شب قدر کی فضیلت

اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚۖ۝۱
وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ۝۲
لَیْلَةُ الْقَدْرِ ۙ۬ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ۝۳
تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍۙۛ۝۴
سَلٰمٌ ۛ۫ هِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ۠۝۵ ﴾ (سورة قدر آیت 1 تا 5)
ترجمہ: یقینًا ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا۔ تو کیا سمجھا کہ شب قدر کیا ہے۔ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں ہر کام) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل) اترتے ہیں۔ یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک (رہتی ہے)۔
ایک دوسری جگہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ﴿ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ﴾ (سوره دخان: آیت:3)۔
ترجمہ: یقینًا ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈرانے والے ہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : مَنْ قَامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (متفق عليه).
(صحیح بخاری: كتاب الصوم، باب من صام رمضان إيمانا واحتسابا، صحيح مسلم كتاب صلاة المسافرين، باب الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح.)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت شب قدر میں قیام کیا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُجَاوِرُ فِي اْلعَشْرِ الْأوَاخِرِ مِنْ رمَضَانَ، وَيَقُولُ : تَحَرُوا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ (متفق عليه).
(صحیح بخاري كتاب لیلة القدر باب فضل ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر، صحيح مسلم: كتاب الصيام باب فضل ليلة القدر)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رمضان کے آخری عشرے میں لیلة القدر تلاش کرو۔
وعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الوَتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ. (رواه البخاري).
(صحیح بخاری: کتاب فضل ليلة القدر، باب تحرى ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر)
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنهَا قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ عَلِمْتُ أَىُّ لَيْلَةٍ لَيْلَةَ الْقَدْرِ مَا أَقُوْلُ فِيْها قَالَ: قُولِى اللَّهُمْ إِنَّكَ عَفُوٌّ تحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّى (رواه الترمذي)
)سنن ترمذی& ابواب الدعوات عن رسول الله، باب في فضل سؤال العافية والمعافاة، وقال: حديث حسن صحيح، وصححه الألباني في صحيح سنن ابن ماجه (3850)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول! یہ بتلائیے اگر مجھے علم ہو جائے کہ کون سی رات قدر کی رات ہے تو میں اس میں کیا پڑھوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا تم یہ دعا پڑھو ’’ اللَّهُمْ إِنَّكَ عَفُوٌّ تحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّى‘‘
یعنی اے اللہ ا بیشک تو بہت معاف کرنے والا ہے، معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے، پس تو مجھے معاف فرمادے۔
تشریح:
شب قدر کو با برکت والی رات کہا گیا ہے اس کے بابرکت ہونے میں کوئی شبہ کی بات نہیں ہے کیونکہ اس میں ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں (تراسی (۸۳) سال چار (۴) ماہ) کی عبادت سے بہتر ہے، دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس شب میں قرآن کریم کے نزول کا آغاز فرمایا، یا لوح محفوظ سے بیت العزت میں اتارا جو پہلے آسمان پر ہے اور پھر وہاں سے حسب ضرورت تھیس (۲۳) سالوں تک مختلف اوقاتوں میں نبیﷺ پر نازل ہوتا رہا، تیسرے یہ کہ اس رات میں فرشتوں اور جبریل کا نزول ہوتا ہے، چوتھے یہ کہ اس میں پورے سال میں ہونے والے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ یہ رات رمضان کے آخری عشرے میں آتی ہے اور وہ بھی طاق راتوں یعنی 21 ویں 23 دیں، 25 دیں، 27 ویں اور 29 ویں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ اس رات کی تعیین نہیں کی گئی ہے بلکہ اسے مبہم رکھا گیا ہے جس کی حکمت یہ ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ آخری عشرے کی تمام راتوں میں عبادت کا اہتمام کریں، اس میں تو بہ واستغفار اور تلاوت کلام پاک اور نوافل کا اہتمام کریں۔ اگر اس رات کی تعیین کر دی گئی ہوتی تو لوگ صرف اسی رات کا اہتمام کرتے باقی اور رات کو چھوڑ دیتے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ شب قدر ستائیسویں رمضان کی شب ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ حدیث سے اس کی تائید نہیں ہوتی ہے۔ شب قدر کی بعض علامتیں بھی ثابت ہیں کہ اس رات میں بہت ہی سکون ہوتا ہے، آسمان میں تارے نہیں ٹوٹتے ہیں، دلوں پر رقت طاری ہوتی ہے، رات معتدل ہوتی ہے نہ تو زیادہ گرمی ہوتی ہے اور نہ ہی زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے، اس کی صبح کو سورج کی شعائیں: تیز نہیں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں شب قدر کی اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسے حاصل کرنے کی طاقت عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ شب قدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کسی ایک رات آتی ہے۔
٭ شب قدر کی فضیلت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔
٭ شب قدر کی تعیین کو خفی رکھا گیا ہے۔
٭ جس نے شب قدر میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
٭ شب قدر کی دعا ’’ اللَّهُمْ إِنَّكَ عَفُوٌّ تحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّى‘‘ ہے۔
٭٭٭٭