خصائل: کافروں نے جب مؤمنین پر عرصہ حیات تنگ کیا تو مؤمنین نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنا شروع کر دی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ بھی حبشہ کی طرف روانہ ہوئے، جب وہ مقام برگ غماد میں پہنچے تو انہیں ابن دغنہ ملا۔ ابن دغنہ قبیلہ قارہ کا سردار تھا۔ کہنے لگا: اے ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ ، کہاں کا ارادہ ہے؟ حضرت ابو بکررضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے تو میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ سفر کر کے کہیں چلا جاؤں اور اپنے رب کی عبادت کروں۔ ابن دغنہ نے کہا: اے ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ! تم جیسا آدمی نہ نکل سکتا ہے نہ نکالا جا سکتا ہے۔ تم ناداروں کے لیے کماتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو۔ معاشرے پر جو لوگ بار ہیں ان کا بوجھ اٹھاتے ہو۔ مہمان کی خاطر تواضع کرتے ہو۔ اور حق کے کاموں میں (دوسروں کی مدد کرتے ہو، میں تم کو پناہ دیتا ہوں۔ واپس چلو اور اپنے شہر ہی میں اپنے رب کی عبادت کرو۔[صحيح البخاري، كتاب مناقب الأنصار، باب هجرة النبي ﷺ (3905) مع الفتح (291/9)]
اللہ اکبر! یہ وہی خصلتیں ہیں جو خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا نے رسول اللہﷺ کے حوالے سے بیان کی تھیں۔
5۔ حدیبیہ کے موقع پر حضرت عمر کیر کے سوالات کے جوابات بالكل رسول اللہ ﷺ کے جوابات کے مطابق
جب حدیبیہ کا معاہدہ ہوا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس معاہدے کو (وقتی طور پر) سمجھ نہ پائے اور دربار نبوت میں حاضر ہو کر چند سوالات کیے جن کے جوابات رسول اللہ ﷺ نے دیئے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ پریشانی کے عالم میں دوڑے دوڑے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچے اور ان سے کہا گیا آنحضرت ﷺ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا بے شک وہ اللہ کے سچے نبی ہیں۔ انہوں کہا: کیا ہم حق پر اور دشمن باطل پر نہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: ہاں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا تو پھر ہم کیوں اپنے دینی معاملات میں ان سے دبیں، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اے شخص بے شک وہ اللہ کے رسول ہیں اور وہ اپنے رب کی نافرمانی نہیں کر سکتے۔ وہی ان کا مددگار ہے۔ ان کے فیصلہ پر مضبوطی سے جمے رہو، اللہ کی قسم وہ یقینًا حق پر ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کیا رسول اللہ ﷺ نے ہم سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم کعبہ کا طواف کریں گے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا بے شک رسول اللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ بات کہی تھی لیکن کیا آپ نے یہ فرمایا تھا کہ ہم اس سال طواف کریں گے؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا نہیں یہ تو نہیں فرمایا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا تو بس پھر تم ضرور بیت اللہ کا طواف کرو گے۔ بعد میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس گفتگو پر بہت نادم ہوئے اور اس کے کفارہ میں بہت سے عمل کرتے رہے۔
بہرحال حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے جوابات بالکل وہی تھے جو رسول اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کے تھے۔ حتی کہ بعض امور میں موافقت جو انسان کے اختیار میں ہی نہیں۔
1۔عمر: جس طرح رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر بھی تریسٹھ سال تھی۔
2۔ طريقه وفات: اکثر سیرت نگاروں کے نزدیک حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو یہودیوں نے زہر دیا، جس طرح رسول اللہﷺ کو یہودیوں نے زہر دیا۔
3۔ تدفين: اللہ تعالی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا مدفن بھی رسول اللہﷺ کے جوار اور پڑوس میں کر دیا۔ یہ تین چیزیں خصوصی طور پر امر الہی سے حاصل ہوئیں۔
چند انتہائی عمدہ خصلتیں:
1۔ بے انتهاء ادب رسولﷺ: ما كَانَ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يَتَقَدَّمَ بَيْنَ يَدَى رَسُولِ اللهﷺ۔[صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب من دخل ليؤم الناس الخ (684)]
رسول اللہﷺ بے حد ادب و احترام کرتے ہوئے رسول اللہﷺ کی موجودگی میں نماز نہ پڑھا سکے، کہنے لگے: ’’ابو قحافہ کے بیٹے کی یہ شان نہیں کہ رسول اللہﷺ کے سامنے نماز پڑھائے‘‘ (رسول اللہﷺ کے مقابلہ میں اپنے آپ کو بے قدر بتاتے ہوئے۔ ابوقحافہ کا بیٹا کہا، ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ نے کہا) احترام رسول اللہﷺ کی یہ شان واقعی صدیق ہی کا حق ہے۔ ایسے شخص کا ایمان کا بھلا کیا ٹھکانہ ہے۔ 2۔ بے مثال تقوی و پرهیزگاری: حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ تقوی کے لحاظ سے بہت بلند مقام پر تھے۔ ان کا ایک غلام تھا جو انہیں کچھ خراج دیا کرتا تھا، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ اور اس خراج سے کھا لیا کرتے تھے۔ ایک دن وہ کوئی چیز لایا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس میں سے کچھ کھایا۔ غلام نے کہا: آپ کو معلوم ہے یہ کیا چیز ہے۔ انہوں نے پوچھا: کیا چیز ہے۔ غلام نے کہا: ایام جاہلیت میں میں نے کہانت کی تھی (یعنی کسی کو آئندہ کی خبر دی تھی) حالانکہ میں کہانت اچھی طرح جانتا نہ تھا۔ میں نے اسے دھوکا دیا تھا۔ اب وہ مجھ سے ملا اور اس نے یہ چیز مجھے (بطور انعام) دی ہے۔ اور اس چیز میں سے آپ نے کھایا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا ہاتھ (اپنے حلق میں) داخل کیا اور پیٹ میں جو کچھ تھا قے کر کے نکال دیا۔[صحیح البخاري، كتاب مناقب الأنصار، باب أيام الجاهلية، رقم: (3842)]
3۔ منفرد عاجزی و انکساری: ایک دن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی ملاقات حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوئی حضرت ابوبک ررضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اے حنظلہ رضی اللہ تعالی عنہ کیا حال ہے؟ حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: حنظلہ رضی اللہ تعالی عنہ منافق ہو گیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، سبحان اللہ! یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ انہوں نے کہا: جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ جنت اور دوزخ کا ذکر کرتے ہیں، تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں پھر جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس سے چلے آتے ہیں تو بیویوں، بچوں اور مال میں پھنس جاتے ہیں اور بہت سی باتیں بھول جاتے ہیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا اللہ کی قسم یہ کیفیت تو ہماری بھی ہوتی ہے۔ الغرض دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور اپنی ساری بات بیان کی۔ تو جواب میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ہر وقت تمہاری وہی حالت رہے جو میرے پاس ہوتی ہے اور ہر وقت (اس چیز کی) یاد رہے تو فرشتے تمہارے بستروں اور راستوں پر تم سے سلام کریں اور مصافحہ کریں، لیکن اے حنظلہ رضی اللہ تعالی عنہ کبھی یہ کیفیت اور کبھی وہ (کیفیت) آپ نے اس جملہ کو تین دفعہ دہرایا (یعنی اتنا ہی کافی ہے کہ کبھی تمہاری یہ کیفیت ہو اور کبھی وہ)‘‘۔
4۔ انتهائي أعلى استقامت: رسول اللہ ﷺ کی وفات کے موقع پر (جب بڑے بڑے دلیروں کے پاؤں اکھڑ گئے) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی۔ پھر فرمایا: اما بعد تم میں سے جو شخص محمدﷺ کی عبادت کرتا تھا تو (وہ جان لے کہ) بے شک محمد ﷺ فوت ہو گئے ہیں اور تم میں سے جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا تو بے شک اللہ زندہ ہے۔ اسے بھی موت نہیں آئے گی۔ اللہ عز و جل نے فرمایا ہے:
﴿اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَؗ۝۳۰﴾ (الزمر: 30)
’’اے رسولﷺ! بے شک آپ بھی مرنے والے ہیں اور یہ بھی مرنے والے ہیں‘‘۔
﴿وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ؕ اَفَاۡىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤی اَعْقَابِكُمْ ؕ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْـًٔا ؕ وَ سَیَجْزِی اللّٰهُ الشّٰكِرِیْنَ۝۱۴۴﴾ [آل عمران:144]
’طاور محمد اللہ کے رسول ہی تو ہیں (رسول ہونے سے یہ کب لازم آتا ہے کہ ان کو موت نہ آئے) ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں (ان کو بھی موت آئی تھی) لہٰذا اگر یہ مرجائیں یا قتل ہو جائیں تو کیا الٹے پیر کفر کی طرف واپس ہو جاؤ گے اور جو شخص ایسا کرے گا وہ (اپنا نقصان کرے گا) اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اللہ تو شکر گزار بندوں کو ہی اجر عطاء فرماتا ہے۔‘‘
اس وقت لوگوں کی وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ آل عمران کی یہ آیت کسی کے ذہن میں نہیں تھی جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے تلاوت کیا (تو سب کو یاد آگئی) پھر ہر شخص کی زبان پر یہی آیت تھی، ہر شخص اس آیت کی تلاوت کر رہا تھا۔[صحيح البخاري، كتاب المغازی، باب مرض النبيﷺ ووفاته (4454)]
5۔ بے شمار برکتیں: حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیات کا کون معترف نہیں تھا، ایک مرتبہ ایک انصاری صحابی حضرت اسید بن حضیر ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو مخاطب کر کے کہا تھا، اے آل ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے۔[صحيح البخاري، كتاب فضائل أصحاب النبي ﷺ، باب، رقم (3672)]
یعنی آل ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ذریعہ بہت سی برکتیں حاصل ہوئی ہیں۔
6۔عالیشان گهرانہ: خود صحابی، باپ صحابی، ماں صحابیہ، بیوی صحابیہ، بیٹے صحابی اور بیٹیاں بھی صحابیات۔ ﴿ذٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ﴾
اس لیے آپ اللہ کے ہاں بھی فضیلت والے:
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ایک معاملے میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی راہنمائی فرمائی تو بڑے پیارے انداز میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے (اولوا الفضل) کا لفظ بولا جس کا معنی فضیلت والے ہے۔[النورآیت:22]
پیغمبر ﷺ کے ہاں سب سے پیارے:
بخاری ومسلم میں ہے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے انہیں ’’ذات السلاسل‘‘ لشکر پر (امیر بنا کر) بھیجا۔ انہوں نے بیان کیا، میں (سفر سے پہلے) آپ کے پاس آیا، میں نے دریافت کیا کہ کون شخص آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’عائشہ۔‘‘ میں نے دریافت کیا: من الرجال؟ کہ مردوں میں سے کون؟ آپﷺ نے فرمایا: (ابوها). ’’ان کے والد۔‘‘ میں نے دریافت کیا۔
پھر کون؟ آپ ﷺ نے (کچھ اور) لوگوں کا (بھی) نام لیا۔ پھر میں اس خوف سے خاموش ہو گیا کہ (کہیں) آپ ﷺ مجھے ان کے آخر میں نہ شمار کریں۔[1]
سارے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے ہاں افضل:
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے زمانے میں ہم کسی شخص کو ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے برابر نہیں سمجھتے تھے، اس کے بعد عمر اور پھر عثمان رضی اللہ تعالی عنہما (کا درجہ تھا) نبی ﷺ ہم کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو (ان کے حال پر) چھوڑ دیتے۔ ان میں سے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں دیتے تھے۔[2]
اور سنن ابی داؤد کی روایت میں ہے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے بیان کیا کہ جب رسول الله ﷺ زندہ تھے تو ہم کہا کرتے تھے کہ نبی ﷺ کے بعد آپ کی امت میں سے سب سے افضل ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ پھر عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور پھر عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔[3]
اور اہل بیت کے ہاں بھی پیارے:
محمد بن حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے اپنے والد محترم (حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ) سے دریافت کیا نبی ﷺ کے بعد کون شخص سب سے بہتر ہے؟ انہوں نے بتایا: ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ۔ (محمد بن حنفیہ کہتے ہیں) میں نے دریافت کیا کہ پھر کون؟ انہوں نے کہا، عمر رضی اللہ تعالی عنہ۔ (محمد بن حنیفہ کہتے ہیں) میں ڈر گیا کہ اب آپ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا نام لیں گے (اس لیے) میں نے عرض کیا، پھر آپ ہیں۔ انہوں نے کہا:
(ما أنا إِلَّا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ)[4]
’’میں تو ایک عام مسلمان ہوں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]صحيح البخاری (4358) و صحیح مسلم (6177)]
[2] صحيح البخاري، كتاب فضائل أصحاب النبيﷺ، باب مناقب عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ (3698)]
[3] صحيح البخاري، كتاب فضائل اصحاب النبيﷺ، باب مناقب عثمان بن عفان، رقم: 3698 و سنن ابی داود، رقم: 4627]
[4] صحیح البخاري، كتاب فضائل أصحاب النبيﷺ، باب مناقب أبي بكر رضی اللہ تعالی عنہ (3671)]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔