شرائط قبولیت برائے صدقات

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

﴿ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَاۤ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّ لَاۤ اَذًی ۙ لَّهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۲۶۲

قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًی ؕ وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ﴾ [البقرة: 262-263]

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ رب العزت کا عطاء کردہ ہے وہ اعضاء بدن ہوں یا حیات و زندگی وہ دیکھنے سننے اور بولنے سوچنے کی صلاحیتیں ہوں یا مال ومنال اور ماکولات ومشروبات ہوں سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے حتی کہ کسب معاش اور تجارت و صنعت کے ذریعے بھی انسان جو کچھ حاصل کرتا ہے۔ وہ بھی اللہ کی طرف سے ہی اس کو ملتا ہے اور اتنا ہی ملتا ہے جتنا اللہ کو منظور ہو۔ یہ اس کی  مرضی ہے حلال ذریعے سے حاصل کرے یا حرام طریقے سے کمالے ملتا اللہ کی طرف سے ہے مشاہدہ و تجربہ بھی اس کی دلیل ہے۔ ایک جیسے ذرائع معاش اختیار کرنے والے طلع اور نتیجے کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ ایک جیسی صنعت دو آدمی لگاتے ہیں ایک چڑھتا جاتا ہے اور ایک گرتا جاتا ہے۔ ایک جیسا سفر دو شخص کرتے ہیں ایک کو بہت نفع ملتا ہے اور دوسرا جمع پونجی سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔

 یہ اٹل حقیقت ہے کہ مانا اللہ کی طرف سے ہے اور اتنا ہی ملتا ہے جتنا مقدر میں ہو اسی لیے ہمیں جائز ذریعے سے رزق تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اللہ کے دیئے ہوئے اس مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس پر بہت بڑے اجر و ثواب کا وعدہ دیا گیا ہے۔ یہ اللہ رب العزت کا بہت بڑا فضل و احسان ہے کہ اللہ تعالی اس مال کو خرچ کرنے پر اجر عظیم عطاء کرتے ہیں جو اللہ تعالی کا ہی دیا ہوا ہے۔ لیکن جس طرح دوسرے اعمال کے لیے آداب و شروط ہیں اسی طرح انفاق فی سبیل اللہ اور صدقہ و خیرات کی قبولیت کی بھی چند شروط ہیں جو اللہ رب العزت نے سورۃ البقرہ کے دو رکوعوں میں بیان کی ہیں۔ ان آداب اور شروط کے بغیر کوئی صدقہ و خیرات شرف قبولیت نہیں پاتا۔

پہلی شرط: صدقہ و خیرات کر کے احسان جتلانا:

احسان جتلانے سے ایک تو صدقہ و خیرات کا اجر و ثواب ضائع ہو جائے گا:

﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ ﴾ [البقرة: 264]

’’ایمان والو! اپنے صدقات احسان جتلا کر ضائع اور برباد نہ کرو۔‘‘

اور دوسرا احسان جتلانا اس قدر خطر ناک گناہ ہے کہ اس کی چار سزائیں رسول اللہﷺ نے بیان فرمائیں۔

صحیح مسلم میں ہے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ نبیﷺ  سے بیان کرتے ہیں آپ میں ہم نے فرمایا:

(ثَلَاثَةٌ لا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ)

’’تین شخص ہیں جن سے اللہ قیامت کے دن کلام نہیں کرے گا۔ نہ ان کی جانب نظر (رحمت) کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔‘‘

 حضرت ابوذر رضی اللہ تعال یعنہ نے دریافت کیا یہ لوگ کون ہیں ؟ اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ تو ناکام ہیں اور خسارے والے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

(الْمُسْبِلُ، وَالْمَنَّانُ، وَالْمُنْفَقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ) [صحیح مسلم، كتاب الإيمان، باب بيان غلظ تحريم إسبال الإزار الخ رقم 293 و سنن ابی داؤد، کتاب اللباس، باب ماجاء في إسبال الإزار (4087)]

’’وہ شخص جو تکبر سے اپنی چادر زمین پر لٹکاتا ہے اور عطیہ دے کر احسان جتاتا ہے اور جھوٹی قسمیں اٹھا کر اپنے کاروبار کو چلانے والا ہے۔‘‘

 غور کیجئے! بظاہر انسان احسان جتلانا معمولی سمجھتا ہے لیکن قرآن کریم نے اسے اجر و ثواب ضائع کرنے کا ذریعہ قرار دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی خطرناک چار سزائیں بھی بیان فرمائیں۔ لیکن آج بات بات پہ احسان جتلانا لوگوں کی عادت بن چکا ہے حالانکہ صدقہ و خیرات پہ احسان کس بات کا جتلاتا ہے جبکہ دیا ہوا اللہ تعالی کا ہے۔ وہ چاہے شاہ کو گدا اور گدا کو شاہ کر دئے وہ چاہے غنی کو فقیر اور فقیر کوغنی کر دے۔

دوسری شرط: صدقہ و خیرات کر کے صدقہ لینے والے کو تکلیف نہیں دیتا:

تکلیف دینے کے کئی انداز ہیں: صدقہ و خیرات کر کے مفادات حاصل کرنا، صدقہ و خیرات کر کے مجلس مجلس میں اس کی بے عزتی کرنا۔ اس کی سفید پوشی سے پردہ اٹھانا۔ اس کے فقر وفاقہ کو برے انداز میں بیان کرنا۔ جب کوئی مجبور اور سائل آ جائے اسے دیکھ کر منہ بسورنا اور کڑوی کڑوی باتیں سناتا۔ سب تکلیف دینے کے مختلف انداز ہیں۔ یہ ایذا رسانی صدقہ و خیرات کو ضائع کر دیتی ہے۔ اگر آپ کسی سائل کو حقدار نہیں سمجھتے تب بھی اسے ڈانٹنا نہیں، اسے برا نہیں کہنا، اسے جھڑ کنا نہیں۔ سورۃ الضحی میں ہے:

﴿وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرُ﴾ [الضحى:10]

’’سائل کو مت چھٹر کو۔‘‘

ہاں اگر آپ کے علم کے مطابق وہ حقدار نہیں اسے بڑے باعزت انداز میں پیار محبت کے ساتھ خلوت میں سمجھاؤ لوگوں کے سامنے اس کی بے عزتی نہ کرو۔ ضرورت مند کو کسی قسم کی تکلیف دینے سے صدقہ و خیرات بر یاد ہو جاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًی ؕ وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ﴾ [البقرة:263]

’’بھلی بات کرنا اور سائل کی سخت کلامی اور اصرار کو معاف کر دینا یہ اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذا رسانی ہو۔‘‘

 معلوم ہوا کسی بھی انداز میں مسکین اور سائل کو تکلیف نہیں دینا بلکہ اسے اچھی بات کہنا ہے (مثلا: اللہ آپ کو غنی کرے۔ اللہ آپ کو بھی زیادہ دے، ہمیں بھی زیادہ دے۔ اللہ آپ پر رحمت کرے)۔

صحیح مسلم اٹھاؤ:

(وَالْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ) [صحیح مسلم (1007)]

’’اچھی بات کہنا صدقہ کرنے کے برابر ہے۔‘‘

رسول اللہﷺ کے پاس دیہاتی آیا (نو مسلم تھا) زور سے چادر کھینچی نشان پڑ گیا اور سخت الفاظ میں سوال کیا آپ دیکھ کر مسکرا دیئے اور وافر مال اس کو دینے کا حکم جاری فرمایا۔[صحيح البخاري، كتاب اللباس، باب البرود والحبرة والشملة (5809) و صحیح مسلم، کتاب الزكاة، باب إعطاء من سأل بفحش و غلظة]

تیسری شرط: نمود و نمائش اور مدح وستائش کے لیے خرچ نہیں کرنا:

ریاء کاری (دکھلاوا) شہرت پسندی سے صدقہ و خیرات ضائع اور برباد ہو جاتا ہے۔ صحیح البخاری میں حدیث ہے جس نے شہرت وریاء کے لیے عمل کیا اسے صرف شہرت وریاء ہی ملے گی۔[صحیح مسلم، الزهد باب تحریم (2987)]

(جس طرح صحیح مسلم میں شہید، سخی اور عالم کا واقعہ مذکور ہے) اس واقعہ میں تین بہترین اور افضل ترین اعمال بیان کر کے یہ سمجھایا گیا ہے کہ یہ عظیم الشان اعمال بھی ریاء کاری شہرت پسندی اور نمود و نمائش کی وجہ سے ضائع اور رائیگاں ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ تینوں اعمال (شہادت فی سبیل اللہ، انفاق فی سبیل اللہ اور دین کی نشر و اشاعت) انتہائی عظیم الشان اعمال ہیں جن کی وجہ سے بڑے بڑے گناہ بخشے جاتے ہیں، لیکن ریا کاری ایک ایسا مہلک گناہ ہے کہ اس کی وجہ سے یہ عظیم الشان اعمال ضائع اور بے کار ہو جاتے ہیں۔

لہٰذا صدقہ و خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ صرف اللہ کی رضا کے لیے اور لوجه اللہ (اللہ کے دیدار کے لیے) ہونا چاہیے۔

﴿اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرً﴾ [الدهر:9]

’’یہ اللہ کے نیک بندوں کا بیان ہے کہ ہم تمہیں صرف اللہ کا چہرہ (دیکھنے) کے لیے کھلاتے ہیں ہم تم سے کسی قسم کا شکریہ اور بدلہ طلب نہیں کرتے۔‘‘

 آج ریاء کاری اور شہرت پسندی نے معاشرے کو گھیر رکھا ہے حتی کہ خرچ ہی وہاں کیا جاتا ہے جہاں ڈھنڈورا پیٹا جائے۔ حالانکہ اچھی نیت سے علانیہ اور جہری صدقہ کے مقابلے میں پوشیدہ اور خفیہ صدقہ کئی درجے زیادہ افضل ہے۔

عرش کا سایہ پانے والے سات خوش قسمتوں میں ایک:

(رَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تَنفِقُ يَمِينُهُ) [صحيح البخاري، كتاب الزكاة، باب الصدقة باليمين (1423) (660) و مسلم (1031) والترمذي (2391)]

’’وہ خوش قسمت ہے جس نے صدقہ کیا تو اتنا چھپا کے کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہوئی کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔‘‘

چوتھی شرط: صرف رزق حلال سے صدقہ کرنا:

(إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا) [صحيح مسلم، كتاب الزكاة، باب قبول الصدقة من الكسب الطيب وتربيتها (1015) والترمذی (2989)]

’’یقینًا اللہ پاک ہے اور پاک چیز کو ہی قبول کرتا ہے۔‘‘

(لَا يَقْبَلُ اللهُ صَلَاةً بِغَيْرِ طَهُورٍ، وَلَا صَدَقَةً مِنْ غَلُوْلٍ) [صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب وجوب الطهارة للصلاة (224) وابن ماجه (272)]

’’اللہ تعالی طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں کرتا اور مال حرام میں سے صدقہ قبول نہیں کرتا۔‘‘
اس لیے حکم ہے:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ﴾ [البقرة: 267]
’’جائز تجارت اور حلال کا روبار اور حلال زراعت سے حاصل کردہ مال اور پیداوار میں سے صدقہ وخیرات کرو۔‘‘
(سود، جوئے، رشوت، ملاوٹ اور کسی بھی قسم کی حرام کمائی میں سے صدقہ و خیرات نہ کرو۔)
پانچویں شرط: عمدہ اور معیاری چیز صدقہ کرنا:
اللہ کی راہ میں لکھی چیز نہیں خرچ کرتے جس طرح چوتھے پارے کی پہلی آیت میں ہے:
﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ [آل عمران:92]
’’تم کبھی نیکی (کے اعلیٰ مقام) کو نہیں پا سکتے یہاں تک کہ تم اپنی انتہائی محبوب اور پسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔‘‘
سورۃ البقرہ میں ہے:
﴿وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ﴾ [البقرة:267]
’’پسندیدہ، عمدہ اور معیاری مال خرچ کیا جائے۔ نکما اور گھٹیا مال خرچ نہ کیا جائے۔‘‘
آج لوگ مریل قسم کے کالے بکرے جن سے چلا بھی نہیں جاتا جن کی کھال میں کیڑے پڑے ہوتے ہیں مدارس میں طلبہ کو دے آتے ہیں اور خود اعلیٰ عمدہ اور معیاری گوشت کھاتے ہیں۔ اللہ کی قسم! کل قیامت کے دن ایسے لوگوں کو اس قسم کے بکروں کا گوشت کھانا پڑے گا۔
سنن ابی داؤد میں حدیث ہے۔ ایک شخص ردی کھجوریں مسجد میں لٹکا گیا (اصحاب صفہ کے لیے) آپ تشریف لائے ان ردی کھجوروں کو چھڑی ماری اور فرمایا یہ ردی کھجوریں لٹکانے والا قیامت کے دن ردی کھجوریں ہی کھائے گا۔‘‘[سنن ابی داؤد، کتاب الزکاۃ8 باب مالا یجوز من الثمرۃ فی الصدقۃ(1608) و صحیح ابی داؤد(1419)]
اللہ تعالی ہمیں تمام آداب و شروط کے مطابق اللہ کا دیا ہوا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔