شرمگاہ کی حفاطت

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ۝۵
اِلَّا عَلٰۤی اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ۝فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ﴾ [المؤمنون:5 تا 7]
جس طرح کان آنکھ دل اور زبان انتہائی حساس اعضاء میں اور ان کی درستگی انتہائی مفید و نافع اور ان کا بگاڑ بہت مضر اور تباہ کن ہے۔ اسی طرح کا معاملہ شرمگاہ کا ہے۔ قرآن وسنت میں شرمگاہ کی حفاظت کے لیے خصوصی احکامات جاری کیے گئے ہیں اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مردوں اور عورتوں کی بڑی تعریف کی گئی ہے۔ کہیں سورة المؤمنون اور سورۃ المعارج میں کامیاب مؤمنوں اور جنت کے وارثوں کی صفات حمیدہ اور خصائل جمیلہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ۝۵اِلَّا عَلٰۤی اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ۝۶﴾ [المؤمنون: 5 تا 6]
’’اور وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقینا یہ ملامتوں میں سے نہیں ہیں۔‘‘
﴿ فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ۝۷﴾ [المؤمنون:7]
’’جو اس کے سوا کوئی اور طریقہ اختیار کریں وہی حد سے تجاوز کر جانے والے ہیں۔‘
کہیں سورۃ الاحزاب میں مؤمن مسلمان مردوں اور عورتوں کی عمدہ خصلتیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
﴿وَالْحَافِظِيْنَ فُرُوْجَهُم. والْحَافِظَاتِ﴾ [الأحزاب:35]
’’کہ مؤمن مسلمان مرد اور عورتیں اپنی شرمگاہوں کی خوب حفاظت کرتے ہیں اور اپنا دامن بدکاری و غلط کاری اور شرمگاہ کی آوارگی سے بچا کر رکھتے ہیں۔‘‘
سورة الفرقان میں بھی عِبَادُ الرَّحْمَانِ (رحمن کے سچے اور مخلص بندوں) کا تذکرہ کرتے ہوئے اور ان کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَلَا يَزْنُوْنَ﴾
رحمن کے بندے بدکاری نہیں کرتے بلکہ پاک دامن ہوتے ہیں۔ اور شرمگاہ کی حفاظت اور پاک دامنی نبوی صفت ہے۔
سورہ یوسف میں ہے:
﴿ وَ رَاوَدَتْهُ الَّتِیْ هُوَ فِیْ بَیْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ وَ غَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَ قَالَتْ هَیْتَ لَكَ ؕ قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اِنَّهٗ رَبِّیْۤ اَحْسَنَ مَثْوَایَ ؕ اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۳﴾ [يوسف:23]
’’اس عورت نے جس کے گھر میں یوسف تھے یوسف کو بہلانا پھسلانا شروع کیا کہ وہ اپنے نفس کی نگرانی چھوڑ دے اور دروازے بند کر کے کہنے لگی لو آ جاؤ۔ یوسف نے کہا: اللہ کی پناہ! وہ میرا رب ہے مجھے اس نے بہت اچھی رہنے کی جگہ دی ہے یقینًا بے انصافی کرنے والوں کا بھلا نہیں ہوتا۔‘‘
غور کیجئے! حضرت یوسف علیہ السلام بھر پور نوجوان تھے اور خود عورت دعوت دےرہی تھی سارے انتظامات کر رہی تھی دروازے بند کر کے جناب یوسف علیہ السلام کو ورغلا رہی تھی لیکن حضرت یوسف علیہ السلام اس کے دام فریب میں نہیں آئے حتی کہ بعد میں اس عورت نے بڑی سازشیں کیں۔ جناب یوسف علیہ االسلام کو جیل جانا پڑا۔ چند سال جیل میں رہے لیکن عفت و پاک دامنی کی سفید چادر پر دھبہ نہیں لگنے دیا۔
اور سورہ آل عمران میں ہے:
﴿ فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ هُوَ قَآىِٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ ۙ اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰی مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ﴾ [آل عمران:39]
’’پس فرشتوں نے انہیں آواز دی جب کہ وہ حجرے میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ اللہ تعالی تجھے یحیی کی یقینی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ تعالی کے کلمہ کی تصدیق کرنے والا سردار، ضابط النفس (یعنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا پاک دامن) اور نبی ہے (اور) نیک لوگوں میں سے ہے۔‘‘
یعنی حضرت یحی علیہ السلام کے عمد و خصائل و فضائل میں نمایاں طور پر یہ صفت بیان کی کہ وہ انتہائی پا کدامن اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اور اللہ رب العزت کے ہاں یہ پاک دامنی والی صفت اس قدر عظیم صفت ہے کہ رب ارض و سماء نے عظیم المرتبت پیغمبر حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ محترمہ مریم صدیقہ کا تذکرہ کرتے ہوئے بارہا اس صفت کا ذکر فرمایا ہے:
﴿ وَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَ جَعَلْنٰهَا وَ ابْنَهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ۝۹۱﴾ [الأنبياء: 91]
’’اور وہ پاک دامن بی بی جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور خود انہیں اور ان کے لڑکے کو تمام جہان کے لیے نشانی بنا دیا۔‘‘
اس مقام پر رب کا ئنات نے جناب مریم صدیقہ کا نام لینے کی بجائے صرف یہ کہہ کر تذکرہ فرمایا:
’’اور وہ عورت جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی….. ۔‘‘
اور سورۃ التحریم میں ہے:
﴿ وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَ كُتُبِهٖ وَ كَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ۠۝۱۲﴾ [التحريم:12]
’’اور (مثال بیان فرمائی) مریم بنت عمران کی جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی پھر ہم نے اپنی طرف سے اس میں جان پھونک دی اور اس نے اپنے رب کی باتوں اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ عبادت گزاروں میں سے تھی۔‘‘
سبحان اللہ! شرمگاہ کی حفاظت پاکدامنی اور نفس پر قابو پانا کیسی عظیم صفت اور خوبی ہے کہ اللہ تعالی اسے نبیوں ولیوں اور نیک عورتوں کی صفت قرار دے رہے ہیں۔
جناب حضرت سارہ رضی اللہ تعالی عنہا کا واقعہ:
عظیم المرتبت پیغمبر، خلیل اللہ کا لقب و اعزاز پانے والے رسول، حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی زوجہ محترمہ جناب سارہ علیہا السلام کے ساتھ سفر ہجرت کر رہے ہیں راستے میں ایک ظالم بادشاہ کے پاس سے گزرے۔ بادشاہ کے کارندوں نے بادشاہ کو بتلایا: ایک شخص اپنی خوبرو بیوی کے ساتھ یہاں سے گزر رہا ہے۔ بادشاہ نے کہا: اس شخص کو پکڑ لو۔ پکڑ کر لایا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ظالم بادشاہ کے ظلم سے بچنے کے لیے لوگوں سے بات کی اور فرمایا میرے ساتھ میری بہن ہے (کیونکہ اس وقت حضرت ابراہیم اور جناب سارہ علیہ السلام کے سوا پوری دنیا میں کوئی مسلمان نہیں۔ لہٰذا اسلامی اخوت کے اعتبار سے بھی دونوں بہن بھائی تھے۔ اس لیے یہ جھوٹ نہیں تھا، بادشاہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھوڑا اور جناب سارہ علیہا السلام کو بلایا حضرت ابراہیم علیہ السلم نے اپنی زوجہ مطہرہ سے کہا کہ میں نے بادشاہ کو یہ بتلایا ہے کہ یہ میری بہن ہے کیوں کہ روئے زمین پر میرے اور تیرے سوا کوئی مؤمن نہیں۔ لہٰذا ایمانی امت کے اعتبار سے تو میری بہن لگتی ہے۔ اس لیے مجھے وہاں جھوٹا نہ کرنا۔ جب حضرت سارہ علیہا السلام کو ظالم بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا۔ اس ظالم بادشاہ کی نیت خراب ہونے لگی ۔ حضرت سارہ رضی اللہ تعالی عنہا جلدی سے اٹھیں وضو کیا اور نماز شروع کردی اور نماز میں دعا کی:
(اللَّهُمَّ إِنْ كُنتُ آمَنْتُ بِكَ وَبِرَسُولِكَ وَاحْصَنْتُ فَرْجِي إِلَّا عَلٰى زَوْجِي فَلَا تُسَلِّطْ عَلَىَّ الْكَافِرَ)
’’یا اللہ! اگر میں تجھ پہ اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں اور میں نے اپنی شرمگاہ کو اپنے شوہر کے سوا ہر کسی سے بچا کر رکھا ہے تو اس کافر کو مجھ پر مسلط نہ ہونے دے۔‘‘
غور فرمائیے، پاکدامنی اور شرمگاہ کی حفاظت کس قدر عظیم عمل ہے اور اللہ کے ہاں کسی قدر محبوب ہے کہ اللہ کی اس نیک بندی نے اللہ کی بارگاہ میں اپنی پاکدامنی کا حوالہ دے کر دعا کی اللہ نے دعا قبول فرما لی۔ بادشاہ منہ کے بل زمین پر گرا۔ منہ سے جھاگ بہنے لگا۔ ایڑیاں رگڑ رگڑ کے تڑپنے لگا اور زور زور سے چیخنے چلانے لگا۔ حتی کہ ایسی آوازیں آنے لگیں جیسے کوئی بیل ذبح کیا جا رہا ہو۔ جناب سارہ رضی اللہ تعالی عنہا نے سوچا اگر یہ مر گیا قتل کا الزام مجھ پہ آئے گا۔ فورًا دعا کی یا اللہ! اسے چھوڑ دے اسے ہلاک نہ کرنا۔ وہ ٹھیک ہو گیا لیکن وہ اس قدر ضدی بد قماش اور بد عمل تھا کہ اس نے عبرت نہ پکڑی پھر برے ارادے سے آگے بڑھنے لگا۔ حضرت سارہ رضی اللہ تعالی عہا نے پھر نماز شروع کر دی اور یہی دعا کی:
(اللَّهُمَّ إِنْ كُنتُ آمَنْتُ بِكَ وَبِرَسُولِكَ وَأَحْصَنْتُ فَرْجِي إِلَّا عَلٰى زَوْجِي فَلَا تُسَلِّطْ عَلَىَّ الْكَافِرَ)
بادشاہ پھر منہ کے بل زمین پر گرا چیخنے چلانے لگا اور ایڑیاں رگڑ کر تڑپنے لگا۔
دوبارہ پھر جناب سارہ رضی اللہ تعالی عنہا کے دل میں خیال آیا کہ اگر یہ مر گیا تو قتل کا الزام مجھ پر آئے گا۔ پھر دعا کی:
یا اللہ! اسے قتل نہ کرنا۔
سبحان اللہ! کیسی نیک اور پاکدامن خاتون ہے کہ اس کی دعا فوراً قبول ہو جاتی ہے۔ بادشاہ پھر ٹھیک ہو جاتا ہے لیکن ابھی تک اس ظالم اور بدکار بادشاہ کا دماغ ٹھیک نہیں ہوا۔ وہ پھر برے ارادے سے آگے بڑھتا ہے۔ جناب سارہ رضی اللہ تعالی عنہا پھر نماز شروع کر دیتی ہیں پھر دعا کرتی ہیں۔ (اللهم ان … الخ) بادشاہ پھر منہ کے بل گرتا ہے تڑپنے لگتا ہے چیخنے چلانے لگتا ہے۔ جناب سارہ رضی اللہ تعالی عنہا پھر دعا کرتی ہیں یااللہ! اسے قتل نہ کرنا۔ وہ پھر ٹھیک ہو جاتا ہے اب اس بد قماش بادشاہ کا دماغ ٹھکانے آجاتا ہے۔ درباریوں کو بلاتا ہے اور کہتا ہے۔ او میرے درباریو! تم میرے پاس کسی انسان کو نہیں لائے۔ تم کسی جننی کو لے کر آئے ہو۔ اسے باعزت طریقے سے رہا کر دو اور اس کی خدمت کے لیے ہاجرہ نامی عورت اسے تحفے میں دے دو۔ جناب سارہ رضی اللہ تعالی عنہا جلدی سے اپنے شوہر نامدار جناب خلیل کے پاس آتی ہیں اور خوشی سے کہتی ہیں:
’’اللہ نے ظالم بادشاہ کو منہ کے بل گرایا اور خدمت کے لیے یہ ہاجرہ نامی عورت بھی دلوائی ہے۔‘‘[البداية والنهاية (143/1)]
یہ سب پاکدامنی اور شرمگاہ کی حفاظت کی برکات تھیں یہ حدیث پوری تفصیل کے ساتھ صیح البخاری میں موجود ہے۔ بہر حال پاک دامنی اس قدر عظیم عمل ہے کہ اللہ رب العزت نے دین اسلام میں پاکدامنی کے لیے اور شرمگاہ کی حفاظت کے لیے بڑے بڑے احکام جاری کیے ہیں اور بڑے قواعد و ضوابط مقرر فرمائے ہیں۔
پہلا ضابطہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَاحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعُ فَعَلَيْهِ بِالصُّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاء) [صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب قول النبي ﷺ من استطاع الباءة فليتزوج (5065) ومسلم (1400) و ابوداؤد (3046)]
’’نوجوانو! تم میں سے جو شخص نکاح (کے اخراجات) کی استطاعت پائے۔ وہ نکاح کرے اس لیے کہ نکاح نظر کو نیچا کرتا ہے اور شرمگاہ کو تحفظ عطا کرتا ہے اور جو شخص اخراجات برداشت نہ کر سکے وہ روزے رکھے اس لیے کہ روزے اس کی جنسی شہوت کو قابو میں کر دیں گئے۔‘‘
اللہ اکبر! حکم تو یہ تھا کہ اگر نکاح کے وسائل نہیں تو بکثرت نفلی روزے رکھو تاکہ روزہ ڈھال کا کام دے اور نفس پر قابو کی عادت ڈالے۔ لیکن آج رسموں رواجوں کی وجہ سے نکاح مہنگا اور مشکل بنا دیا گیا اور نفلی روزوں کی بجائے گانے بجائے فلم ڈرامے اور ناول افسانے کو معمول بنا لیا، جس کے نتیجے میں بدکاری وزنا کاری عام ہوگئی اور پاکدامنی وحیاء کا جنازہ نکل گیا۔
دوسر ا ضابطہ کان، آنکھ، دل اور زبان کی حفاظت:
کیونکہ ان چاروں چیزوں کی آوارگی اور بے راہروی سے بدکاری کا دروازہ کھلتا ہے اور ان چیزوں کی حفاظت شرمگاہ کی حفاظت ہے (اور ان چیزوں کی حفاظت کے سلسلے میں مفصل مضامین ہماری اس خطبات میں موجود ہیں) آج نگاہوں کی آوارگی کانوں کی آزادی زبان کی بے لگامی اور دل کی گمراہی نے بدکاری وزنا کا طوفان برپا کر رکھا ہے۔
تیسر ا ضابطہ مردوزن کے اختلاط اور خلوت پر پابندی:
عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے عورتوں کے ہاں تنہائی میں جانے سے بچو۔ ایک شخص نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ دیور کے بارے میں بتائیں؟ آپﷺ نے جواب دیا:
(الْحَمْوُ الْمَوْتُ) [صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب لا يخلون رجل بامرأة إلا ذو محرم والدخول على المغيبية]
’’دیور تو موت ہے (یعنی اس کا تنہائی میں بھاوج کے پاس بیٹھنا موت کی طرح خطر ناک ہے)‘‘
اور جامع ترمذی میں ہے: حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں
آپ ﷺ نے فرمایا:
[(لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ)[ترمذی، الفتن، باب ماجاء في حفظ العورة (2794) و ابوداؤد (4017)]
’’جب بھی کوئی مرد کسی غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسر ا شیطان ہوتا ہے۔‘‘
اور واقعہ ایسا ہی ہوتا ہے جب بھی غیر محرم مردوزن کسی جگہ خلوت اختیار کرتے ہیں تو ضرور خرابی رونما ہوتی ہے۔ وہ خلوت خواہ گاڑی اور رکشہ میں ہو، خواہ دکان اور دفتر میں ہو خواہ گھر اور مکان میں ہو خلوت خطر ناک ہے۔ بڑے بڑے خطرناک واقعات اس سلسلے میں موجود ہیں۔
لیکن آج مردو زن کی یہ خلوت عام ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں کنواری لڑکیاں مائیں بن رہی ہیں حرام کی اولاد پیدا ہو رہی ہے۔ گندی اور ناجائز محبت کا جال بچھ رہا ہے لڑکیاں اغواء ہو رہی ہیں۔
ماں، باپ اور ولی کے بغیر عدالتی نکاح ہو رہے ہیں جو نکاح نہیں بدکاری ہے اور اگر محبت میں ناکامی ہو جائے تو خودکشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور ایسی خودکشی کی وارداتیں دن بدن بڑھ رہی ہیں۔
چوتھا ضابطہ: عورت کے لیے شرعی پردے کے احکامات:
سورہ احزاب میں اللہ فرماتے ہیں:
﴿یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ [الأحزاب:59]
’’اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی (کہ یہ پاکدامن ہیں) پھر وہ ستائی نہ جائیں گی اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
اور دوسری جگہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰی وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتِیْنَ الزَّكٰوةَ وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ۝۳۳﴾ [الاحزاب:33]
’’اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوۃ دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو۔ اللہ تعالی یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وہ (ہر قسم کی) گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے۔‘‘
اور مسلم شریف میں ہے: جہنمیوں کی دو قسمیں ہیں جو ابھی میں نے نہیں دیکھیں: ایک قسم ظالم حکمرانوں کی… اور دوسری قسم وہ عورتیں جو (معمولی) لباس پہنے ہوئے اور (باقی) نکلی ہیں (یعنی بے پردہ اور نیم برہنہ ہیں لباس باریک ہے اور تنگ ہے) ان کے دل غیر مردوں کی طرف مائل ہیں اور وہ غیر مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی ہیں ان کے سربختی اونٹوں کی لٹکی کوہانوں کی طرح ہیں (یعنی فیشن ایبل ہیں) ایسی (بے پردہ) عورتیں نہ جنت میں داخل ہوں گی نہ جنت کی خوشبو پائیں گی۔‘‘[صحیح مسلم، اللباس والزينة باب النساء الكاسيات … (2128) و احمد (8673) والبيهقي (234/2)]
اور نسائی کی روایت ہے:
(أَيُّمَا امْرَأَةٍ اسْتَعْطَرَت فَمَرَّتْ بِالْمَجْلِسِ فَهِيَ كَذَا وَكَذَا أَي زَانِيَةٌ) [سنن النسائي، كتاب الزينة، باب ما يكره للنساء من الطيب (5133)]
’’جو عورت خوشبو لگا کر مردوں کے پاس سے گزرے وہ زانیہ و بدکار ہے۔‘‘
کیونکہ جب عورت بناؤ سنگھار کر کے. کر خوشبو میں سسکتی ہوئی باہر نکلتی ہے تو مردوں کے جذبات بگڑتے ہیں۔ اس لیے بدکاری کی سزا میں عورتوں کو مقدم کیا گیا ہے آج اس بے پردگی کا نتیجہ ہے کہ قیامت کی نشانی: ويَكْثُرُ الزِّنَا. (بدکاری عام ہو جائے گی) پوری ہوگئی ہے۔ اور آئے دن اغواء، اجتماعی زیادتی اور عدالتی نکاح کے باوجود باپ بھائی اور شوہر سب دیوث بن چکے ہیں۔ شرم و حیاء کا جنازہ نکل گیا آج دیوث باپ اپنی
شرمگاہ کی حفاظت
بیٹی کو بے پردہ شہر میں کھاتا پھرتا ہے بے شرم بھائی اپنی بہن کو بے پردہ بھگائے پھرتا ہے۔ بے حیاء شوہر اپنی بیوی کو تفریحی مقامات (پارکوں، ہوٹلوں، سیر گاہوں اور بازاروں) میں بے پردہ گھمائے پھرتا ہے۔
پانچواں ضابطہ عورت کے تنہا محرم کے بغیر سفر پر پابندی:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”کوئی شخص کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار نہ کرے اور کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرئے۔‘‘
ایک شخص نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! فلاں لڑائی میں میرا نام لکھا جا چکا ہے اور میری بیوی حج کرنے کے لیے گئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
(اِذْهَبْ فَاحْجُجْ مَعَ امْرَأَتِكَ) [صحيح البخاري، كتاب الحج، باب حج النساء (1862) ومسلم (1341) و ابن ماجه (2900) و این حیان (2731)]
’’جا! اپنی بیوی کے ساتھ حج کر۔‘‘
غور فرمائیں! رسول اللہﷺ ہم نے عورت کا محرم کے بغیر حج کے لیے نکلنا گوارا نہیں کیا بلکہ اس کے شوہر کا نام مجاہدین کی فہرست سے کاٹ کر اسے اپنی بیوی کے ساتھ حج کرنے کا حکم دیا۔
اور ناطق وحی، محمد عربی فداہ ابی وامی ﷺ نے تو اس سلسلے میں ایک زبر دست نمونہ پیش فرمایا، آپ کی ایک زوجہ مطہرہ دن کی روشنی میں آپ کو مسجد نبوی میں ملنے کے لیے تشریف لائی (آپ ان دنوں مسجد نبوی میں معتکف تھے) جب وہ واپس جانے لگی تو رات چھا چکی تھی (آپ نے رات کی تاریکی میں مدینہ منورہ جیسے پاکیزہ شہر میں بھی بیوی کا تنہا گھر جانا برداشت نہیں کیا) آپ معتکف (اعتکاف کے خیمے) سے باہر نکلے اور اپنی زوجہ مطہرہ کو اس کے گھر کے دروازے تک چھوڑ کر آئے۔[صحيح البخاري، كتاب الاعتكاف، باب على يخرج المعتكف لحوائجه إلى باب المسجد (2035) و مسلم (2175)]
اللہ اکبر! کتناز بردست نمونہ ہے؟
پیغمبر کی بیوی تو ویسے ہی مؤمنوں کی ماں تھی، قرآن کہتا ہے:
﴿وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ﴾ [الأحزاب:6]
’’پیغمبر کی بیویاں مؤمنوں کی مائیں ہیں۔‘‘
لیکن آپ نے ثابت کیا کہ شرعی احکام سب کے لیے ہیں کوئی مستثنی نہیں ہے۔ لیکن آج بے حس باپ اپنی جوان بیٹیوں کو عدیم الحیاء بھائی اپنی جوان بہنوں کو دیوٹ شوہر اپنی بیوی کو رکشہ ڈرائیور، ویگن ڈرائیور اور کار ڈرائیور کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں بدکاری کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے حتی کہ آج کئی عالمات فاضلات اور مبلغات محرم یا شوہر کے بغیر دور دراز کے سفر کرتی نظر آتی ہیں اس طرح کی تبلیغ ثواب نہیں خطر ناک گناہ ہے۔ حج جو ارکان اسلام میں سے ہے وہ عورت سے ساقط ہو جاتا ہے جب عورت کے ساتھ جانے والا کوئی محرم یا شوہر نہ ہو۔ آج لاہور اسلام آباد یا کراچی ہوائی اڈے سے تنہا عورت کو جہاز پر سوار کر دیتے ہیں کہ جدہ ریاض یا کسی ملک کے کسی ہوائی اڈے پر اس کا شوہر اسے وصول کرے گا۔ حالانکہ اس سلسلے میں بھی بڑے بڑے شرمناک واقعات تاریخ میں موجود ہیں۔ کئی دفعہ جہاز راستے میں موسمی خرابی کی وجہ سے یا فنی خرابی کی وجہ سے کسی ہوائی اڈے پر اتار لیا جاتا ہے اور پھر جہاز کا عملہ ایسی اکیلی اور تنہا عورت کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے۔ اس سلسلہ میں کئی سچے واقعات موجود ہیں۔ ماضی قریب کا واقعہ ہے ایک عورت کو محرم یا شوہر کے بغیر جہاز میں سوار کیا گیا عورت خوبصورت تھی راستے میں جہاز کے عملے کی نیت خراب ہو گئی انہوں نے جہاز فنی خرابی کا بہانہ بنا کر ایک ہوائی اڈے پر اتار لیا سارے مسافر جہاز سے اتار لیے اور اس اکیلی عورت سے کہا: تو اکیلی بھلا کہاں جائے گی اس لیے تو جہاز میں ہی بیٹھی رو۔ جب باقی تمام سواریاں جہاز سے اتر گئیں جہاز کے عملے کے تمام افراد نے باری باری اس عورت سے بدکاری کی اور کوئی اس کا پرسان حال نہیں تھا۔
او غیرتمند پیغمبر کا کلمہ پڑھنے والو! اور غیور اسلاف کے سپوتو! آؤ غیرت کا مظاہرہ کرو اور اپنی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کو قطعًا محرم کے بغیر سفر نہ کرنے دو۔
چھٹا ضابطہ بات چیت گفتگو اور مکالمے کے آداب و احکام:
اللہ رب العزت سورہ احزاب میں فرماتے ہیں:
﴿یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا﴾ [الأحزاب:32)]
’’اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہوا اگر تم پر ہیز گاری اختیار کرو تم نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق (سنجیدہ) کلام کرو۔‘‘
سبحان اللہ! عورت کو کسی غیر محرم کے ساتھ نرم لہجے میں بولنے سے بھی منع کیا جا رہا ہے۔
لیکن آج ٹی وی، وی سی آر کے گندے سائے میں پرورش پانے والی عورتیں فون پر غیر محرموں سے گھنٹوں باتیں کرتی رہتی ہیں اور مردوں کو دام فریب میں پھنسانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔
عورت نماز میں لقمہ تک نہیں دے سکتی:
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جس شخص کو نماز ادا کرتے ہوئے کوئی حادثہ پیش آ جائے تو وہ سبحان اللہ کہے اس لیے کہ ہاتھ پہ ہاتھ مار کر خبر دار کرنا عورتوں کے لیے خاص ہے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب العمل في الصلاة باب التصفيق اللنساء، رقم: 1204]
اور ایک روایت میں ہے آپﷺ نے فرمایا:
’’سبحان اللہ کہنا مردوں کے لیے اور ہاتھ پہ ہاتھ مار کر یاد دلانا عورتوں کے لیے خاص ہے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب العمل في الصلاة باب التصفيق اللنساء، رقم: 1204]
لیکن آج گھنٹوں ٹیلی فون پہ آزادانہ گفتگو نے بدکاری کو عام کر دیا ہے اور اس گفتگو میں کسی چھوٹے بڑے کا کوئی حیا نہیں۔
ذرا سوچئے! اسلام نے دوران نماز (اگر امام بھول جائے تو) عورت کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ بول کر امام کو یاد کروائے بلکہ اسے اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ ہاتھ پہ ہاتھ مار کر بھولے ہوئے امام کو یاد کروائے۔
ساتواں ضابطہ بدکاری وزنا کو انتہائی خطر ناک گناہ قرار دینا:
دراصل پاکدامنی اور شرمگاہ کی حفاظت کے نتیجے میں انسانی نسل کی بقاء ہے حلال ذریعے سے پیدا ہونے والی اولاد کی درست تربیت کی جاتی ہے۔ وہ اولاد معاشرے میں تباہی کا ذریعہ نہیں بنتی۔
اس کے برعکس بدکاری وزنا میں نسل انسانی کا خاتمہ ہے۔ جن علاقوں میں بدکاری عام ہے وہاں انسانی آبادی مسلسل کم ہو رہی ہے قومیں مٹ رہی ہیں ان کے دانشور پریشان ہیں اور حرام کی اولاد معاشرے کا سکون تباہ کرتی ہے۔ اس لیے شریعت اسلامیہ میں بدکاری وزنا کو بدترین گناہ قرار دیا گیا ہے۔
اللہ رب العزت سورہ بنی اسرائیل میں فرماتے ہیں:
﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَّسَاءَ سَبِيلا﴾ [بنی اسرائیل:32]
’’خبر دار! زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیوں کہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے۔‘‘
اسی طرح سورۃ الفرقان میں عباد الرحمان (رحمن کے سچے اور مخلص بندوں) کا تذکرہ کرتے ہوئے اور ان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَلَا يَزْنُونَ﴾ [الفرقان: 68]
’’رحمن کے بندے بدکاری نہیں کرتے بلکہ پاکدامن ہوتے ہیں۔‘‘