شریعت کی پیروی اور نفس پرستوں سے اجتناب

الحمد لله الذي أكمل لنا الدين، وأتم علينا النعمة، أحمده سبحانه وأشكره على جزيل إنعامه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، أتقن ما اصنع، وأحكم ما شرع، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله صلى الله عليه وعلى آله وصحبه وسلم تسليما كثيرا. أشرف متبع.
ہر قسم کی تعریف کا سزاوار اللہ ہے۔ جس نے ہمارے لئے دین کی تکمیل فرمائی اور ہم پر اپنی نعتیں پوری کیں، میں اس رب پاک کی تعریف و توصیف اور اس کی بے پایاں نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس وحدہ لاشریک کے سوا کوئی معبود نہیں اس نے جو کچھ بنایا نہایت ہی ٹھوس اور بے مثال ہے۔ اور جو شریعت نازل کی وہ محکم ترین شریعت ہے۔ میں یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول اور سب سے افضل مطاع ہیں۔ ایسے برگزیدہ نبی پر اور آپ کے آل واصحاب پر اللہ کی رحمت و سلامتی ہو۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو اس کے بے پایاں اور مسلسل انعام واکرام کی شکر گزاری کرو اور اس عظیم ترین نعمت کی قدر و منزلت پہنچانو کہ اس نے تمہیں دین متین اور صراط مستقیم کی ہدایت دی جو ان انبیاء و صلحاء اور صدیقین و شہداء کا راستہ ہے۔ جن پر اللہ تعالی نے انعام و اکرام فرمایا ساتھ ہی رب العالمین سے فتنوں کی گمراہی اور شیطانی وسوسوں سے پناہ طلب کرو۔ شر و فساد کی طرف بلانے والوں یعنی نفس پرستوں) زندیقوں اور ملحدوں کی باتیں ٹھکراؤ دو یہ وہ لوگ ہیں۔ جو اسلام کا نام لے کر پس پردہ اسلام کو منہدم کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں۔ جو مسلمانوں کو ان کے دین اور نبی کی راہ سے منحرف کر دینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں۔ جو مسلمانوں کو دین اسلام کے سلسلہ میں طرح طرح کے شکوک و شبہات میں مبتلا کرتے ہیں۔ نور الہی قرآن مجید کو اپنی باطل تاویلات کے ذریعہ غل کر دینا چاہتے ہیں۔ دین اسلام کے ناقص و نا تمام ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، بلکہ اس مکمل شریعت کی کھلی مخالفت کرتے ہیں۔ جسے اللہ تعالی نے قیامت تک کے لئے اپنے بندوں کی خاطر نازل فرمایا ہے۔ اور جس کے بارے میں اس کا ارشاد ہے:
﴿فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا ؕ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ۙۗ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَۗۙ۝۳۰﴾ (الروم:30)
’’اللہ کی فطرت کو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اختیار کئے رہو اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں تغییر و تبدل نہیں ہو سکتا، یہی سیدھا دین ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
چنانچہ یہ اسلام دشمن دین اسلام کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں، جاہل عوام اور قریب خوردہ مسلمانوں کو شک و شبہ میں مبتلا کرتے ہیں۔ اور ان سے کہتے ہیں۔ کہ شریعت اسلام اور اس کے احکام و فرامین اب فرسودہ ہو چکے ہیں۔ وہ موجودہ زمانہ کا ساتھ نہیں دے سکتے آج کی ترقیات کے لئے وہ غیر مفید اور بےسود ہیں۔ یہ تعلیمات موجودہ زمانہ کے بجائے کسی اور زمانہ اور قوم کے لئے تھیں جو گذر چکی ہیں۔ اس ترقی یافتہ زمانہ میں ان فرسودہ تعلیمات کی اب ضرورت باقی نہیں رہی۔
اللہ اکبر! یہ کتنی بڑی جرات کی بات ہے۔ یہ بے دینی ہے۔ اللہ اور اللہ کے دین پر کھلا ہوا بہتان ہے۔ اللہ کے علم و حکمت سے معارضہ ہے، قرآن و حدیث سے تصادم ہے، دروغ بافی ہے۔ شریعت سے اعلان جنگ ہے۔ ربوبیت کی تنقیص ہے۔ اللہ تعالی کی شریعت میں غلطی نکالنا اور اس کے علم محیط حکمت بالغہ اور رحمت واسعہ کی عیب جوئی کرنا ہے۔ یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ اور بہتان ہے۔ ایک مسلمان ایسا سوچ بھی نہیں سکتا:
﴿قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنّٰي يُؤْفَكُوْنَ﴾ (التوبۃ:30)
’’اللہ ایسے لوگوں کو ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھر رہے ہیں۔‘‘
اسلام ہر زمانہ اور ہر طبقہ کے لئے مناسب اور موزوں ترین دین ہے۔ دین اسلام در حقیقت ویسا ہی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں فرمایا ہے۔ کہ یہ دین سیدھے راستہ کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ یعنی اختلاف و نزاع کے اندر فیصلہ کرنے میں صحیح راستہ بتاتا ہے۔ اخلاق و عادات کے اندر جو بات زیادہ مناسب ہوتی ہے۔ اس کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اجتماعی واقتصادی علوم میں صحیح بات کو واضح کرتا ہے۔ قرابت داروں اور پڑوسیوں کے حقوق سے متعلق اور انسانی ضرورت کے تمام دینی و دنیاوی علوم کے بارے میں صحیح راستہ دکھاتا ہے۔
یہ دین ایک اللہ کی بندگی کرنے اس سے لو لگانے اور صرف اس کا تقویٰ اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اللہ کی رسی کو باہم مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہنے کی دعوت دیتا اور اختلاف و تشتت سے روکتا ہے۔ اس کا حکم ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا﴾ (آل عمران: 103)
’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو اور متفرق نہ ہو۔‘‘
یہ دین حسن معاملت اور عمد و پیمان کو پورا کرنے کی تعلیم اور عدل و احسان کا حکم دیتا ہے، بخش و منکرات اختلاف و تشتت خیانت بد عهدی قلم و سرکشی اور ہر نے موم عادت سے روکتا ہے۔
وہ دین بیزار حضرات جو اسلام سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ اگر انصاف کے ساتھ بولیں تو اس حقیقت کا ضرور اعتراف کریں گے کہ اسلام ایک ایسا دین ہے۔ جو ہر زمان و مکان میں ہر اس شخص کے لئے کافی وشافی ہے۔ جو اس کے ذریعہ اپنی اصلاح چاہے اور خیر کا ارادہ کرے البتہ وہ شخص جو دوسرے لوگوں پر اپنا جبر و تسلط قائم کرنا چاہیے روئے زمین پر فساد مچانے کا ارادور کھے اور خواہش نفس کی پیروی کرے اس کے لئے یہ دین بھی راس آسکتا ہے۔ نہ اس کا ساتھ دے سکتا ہے۔ بلکہ ایسے شخص کے لئے یہ دین رکاوٹ بنے گا اور اس کو گندے ارادوں کی تکمیل سے باز رکھے گا کیونکہ یہ دین نہ تو نفس کے پجاریوں کی موافقت کر سکتا ہے۔ اور نہ حق و انصاف کی راہ سے ہٹی ہوئی خواہشات کا ساتھ دے سکتا ہے۔ ارشاد الہی ہے:
﴿وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيْهِنَّ﴾ (المومنون:71)
’’اگر حق ان کی خواہش پر چلے تو آسمان اور زمین اور جو ان میں ہیں۔ سب درہم برہم ہوجائیں۔‘‘
دین اسلام ہر شخص کو اس کے مقررہ حدود کا پابند بناتا ہے۔ اور انسان کا اس کے خالق حقیقی سے رشتہ جوڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے۔ کہ سرکش اور تسلط پسند طبقہ اسے اچھا نہیں سمجھتا کیونکہ یہ ان کے نفسانی جذبات کو روکتا اور ان کا ظالمانہ اثر ورسوخ چھینتا اور ان کے برے اغراض و مقاصد اور بہیمانہ خواہشات کے درمیان حائل ہوتا ہے۔ چنانچہ میں وہ اسباب ہیں۔ جن کی بنا پر جب سے اللہ تعالی نے دنیا کے اندر انبیاء ورسل کو بھیجنے کا سلسلہ شروع فرمایا ہے۔ اس وقت سے لے کر آج تک ہر دور میں اور ہر جگہ اولیاء اللہ اور اولیاء شیطان کے مابین معارضہ و کشمکش جاری رہی ہے۔ لیکن ہمیشہ انجام خیر متقیوں کے لئے رہا ہے۔ اور عزت و غلبہ اللہ اللہ کے رسول اور اہل ایمان کے حصہ میں آیا ہے۔ اعوذ بالله من الشيطان الرجيم:
﴿أَفَحُكُمُ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُوْنَ وَمَنَ أَحْسَنُ مِنْ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ﴾ (المائده: 50)
’’کیا یہ زمانہ جاہلیت کے فیصلہ کے خواہش مند ہیں۔ اور جو لوگ یقین رکھتے ہیں۔ ان کے لئے اللہ سے اچھا فیصلہ کس کا ہے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب، فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خطبه ثانیه
الحمد لله الحكيم الخبير، له الحكم و إليه ترجعون، أحمده سبحانه وأشكره، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه وأوليائه وحزبه
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو حکمت والا اور خبر رکھنے والا ہے۔ اس کا حکم ہے۔ اور اس کی طرف لوٹ کر جاتا ہے۔ میں اس کی حمد و ثنا بیان کرتا اور آداب شکر بجالاتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک و سیم نہیں اور محمد – صلی اللہ علیہ و سلم۔ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ یا اللہ! تو اپنے بند دور سول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کی شریعت کی تعظیم کرو میں وہ شریعت ہے۔ جو اتم واکمل اور دائمی ہے۔
بعض علماء نے اللہ کے فرمان ﴿ومن أحسن من الله حكما لقوم يوقنون﴾ کے بارے میں کہا ہے۔ کہ اس سے اللہ کے حکم و شریعت کی فضیلت کا مطلق اعتراف مقصود ہے۔ جس کو اس نے اپنے بندوں کے ہر طبقہ اور ہر دور کے لئے نازل کیا ہے۔ اب کسی انسان کے بس کی بات نہیں جو یہ دعوی کرے کہ فلاں انسان کی بنائی ہوئی شریعت کسی بھی وقت اور کسی بھی طبقہ انسانیت کے لئے اللہ کی شریعت سے افضل یا اس کے مماثل ہے۔ اور تدبیر امور کے معاملہ میں اللہ سے مضبوط و محکم ہے۔ یا یہ دعوی کر سکے کہ کچھ احوال و ضروریات بندوں کی زندگی میں ایسی بھی پیش آئیں جن سے اللہ تعالیٰ شریعت بناتے وقت واقف نہ تھا یا یہ کہے کہ ان احوال و ضروریات سے اللہ باخبر تو تھا مگر ان کے لئے اس نے کوئی قانون مقرر نہیں کیا یہ افکار و نظریات ایسے ہیں۔ جن کے ساتھ ایمان و اسلام باقی نہیں رہ سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔