شبِ براءت

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۗ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾ [الحشر:7]
آج لوگوں نے دین اسلام میں بہت کچھ اپنی طرف سے داخل کر لیا ہے اور اسے اسلام کا لبادہ پہنا دہا ہے، کوئی عشرہ اپنی طرف سے فضیلت والا بنا دیا، کوئی ہفتہ اپنی طرف سے عبادت والا بنا لیا، کوئی رات فضیلت والی قرار دے دی اور کوئی دن فضیبلت والا ٹھہرا دیا۔ حالانکہ کسی بھی چیز اور عمل کو فضیلت والا اور باعثِ اجر و ثوال ٹھہرانا صرف اور صرف وحی الہی پر منحصر ہے۔ جو ک تاب و سنت کی شکل میں آج بھی محفوظ ہے اورقیامت تک محفوظ رہے گی۔ اس لیے کسی بھی رات یا دن کو فضیلت والا قرار دینے کے لیے قرآن و حدیث سے دلیل کی ضرورت ہے۔ بغیر دلیل کے میں اور آپ کسی رات یا دن کو فضیلت والا قرارا نہیں دے سکتے لیکن آج لوگوں نے بہت ساری راتیں اور بہت سارے دن اپنی طرف سے فضیلت والے بنا لیے ہیں، جب کہ ان کی کوئی دلیل قرآن و سنت میں موجود نہیں۔
مثلاً: شب معراج، شب براءت اور جمعۃ الوداع وغیرہ۔ تو اپنی طرف سے کسی چیز کو فضیلت والا ٹھہرانا اور باعث اجروثواب قرار دینا دین میں اضافہ ے جو بدعات و خرافات کے زمرے میں آتا ہے اور یہ کل قیامت کے دن حوض کوثر سے محرومی کا سبب ہے۔
بخاری و مسلم میں ہے: حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک میں حوض کوثر پر تم سے پہلے موجود ہوں گا جو شخص میرے پاس سے گزرے گا وہ (اس سے) پیئے گا اور جو شخص بھی اس سے پیئے گا وہ کبھی پیاسا نہیں رہے گا۔ مجھ پر کچھ لوگ پیش ہوں گے جنہیں میں پہچانتا ہوں گا اور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے بعد ازاں میرے اور ان کے درمیان کوئی شے حائل کر دی جائے گی۔ میں کہوں گا یہ تو میرے (امتی) ہیں۔ چنانچہ کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپﷺ کے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (یہ سن کر ) میں کہوں گا:
(سُحْقًا سُحْقًا لِّمَنْ غَيَّرَ بَعْدِي) [صحيح البخاري، كتاب الفتن، باب ماجاء في قول الله تعالى: [واتقوا فتنه لا تصيين الذين ظلموا﴾ (7051)]
’’کہ وہ لوگ دور ہو جائیں دور ہو جائیں جنہوں نے میرے بعد دین میں تبدیلی کی۔‘‘
اور رسول اللہﷺ اپنے ہر خطبہ میں فرمایا کرتے تھے: (حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ
حدیث کے راوی ہیں): (فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللهِ، وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍﷺ وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ). [صحیح مسلم، كتاب الجمعة، باب تخفيف الصلاة والخطبة (867)]
’’پس تمام کلاموں سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور تمام طریقوں سے بہتر طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے اور تمام کاموں سے بدترین کام وہ ہیں جنہیں (دین اسلام میں) ایجاد کیا گیا ہے اور تمام بدعات گمراہی ہیں۔‘‘
لیکن آج مسنون اعمال پر ہماری تسلی نہیں ہوتی اور ہم بدعات و خرافات کے ذریعے تسکین حاصل کرتے ہیں اور ایسی اکثر بدعات و خرافات میں اللہ کی بغاوت اور کافروں کی مشابہت بھی شامل ہے۔
غور کیجئے! موجودہ مہینے کی بدعت شب براءت ہے ایک طرف اسے فضیلت والی رات کہتے ہیں اور دوسری طرف کام سارے اللہ کی بغاوت اور کافروں کی مشابہت والے کرتے ہیں۔ صرف ایک کام پر ہی غور کر لیں، جسے آتش بازی کہتے ہیں یہ اسراف اور تبذیر بھی ہے اور آتش پرستوں اور مجوسیوں کی مشابہت بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جانی نقصان کا ذریعہ بھی ہے۔ تو آج میں آپ کے سامنے قرآن وسنت کی وہ تعلیمات بھی پیش کرنا چاہتا ہوں جو آگ کے متعلق ہیں تا کہ واضح ہو جائے کہ آگ ہماری دشمن ہے جسے ہم نے کھیل بنا رکھا ہے۔ حدیث کی کتابیں اٹھائیے:
صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’(رات سوتے وقت) برتنوں کو ڈھانپ کر رکھو مشکیزوں کے منہ کوری سے باندھو دروازوں کو بند رکھو اور چراغ بجھاؤ۔ اس لیے کہ شیطان بند مشکیزوں اور بند دروازے کو نہیں کھولتا نیز ڈھانپے ہوئے برتن کو بھی نہیں کھولتا۔ اگر تمہیں ڈھاپنے کے لیے کوئی لکڑی ہی ملے تو اسے برتن پر بسم اللہ پڑھ کر رکھو (چراغ اس لیے بجھاؤ کہ) بے شک چوہیا گھر والوں سمیت ان کے گھر پر آگ بھڑکا دیتی ہے۔‘‘
بخاری و مسلم میں ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لا تترُكُوا النَّارَ فِي بُيُوتِكُمْ حِينَ تَنَامُونَ) [صحیح بخاری، کتاب الاشربة (841/2) و مسلم، الأشريد (170/2)]
’’سوتے وقت اپنے گھروں میں آگ جلتی نہ چھوڑا کرو‘‘
اور متفق علیہ حدیث ہے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رات کے وقت مدینہ منورہ میں ایک گھر اہل خانہ سمیت آگ کی لپیٹ میں آ گیا۔ اس واقع کا تذکرہ نبی ﷺ سے کیا گیا۔ آپﷺ نے فرمایا:
’’آگ تمہاری دشمن ہے اس لیے سونے سے پہلے آگ بجھا دیا کرو۔‘‘[صحیح بخارى، كتاب الاشربة (841/2) و مسلم، الاشربۃ (170/2)]
ثابت ہوا آگ ہماری دشمن ہے اس لیے ضرورت کی آگ کو بھی رات کے وقت بجھانے کا حکم ہے۔ تو پھر بلا ضرورت آگ جلانا۔ آتش بازی کرنا۔ پٹانے چلا چلا کر ہوائیاں اڑا اڑا کر لوگوں کی نیندیں خراب کرنا۔ اور لوگوں کی دکانیں اور املاک کے جلنے کا سبب بننا اور جانیں ضائع کرنے کا سبب بننا کہاں جائز ہے۔ اور اس کا فضیلت اور عبادت کے ساتھ کیا تعلق ہے۔
جب اذان کا حکم نہیں اتر اتھا رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے مشورہ لیا کہ کسی طرح باجماعت نماز کے لیے لوگوں کو اکٹھا کیا جائے؟ ایک مشورہ یہ آیا کہ اونچے پہاڑ پر آگ جلائی جائے۔[صحیح بخاری:604]
لیکن مجوسیوں کی مشابہت کی وجہ سے یہ تجویز مسترد کر دی گئی۔
غور فرمائیے! ضرورت کے باوجود آگ جلانے کی اجازت نہ دی کہ یہ آگ کے پجاریوں سے مشابہت ہے۔ لیکن ہم اس مشابہت پر تلے ہوئے ہیں شب معراج ہو یا جشن آزادی شب براءت ہو یا شادی بیاہ لوگ آتش بازی میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں جبکہ کتنی دکانیں جلیں۔ کتنے مکانات چلے۔ پوری کی پوری باراتیوں کی بس راکھ کا ڈھیر بن گئی لوگ جھلس گئے لیکن ہم چھوڑنے کو تیار نہیں۔ حالانکہ اس ایک گناہ میں کتنے سارے گناہ ہیں۔
1۔ فضول خرچی
﴿اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ ﴾ [الإسراء: 27]
قرآن اعلان کر رہا ہے کہ فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔
کیونکہ اللہ کی دی ہوئی دولت اللہ کا دیا ہوا مال اللہ کی نافرمانی میں خرچ کرتا شیطان کی
اطاعت و فرمانبرداری میں صرف کرنا شیطان سے دوستی اور محبت کی دلیل ہے اور یہ اللہ تعالی کی بہت بڑی ناشکری اور کفران نعمت ہے اس لیے ایسے لوگوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔
2۔ جانی نقصان:
﴿وَلَا تَقْتُلُوْا انْفُسَكُمْ﴾ [النساء: 29]
قرآن اعلان کر رہا ہے:
’’اپنے آپ کو اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔‘‘
لیکن آتش بازی کے اس شیطانی و مجوسی کھیل میں ہر سال کتنے لوگ اپنے ہی ہاتھوں خود مرتے اور دوسروں کو زندگی سے محروم کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جبکہ یہ دونوں انتہائی خطر ناک گناہ ہیں۔ اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاک کرنے والا قیامت کے دن اپنے آپ کو بار بار اسی طریقے سے قتل کرتا رہے گا جس طریقے سے اس نے دنیا میں اپنے آپ کو ہلاک کیا۔ جس طرح صحیح مسلم وغیرہ میں موجود ہے۔ [صحيح البخاری، رقم: 5778، صحیح مسلم، رقم: 300]
اور کسی مومن مسلمان کو قتل کرنے والا عذاب الیم کا حق دار ہے۔[سورة النساء: آیت 93]

3۔ کافروں سے مشابہت:
(مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ) [سنن ابی داؤد، کتاب اللباس، باب في لبس الشهرة (2516) و احمد (293/1) والحاكم (541/3)]
’’جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہو گا۔‘‘
تو آتش بازی آتش پرستوں مجوسیوں سے مشابہت ہے جو کافروں میں سے بھی بدترین کافر ہیں جب رسول اللہﷺ نے مختلف کافر بادشاہوں کو خطوط کے ذریعے دعوت اسلام دی تھی تو آتش پرستوں کے بادشاہ نے آپ کا خط مبارک پھاڑ ڈالا تھا۔ تو یہ آتش بازی ایسے گستاخان رسول کی مشابہت ہے۔
4۔ لوگوں کو بے آرام کرنا:
مریضوں کی نیند میں خراب کرنا، بوڑھوں کو ستانا جبکہ رسول اللہﷺ تو رات کے وقت جب گھر تشریف لاتے تو ہلکی آواز سے سلام کہتے تاکہ جاگنے والا جواب دے اور سوئے ہوئے کی نیند خراب نہ ہو۔[صحیح مسلم (2055)]
حالانکہ رسول اکرم ﷺ کی زبان اطہر سے ادا کیے جانے والے سلام کے پیارے کلمات کیا تکلیف دے سکتے تھے۔ لیکن آپﷺ نے امت کو نمونہ دکھایا کہ رات کے وقت سونے والوں کی نیند خراب کرنا جائز نہیں۔ اس لیے آپﷺ سلام بھی آہستہ کہتے۔
لیکن آج ایک طرف ہر وقت معیشت پر رونا ہائے بھوکے مر گئے کام ہی کوئی نہیں، مندا ہی بڑا ہے اور دوسری طرف آتش بازی میں روپے کو آگ لگانا۔ کدھر کا انصاف ہے۔
بہر حال یہ شب براءت عام راتوں میں سے ایک رات ہے اس کی فضیلت قرآن وسنت سے ثابت نہیں اور اس رات کیے جانے والے کام (آتش بازی، شیرینی، مخصوص عبادات وغیرہ) سب بدعات و خرافات میں دین کے ساتھ ان کاموں کا دور و نزدیک کا کوئی تعلق نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسلمان بنایا ہے آخری امت ہونے کا شرف بخشا ہے۔ سید الرسل اور امام الانبیاء کا امتی بنایا ہے اور سب سے بہتر دین ہمارے لیے اتارا ہے تو پھر بھی ہم اگر وہ بہترین دین چھوڑ کر بدعات و خرافات کو اپنائیں اور کافروں کی نقلیں اتاریں تو یہ بد قسمتی اور سیاہ بختی کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ اصلاح اور عمل کی توفیق بخشے۔
شب براءت کی دیگر بدعات و خرافات:
٭ قبرستان جانا: بہت سارے لوگ اس رات کو قبرستان جاتے ہیں اور اپنے فوت شدہ

عزیز و اقارب کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ یاد رکھیے! قبرستان جانے کے لیے یا عزیز و اقارب کے حق میں دعا کے لیے کوئی دن رات یا وقت مقرر کرنا قرآن و سنت سے قطعاً ثابت نہیں ہے اگر یہ کار خیر ہوتا تو رسول اللہﷺ ضرور یہ عمل کرتے یا اس کی تعلیم دیتے۔
٭ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس رات کو اللہ رب العزت آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں: یہ بالکل غلط ہے کیونکہ صیح البخاری اور صیح مسلم کی متفق علیہ حدیث کے مطابق تو ہر رات کو اللہ تعالی آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں حدیث کے الفاظ ہیں: وَذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ یہ (اللہ تعالی کا نزول فرمانا) ہر رات کو ہوتا ہے۔[صحیح مسلم (1156)]
اس رات کو مخصوص قیام کرنا: بعض لوگ اس رات کو سو رکعت نفل پڑھتے ہیں اور ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد 10 مرتبہ سورۃ الاخلاص پڑھتے ہیں اور اس نماز کو ’’صلاة الخیر‘‘ کا نام دیتے ہیں اور اس کا بڑا اجر وثواب بیان کرتے ہیں۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ سے ایسی کوئی نماز کسی بھی رات میں ثابت نہیں۔ یہ من گھڑت اور خود ساختہ ہے۔
اس دن کے روزے کا اہتمام کرنا: شب براءت کے روزے کا اہتمام کرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہاں جو کرنے کا کام ہے وہ یہ ہے کہ ماہ شعبان میں بکثرت روزے رکھے جائیں رسول اللہ میں سب سے زیادہ نفلی روزے ماہ شعبان میں رکھتے تھے۔[صحيح البخاري، كتاب الصيام، باب صوم شعبان (1969)]
٭ اس رات کو شبینہ پڑھنا: بعض لوگ شب براءت کے قیام کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں اور رات بھر مساجد میں باجماعت نماز کا اہتمام کرتے ہیں جسے شبینہ اور شب بیداری کا نام دیتے ہیں، حالانکہ اس کا کوئی ثبوت کسی حدیث سے نہیں ملتا یہ اپنی طرف سے دین میں اضافہ ہے۔ اللہ تعالی ہمیں من گھڑت خود ساختہ اعمال کی بجائے قرآن وسنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔ آمین!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔