ایجاد بدعت کا دوسرا نام ’’شریعت سازی‘‘ از قاری نعیم الحق نعیم رحمہ اللہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ﴿ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ؕ﴾ (المائدة: 3)
’’آج میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔‘‘
ایک دور تھا جب انسان ستر پوشی کے لئے درختوں کے پتوں کا محتاج تھا مگر اب اس قدر مختلف انواع و اقسام اور گوناگوں رنگوں اور ڈیزائنوں کے کپڑے اور ملبوسات معرض وجود میں آچکے ہیں کہ انہیں حیطۂ شمار میں لانا مشکل ہے۔ پہلے انسان ضروریات شکم کے لئے قدرتی پیداوار پر اکتفا کرتا تھا، مگر اب قدرتی پیداوار میں اس قدر دخل انداز ہو چکا ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ بہت کی اشیاء اپنی مرضی کے مطابق اگاتا ہے بلکہ ان میں ایسے ایسے فنکارانہ تصرفات بھی کرتا ہے کہ ان کی اصل حقیقت پہچاننی مشکل ہی نہیں بلکہ بعض اوقات ناممکن سی ہو جاتی ہے۔ پہلے وقتوں میں انسان پیدل سفر کیا کرتا تھا پھر اس نے گدھوں، گھوڑوں اونٹوں اور دیگر حیوانات کو اس مقصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا اور اب ایسی ایسی سواریاں ایجاد کر چکا ہے کہ جن پر مہینوں کا سفر گھنٹوں میں، ہفتوں کا سفر منٹوں میں اور دنوں کا سفر سیکنڈوں میں طے کر لیا جاتا ہے۔
ایک وقت تھا جب سورج کے غروب ہوتے ہی زمین ایک ظلمت خانے میں تبدیل ہو جاتی تھی، پھر انسان دیا، لالٹین، شمع وغیرہ جلا کر رات کی تاریکی کا مقابلہ کرتا رہا مگر اب اس نے بجلی برقی رو کو دریافت کر کے گویا سورج کی شعاعوں کو گرفتار کر لیا ہے اور پھر انہیں ایسے ایسے بلبوں، ٹیو ہوں اور دیگر بڑے بڑے طاقتور قسم کے قمقموں میں بند کر رکھا ہے۔ جنہیں رات کے وقت کسی مقام پر نصب کر دیا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دن طلوع ہو گیا ہو۔ کبھی وقت تھا جب انسان کی آواز اسی حد تک دور جا سکتی تھی جس حد تک اس کے گلے اور حلق میں قوت ہوتی تھی مگر آج لاؤڈ اسپیکر، ریڈیو،ٹی وی اور دیگر ایجادات کے ذریعے اس کی آواز ایک شہر سے دوسرے شہر تک یا ایک ملک سے دوسرے ملک تک ہی نہیں بلکہ پورے کرہ ارض پر گونج رہی ہے۔
یہاں ہماری غرض یہ نہیں ہے کہ سائنسی ایجادات و اکتشافات کی طویل فہرست پیش کی جائے بلکہ ہمارا مقصود صرف یہ بیان کرنا ہے کہ آج خرابہ زمین میں جو آبادی اور ویرانہ کائنات میں جو شادابی نظر آ رہی ہے یہ سراسر اس چھوٹی سے مشینری کی مرہون منت ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے دونوں کندھوں کے درمیان گردن کے اوپر نصب کر رکھی ہے اور یہ بھی کہ اللہ تعالی نے انسان کو جن فکری، عملی، تخلیقی اور دیگر صلاحیتوں سے نوازا ہے وہ شاید کسی اور مخلوق کو عطا نہیں کئی گئیں۔ اور پھر اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اللہ تعالی نے انسانی وجود میں جو جو قوتیں اور صلاحیتیں ودیعت کر رکھی ہیں وہ اسے اس وقت بھی معلوم تھیں جب آدم کتمان عدم سے ابھی معرض وجود میں نہیں آیا تھا اور اس وقت بھی معلوم تھیں جب آدم کو وجود سے نوازا گیا اور اس وقت بھی معلوم تھیں جب اسے خود شکن اور خود نگر کائنات شکن اور کائنات ساز بنا کر اس ویرانہ کائنات میں اتارا گیا۔ اور اسے پوری نوع انسانی کا نمائندہ قرار دے کر اس سے فرمایا گیا:
﴿ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًی ۙ۬ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشْقٰی۝۱۲۳﴾ (طه: 123)
’’یعنی تمہارے پاس میری طرف سے یقینًا ہدایت آئے گی سو جس نے میری ہدایت کا اتباع کیا وہ نہ ضلالت و گمراہی کا شکار ہوگا اور نہ شقاوت میں مبتلا ہوگا۔‘‘
انسانی قوتوں اور صلاحیتوں کو اور مذکورہ بالا آیت کریمہ کو پیش نظر رکھ کر غور کیا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اللہ تعالی آدم کو زمین پر بھیجتے ہوئے اور اسے خلافت ارضی عطا کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ تم میری دی ہوئی صلاحیتوں اور قوتوں کو استعمال کر کے علم اور سائنس کے ذریعے نت نئی ایجادات کر سکتے ہو زمین سے اپنی مرضی کے مطابق پیداوار حاصل کر سکتے ہو ایک سے ایک بڑھ کر خطرناک ترین ہتھیار تیار کر سکتے ہو،
غرض تم بہت کچھ کر سکتے ہو کائنات شکنی کر سکتے ہو کائنات سازی کر سکتے ہو مگر دین سازی اور شریعت سازی یہ تمہارے بس کا کام نہیں، تمہارے لئے جائز نہیں بلکہ تمہارے لئے مناسب ہی نہیں۔ اگر تم ایسا کرو گے بھی تو اس میں کامیاب نہیں ہو سکو گے۔ نہ تمہاری دنیا اس سے سدھر سکے گی اور نہ آخرت سنور سکے گی۔ نہ دنیا کی مشکلات حل کر پاؤ گے اور نہ آخرت کے مصائب سے نجات حاصل کر سکو گے۔
(كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ)[1]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] سنن النسائي: كتاب صلوة العيدين، باب كيف الخطبة رقم الحديث (1579)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یعنی ہردین سازی گمراہی ہے اور ہر گمراہی (انجام کار) آگ میں (لے جانے والی ) ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ دین و ہدایت کی ذمہ داری اللہ نے ﴿ یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًی ﴾ فرما کر خود اپنے اوپر ڈال لی اور انسانوں میں سلسلہ نبوت اور رسالت جاری فرما کر اپنی اس ذمہ داری کو پورا کر دیا۔
اور پھر جس طرح اس کائنات کی اکثر و بیشتر اشیاء بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے مراحل سے گزرتی ہیں اسی طرح جب انسانیت ان مراحل سے گزرتے ہوئے عقل و شعور کے لحاظ سے بلوغت اور جوانی کی منزل تک پہنچ گئی تو اللہ تعالی نے سلسلہ انبیاء و رسل کی آخری کڑی یعنی دانائے سبل، ختم الرسل، خاتم النبیین رحمة اللعالمین جناب محمد رسول الله ﷺ کو مبعوث فرما کر سلسلہ نبوت و رسالت کو بھی ختم مکمل کر دیا اور ان پر دین و ہدایت کی بھی تکمیل فرما دی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کتاب وسنت کی شکل میں دین و ہدایت کا جو سرمایہ ہمیں عنایت کر دیا گیا ہے وہ اس قدر جامع اس قدر کامل اور اس قدر واضح وسہل ہے کہ اب ہمیں نہ کسی نئی نبوت و رسالت کی ضرورت ہے اور نہ کسی نئے دین و ہدایت کی۔
بدعات نوازی عقیدہ ختم نبوت سے متصادم ہے
اس تفصیل کو پیش نظر رکھتے ہوئے غور کیجئے کہ اگر ایک مسلمان سلسلہ نبوت ورسالت کے ختم ہو جانے کو بھی مانتا ہے اور دین کے مکمل ہو جانے کو بھی برحق جانتا ہے اور پھر ساتھ ساتھ رسول اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے اس دنیا سے رحلت فرما جانے کے طویل عرصہ بعد ظہور پذیر ہونے والے چند امور کو بہت بڑی دینی حیثیت بھی دیتا ہے بلکہ انہیں ایمان و کفر اور دینداری و بے دینی کا معیار قرار دیتا ہے تو ایسا شخص جہاں لاعلمی میں اللہ و رسولﷺ کی تکذیب کرتا ہے وہاں غیر شعوری طور پر ان کی توہین و بے ادبی کا مرتکب بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے عمل سے گویا یہ ثابت کرتا ہے کہ ختم نبوت اور تکمیل دین کی جو خبر رسول اللہﷺ نے دی ہے وہ درست نہیں اور دین اسلام اپنی تکمیل میں میری دینی اختراعات اور شریعت سازی کی کد و کاوش کا محتاج ہے جب تک میرے تجویز کردہ اضافے اس میں شامل نہیں کئے جائیں گے اس وقت تک دین اسلام اس قابل نہیں ہوگا کہ اسے دین کامل کہا جا سکے۔
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس کی تعلیمات انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہیں۔ حیات انسانی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق اسلام کوئی نہ کوئی ہدایت اور رہنمائی نہ دیتا ہو۔ چنانچہ جب کوئی شخص اپنی زندگی میں خود ساختہ دین کے بعض احکام داخل کر لیتا ہے تو جس حد تک وہ احکام اس نے اپنی زندگی میں داخل کئے ہوتے ہیں اسی حد تک اس کی زندگی سے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین کے احکام خارج ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ خود ساختہ احکام دینی اور اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام دینی باہم مختلف اور متضاد ہوتے ہیں اور دو باہم متضاد اشیاء کا بیک وقت ایک مقام پر مجتمع ہونا بلاشک و شبہ خلاف دین و دانش اور خلاف عقل و منطق ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص یا گروہ خود ساختہ دین کے احکام کو یکے بعد دیگرے اپنانا شروع کر دیتا ہے تو وہ دین آہستہ آہستہ اس کی زندگی کی تمام وسعتوں پر چھا جاتا ہے اور اللہ تعالی کا نازل کردہ حقیقی و اصلی دین اپنی جگہ پر سمٹنا شروع ہو جاتا ہے حتی کہ ایک وقت آتا ہے جب وہ سمٹتے سمٹتے اپنا بوریا بستر ہی سمیٹ لیتا اور اس کی زندگی سے بالکل ہی رخصت ہو جاتا ہے۔ چنانچہ آج کئی ایسے فرقے اور گروہ دنیا میں موجود ہیں جو کہلاتے تو اسلامی فرقے ہیں مگر ان کے افکار و نظریات اور اعمال و کردار کو دیکھا اور پرکھا جائے تو وہاں اصل اسلام کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ کیونکہ وہ لوگ اپنی تمام تر زندگی خود ساختہ دین کے حوالے کرنے کے بعد حقیقی و اصلی دین کو اپنی زندگی سے دیس نکالا دے چکے ہیں۔
دین سازی کا کام کرنے والے حضرات خود تو جانتے ہوتے ہیں کہ انہوں نے کہاں کہاں دین سازی کے جوہر دکھاتے ہیں کسی کس مقام پر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے اور کس کس مسئلے کو دین کا لبادہ پہنا کر اسے دینی اور شرعی حیثیت دے چکے ہیں۔ مگر بعد میں آنے والی نسلیں دین سازی کی تاریخ سے ناواقفیت کی بنا پر ان لوگوں کے خود ساختہ دینی مسائل ہی کو حقیقی واصلی دین سمجھ لیتی ہیں، انہیں کی تبلیغ اور نشرواشاعت کرتی ہیں انہی کی تعلیم دیتی ہیں اور انہی پر مر مٹنے کے لیے تیار رہتی ہیں۔
مشتے نمونہ از خردارے کے طور پر شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے بعض ان فرقوں اور ان کی شاخوں کو دیکھا جا سکتا ہے جو اپنے مخصوص اور خود ساختہ عقائد و نظریات کی بنا پر کسی درخت کی شاخ بریدہ کی طرح دین حقیقی کے اصول وارکان اور بنیادوں سے اس قدر دور جا چکے ہیں کہ اب ان کا دین حقیقی کے اس اصلی درخت کے ساتھ کوئی تعلق ہی معلوم نہیں ہوتا جس کی وہ شاخیں ہیں۔ زنجیر زنی، سینہ کوبی، گریباں چاک کرنا، سیاہ رنگ کا لباس زیب تن کر لینا، صدیوں پہلے شہادت کے مقام بلند پر فائز ہونے والوں پر یوں ماتم کا مظاہرہ کرنا جیسے یہ ابھی کل ہی کا واقعہ ہو، حج و عمرہ کی بہ نسبت ایران و عراق کے مقامات مقدسہ کی زیارت کو زیادہ اہمیت دینا، اسلاف امت کے ممنون احسان ہونے کے بجائے ان پر لعن طعن کرنا، ان کے لئے رحمت اور مغفرت کی دعاؤں کے بجائے انہیں گالیوں کے تحفے ارسال کرنا اور اسی طرح کے مزید چند ایک امور کی پابندی کرنا۔
یہ ہیں وہ چند خود ساختہ مسائل جنہیں بعض لوگ منزل من اللہ دین سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں اور جنہیں دنیا جہان کے تمام کاموں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح ان کا رب ان سے راضی ہو جائے گا۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات میں ان چیزوں کا نشان تک نہیں ملتا بلکہ ان میں سے اکثر و بیشتر امور کے متعلق صریح ممانعت کے احکام ملتے ہیں۔
اسی طرح اہل سنت کی طرف نسبت رکھنے والے بعض حضرات ہیں جنہوں نے شادی و مرگ کی چند رسوم ہی کو اصلی دین اور حقیقی شریعت سمجھ رکھا ہے۔ ان کو ایمان اور اسلام کے اصول و ارکان سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ان کی پابندی نہ کرنے والوں کو کافر، گستاخ، بے دین اور نہ جانے کیا کیا کچھ کہہ دیا جاتا ہے۔ اور یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ ان رسوم کو معرض وجود میں آئے ابھی چند سال کا عرصہ ہی ہوا ہے۔
اسی طرح تقلید شخصی کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ بھی اس دنیا سے رسول اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کی رحلت سے کئی سوسال بعد معرض وجود میں آیا۔ صحابہ، تابعین، تبع تابعین کے دور میں اس کا نشان تک نہیں ملتا۔ مگر متاخرین میں سے بعض حضرات نے اس کو اتنی اہمیت دی کہ اسے کفر و اسلام کے درمیان حد فاصل قرار دے دیا۔ اب ظاہر بات ہے کہ یہ بھی دین سازی اور دین میں اختراع پسندی ہی کی ایک شکل ہے۔
یہاں ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ خود ساختہ دینی مسائل کی کوئی لمبی چوڑی فہرست پیش کی جائے بلکہ ہمارے پیش نظر صرف اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ اگر دین سازی کا دروازہ کھولنے کی اجازت دے دی جائے اور ایسا کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے حوصلہ افزائی کی جائے تو دین حقیقی کی عمارت کی تمام اینٹیں ایک ایک کر کے گرتی چلی جائیں گی حتی کہ ایک وقت آ سکتا ہے جب عمارت کا نام و نشان باقی رہ جائے گا۔ شاید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی خطرات کو پیش نظر رکھ کر درج ذیل فرمودات اپنی زبان وحی ترجمان سے ارشاد فرمائے تھے۔
(عَنْ إِبْرَاهِيْمَ بْنِ مَيْسَرَةً قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَاٰلِهِ وَسَلَّمَ مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَةٍ فَقَدْ أَعَانَ عَلَى هَدْمِ الْإِسْلَامِ)[1]
’’جس شخص نے کسی شریعت سازی کرنے والے دین میں اضافہ کرنے والے کی عزت وتوقیر کی اس نے بلاشک اسلام (کی عمارت) کو ڈھا دینے میں (اس کی) اعانت کی۔‘‘
(عَنْ ُضَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ الثُّمَالِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم مَا أحدَثَ قَوْمٌ بِدْعَةً إِلَّا رُفِعَ مِثْلُهَا مِنَ السُّنَّةِ فَتَمَسُّكٌ بِسُنَةٍ خَيْرٌ مِنْ إِحْدَاثِ بِدْعَةٍ)[2]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بيهقي۔ شعب الإيمان، باب في مباعدة الكفار والمفسدين- فصل في مجانبة الفسقة و المبتدعة رقم الحديث (9464)
[2] مسند احمد: (105/4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی قوم نئی شریعت (بدعت) ایجاد نہیں کرتی مگر اس کے برابر اصلی شریعت (سنت) ان کے اندر سے اٹھا لی جاتی ہے۔ تو پرانی اور اصلی شریعت کو مضبوطی سے تھام لینا۔ نئی شریعت ایجاد کرنے سے (بہر حال) بہتر ہے۔
(عَنْ حَسَّانَ قَالَ مَا ابْتَدَعَ قَوْمٌ بِدْعَةً فِي دِيْنِهِمْ إِلَّا نَزَعَ اللهُ مِنْ سُنَّتِهِمْ مِثْلَهَا ثُمَّ لَا يُعِيْدُهَا إِلَيْهِمْ إِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ)[1]
’’حسان نے کہا کوئی قوم اپنے دین میں نئی شریعت (بدعت) ایجاد نہیں کرتی مگر اللہ تعالی اس کے برابر ان کی اصلی اور پرانی شریعت (سنت) کا حصہ ان سے سلب کر لیتا ہے۔ پھر قیامت تک اسے ان کی طرف واپس نہیں لوٹاتا۔‘‘
(عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَاٰلِهِ وَسَلَّم مَنْ أحْدَثَ فِيْ أمْرِنَا هٰذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌ)[2]
’’رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے ہمارے اس امر (یعنی دین اسلام) میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ چیز مردود ہے۔ (قابل قبول نہیں ہے)‘‘
آخری حدیث میں(فِيْ أمْرِنَا هٰذَا) کے الفاظ کو پیش نظر رکھا جائے تو اس مسئلہ کے متعلق پیدا ہونے والے اشکالات اور پیدا کئے جانے والے مقابلے از خود ختم ہو جاتے ہیں۔ (فِيْ أمْرِنَا هٰذَا) کا مفہوم یہ ہے کہ ’’دین‘‘ کے اندر کسی چیز کو ایجاد کرنا قابل مذمت ہے۔
’’دنیا‘‘ کے اندر کسی نئی چیز کا پیدا کرنا قابل مذمت نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا کے اندر نئی نئی چیزیں معرض وجود میں آتی ہی رہتی ہیں اور آتی ہی رہیں گی۔ سائنس دان نئی نئی چیزیں دریافت اور ایجاد کرتے ہی رہتے ہیں اور کرتے ہی رہیں گے۔ ان پر کوئی قدغن کوئی پابندی نہیں۔ البتہ دین کے اندر نی نئی چیزوں کا اضافہ ناپسندیدہ اور قابل مذمت فعل ہے۔
دوسرے لفظوں میں اسے اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ اسلام ہماری زندگی کو دو شعبوں میں تقسیم کرتا ہے۔
(1) عبادات
اس شعبے کے متعلق اسلام کا بتایا ہوا اصول اور قاعدہ یہ ہے کہ عبادات صرف وہی جائز اور درست ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] سنن الدارمي: المقدمة، باب اتباع السنة: (45/1)
[2] صحیح بخاري: کتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود- رقم الحديث (2697) صحیح مسلم: كتاب الأقضية، باب نقض الاحكام الباطلة و رد محدثات الأمور رقم الحديث(1718)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنہیں قرآن وحدیث میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اپنی طرف سے کوئی عبادت وضع کی جائے گی تو وہ شریعت سازی (بدعت) شمار ہوگی۔ مختصر یہ کہ قرآن وحدیث میں بیان کرد و عبادات کے علاوہ باقی تمام عبادات ناجائز اور حرام ہیں۔
(2) معاملات
اس شعبے کے متعلق اسلام کا اصول اور قانون یہ ہے کہ معاملات صرف وہی ناجائز اور حرام ہیں جن کے متعلق قرآن وحدیث میں ممانعت کر دی گئی ہو۔ باقی تمام معاملات درست اور جائز ہیں۔ گویا جس طرح کسی عبادت کے جائز ہونے کے لئے قرآن وحدیث کی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے منع ہونے کے لئے نہیں اس طرح کسی معاملے کے ناجائز ہونے کے لئے قرآن وحدیث کی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جائز ہونے کے لئے نہیں۔
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیهان حرم بے توفیق
(اقبال رحمہ اللہ)